بسم الله الرحمن الرحيم
مہنگی بجلی کا شرعی حل اس شعبے کو ملکیت عامہ قرار دینا ہے
خبر:
15 اگست کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں سینئر رہنماؤں کے پارٹی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے مرکز میں اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف اور پنجاب میں بیٹی مریم نواز کی حکومتوں کو ہدایت کی کہ وہ بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے مل کام کریں، جو پارٹی کی بحالی کے لیے ضروری ہے۔ [حوالہ ]
تبصرہ:
مہنگی بجلی پاکستان کے عوام اور معیشت کو تباہ کر رہی ہے۔ اس مسئلہ کا حل بجلی کے کارخانوں کے نجی مالکان سے گفت و شنید نہیں بلکہ بجلی کے شعبے کو ملکیت عامہ قرار دینا ہے۔ یہ مسئلہ اب ایک بڑا قومی مسئلہ بن چکا ہے۔ انتہائی مہنگی بجلی کے خلاف معاشرے کے تمام طبقات سراپا احتجاج ہیں۔ تاجر، صنعت کار اور کسان بجلی کی قیمت میں کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ اب وہ اتنی مہنگی بجلی استعمال کر کے منافع کمانے سے قاصر ہیں۔ مسئلہ اتنا سنگین ہے کہ موجودہ وزیر اعظم نے بھی اعتراف کیا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کے بغیر معیشت ترقی نہیں کر سکتی۔
یہ بات انتہائی حیران کن ہے کہ لوگ جو کچھ بھی بجلی کے بلوں کی مد میں ادا کرتے ہیں، اس کا دو تہائی حصہ انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز، جسے عرف عام میں آئی پی پیز کے نام سے جانا جاتا ہے، کو کیپیسٹی پیمنٹ کی ادائیگی میں جاتا ہے۔ کیپیسٹی پیمنٹ کی ادائیگی ایک ایسا چارج ہے جو ریاست کو کسی بھی آئی پی پی کو ادا کرنا پڑتا ہے، خواہ ریاست اس سے بجلی حاصل کرے یا نہیں ۔ ایسے بہت سے معاملات ہیں جہاں ریاست نے کسی مخصوص آئی پی پی سے ایک بھی یونٹ نہیں خریدا ہوتاہے، لیکن پھر بھی اس نے کیپیسٹی پیمنٹ کی ادائیگی میں اربوں روپے ادا کیے ہیں۔ لہٰذا اب زیادہ تر ماہرین اقتصادیات، توانائی کے ماہرین، تاجر، صنعت کار، کسان اور سیاست دان ریاست پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ بجلی کی قیمت کو کم کرنے کے لیے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر دوبارہ بات چیت کرے۔
تاہم، مہنگی بجلی کے مسئلے کو حل کرنے کا طریقہ آئی پی پیز کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کرنا نہیں ہے۔ اس مسئلے کی جڑ جمہوریت ہے جو سرمایہ داریت کو نافذ کرتی ہے۔ جمہوریت نے عالمی بینک کے حکم پر 1994 میں پاور پالیسی کو جنم دیا، جس نے نجی سرمایہ کاروں کو بجلی کے شعبے میں آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز)کے معاہدوں کے ذریعے داخل ہونے کا راستہ دیا۔ اِس وقت پاکستان میں 46 آئی پی پیز ہیں۔ اِن سے دوبارہ گفت و شنید مختصر مدت کے لیے بجلی کی قیمت میں کچھ کمی لانے کا باعث بن سکتی ہے۔ تاہم اس سے مہنگی بجلی کا مسئلہ مستقل طور پر حل نہیں ہوگا۔ بجلی کی پیداوار کی نجی ملکیت جاری رہے گی، کیونکہ سرمایہ داریت پاور سیکٹر میں ملکیت کی آزادی کو نافذ کرتی ہے۔ اس لیے جب تک جمہوریت رہے گی، سرمایہ داریت رہے گی، اور اسی طرح مہنگی بجلی کا مسئلہ بھی رہے گا۔
مہنگی بجلی کا حل صرف اسلام میں ہے۔ اسلام میں بجلی کا شعبہ ملکیت عامہ کے تحت آتا ہے یعنی معاشرہ بحیثیت مجموعی اس شعبے کامالک ہوتاہے۔ پورا معاشرہ بجلی یا اس کی فروخت سے حاصل ہونے والے منافع سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ کوئی بھی منافع معاشرے کی ضروریات پر خرچ کیا جاتا ہے۔ ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
«اَلْمُسْلِمُوْنَ شُرَكَاءُ فِي ثَلاَثٍ فِي الْكَلإِ وَالْمَاءِ وَالنَّارِ»
"مسلمان تین چیزوں میں شراکتدار ہیں؛ پانی، چراہ گاہیں اور آگ۔"(ابوداود نے روایت کی)۔
ابن ماجہ نے ابو ہریرہؓ سے روایت کی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،
«ثَلَاثٌ لَا يُمْنَعْنَ: الْمَاءُ وَالْكَلَأُ وَالنَّارُ»
"تین چیزیں ایسی ہیں جن سے کسی کو روکا نہیں جا سکتا: پانی، چراہ گاہیں اور آگ۔"
شمس الائمہ السرخسی (متوفی 483 ہجری)،جو ابتدائی حنفی علماء میں سے ایک ہیں، نے اپنی 'المبسوط' میں کہتے ہیں کہ،ولو استأجر بئرا شهرين ليسقي منها أرضه وغنمه لم يجز، وكذلك النهر والعين؛ لأن المقصود هو الماء وهو عين لا يجوز أن يتملك بعقد الإجارة، ولأن الماء أصل الإباحة ما لم يحرزه الإنسان بإنائه وهو مشترك بين الناس كافة قال صلى الله عليه و سلم «الناس شركاء في الثلاث في الماء والكلأ والنار» فالمستأجر فيه والآخر سواء؛ فلهذا لا يستوجب عليه أجر بسببه "اگر کوئی اپنی زمین کو سیراب کرنے اور اپنی بکریوں کو چرانے کے لیے دو ماہ کے لیے کنواں کرائے پر دے، تواُسے اِس کی اجازت نہیں ہوگی۔ یہی معاملہ دریاؤں اور چشموں کا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تمام صورتوں میں جس چیز پر معاہدہ کیا جا رہا ہے وہ پانی ہے، جو ایک ایسی شے ہے جس کی ملکیت اجارہ کے ذریعے حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ مزید یہ کہ پانی کا اصل حکم تمام لوگوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت ہے، اورکسی فرد کو اسے نجی طور پر محفوظ کرنے سے روکتا ہے۔ یہ تمام لوگوں کی مشترکہ ملکیت ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لوگ تین چیزوں میں شریک ہیں: پانی، چراہ گاہیں اور آگ۔ کرائے پر دینے والا اور دوسرا فریق اس میں شریک ہیں اور اس وجہ سے اُس پر اِس کی ادائیگی واجب نہیں ہے۔"
ایندھن اور بجلی، آگ سے متعلق شرعی حکم کے تحت آتے ہیں۔ بجلی عوامی املاک میں شامل ہے۔ کسی فرد، کمپنی یا حکومت کو ان کی ملکیت کی اجازت نہیں ہے۔ خلافت بجلی کی پیداوار اور تقسیم کار کمپنیوں کی نجی ملکیت کو ختم کرکے ان کو جانے والےمنافع کے سلسلے کو ختم کردے گی۔ خلافت بجلی کے شعبے سے حاصل ہونے والے منافع کو معاشرے کی ضروریات پر خرچ کرے گی۔ سیکولر جمہوری نظام کے تحت بجلی کے شعبے کے حوالے سے شرعی حکم کبھی نافذ نہیں ہوگا۔ حزب التحریر تمام مسلمانوں کو دعوت دیتی ہے کہ وہ نبوت کے نقش قدم پر خلافت کے تحت اسلامی شریعت کے مکمل نفاذ کی بحالی کے لیے ہماری کوششوں میں شامل ہوجائیں۔
ولایہ پاکستان سے شہزاد شیخ نے
حزب التحریر کےمرکزی میڈیا آفس کے لیے یہ مضمون لکھا۔