بسم الله الرحمن الرحيم
ایک سچے مومن کا دِل
مسلمان ہونے کے ناطے ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی خوشنودی اور رضاکے لئے جستجو کرتے ہیں۔ ہم فرائض کی پابندی، سُنت کی پیروی اور زیادہ سے زیادہ نوافل کی ادائیگی سے ہرممکن حد تک خود کو بہترین بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن تب بھی کبھی کبھی ہمارے دل میں وہ اطمینان محسوس نہیں ہوتا ...اتنا صاف اور اتنا خالص۔ اپنی زندگی کی سب سے زیادہ عزیز اور مثالی ہستی ، محمد ﷺ جیسا بننے کی کوشش کرتے ہوئے، ہمیں کبھی کبھی اپنے آپ میں صحابۂ کرامؓ کے قریب بھی ہونے کا احساس محسوس نہیں ہوتا۔ اور یہ بات ہمیں مار ڈالتی ہے، یہ احساس پیدا کر کے کہ ہم فی الحال جیسے بھی ہیں ، اُس سے زیادہ بہتر نہیں ہو سکتے۔ ہمارے لئے اُن جیسا بننا ممکن نظر نہیں آتا خصوصاً آج کے اِس دَور اور حالات میں۔ ہمیں اکثر اوقات اپنے آپ میں منافقت سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے ہم کچھ بھی خاص نہ کر رہے ہوں چاہے ہم کتنی ہی تَگ و دَو کیوں نہ کررہے ہوں۔
ہم ایک ایسی دُنیا میں رہ رہے ہیں جو یقیناً ہم میں سے کئی کواکثروبیشتر اُکساتی رہتی ہے۔ یہ ہمیں حد تک لے جاتی ہے، یہ احساس دلاتی ہے کہ ہم کوئی نااہل اور بے وُقعت سی شے ہیں یا پھر ایسا احساس کہ جیسے ہم آسمان کو بھی چھو سکتے ہیں جبکہ وہ یقیناً ایسی شے ہے جو حقیقت میں ہم کبھی اپنے ہاتھوں میں بھی نہیں پکڑ سکتے ۔ اور یاد رہے کہ اس تمام میں شیطان مردُود کا کردار ہمیں نہیں بھُول جانا چاہئے جو موقع کی تاک میں لگاہے تاکہ ہم پر کسی طرح حملہ کرسکے، ہمارےغصہ، ہماری ناکامی و مایوسی، یا اُداسی یا پھر ہماری خوشی کی حالت کا فائدہ اُٹھا لے اور ہم کسی گناہ کی لپیٹ میں آجائیں۔ یہاں تک کہ ہم اپنے بارے میں دُوسروں کے خیالات اور اندازوں کو بھی محسوس کررہے ہوتے ہیں جو کہ اس صورتحال کو مزید بدتر کردیتا ہے۔
ذرا غور کریں، سوال یہ ہے کہ ...
کیا اس سب کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا دِل خالص نہیں ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے ...کہ کیا کبھی بھی ہمارا دِل خالص ہوسکتا ہے؟ یعنی شاید ہمارے عظیم رہنما، محمد رسول اللہﷺ کی موجودگی میں تو اپنے دِل کی حفاظت کرنا اور اسے خالص رکھنا آسان ہوتا ہوگا ... ...صحیح ؟
ہاں بھی، اور نہیں بھی۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں ایسے ہی تخلیق کیا ہے۔ ہم کوئی فرشتے نہیں ہیں۔ ایک حدیثِ مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ نے اس کے بارے میں تذکرہ کیا کہ اگر ہم ہر وقت ہی یادِ الٰہی میں لگے رہتے تو ہم فرشتوں جیسے نہ ہوجاتے۔
اس تمام جائزے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ہم اپنے اعمال کو نہیں دیکھتے۔ ہم نہیں جانتے کہ ہمارے لئے آخرت میں کیا جمع ہُوا ہے۔ ہم وہ نہیں جان سکتے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نظر میں ہمارا کیا مقام ہے اور جنت میں ہمارا کیا رُتبہ ہو سکتا ہے۔ ہم یہ نہیں جان سکتے کہ ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا کی خاطر جو بھی اعمال کرتے ہیں، اُن میں سے اصل میں کونسے اعمال ہمارے لئےذخیرہ ہوئے ہیں یا پھر خدانخواستہ ، لا سمح اللہ، بُرے اعمال میں شُمار ہوگئے ہیں۔ سبحان اللہ ، وہی اللہ الرحیم جل جلالہٗ ہی ہیں جو کہ سب جانتے ہیں لیکن جو ہم جانتے ہیں وہ یہی ہے کہ اللہ نے ہمیں پیدا کیا ہے اور باقی سب کچھ اسی طرح ہی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
«وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَذَهَبَ اللَّهُ بِكُمْ وَلَجَاءَ بِقَوْمٍ يُذْنِبُونَ فَيَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ فَيَغْفِرُ لَهُمْ»
" اُس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم خطا نہ کرتے تو اللہ تمہارا وجود ہی ختم کردیتا اور تمہاری جگہ اُن لوگوں کو بدل دیتا جو اگر گناہ کرلیتے تو اللہ سے استغفار کرتے اور اللہ اُن کو معاف کردیتا “۔
اللہ اکبر ! اللہ کتنا رحیم ہے ! الحمد للہ اور یہ اسلام کی برکتیں ہی ہیں ! جان لیں کہ یہ صرف اللہ ہی ہیں جو کہ یہ جانتے ہیں کہ ہمارے دِلوں میں کیا ہے۔ اللہ کو وہ سب معلوم ہےجوہم پر بیتتی ہے۔ اس فتنہ و لالچ کی دُنیا میں، صرف اُسی کی رضا کے حصول کیلئے ہم کتنی مشقت کرتے ہیں، اورکیسے کبھی ہم بہک بھی سکتے ہیں۔
قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ﴾
” اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اُس کے قلب کے درمیان حائل ہے“ (الانفال : 24)
چاہے ہمیں کتنے ہی وسوسے کیوں نہ آئیں، ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہئے اور انہیں نظرانداز کردینا چاہئے۔ روزانہ قرآنِ مجید کی تلاوت کریں، معوذتین (سورۃ الفلق و الناس) کی تلاوت کریں، اپنے گھر کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ذکر سے بھر دیں ، نوافل ادا کریں، اللہ سے مسلسل دُعا کرتے رہیں کہ وہ ہمارے دلوں کو اور ہماری نیتوں کو پاک کردے، نیک اعمال کرتے رہیں کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیک اعمال، بُرے اعمال کو مٹا دیتے ہیں۔ اگر ہم شیطان کے وسوسوں میں پھنس بھی جائیں اور عین ممکن ہے کہ ایسا ہو جائے تو ہمیں فوراً اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے توبہ واستغفار کرنی چاہئے ، یہ جانتے ہوئے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں معاف کردیں گے اور یہ پختہ یقین رکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ ہی الغفورالرحیم ہیں، بھروسہ رکھیں کہ وہ سچی توبہ کے بعد ہمیں یقیناً بخش دیں گے۔ بہرحال، نادم ہونا توبہ کی شرائط میں سے ایک شرط ہے اور یہ جاننا کہ ہمارا رَب بہت بخشنے والا ہےجوہمارے گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ ہمیں اپنی آخری سانس تک اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا وخوشنودی حاصل کرنے کی جستجو کرنی ہے اور ہمت نہیں ہارنی، ورنہ جان لیں کہ ہم اُن وسوسوں میں پھنس جائیں گے۔ ہم اللہ پر ایمان رکھنے والے ہیں، ہم اُسی ذات ِ باری تعالیٰ کے پیارے بندے و غُلام ہیں، صحابہؓ کے جانشین اور محمد رسول اللہﷺ کے اُمّتی ہیں۔ ایمان رکھیں، یقین رکھیں اور پختہ اعتقاد رکھیں کہ ہمارا بہت بخشنے والا، سب کچھ جاننے والا رَب ہے جس نے ہمیں اور ہمارے نفسِ امارۃ(ہمارے نفس کا شر) کو پیدا کیا اور شیطان کو بھی اُسی نے تخلیق کیا اور وہ سب جانتا ہے کہ ہم کیاہیں، کس سے نبرد آزما ہیں اور کس کیلئے جستجو کر رہے ہیں ... ایک سچے مومن کے دل کیلئے۔