السبت، 30 ربيع الثاني 1446| 2024/11/02
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

نقطہ نظر: ہندوستان-روس تعلقات

تحریر: عبدالمجید بھٹی

 

گزشتہ ہفتے، مودی کے ماسکو کے دورے نے، جو واشنگٹن میں نیٹو کے تین روزہ سربراہی اجلاس کے موقع پر تھا،امریکی دارالحکومت اور کیف دونوں میں بے چینی کو جنم دیا۔ ایک پریس بریفنگ میں، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے مودی-پیوٹن ملاقات سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا، "ہم نے واضح طور پر روس کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے اپنی تشویش بھارت کو بتا دی ہے۔" [1] مودی کی پیوٹن کے ساتھ گرمجوشی سے گلے ملنے سے یہ خدشہ بڑھ گیا ہے کہ شاید ہندوستان آہستہ آہستہ واشنگٹن کے جیو پولیٹیکل مفادات سے دور ہو رہا ہے اور روس اور برکس(BRICs) کے ساتھ زیادہ قربت سے صف بندی کر رہا ہے۔

 

اس نقطہ نظر کے حامی اکثر روس کے ساتھ ہندوستان کے کثیر جہتی تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو تعاون کے کئی اہم شعبوں پر محیط ہے۔ دو طرفہ تجارت 2022-2023 میں تقریباً 50 ارب ڈالر تک پہنچ گئی، جس میں ہندوستانی برآمدات 3.14 ارب ڈالر اور روس سے درآمدات 46.21 ارب ڈالر تھیں۔ [2] دونوں ممالک نے 2025 تک دو طرفہ سرمایہ کاری کو50 ارب ڈالر اور تجارت کو30 ارب ڈالر تک بڑھانے کے جراٴت مندانہ اہداف مقرر کیے ہیں [3]۔

 

امریکی پابندیوں کے باوجود بھارت نے روسی تیل پر انحصار بڑھا دیا ہے۔ روس سے ہندوستان کی خام تیل کی درآمدات مستحکم رہی ہیں، ہندوستانی ریفائنریز نےاپریل 2024 میں ریکارڈ 1.96 ملین بیرلتیلیومیہ درآمد کیا ہیں، جو کل خام درآمدات کا 40.3 فیصد ہے۔ [4] اس اسٹریٹجک نقطہ نظر نے ہندوستان کو اپنی تیل کی طلب کو کم قیمتوں پر پورا کرنے کے قابل بنایا ہے، جس کے نتیجے میں دنیا کے تیسرے سب سے بڑے تیل کے صارف کے لیے خاطر خواہ بچت ہوئی ہے۔

 

دفاعی تعاون ان کے تعلقات کی ایک اہم بنیاد ہے جس میں برہموس کروز میزائل جیسے مشترکہ ترقیاتی منصوبوں اور 2018 میں S-400 میزائل دفاعی نظام کی بھارت کی طرف سے 5 ارب ڈالر کی خریداری شامل ہے۔[5] روس بھارت میں ایٹمی پاور پلانٹس کی تعمیر میں ملوث رہا ہے جس میں کڈن کلم (Kudankulam)نیوکلیئر پاور پلانٹ بھی شامل ہے۔ بین الاقوامی فورمز پر، روس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں رکنیت کے لیے ہندوستان کے مطالبے کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔

 

روس کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کا قریب سے جائزہ لینے سے ان کے تعلقات میں موجود محدودیت کا پتہ چلتا ہے۔ اگرچہ دو طرفہ تجارت میں اضافہ ہوا ہے، لیکن یہ اضافہ بنیادی طور پر رعایتی روسی خام تیل کی حد تک محدود ہےجبکہ دوسرے شعبوں میں بہت کم پیشرفت ہوئی ہے ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہندوستان کا روسی تیل کی درآمد، ریفائنمنٹ اور اس کی یورپ جیسی منڈیوں میں دوبارہ فروخت نے اس کےاقتصادی استحکام میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

 

دفاعی شعبے میں ہندوستان تنوع (diversification)کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ اس نقطہ نظر کے تحت جند منتخب شدہ جدید روسی ہتھیاروں کو حاصل کرنا شامل ہے جبکہ بھارت کے دفاعی پلیٹ فارم کو مغربی معیارات کے ساتھ ہم آہنگ کرنا بھی شامل ہے تاکہ QUAD اور NATO جیسے فوجی اتحادوں کی حمایت کی جا سکے، جو روس اور چین دونوں سے متصادم ہیں۔ یوکرین کے تنازع کی وجہ سے روس کی جانب سے S-400 میزائل دفاعی معاہدے کی تکمیل میں مشکلات نے ہندوستان کو مغربی شراکت داری کی طرف مزید دھکیل دیا ہے۔ نتیجتاً، ہندوستان دفاعی اور سیمی کنڈکٹرز میں جدید ترین تعاون پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، امریکہ، فرانس، یورپی یونین، اسرائیل اور جنوبی کوریا جیسے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ دفاع اور ٹیکنالوجی کی مشترکہ پیداوار کو ترجیح دے رہا ہے۔ اس حکمت عملی کا مقصد ہند-بحرالکاہل کے میکانزم میں ہندوستان کے کردار کو بڑھانا اور ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ کے شعبے میں ترقی کے عمل کو تیز کرنا ہے تا کہ، شراکت دار ممالک کی حمایت حاصل کی جاسکے اور انہیں یہ دیکھایا جائے کہ ہندوستان تکنیکی اور اسٹریٹجک ترقی کے حوالے سے استعداد رکھتا ہے۔

 

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل نشست اور نیوکلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کے لیے ہندوستان کی خواہشات کی روس کی حمایت امریکی مفادات سے ہم آہنگ ہے۔ تاہم، شنگھائی تعاون تنظیم (SCO)کے ساتھ ہندوستان کے محدود تعلق اور QUAD کے ساتھ گہرے انضمام کے لیے وزیر اعظم مودی کی تیزی، روس اور چین دونوں کے لیے زیادہ تشویشناک ہے۔ یہ اسٹریٹجک محور ہندوستان کی جغرافیائی سیاسی صف بندی میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے، جو ہند-بحرالکاہل کے خطے میں مغربی ہم آہنگ طاقتوں کے ساتھ قریبی تعلقات کی حمایت کرتا ہے۔

 

مودی کے ساتھ امریکہ کی ظاہری مایوسی کی مختصر تشریح ضروری ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی کا مقصد عالمی طاقت کے توازن کو برقرار رکھنا ہے، خاص طور پر بھارت کی حمایت کرکے ایشیا پیسفک میں چین کے عروج کا مقابلہ کرنا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کی ہندوستان کی روسی تیل کی درآمدات کو برداشت کرنے کے متعدد مقاصد ہیں: ہندوستان کی اقتصادی ترقی کو چین کا مقابلہ کرنے کے لیے بڑھانا، روس کے زوال کو روکنا تاکہ چین اس ممکنہ خلا کو پُر کرنے آگے نہ بڑھ سکے، اور یورپی تیل کی سپلائی کو مستحکم کرنا ہے۔ مزید برآں، روس کے ساتھ ہندوستان کے قریبی تعلقات واشنگٹن کے مفادات کے مطابق روس-چینی تعاون میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ یہ کثیر جہتی نقطہ نظر خطے میں امریکی اسٹریٹجک سوچ کی پیچیدگی کی عکاسی کرتا ہے۔

 

ہندوستان کو امریکی خارجہ پالیسی کے ایک آلہ کار کے طور پر کام کرتے دیکھنا بدقسمتی ہے۔ اس کے برعکس اسلام کے تحت ہندوستان خطے میں غالب طاقت تھا۔ منگول فوج جنہوں نے آسانی سے روس کو فتح کر لیا تھا دہلی سلطنت سے کئی بار شکست کھائی اور ہندوستان کی وسیع ہندو آبادی کو فنا ہونے سے بچایا گیا۔ یہ ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ مودی کے سلوک سے بہت دور کی بات ہے۔

 

مغل حکمران اورنگزیب کے زمانے میں ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن گیا تھا۔ اس عرصے کے دوران، منگولوں اور تبتیوں نے (چنگ خاندان کی سرپرستی میں) چین اور وسطی ایشیا کے درمیان تجارتی راستوں کے کنٹرول سے شہ پا کر لداخ پر حملہ کر دیا جو تجارت کے بڑے راستے تھے۔ اورنگ زیب نے کامیابی سے حملہ آوروں کو پسپا کر کے خطے میں مغلوں کی بالادستی کو یقینی بنایا۔ اس کے برعکس، آج لداخ بھارت اور چین کے درمیان ایک فلیش پوائنٹ بنا ہوا ہے، کیونکہ امریکہ چین کے OBOR (ون بیلٹ ون روڈ) کی مغرب کی طرف پھیلائی جانے والی توسیع کو روکنے کے لیے اس علاقے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ صرف اسلام کے تحت ہی ہندوستان مغربی مداخلت کو ختم کر سکتا ہے اور خوشحالی اور غلبہ حاصل کر سکتا ہے۔

 

حوالہ جات:

 

[1] The Washington Post, (2024) Modi bear-hugs Putin in Moscow, marking deep ties between Russia and India, The Washington Post. Available at: https://www.washingtonpost.com/world/2024/07/09/russia-india-putin-modi-moscow/

[2] IBEF, (2024). India Russia Trade. IBEF. Available at: https://www.ibef.org/indian-exports/india-russia-trade

[3] IBEF, (2024). India Russia Trade. IBEF. Available at: https://www.ibef.org/indian-exports/india-russia-trade

[4]The IndianExpress, (2024). Sanctions notwithstanding, India’s Russian oil imports surge as Moscow pushes more oil overseas. The Indian Express. Available at: https://indianexpress.com/article/business/sanctions-notwithstanding-indias-russian-oil-imports-surge-as-moscow-pushes-more-oil-overseas-9304385/

[5]APNews, (2018). India signs $5 billion deal for Russian air defense systems.APNews Available at: https://apnews.com/article/17e04a95f0454cd1aa7143318db85ec4

[x] TUSIP, (2024). The Limitations of India and Russia’s Transactional Relationship. US Institute of Peace (USIP). Available at: https://www.usip.org/publications/2024/02/limitations-india-and-russias-transactional-relationship

Last modified onجمعرات, 25 جولائی 2024 07:50

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک