بسم الله الرحمن الرحيم
جنت ہمارے دلوں میں ہے
ہم میں سے ہر ایک کی خواہش ہے کہ اس کے پاس ایک عالی شان گھر ہو، آرام دہ گاڑی ہو، با اخلاق بچے ہو، جو اچھے گریڈز حاصل کریں اور وہ باقی بچوں سے بہتر کارکردگی دکھائیں۔ کیونکہ اس سب سے ہمیں خوشی ملتی ہےاور فخر کا احساس ہوتاہے۔ اپنے گھر کا آرام، اپنی گاڑی میں پرسکون سفر،اُس خوشگوار احساس کو جنم دیتا ہے کہ ہم نے زندگی میں کچھ حاصل کر لیا ہے۔ ساتھ ہی ہمارا نفس ہمیں ابھارتا ہے کہ مزید آرام دہ زندگی گزارنے کے لیے ہمیں اور زیادہ مادی وسائل کی ضرورت ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ گاڑی کی سہولت ہونے کی وجہ سے ہمیں تیزی سے سفر کرنے میں مدد ملتی ہے، اور اِس سے بھی بہتر گاڑی کا ہونا ہمارے سفر کو مزید پرلطف اور آرام دہ بنا دیتا ہے۔ یہ خواہشات حدسے تجاوز کرنے کے مترادف نہیں ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں کم سے کم معیار والی زندگی بسر کرنا ضروری نہیں ہے۔ خلافت اپنے شہریوں کے لیے کبھی ایسی زندگی نہیں چاہے گی۔ انسان کی زندگی کا مقصد بنیادی ضروریات کے لیے ایڑیاں رگڑتے تمام عمر گزار دینا ہرگز نہیں ہے۔بطور ریاست ہمیں دنیا میں سب سے ’’اعلیٰ معیار زندگی‘‘ کا حامل ہونا چاہیے۔ جوزندگی کے ہر پہلو میں باقی سب سے آگے ہو۔ ایک سہل زندگی ہرانسان کا حق ہے۔
ہم اپنے دلوں میں کیسےخیالات کو پیدا ہونے دے رہے ہیں؟ وہ کیا ہے جو ہمیں ان مادی چیزوں کی طرف کھینچ رہا ہے؟ وہ کیا ہے جو ہمیں اس بات پر قائل کرتا ہے کہ یوں آسائشوں کے پیچھے بھاگنا ٹھیک ہے؟ ہو سکتا ہےکہ مزید آسائشوں کے لیے چاہت کا ہونا اور کوشش کرنا ٹھیک ہو۔ لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے... کہ ان مادی آسائشوں کی حد کیا ہے، کب یہ ’کافی‘ ہو جاتی ہیں؟
جب یہ دنیا ہمارا مقصد حیات بننا شروع ہو جاتی ہے، تو یہ ہمیں ان چیزوں سے غافل کر دیتی ہے جو ہماری زندگی کو سکون اور اطمینان سے بھر دیتی ہیں... حقیقی اطمینان ، چاہے ہم کسی بھی حالت میں ہوں اور کچھ بھی کر رہے ہوں۔
ابن قیمؒ نے روایت کیا ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ، نے مجھ سے ایک بار فرمایا: ’’میرے دشمن میرا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟ میں کہیں بھی چلا جاؤں،میری جنت اور میرا باغ میرے دل میں ہیں، وہ میرے ساتھ ہوتے ہیں اور کبھی مجھ سے جدا نہیں ہوتے۔ اگر مجھے قید کر دیا جائے تو وہ عبادت کے لیے خلوت ہے۔ اگر مجھے قتل کر دیا جائے تو وہ شہادت ہے۔ اور اگر مجھے میرے وطن سے نکال دیا جائے تو وہ سیاحت ہے‘‘۔
ہم کیسے ایمان کے اس عظیم درجہ تک پہنچ سکتے ہیں؟ ہم کیسے اپنی جنت اپنے دل میں لیے گھوم سکتے ہیں؟... جبکہ ہمارے گھر میں ہی ابھی مسئلے چل رہے ہیں یا ہم پیدل چلتے رہنے پر مجبور ہیں کیونکہ ہماری گاڑی خراب ہو چکی ہے، یا شاید ہمارے پاس گاڑی ہی نہیں ہے؟ ہم اپنے دل میں جنت کیسے پا سکتے ہیں جبکہ ہمارا تعلق ایک ایسے معاشرے سے ہے جو قدم قدم پر ہمیں اپنی کم وقعتی اور محرومی کا احساس دلاتا ہے، ’استغفراللہ ‘۔ ہم اپنے دلوں میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کو کیسے راسخ کریں جب ہم واضح طور پر ان مادی آسائشوں کو ہی راحت کا باعث سمجھتے ہیں۔(اور یہی ان کی حقیقت ہے... ... یہ مادی چیزیں ہی تو ہیں)
ہمارا معاشرہ اور دنیا بھر میں تیزی سے پھیلتا ’اسٹریمنگ‘ کلچر اس زندگی میں ہمارے مقصد کو شعوری یا لاشعوری طور پر متاثر کر رہا ہے۔ مقابلے اور موازنہ کا رجحان اب عروج پر ہےاور یہی ہماری روزمرہ زندگی پر حاوی ہے۔ گھنٹوں موبائل کی سکرین پر انگلیاں گھماتے رہنا، ’مجھے یہ حاصل کرنا ہے ‘، ’مجھے اس کو درست کرنا ہے‘ کا خبط۔ اور ساتھ ہی ہمارے آس پاس کے لوگوں کے قصے، جو ہمیں جتاتے ہیں کہ انہوں نے یہ آسائشیں کیسے حاصل کیں ... ... اور آگے وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ہمیں یہ باور کرانے کے لیے گمراہ کیا جا رہا ہے کہ ہماری راحت ہمارے متوسط سے گھر یا گاڑی میں نہیں ہے۔ ہمیں حقیقت سے دور کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز عارضی ہے اور ایک لمحے میں بدل سکتی ہے... تب کیا؟ کیا ہم مایوسی میں ڈوب جائیں گے، کیونکہ ہم نے وہ چیزیں کھو دیں جو ہمیں راحت دیتی تھیں؟ کیا واقعی ہمارا سکون انہی چیزوں پر منحصر ہے؟ یہی وہ لمحہ ہے جب ہمیں سمجھنا ہے ہم کبھی سکون اور راحت حاصل کر ہی نہیں سکتے جب تک ہم ان اشیاء پر انحصار کیے بیٹھے ہیں۔ ہمیں اپنے دلوں سے ان اشیاء کے ساتھ بےجا لگاؤ ختم کرنے کی مسلسل کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنے بچوں کو بھی یہ سکھانا ہے۔ کہ ہاں، ہم بہتر سے بہترین کی کوشش کرتے ہیں، مگر جو اللہ نے ہمیں دیا ہے یا جو نہیں دیا، اس پر راضی رہتے ہیں۔ ہمیں یہ بات اپنے معاشرے میں بھی پھیلانی ہوگی، اور اس تاریکی کے گڑھےمیں روشنی کی کرن بننا ہوگا، جس میں ہم رسول اللہﷺ کی امانت یعنی خلافت کی تباہی کے بعد گرگئےہیں۔
صرف اسی صورت میں ہی ہمارے دل اس دنیا کی غلاظت سے پاک اور اللہ کے نور سے روشن ہوں گے۔ تب ہی ہماری جنت ہمارے دلوں میں رہے گی، چاہے دنیاوی حالات جیسےبھی ہوں، کیسا ہی نقصان ہمیں برداشت کرنا پڑا ہو۔ صرف تب ہی ہماری جنت ہمارے دلوں میں ہو گی۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے،
﴿اَلۡمَالُ وَ الۡبَـنُوۡنَ زِيۡنَةُ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَاۚ وَالۡبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيۡرٌ عِنۡدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيۡرٌ اَمَلاً﴾
’’مال اور بیٹے تو دنیا کی زندگی کی (رونق ) زینت ہیں۔ اور نیکیاں جو باقی رہنے والی ہیں وہ ثواب کے لحاظ سے تمہارے پروردگار کے ہاں بہت اچھی اور امید کے لحاظ سے بہت بہتر ہیں‘‘۔ (الکہف؛ 18:46)