السبت، 14 محرّم 1446| 2024/07/20
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

تجارتی تعلقات کا منقطع کرنا ہی کافی نہیں!

سرزمین فلسطین میں قابض یہودی وجود کی تمام اہم مرکزی رسائی کا منقطع کرنا ضروری ہے!

 

خبر :

 

ترکیہ: وزارت تجارت نے کہا ہے کہ یہودی وجود کے ساتھ درآمدات اور برآمدات اس وقت تک معطل رہے گی "جب تک کہ اسرائیلی حکومت غزہ تک بلا تعطل اور مناسب انسانی امداد پہنچانے کی اجازت نہیں دے دیتی"۔

 

 

تبصرہ :

 

ترکی نے اس سے قبل 9 اپریل کو اعلان کیا تھا کہ اس نے یہودی وجود کی 54 مصنوعات کی قسموں کو برآمد کرنے کی پابندی لگائی ہے۔ اردوگان نے کہا تھا کہ یہ پابندیاں "اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک غزہ میں بلا تعطل اور مناسب انسانی امداد نہیں پہنچائی جاتی"۔ تاہم، ترک اسٹیٹ ڈیٹا (TurkStat data) نے اردوگان کے بیان کی تردید کی ہے۔ ترک اسٹیٹ ڈیٹا (TurkStat data) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2023ء میں، قابض یہودی وجود کے ساتھ ترکی کی برآمدات 5.2 بلین ڈالر تھیں، جب کہ یہودی وجود سے درآمدات 1.6 بلین ڈالر تھیں۔ اس ایک سال کے عرصے میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم تقریباً 6.8 بلین ڈالر رہا۔

 

صدر اردوگان نے اظہار کیا کہ فلسطین کی قابض یہودی وجود کے ساتھ تجارت کو منقطع کر دیا گیا ہے اور کہا، "اب ہم اور مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ ہم نے اپنے اقدامات لے لئے ہیں"۔ اردوگان نے کہا کہ انہوں نے دونوں ممالک کے مابین 9.5 ارب ڈالر کے تجارتی حجم کو نظرانداز کرتے ہوئے "اپنے دروازے (اس تجارت کے لئے) بند کر دیئے ہیں"۔ البتہ، انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ یہ تجارتی حجم کن مدتوں پر محیط ہے۔

 

اگرچہ، یہودی وجود 7 اکتوبر سے غزہ پر حملے کر رہا ہے، اور ترکی کے مسلمان حکومت سے یہودی وجود کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ پھر بھی ایک طویل عرصے تک، حکومت یہ دفاع کرتی رہی تھی کہ وہ یہودی وجود کے ساتھ کوئی تجارت نہیں کر رہی ہے اور یہاں تک کہ ان لوگوں کو "موساد کا ایجنٹ" کہتی تھی جو یہودی وجود کے ساتھ تجارت جاری رکھنے پر حکومت پر تنقید کرتے تھے۔ اور اب وزارت تجارت نے ایک بیان میں یہ اعلان کیا ہے کہ "یہودی وجود کے ساتھ درآمدات اور برآمدات اس وقت تک معطل رہیں گی جب تک کہ اسرائیلی حکومت غزہ تک بلا تعطل اور مناسب انسانی امداد پہنچانے کی اجازت نہیں دے دیتی"۔

 

صدر اردوگان اور وزارت تجارت کے یہ بیانات حکومت کے اس دعوے کی کھلی تردید ہیں کہ ریاست قابض یہودی وجود کے ساتھ کوئی تجارت نہیں کرتی بلکہ نجی کمپنیاں کرتی ہیں۔

 

دوسری طرف ترک ریاست کی طرف سے دیے گئے ان بیانات کا مطلب یہ ہے کہ اگر قابض یہودی وجود غزہ میں انسانی امداد پہنچانے کی اجازت دے دیتا ہے تو اس یہودی وجود کے ساتھ تجارت دوبارہ بحال ہو جائے گی جو فلسطین کی بابرکت سرزمین پر 76 سال سے قابض ہے اور ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کر چکا ہے۔ بالفاظِ دیگر، یہ (ترک-اسرائیل تعلقات) کے معمول پر واپس آنے کا اشارہ ہے۔

 

اگر ترکی کی قابض یہودی وجود کے ساتھ تجارت ختم کرنے کی خواہش ہوتی، تو پھر اب آخر کیونکر ترکی یہ فیصلہ کر رہا ہے، جبکہ اس نے 7 ماہ سے غزہ کے لئے ایک بھی قدم نہیں اٹھایا بلکہ وہ تو تمام مصنوعات باقاعدگی سے قابض یہودی وجود کو بھیج رہا ہے جو یہود کے لئے زندگی کی کرن ثابت ہو رہی ہیں؟

 

بلدیاتی انتخابات میں اپنی شکست کے بعد حکومت ملکی رائے عامہ میں اپنی ساکھ کو بہتر کرنا چاہتی تھی چاہے وہ غزہ کے معاملے میں رائے عامہ ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ حکومت کے بلدیاتی انتخابات میں ہارنے کی ایک وجہ غزہ پر اس کا غیر فعال موقف تھا۔

 

ایک اور اہم بنیادی پہلو یہ ہے کہ اس بات کا قطعاَ کوئی امکان نہیں ہے کہ حکومت آزادانہ طور پر ایسا کوئی فیصلہ کرے جس میں امریکہ کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ ترکی امریکہ کے سیاسی مدار میں ایک سیٹلائٹ ریاست کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ یکطرفہ طور پر فیصلے نہیں کر سکتا، خاص طور پر اپنی خارجہ پالیسی میں۔ ترکی ایک ایسی ریاست ہے جس نے اپنی سیاسی مرضی امریکہ کے پاس رہن رکھ دی ہے۔

 

ترک حکومت کے قابض یہودی وجود کے ساتھ تجارت منقطع کرنے کے فیصلے سے پہلے، اس نے یہودی وجود کے لئے مقرر کردہ سامان پر پابندی عائد کر دی تھی۔ پھر، یہودی وجود کی جانب سے رفح کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی کو روکنے کے لئے، جبکہ امریکہ یہ نہیں چاہتا تھا، ترک حکومت نے بیان دیا کہ ترکی نے جنوبی افریقہ کی طرف سے بین الاقوامی عدالت انصاف میں دائر کیے گئے کیس میں یہودی وجود کے خلاف مداخلت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پھر آخر کار، حکومت نے اعلان کر دیا کہ یہودی وجود کی طرف تمام درآمدات اور برآمدات منقطع کر دی گئیں ہیں۔

 

اگر کوئی ذی شعور اس معاملے کو دھیان سے دیکھے تو وہ بخوبی جانچ سکتا ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ خود سے نہیں کیا، بلکہ امریکی سیاست کے تناظر میں کیا، تاکہ نیتن یاہو کی حکومت پر سیاسی دباؤ ڈالا جائے، کیونکہ آئندہ امریکی صدارتی انتخابات سے پہلے جو بائیڈن کی حکومت چاہتی ہے کہ یہودی حکومت پر دباؤ بڑھا کر جلد از جلد غزہ کا مسئلہ حل کیا جائے اور اسے معاہدہ کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اس لئے امریکہ خطے میں اپنے سہولت کار یعنی ترکی، مصر اور عرب کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہی سہولت کاروں کو استعمال کر کے امریکہ حماس پر سیاسی دباؤ ڈالنے کے لئے سازشیں کر رہا ہے۔

 

دوسری جانب، حکومت کا تجارت میں کمی کا فیصلہ نیتن یاہو کے لئے امریکی سیاست کی بنیاد پر لیا گیا ایک فیصلہ ہے. یہ کوئی یہودی وجود کے خلاف فیصلہ نہیں ہے۔ اگر نیتن یاہو جس کو اب امریکہ ہٹانا چاہتا ہے، حکومت کی باگ ڈور چھوڑ دیتا ہے تو حکومت کے ساتھ یہودی وجود کے تعلقات اور تجارت معمول پر آجائیں گے اور یہ مذموم یہودی وجود جو فلسطین کی مبارک سرزمین پر قابض ہے پہلے کی طرح منظم نسل کشی جاری رکھے گا۔

 

آخر میں مسلمانوں، عوام اور جماعتوں کو اس معاملے کے بارے میں ہوشیار رہنا چاہیے۔ حکومت کے قابض یہودی وجود کے ساتھ تجارت کو منقطع کرنے سے مسلمانوں کو گمراہ نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ قاتل یہودی وجود اب بھی مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ اس لئے انہیں چاہیے کہ وہ حکومت پر دباؤ ڈالیں اور اس سے الاقصیٰ کے لئے فوج روانہ کرنے کا مطالبہ کریں جو اس معاملے کو ہمیشہ کے لئے حل کرے، اور اس مبارک سرزمین میں قابض یہودی وجود کے تمام تعلقات کو ختم کر ڈالے۔

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لئے تحریر کردہ

یلماز شیلک

 

Last modified onہفتہ, 29 جون 2024 07:22

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک