بسم الله الرحمن الرحيم
امریکہ افغانستان میں فیصلہ کن فتح حاصل کرنے کی کوشش میں ہے
امریکی حکومت، عالمی اداروں، خاص طور پر اقوام متحدہ کے ذریعے، افغانستان میں ایک فیصلہ کن فتح حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ وہ فتح ہے جو امریکہ افغانستان میں اسلام اور مجاہدین کے خلاف بیس سال سے زائد عرصہ تک جنگ کرنے کے باوجود حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس فتح کے حصول کی کوششوں کا آغاز اس وقت شروع ہوا جب امریکہ نے قطر کو طالبان تحریک کی میزبانی کی اجازت دی، اور 2013ء میں تحریک طالبان کو دوحہ میں ایک دفتر کھولنے کی اجازت دی۔ اس دفتر کے ذریعے، امریکہ سیاسی طور پر اس تحریک کے ساتھ مشغول ہوا، جس کے نتیجے میں پاکستانی انٹیلیجنس سمیت امریکہ اور ثالثوں کی شمولیت کے ساتھ مذاکرات کے متعدد دور گذرے۔ بالآخر، دونوں فریقین نے مغربی فوجی دستوں کے انخلاء اور امریکہ کے وفادار "ڈیپ سٹیٹ" کے تسلسل کے ساتھ تحریک طالبان کو ملک سپرد کرنے پر اتفاق کر لیا۔ یہ ڈیپ سٹیٹ امریکی-افغان ایجنٹ، حامد کرزئی، جسے امریکہ نے ایک امریکی ٹینک پر لا کر بٹھایا تھا، اور ان کے وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ، جنہوں نے افغان قومی مصالحتی اعلیٰ کونسل کی قیادت کی تھی، کے ساتھ ساتھ سابق صدر ربانی نے قائم کی تھی۔
دوحہ مذاکرات کے بعد، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ امریکہ اور مغربی استعماری طاقتیں افغان "قوم پرست" ریاست کے مستقبل اور حقیقت کے بارے میں مطمئن رہیں، انہوں نے تحریک طالبان کی حکومت پر شرائط، منصوبے اور حکومتی ڈھانچہ مسلط کر دیا۔ ایسا کرنا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تھا کہ تحریک طالبان کی ریاست باقی موجودہ اسلامی دنیا کی ریاستوں سے چنداں مختلف نہ ہو، جو کہ تمام کی تمام کلی طور پر مغرب کی تابع فرمان ہیں۔ اور سب سے اہم مقصد طالبان تحریک کو ایک اسلامی حکومت کی تشکیل کرنے یا ایک ایسی اسلامی ریاست کا اعلان کرنے سے روکنا تھا جو قرآن اور سنت نبوی کے مطابق خصوصی اور جامع طور پر حکومت کرتی ہو، جو کہ ایک ایسا مقصد تھا جس کی خاطر ہزاروں افغان مجاہدین شہید ہوئے تھے۔
تحریک طالبان 2021 میں اقتدار میں آنے سے پہلے ہی دوحہ معاہدے سے اتفاق کر چکی تھی۔ اس معاہدے میں ایک مکمل اسلامی ریاست کے بجائے برائے نام اسلامی اقدار پر مبنی ایک "قومی" افغان ریاست بنانے کی بات بھی شامل تھی۔ لیکن امریکہ نے اس معاہدے کے باوجود، تحریک طالبان اور ان کی حکومت کو مغربی استعماری حلقے میں قبول نہیں کیا، جیسا کہ وہ عام طور پر دیگر اسلامی ممالک کی حکومتوں کے ساتھ معاملہ رکھتا رہا ہے۔ اس کے بجائے امریکہ افغان حکومت کے لیے شرائط اور حکم نامے جاری کرتا رہا۔ اور اس کے جواب میں، تحریک طالبان کی حکومت نے ان احکامات کو من و عن قبول کرنا اور نافذ کرنا جاری رکھا۔ یہ قبولیت اور احکامات پر عمل درآمد اس حد تک تھی کہ طالبان نے نہ صرف شریعت کو نافذ کرنے سے گریز کیا بلکہ وہ مغربی اتحاد کے ساتھ "اسلام کے خلاف جنگ" میں بھی شامل ہو گئے۔ طالبان حکومت نے تو اپنے سابقہ دعووں کے برعکس شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والے کسی بھی شخص کا تعاقب کرنے، قید کرنے اور ان پر تشدد کرنے کا ارتکاب بھی کیا۔ اس حد تک کہ طالبان نے یہاں تک مطالبہ کر دیا کہ جو لوگ نبوت کے نقش قدم پر خلافت قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ اس عمل کی "معافی مانگیں" اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق حکمرانی کی پاکیزہ جدو جہد کو ترک کر دیں، ایک ایسی جدو جہد جو کہ انبیاء علیہم السلام کی سنت اور رسولوں کا طریقہ رہا ہے۔ یوں اس طرح، تحریک طالبان مغرب کی تابعداری اور اطاعت کے جال میں پھنس گئی، جیسا کہ اس آیتِ مبارکہ میں مذکور ہے،
﴿وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ﴾
"اور یہود ونصاریٰ تم سے ہرگز کبھی خوش نہ ہوں گے یہاں تک کہ تم ان کے مذہب کی پیروی نہ اختیار کر لو۔ (ان سے) کہہ دو کہ بے شک اللہ کی ہدایت (یعنی دین اسلام) ہی اصل ہدایت ہے۔ اور اگر تم نے ان کی خواہشات کی پیروی کی کہ تمہارے پاس علم (یعنی وحی) آ چکا ہے تو تم کو اللہ سے بچانے والا نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مددگار" [سورة البقرة-120]۔
یہودیوں اور عیسائیوں کے طرز زندگی کی پیروی کرنا صرف عقائد تک ہی محدود نہیں ہے۔ بلکہ اس میں وہ تمام نظریات اور اصول شامل ہیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے انہوں نے گھڑ لئے ہیں مثال کے طور پر جمہوریت، سیکولرازم اور قوم پرستی اور حب الوطنی کے تصورات۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی افغانستان کے مستقبل پر نظر رکھنے اور افغانستان میں نئی حکومت کی اپنے مطابق تربیت کے سلسلے میں، اقوام متحدہ کے حکام، افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی اور طالبان حکومت کے نمائندوں کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اتوار، 30 جون 2024ء کو ملاقاتوں کا تیسرا دور شروع ہوا۔ افغانستان کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے سمیت بیس سے زائد وفود نے طالبان وفد کے ساتھ ملاقات کی جس کی قیادت ان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کر رہے تھے۔ عام طور پر امریکہ اور اس کی اتحادی استعماری تنظیمیں کسی بھی مذاکرات یا اقدامات میں، میڈیا اور عوام کے لیے ایک سطحی ایجنڈا پیش کرتی ہیں، جبکہ اصل میں ان کے کئی مقاصد اور اہداف مخفی رہتے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے "حقوق نسواں" اور افغانستان میں سول سوسائٹی کے کردار پر بات چیت کے اعلانیہ مقصد کے پیچھے، تحریک طالبان کی حکومت کو امریکہ اور تحریک کے درمیان متفقہ منصوبوں پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرنا ہے، جس میں قدامت پسند افغان معاشرے کو "مغرب زدہ" کرنا اور افغان خواتین کا لیبر مارکیٹ میں استحصال کرنا شامل ہے۔ یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے جزیرۂ عرب میں امریکی ایجنٹ سلمان اور اس کا بے حس بیٹا کر رہے ہیں۔
سیاسی ناسمجھی اب امت کے اندر کام کرنے والے کسی بھی تحریک، گروہ، مجاہد یا سیاستدان کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ اب یہ معاملہ پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے، کیونکہ ہر کوئی سیاسی سازشوں کی پیچیدگیوں اور شریعت کے قائم کردہ احکام سے آگاہ ہے، جو کفار کے ساتھ اتحاد کے خلاف خبردار کرتے ہیں اور ان کی حمایت کرنے کو ممنوع قرار دیتے ہیں۔ کوئی بھی ذی شعور عالمی برادری کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دھوکہ دہی سے بے خبر نہیں ہے، کیونکہ ان کے دلوں میں ہمارے لیے کوئی خیر خواہی نہیں ہے۔ لہٰذا، اب کسی کے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہا ہے!
نبوت کے طریقے پر خلافت راشدہ قائم کرنے کے داعی، شیخ یوسف مخارزہ جو کہ یہود کے زندان میں قید ہیں، فرماتے ہیں:
[لأعمال الصالحة التي تأتيها في الماضي هي رصيد لك في الآخرة وفي الدنيا، يثني الناس عليك بها ويحبونك لأجلها شريطة أن تبقى في المسار، فإذا كنت أمينا ثم صرت سارقا فإن النكير عليك يكون أعظم من النكير على من قضى عمره سارقا، وإذا كنت مجاهدا ثم صرت نصيرا للعدو تعينه على إخوتك فإياك أن تظن للحظة أن تاريخك أو تاريخ جماعتك يشفع لك، فكل نفس بما كسبت رهينة والتعاون مع العدو يسقط هيبتك ويذهب بكرامتك ويُحل عرضك ويُجرى عليك خلق الله، فالتوبة التوبة قبل فوات الأوان ]
"ماضی میں کیے گئے نیک اعمال آپ کے لئے اس دنیا و آخرت کا سرمایہ ہیں۔ لوگ ان کے لئے آپ کی تعریف اور محبت کریں گے، بشرطیکہ آپ راہ حق پر قائم رہیں۔ اگر آپ ایماندار تھے، لیکن پھر چور بن گئے، تو آپ پر تنقید اس سے کہیں زیادہ ہوگی جو کسی نے اپنی پوری زندگی چوری میں گزار دی ہو۔ اگر آپ ایک مجاہد تھے اور پھر دشمن کے اتحادی بن گئے، اپنے بھائیوں کے خلاف ان کی مدد کرنے لگے، تو یہ نہ سوچیں کہ آپ یا آپ کی تحریک کی تاریخ آپ کے لئے شفاعت کرے گی۔ ہر نفس اس کے اعمال کے لئے گروی رکھا جاتا ہے۔ دشمن کے ساتھ تعاون کرنا آپ کی عزت کو برباد کرتا ہے، آپ کی عظمت کو باطل کرتا ہے، اور لوگوں کی حقارت کا باعث بنتا ہے۔ تو، توبہ کریں اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے"۔
لہٰذا، تحریک طالبان کے غافل رہنماؤں کو اپنا راستہ درست کرنا چاہیے۔ انہیں وہ قبول کرنا چاہیے جو انہوں نے ابتدا میں اس وقت مسترد کیا تھا جب حزب التحریر نے خلافت کو نبوت کے نقش قدم پر قائم کرنے کی پیشکش کی تھی۔ اگر تحریک کی قیادت اپنے طریقے کو درست نہیں کرتی، تو تحریک کے مخلص اراکین، جو کہ تعداد میں بہت زیادہ ہیں، انہیں اپنے رہنماؤں کے انحرافات کو درست کرنا چاہیے۔ انہیں اختیار حزب التحریر کے مخلص اور قابل سیاستدانوں کے حوالے کر دینا چاہیے۔ اس سے انہیں زمین اور آسمان کے باشندوں کی رضا حاصل ہوگی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
≼وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنْ الْمُنْكَرِ أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْهُ ثُمَّ تَدْعُونَهُ فَلَا يُسْتَجَابُ لَكُمْ ≽
"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو ورنہ اللہ عنقریب تم پر اپنی طرف سے عذاب بھیجے گا۔ پھر تم اسے پکارو گے، اور وہ تمہاری پكار كا جواب نہیں دے گا" [ترمذی[
الرایہ اخبار کے لیے تحریر کردہ، شمارہ 503
بلال المہاجر / پاکستان
Latest from
- عالمی قانون کا انہدام ...اور ان دنیا والوں کی ناامیدی...
- بچوں کو اغوا کرنے اور ان پر تجربات کرنے کی”اسرائیلی“ قبضے کی ایک لمبی داستان موجود ہے
- امریکی قیادت اور نگرانی میں: ایران کی صفوی حکومت اور یہودی وجود...
- شنگھائی تعاون تنظیم امریکن ورلڈ آرڈر کا حصہ ہے
- استعماری طاقتوں کی تنظیمیں ہماری سلامتی اور خوشحالی کی ضامن نہیں ہو سکتیں