بسم الله الرحمن الرحيم
نقاب اتر چکے ہیں : فلسطین کی بابرکت سرزمین پر قبضے کے 76 سال
اکانومسٹ میگزین نے 14 مئی 2024 کو رپورٹ کیا کہ، ”مشعل روشن کرنے کی تقریب جو روایتی طور پر "اسرائیل" کے یوم آزادی کا افتتاح کرتی ہے، معمول کے مطابق 13 مئی کی شام کو نشر کی گئی۔ لیکن معمول کے مطابق براہ راست ٹیلی ویژن پر نشر کرنے کے بجائے، تقریب پہلے سے ریکارڈ شدہ تھی۔ حکومت نے کہا کہ متانت و سنجیدگی سے تقریب کے انعقاد کے لئے ایسا کیا گیا کیونکہ قوم حالت جنگ میں ہے۔ تاہم، اصل وجہ سیاست دانوں کا یہ خوف تھا کہ جنگی حالات سے نمٹنے میں ان کی ناکامی پر عوام غصے میں ہیں لہٰذا مظاہرین اس تقریب میں خلل ڈالیں گے“۔
اگرچہآج جبکہ یہودی وجود اندرونی خلفشار وانتشار کا شکار ہے، تاہم اس کا قیام دراصل ایسی تخلیق تھی جس نے مسلم دنیا کے دل چھلنی کر دئیے۔ مقدس سرزمین پر خون ایسے ہی بہایا گیا جیسا کہ گیارہویں صدی کی صلیبی جنگوں کے دوران بہایا گیا تھا۔ یہودی وجود کا قیام وہاں پہلے سے مقیم لوگوں کی جبری بے دخلی اور خطے میں عرب حکمرانوں کی غداری کے باعث ہی ممکن ہوا۔ صدیوں سے وہاں رہنے والے مسلمانوں اور عیسائیوں کو دہشت گرد صیہونی گروہوں نے نکال باہر کیا، جسے نکبہ (تباہی) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کو ان کے گھروں سے نکال دیا گیا، دیہاتوں کو جلا دیا گیا اور بے گناہ مردوں، عورتوں اور بچوں کو صیہونی آباد کاروں نے قتل کردیا، جو یورپ سے یہاں یہ دعویٰ لے کر آئے تھے کہ یہ زمین ان کی ہے۔ دنیا بھر سے لائے گئے ہزاروں یہودیوں کو وہ زمینیں دے دی گئیں جو دوسروں کی ملکیت تھیں۔ فلسطین غاصبانہ قبضے اور جبر کی سرزمین بن گیا۔ جن فلسطینیوں کو جبری طور پر علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا انہیں کبھی واپس آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
امریکہ کے حمایت یافتہ صیہونی غاصبانہ قبضے کا نقاب اتر چکا ہے۔ امریکہ نے صیہونیوں کو طاقت فراہم کی اور ان کے تمام جرائم پرآنکھیں بند کر لیں۔ امریکہ اقوام متحدہ میں اپنی ویٹو کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے صیہونیوں کو عالمی برادری کی جانب سے کسی بھی قسم کی پابندیوں یا انتقامی کارروائیوں سے بچاتا رہا ہے۔ 76 سال سے صیہونیوں نے زمینوں پر قبضے اور دہشت پھیلانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، سینکڑوں (چیک پوائنٹ ) چوکیاں بنا رکھی ہیں اور فلسطینیوں کے روز مرہ معمولات زندگی میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہتے ہیں۔ چھہتر سال گزرنے کے بعد آج ، مقبوضہ فلسطین میں واحد تبدیلی وہ جدید ترین ٹیکنالوجی ہے جس کی مدد سے وہ گھروں، سکولوں اور ہسپتالوں پر بمباری کر رہے ہیں۔ ناقابلِ بیان جرائم جیسے صیہونی جارحیت کے کئی ہفتوں کے بعد ہسپتالوں کی زمین میں اجتماعی قبروں کا انکشاف ہونا۔ جبری نقل مکانی، جبری فاقہ کشی، اور ایک فعال معاشرے کے ڈھانچے کی مکمل تباہی نے غزہ میں انتہائی خوفناک صورتحال کو جنم دیا ہے۔ سات ماہ سے ہم اپنی آنکھوں کے سامنے ایک نسل کشی رونما ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ اس سے ہم پر وہ منظر کشی واضح ہو جاتی ہے کہ گزشتہ 76 سالوں سے فلسطینی عوام کس قسم کے ظلم و ستم کا شکار تھے۔
وحشیانہ قبضے کا بدصورت اور بھیانک چہرہ اب بے نقاب ہوچکا ہے اور اس نے امت کو بیدار کر دیا ہے۔ اگرچہ صیہونی فوج کے غزہ پر گزشتہ حملے عارضی طور پر خبروں کا حصہ بنے۔ لیکن اس بار، معاملہ مختلف ہے۔ اس بار مسلمان بیدار ہو چکے ہیں۔ مراکش سے ملائیشیا تک امت مسلمہ متحرک اور سرگرم ہے۔ مغرب کے باطل اور جُھوٹے ستون گر چکے ہیں۔ مسلمانوں کو مغرب کی طرف سے پیش کردہ حل سے کوئی امید نہیں۔ منافقت عیاں ہو چکی ہے۔ امریکی اور یورپی طاقتوں کے خون میں لتھڑے ہاتھ اب مزید نہیں چھپ سکتے۔
مزید برآں ،مغربی استعماری اداروں کا پردہ بھی چاک ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف (ICJ) اور بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) امریکہ کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔ 1945ء میں امریکہ کی طرف سے قائم کردہ اقوام متحدہ کو ایک غیر جانبدار ادارے کے طور پر پیش کیا گیا تھا جو تمام لوگوں کی حفاظت کرے گی اور جنگوں کو روکے گی۔ یہ ’نعرہ لگایا گیا کہ ’’دوبارہ کبھی نہیں‘‘۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ آئندہ کبھی کسی کو نسل یا مذہب کی بنیاد پر لوگوں کے قتل عام کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لیکن اقوام متحدہ ہی دراصل وہ پردہ تھا جس کے پیچھے چھپ کر امت مسلمہ سے قبلۂ اول چھیننے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ ایک ایسا منصوبہ جو ایک سادہ لوح آدمی کو بیوقوف بنانے کے لئے تیار گیا تھا تا کہ اسے لگے کہ بس کچھ ہی وقت میں امن قائم ہو جائے گا اور مسلمان، عیسائی اور یہودی ایک ساتھ رہنے لگیں گے۔ اس پیچیدہ ڈرامے کے کردار نام نہاد مغربی امن ساز تھے جو مخالف فریقوں کو ایک میز پرجمع کیا کرتے تھے۔ اس منصوبہ کے معاون و مددگار وہ مسلمان حکمران تھے جن کو گونگی اور بہری کٹھ پتلیوں کی طرح بطور چوکیدار کھڑا رہنے کا حکم دیا گیا تھا، ان کو صرف اس وقت بولنے کی اجازت تھی جب ان سے بات کی جائے اور صرف وہی کہہ سکتے تھے جو اسکرپٹ امریکی محکمہ خارجہ نے انہیں لکھ کر دیا تھا۔
صیہونی ریاست کی جانب سے فلسطین میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر اقوام متحدہ میں متعدد قراردادیں منظور کی گئیں اور لاتعداد معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ پھر بھی وہ غاصبانہ قبضے سے نجات دلانے اور فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے شدید مظالم کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ بلکہ، انہوں نے اس بابرکت سرزمین کے باشندوں کے حالات کو مزید ابتر کر دیا ہے اور صورتحال کو بگاڑ دیا ہے۔ انہوں نے اس قبضے کو طُول دے دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں "اسرائیل" کے وحشیانہ اقدامات کی مذمت کے لئے پیش کی گئی بے معنی قراردادوں کو بھی امریکہ اپنی ویٹو کی طاقت سے مسترد کردیتا ہے۔ اور جو قراردادیں کبھی منظور ہو بھی گئیں تو صیہونیوں نے ان کی کھلی خلاف ورزی کی لہٰذا اس سب کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ یوں اقوام متحدہ کا نقاب اتر چکا ہے۔ کیونکہ اسے امریکہ نے ہی اپنے مفادات کے لئے ڈیزائن کیا تھا۔
مسئلہ فلسطین کو اقوام متحدہ جیسی کفریہ تنظیم یا سوٹ اور ٹائی میں ملبوس جھوٹی مسکراہٹوں والے کفار کبھی حل نہیں کر سکتے۔ کیا کوئی عقلمند و باشعور انسان اب بھی اس معاملے کے حل کیلئے اقوام متحدہ کی طرف رجوع کرنے کی وکالت کرسکتاہے؟ ہرگز نہیں۔
مزید یہ کہ، قرآنِ پاک نے 1400 سال پہلے ہی ہمیں خبردار کر دیا تھا کہ ہم اپنے دشمنوں کو پہچانیں اور ان کے دھوکے میں نہ آئیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا؛
﴿يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِـرِيْنَ اَوْلِيَـآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۚ اَتُرِيْدُوْنَ اَنْ تَجْعَلُوْا لِلّـٰهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُّبِيْنًا﴾
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بناؤ، کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ کے سامنے اپنے خلاف ایک واضح حجت بنا لو؟‘‘ (النساء؛ 4:144)
مسلمان حکمرانوں کے چہروں پر سے بھی نقاب اتر چکے ہیں۔ وہ فلسطین میں نسل کشی کو روکنے کے لئے مسلم افواج بھیجنے سے مسلسل انکار کر رہے ہیں۔ اردگان نسل کشی جاری رکھنے کے لئے ضروری اسلحہ، رسد اور خوراک مستقل فراہم کرتا رہا۔ مصر ہے کہ، سفاک آمر السیسی کے حکم پر، رفح بارڈر کراسنگ کو بند رکھتا ہے۔ اردن کا عبداللہ صیہونیوں کو امریکی فوجی سازوسامان پہنچانے کے لئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تعاون سے فضائی راستے دیتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ زمینی راہداری بھی فراہم کرتا ہے۔ فلسطین کے اطراف موجود مسلمان حکمران صرف صیہونیوں کے محافظ ہیں۔ انہوں نے اس نسل کشی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو قید و بند اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ مسلم ممالک کے تمام 57 حکمران، افواج کو فلسطین بھیجنے سے انکار کرکے، دراصل خود اس نسل کشی میں شامل ہیں۔ وہ صیہونیوں کو کچلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ، لیکن وہ اپنے آقاؤں کی خدمت گزاری کو ترجیح دیتے ہیں۔ یوں لگتا ہے گویا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان سنا ہی نہیں:
«مَا مِنْ امْرِئٍ يَخْذُلُ امْرَأً مُسْلِماً فِي مَوْضِعٍ تُنْتَهَكُ فِيهِ حُرْمَتُهُ وَيُنْتَقَصُ فِيهِ مِنْ عِرْضِهِ إِلَّا خَذَلَهُ اللهُ فِي مَوْطِنٍ يُحِبُّ فِيهِ نُصْرَتَهُ، وَمَا مِنْ امْرِئٍ يَنْصُرُ مُسْلِماً فِي مَوْضِعٍ يُنْتَقَصُ فِيهِ مِنْ عِرْضِهِ وَيُنْتَهَكُ فِيهِ مِنْ حُرْمَتِهِ إِلَّا نَصَرَهُ اللهُ فِي مَوْطِنٍ يُحِبُّ نُصْرَتَهُ»
جابربن عبداللہ اور ابوطلحہ بن سہل انصاری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس نے کسی مسلمان کو ایسی جگہ میں بے یارومددگار چھوڑا جہاں اس کی حرمت پامال کی جائے اور اس کی عزت میں کمی آئےتو اللہ اسے ایسی جگہ بے یارومددگار چھوڑے گا جہاں وہ اس کی مدد ونصرت کا طلبگار ہو گا ۔ اور جو کسی مسلمان کی ایسی جگہ پر مدد کرے گا (اور اس کا دفاع کرے گا) جہاں اس کی عزت میں کمی آ رہی ہو اور اس کی آبرو پامال ہو رہی ہو تو اللہ اس اس کی ایسی جگہ پر مدد کرے گا جہاں وہ چاہے گا کہ اس کی مدد کی جائے‘‘ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4884]۔
موجودہ حکمرانوں سے قبل 1300 سال تک خلافت نے اس بابرکت سرزمین کی حفاظت کی اوراس کا دفاع کیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت نے فلسطین کو اسلام کے لئے کھول دیا۔ خلافت نے اسے صلیبیوں سے آزاد کرانے کے لئے صلاح الدین کی فوجیں بھیجیں۔ عبدالحمید ثانیؒ کی خلافت نے فلسطین کی مبارک سرزمین کو صیہونی قبضے کی کوششوں سے محفوظ رکھا۔ جبکہ خلافت کی عدم موجودگی میں ہی فلسطین قبضہ تلے رہا ہے۔
تمام تر نقاب گر چکے ہیں۔ مغربی رہنماؤں اور ان کے جھوٹے طرز زندگی کا پردہ فاش ہوچکا ہے۔ ان کے ادارے اور عدالتیں بے نقاب ہو چکی ہیں۔ مسلم حکمرانوں کی غداری عیاں ہو چکی ہے۔ نام نہاد با اثراور مشہور شخصیات کی اصلیت ظاہر ہو چکی ہے۔ جو لوگ خاموش رہے وہ بھی بے نقاب ہو گئے۔ ہم ان میں سے کسی سے کوئی امید نہیں رکھ سکتے۔ ایسا کرنا حقیقت سے انکار ہو گا۔ مخلص مجاہدین نے اللہ عزوجل کے ساتھ اپنے وعدے کو پورا کیا۔ غزہ میں مردوں، عورتوں، بچوں اورشکمِ مادرمیں موجود معصوموں نے بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کیا ہے۔ میرے بھائیو اور بہنو ہم کیا کر رہے ہیں؟ سوشل میڈیا اور احتجاج کو بھی درست حل کی طرف دعوت کیلئے استعمال کرنا چاہئے۔
فلسطین کی تاریخ پڑھتے رہنے سے وہ آزاد نہیں ہو جائے گا۔ بائیکاٹ، سرمایہ اور پابندیاں فلسطین کو آزاد نہیں کر سکتیں۔ خوراک کی امداد دینے سے بھی فلسطین آزاد نہیں ہوگا۔ بلکہ فلسطین اس وقت آزاد ہوگا جب مسلم افواج میں موجود امت کے بہادر بیٹے ان غدار حکمرانوں کے احکام کی تابعداری چھوڑ دیں گے، ان کی پہنائی گئی بیڑیاں توڑ ڈالیں گے اور القدس کی طرف مارچ کریں گے۔ فلسطین کا حل یہی ہے کہ ہم اپنی مسلم افواج کو اقصیٰ کی جانب روانہ کریں۔ مسئلہ فلسطین کا حل یہی ہے کہ امت کے بہادر افسران ان حکمرانوں کے تختے الٹ دیں اور خلافت راشدہ کے قیام کے لئے نصرۃ عطا کریں۔ یہ خلافت ہی ہو گی جو فلسطین اور الاقصیٰ کو آزاد کرائے گی۔ اور اس میں ہمارا کردار یہ ہے کہ افواج کو پکاریں کہ وہ امت کی حفاظت کیلئے حرکت میں آئیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے؛
﴿يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّـٰهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ﴾
’’اے اہل ایمان! اگر تم اللّٰہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا‘‘
(سورہ محمد؛ 47:7)
*مریم انصاری*
Latest from
- امریکی منصوبے کے جال میں پھنسنے سے خبردار رہو
- مسلم دنیا میں انقلابات حقیقی تبدیلی پر تب منتج ہونگے جب اہل قوت اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے جابروں کو ہٹا کر امت کا ساتھ دینگے
- حقیقی تبدیلی صرف اُس منصوبے سے آ سکتی ہے جو امت کے عقیدہ سے جڑا ہو۔ ...
- حزب التحریر کا مسلمانوں کی سرزمینوں کو استعمار سے آزاد کرانے کا مطالبہ
- مسلمانوں کے حکمران امریکی ڈکٹیشن پر شام کے انقلاب کو اپنے مہروں کے ذریعے ہائی جیک کر کے...