بسم الله الرحمن الرحيم
مسلم دنیا کے اندھے، بہرے اور گونگے رہنما ہی ہیں جنہوں نے امریکہ اور یہودی وجود کو فلسطین میں نسل کشی کے لئے گرین سگنل دے رکھا ہے۔
گزشتہ کچھ ہفتوں سے اور خصوصاً پچھلے 48 گھنٹوں کے دوران، یہودی وجود نے غزہ پر اس کثیر پیمانے پر حملے کئے ہیں کہ جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ زخموں پر مزید نمک پاشی تو یہ ہے کہ مسلم دنیا کی قیادت کو جس مفلوج پن نے جکڑ رکھا ہے اس نے غداری اور دغا کے تمام معروف ریکارڈ تک توڑ دئیے ہیں۔ یہودی ریاست کی جانب سے فلسطینیوں کے قتل عام کے ہر واقعے کے بعد مسلم دنیا کی قیادت جذبات سے عاری مُردہ دلوں کے ساتھ محض خالی خولی چند الفاظ بول دیتی ہے جس سے یہودیوں کو مزید مسلمانوں کو قتل کرنے کے لئے حوصلہ افزائی ملتی ہے۔
بجائے اس کے کہ فلسطینیوں کے خون بہا کو روکا جائے، اردن کے شاہ عبداللہ اس میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کہ "اردن میں کوئی (فلسطینی) پناہ گزین نہ ہوں"۔ جب صورتحال کی سنگینی پر زور ڈالا گیا تو عبداللہ نے یہ جواب دیا کہ، "غزہ جنگ کا تسلسل اس صورتحال کے مزید پھیلنے کا باعث بنے گا" اور پھر اس (عبداللہ) نےغزہ کی عوام کی حمایت میں اردن کی عوام کے کھڑے ہونے پر قابو پانے کے لئے ہر موقع پر بے رحمی سے اپنی سکیورٹی فورسز کا استعمال کیا۔ اسی طرح، مصر کے صدر سیسی بھی عبداللہ کی طرح ایک نئے نکبہ کے بارے میں زیادہ فکرمند ہیں یعنی یہودی ریاست فلسطینیوں کو غزہ سے "مصر کی جانب... ہجرت کرنے پر مجبور کر رہی ہے "؛ یاد رہے کہ 'یوم نکبہ' وہ دن ہے جب 1948 میں اس دن اسرائیل کے قیام کی وجہ سے لاکھوں فلسطینیوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے تھے۔ حتیٰ کہ جب سیسی کی مسلح افواج نے غزہ میں اپنی مداخلت کرنے کی خواہش ظاہر کی، تو سیسی نے فوراً فوج کی اصل طاقت کو کم کرتے ہوئے یہ کہہ کر ان کی کامیابی کے امکانات کونیچا دکھانے کی کوشش کی کہ "حد سے آگے نہ بڑھیں اور اپنی طاقت کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہ رکھیں"۔
پھر ان حکمرانوں کے بعد اردگان کی باری آتی ہے جس نے حال ہی میں غزہ میں ہونے والے ان گھناؤنے اقدامات کے حوالے سے ہونے والی ایک ریلی کے شرکاء کو بتایا کہ ، " ہم آپ کو دنیا کے سامنے جنگی مجرم قرار دیں گے"۔ یہ الفاظ یہودی ریاست کے لیے اپنے سفیر کو واپس بلانے اور ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کا ازسرنو جائزہ لینے کے لیے کافی تھے۔ لیکن اردگان نے غزہ کے باشندوں کی حالت زار کو نظر انداز کئے رکھا اور کوئی سفارتی ردعمل نہ دیا بلکہ یہودی ریاست کے ساتھ اپنے کثیر الجہتی تعلقات کو بھی مزید آگے بڑھایا ہے۔ جہاں تک سعودی عرب کے وزیر خزانہ الجدعان کا تعلق ہے تو انہوں نے غزہ میں فلسطینی مسلمانوں کا پاک خون بہنے پر خفیف سا تشویش کا اظہار کیا اور انہوں نے صرف "کشیدگی میں کمی" اور جنگ ختم ہونے کے بعد یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں کی بحالی پر توجہ مرکوز کئے رکھی۔
تو ہمارے ان حکمرانوں کے یہ شیطانی اعمال اور غزہ کے ساتھ ان کی غداری صاف نظر آتی ہے۔ یہ حکمران صرف یہودی وجود کو خوش رکھنے اور اسے تحفظ دینے کے لئے بیٹھے ہیں ، اور غزہ کے مسلمانوں کی امیدوں پر پانی پھیر رہے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں،
[وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَكْرُ أُوْلَئِكَ هُوَ يَبُورُ]
"اور جو لوگ بُری تدبیریں کرتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اور ان کی بُری تدبیر ہی برباد ہو گی" (فاطر؛ 35:10)
حکمرانوں کے لئے طاقت کا استعمال کرنا، فقط امت کو جیلوں میں قید کرنے اور غزہ کو یہودیوں کی جابرانہ حکمرانی سے آزاد کرانے سے روکنے کے لئے مخصوص ہے۔ اور جب انہیں، ان کے ہتھیاروں کے وسیع اسلحہ خانوں اور خطیر عسکری بجٹ کے بارے میں یاد کرایا جائے تو یہ حکمران جانتے بوجھتے ہوئے بھی اپنی عسکری قوت کو نیچا کرکے دکھاتے ہیں اور یہودی وجود کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ حقیقت کونہایت توڑ مروڑ کر پیش کرنا ہے اور اگر کسی کے پاس رَتی برابر بھی شعور ہو تو وہ یہ دیکھ سکتا ہے کہ مسلم دنیا کے پاس یہودی وجود پر باآسانی قابو پانے اور فلسطین کو ہمیشہ کے لئے آزاد کرانے کے لئے وسائل اور ہمت، دونوں ہی موجود ہیں ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں،
﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُ ۚ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكَافِرِينَ﴾
"اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو اﷲ پر جھوٹا بہتان باندھے یا حق کو جھٹلا دے جب کہ وہ اس کے سامنے آپہنچا ہو؟ کیا ایسے کافروں کا ٹھکانہ جہنم میں (مقرر) نہیں ہے" (العنکبوت؛29:68) ۔
غزہ کے عوام کے لیے، مسلم دنیا کم سے کم یہ تو کر سکتی ہے کہ وہ اس دس نکاتی منصوبے پر عمل درآمد کرے جو نہ صرف فلسطین کی آزادی کو یقینی بنائے گا بلکہ مسلم سرزمینوں پر مغربی مداخلت کو بھی خاصی حد تک کم کردے گا:
1۔ یہودی وجود کے ساتھ تمام امن معاہدوں سے فوری طور پر دستبردار ہو جائیں اور ہر قسم کے سفارتی تعلقات منقطع کر دیئے جائیں۔ یہودی وجود کے تمام نمائندوں کو مسلم علاقوں سے نکال دیا جائے اور ان کے تمام اثاثے ضبط کر لئے جائیں۔ لہٰذا مصر، اردن، بحرین، متحدہ عرب امارات، ترکی، مراکش، سوڈان اور دیگر مسلم ممالک پر لازم ہے کہ وہ تمام امن معاہدوں کو ختم کر دیں، سفارتی تعلقات اور غیر رسمی معاہدات سے لاتعلق ہوجائیں۔
2۔ ہر قسم کا باہمی انٹیلی جنس تعاون ، آبی گزرگاہوں اور فضائی حدود تک رسائی کو روک دیں۔ مصر کو فوری طور پر یہودی وجود کے ساتھ فلسطینیوں کے بارے میں انٹیلی جنس کا تبادلہ بند کردینا چاہئے۔ اردن کو لازمی اسفضائی رسدگاہ کی حمایت ختم کر دینی چاہیے جو آئی ڈی ایف (IDF) کو نئےہتھیار اور گولہ بارود فراہم کرتا ہے تاکہ فلسطینیوں کا پاک لہو بہایا جائے۔
3۔ اسلامی ممالک کے لئے لازم ہے کہ وہ یہودی وجود کے ساتھ ہر قسم کا تعاون ختم کردیں، اس میں ہر قسم کے اقتصادی اور ثقافتی معاہدات بھی شامل ہیں۔ مثال کے طور پر، ترکی یہودی وجود کا تیسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے جبکہ متحدہ عرب امارات (یواےای) اپنے ثقافتی تعلقات کو مضبوط کرنے کے لئے یہودی وجود کو ایک ہفتے کے دوران 140 سے زائد فلائٹ مہیا کرتا ہے۔ یہودی وجود کے لئے اس طرح کی تمام حمایتیں لازمی طور پر فوری منقطع کردینی چاہئیں۔
4۔ یہودی وجود کو اس کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ،قازقستان، نائیجیریا اور آذربائیجان ہی ہیں جو 50 فی صد سے زائد خام تیل مہیا کرتے ہیں۔ فوری طور پر یہودی وجود کو تیل کی تمام تر سپلائی ختم کر دینی چاہئے اور اس کے ساتھ تیل کی تجارت کے تمام معاہدے لازمی منقطع کردینے چاہئیں۔
5۔ ترکی، مصر اور لبنان کی نیول افواج کو مشرقی بحیرۂ روم پر یہودی وجودکی بندرگاہ پر جانے والے ہر قسم کے سازوسامان (عسکری اور غیر عسکری) پر لازمی طور پر کَڑی پابندی عائد کردینی چاہئے۔ مزید یہ کہ ان ممالک کی نیول افواج کو تمام آف شور گیس فیلڈ ز کو لازمی بند کرنا ہو گا اور یہودی وجود کو گیس کی فراہمی منقطع کرنا ہو گی۔ مصر، سعودی عرب اور اردن کی نیول افواج کو بھی خلیج عقبہ میں اسی طرح کی کڑی پابندیاں عائد کرنا ہوں گی اور یہودی وجود کو ہر قسم کی اشیائے ضروریہ سے محروم رکھنا ہو گا۔
6۔ شام اور لبنان کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کو کھول دیں اور ترکی، ایران اور عراق کی افواج کو یہودی وجود کی شمالی سرحد تک بلا روک ٹوک رسائی کی اجازت دے دیں۔ اسی طرح، مصر، سعودی عرب، اردن اور دیگر افواج کے لئے لازم ہے کہ وہ یہودی وجود کا محاصرہ کر لیں اور موقع ملتے ہی فلسطین کو آزاد کرائیں۔
7۔ پاکستان کے لئے لازم ہے کہ وہ موقع کی مناسبت سے اپنے نیوکلئیر ہتھیاروں کو مسلمان افواج کے لئے معین کرے اور اپنے سٹریٹجک نیوکلئیر اسلحہ کو یہودی وجود پر خوف طاری کرنے کے لئے بالکل تیار رکھے تاکہ یہودی وجود نیوکلئیر ہتھیار استعمال کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔
8۔ خلیجی ممالک، جنہوں نے امریکہ میں ڈالر کی بالادستی کے اثاثہ جات میں خطیر سرمایہ کاری کر رکھی ہے، انہیں فوری طور پر ان اثاثوں کو ختم کردینا چاہئےاور اس طرح کے اثاثہ جات کو غیر ڈالر اثاثوں میں منتقل کردینا چاہئے۔ مزید یہ کہ تمام تیل، گیس اور قیمتی معدنیات جو عالمی مارکیٹوں میں برآمد کی جاتی ہیں ، انہیں ڈالر سے علیحدٰہ کردینا چاہئے۔
9۔ مسلم دنیا کو روس اور چین کے ساتھ ایک فوری سربراہی اجلاس کا انعقاد کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور یوکرین اور تائیوان کو دوبارہ حاصل کرلیں۔ اس اقدام کا مقصد امریکہ کے لئے سکیورٹی کا ایک شدید خطرہ پیدا کرنا ہے اور اسے آخر یہ انتخاب کرنا ہوگا کہ آیا وہ یہودی وجود کا ساتھ دے، یورپ کو تحفظ مہیا کرے یا پھر بحرالکاہل کے ساتھ ایشیائی ممالک کی حفاظت کرے۔
10۔ مسلمان دنیا اب مزید بین الاقوامی قانون کی پاسداری ہرگز نہ کرے جسے مغرب اپنی مرضی سے جب چاہے پامال کرتا رہتا ہے۔ بین الاقوامی قانون مغرب کا ایک ایسا ہتھیار ہے جو چند مغربی طاقتوں کی طرف سے امت کے وسائل کو کنٹرول کرنے، مسلمانوں کی نسل کشی کرنے اور اسلامی دنیا میں تقسیم درتقسیم کا ارتکاب کرنے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔
درج بالا ان نکات پر عمل درآمد کرنے میں آسانی کے باوجود مسلم دنیا کے حکمران ان نکات پر عمل کرنے میں جان بوجھ کر تاخیر کرنے کےلئے ہر بہانہ ایجاد کریں گے۔ لہٰذا امت پر لازم ہے کہ وہ ان بزدل حکمرانوں سے منہ موڑلے اور مسلم دنیا کی افواج سے فلسطین کی آزادی کے لئے براہ راست اپیل کرے۔اگر افواج ہچکچاہٹ کا شکار ہوں اور یقین کے ساتھ آگے قدم نہ بڑھائیں تو پھر امت اور افواج میں موجود مخلص لوگوں کو چاہئے کہ وہ خلافتِ راشدہ کی شکل میں متحد ہوں جو پلک جھپکتے ہی فلسطین کو آزاد کرانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے،
﴿إِن يَنصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴾
" اگر اللہ تمہاری مدد کرے گا تو کوئی تم پر غالب نہ ہوسکے گا، اور اگر اللہ تمہاری مدد چھوڑ دے تو پھر ایسا کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کر سکے، اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے"(آل عمران؛ 3:160)۔
اسلام مجاہد کی جانب سے تحریرکردہ
پاکستان