بسم الله الرحمن الرحيم
خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) سے پاکستان کو پانچ خطرات درپیش ہیں
سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے نفاذ نے پاکستان کی معیشت کو تباہی سے دوچار کر دیا ہے۔ ان معاشی پالیسیوں نے پاکستان میں امت کے مصائب میں اضافہ کیا ہے۔ ان معاشی پالیسیوں کے نتائج نے کسی کو بھی نہیں بخشا، خواہ وہ معاشرے کا غریب،متوسط یا زیادہ آمدنی والا طبقہ ہو۔ قرضوں کے جال کی بگڑتی صورتحال اور سود کی ادائیگیوں نے پاکستان کی صنعتوں کو مفلوج کر دیا ہے، اور اس صورتحال نے بصارت سے محروم حکومتوں کو کمر توڑ ٹیکس لگانے پر مجبور کر دیا۔ اس طرح، پاکستان کی معیشت کو بیرونی اور ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے نچوڑا جا رہا ہے، اور ان قرضوں اور سود کی ادائیگی کے بعد اتنے وسائل ہی نہیں بچتے جو فوجی ضروریات اور غیر فوجی ضروریات جیسا کہ صحت، تعلیم اور غربت کے خاتمے جیسے اہم معاملات کے لیے استعمال ہو سکیں ۔اس وقت پاکستان کا قرض سے جی ڈی پی کا تناسب 72 فیصد ہے جو کہ بہت زیادہ ہے۔
معاشی وسائل کی کمی نے پاکستان میں حکومتی شعبے کو نظر ثانی پر مجبور کردیا ہے کہ وہ بجٹ میں رکھی گئی رقم کو تقسیم کرنے کی ترجیحات کو تبدیل کرے۔ یہ نظر ثانی باجوہ- عمران کے دور میں شروع ہوئی اور عاصم- شریف کے دورِ حکومت میں بھی جاری ہے۔ امریکی رہنمائی کے تحت، پاکستان کی نئی قومی سلامتی پالیسی (این ایس پی) نے فوجی سلامتی پر اقتصادی سلامتی کو ترجیح دی ہے۔ اس نئے نظریے کے تحت، پاکستان نے اپنے جیو اسٹریٹجک عزائم کو ترک کرنے اور خود کو جیو اکنامک دائرے تک محدود رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ یہ پالیسی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، غیر ملکی ترسیلات زر اور ڈالر کمانے کے لیے برآمدات میں اضافے کو ترجیح دیتی ہے، تاکہ جڑواں(بجٹ اور تجارتی) خسارے کے بحران سے بچا جا سکے اور ممکنہ ڈیفالٹ کو روکا جا سکے۔
این ایس پی (NSP) کے قیام کے بعد سے، فوج 'معاشی استحکام' کو آگے بڑھانے کے لیے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی ہوئی ہے، اور اللہ عزوجل کی راہ میں جہاد کے بنیادی عسکری مقصد سے دور ہو رہی ہے۔ اگرچہ ماضی میں فوجی قیادت نے ریئل اسٹیٹ سیکٹر سے لے کر زراعت تک اپنی معاشی سلطنت چلائی ہوئی ہے، لیکن نئی قومی سلامتی پالیسی(NSP)میں اس نےاپنے مینڈیٹ کو وسعت دی تاکہ معاشی سرگرمیوں کے پورے میدان کو شامل کیا جائے۔
تاریخی طور پر، معیشت کے حوالے سے سیاسی اور عسکری قیادتوں کی پالیسی میں بہت کم فرق رہا ہے۔ مالی وسائل کو کہاں استعمال کرنا ہے، ان پر کچھ اندرونی اختلاف کو چھوڑ کر ، اقتصادی پالیسی کا وسیع خاکہ فوجی اور سیاسی قیادتوں کے ادوار میں یکساں رہاہے۔ سویلین اور فوجی رہنما، دونوں ’واشنگٹن کے بعد کے اتفاق رائے‘(the post-Washington consensus)، استعماری مالیاتی اداروں، زیادہ ٹیکسوں اور نجکاری کی حمایت کرتے ہیں۔لہٰذا ان پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان کے عوام نے ہر دور اور ہر شعبے میں، اپنی دولت میں کمی اور معیار زندگی کو گرتے ہی دیکھا ہے۔
تاہم، اہم فرق جو حال ہی میں اقتصادی نظم و نسق کے معاملے میں سامنے آیا ہے وہ ایک نیا اتفاق رائے ہے: ہائبرڈ ماڈل۔ فیصلہ سازی کے اس ماڈل میں عسکری قیادت معاشی پالیسی سازی میں پیش پیش ہے جبکہ سیاسی قیادت انہیں سیاسی ڈھال فراہم کررہی ہے۔ اب سول اور فوجی قیادت ،دونوں اقتصادی فیصلے کرنے میں ایک ساتھ شریک ہیں۔
اس تناظر میں، خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل(SIFC)2023 میں عاصم -شریف حکومت کے آغاز میں بنائی گئی تھی۔ کونسل، جو اب ایک مکمل وزارت ہے، پانچ اہم شعبوں، توانائی، کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ہوا بازی اور زراعت میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے تشکیل دی گئی تھی۔ غیر ملکی سرمایہ کاری پر موجودہ توجہ قومی سلامتی پالیسی(NSP)سے نکلتی ہے جو عالمی سرمایہ کاروں کے ساتھ ترقیاتی شراکت داری کو ترجیح دیتی ہے۔ اب ایس آئی ایف سی کو اصل حکومت قرار دینا مبالغہ آرائی نہیں ہو گا، جہاں اہم وزراء اور بیوروکریٹس براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے اپنے منصوبے پیش کرتے ہیں اور پھر فوجی قیادت ان پر فیصلہ لیتی ہے۔
سیاسی نظریات اور سیاسی موقف کی اب بہت کم اہمیت رہ گئی ہیں۔ اس بات کا تعلق حکمران اتحاد، خصوصاً مسلم لیگ (ن)، کے ملکی سیاسی مفادات سے ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں کابینہ کے دو اہم وزراء اسحاق ڈار اور احسان اقبال کو معاشی فیصلہ سازی سے باہر رکھا گیا ہے۔ ان دونوں اشخاص کی اولین توجہ انتخابی مقاصد کے لیے عوام کو کچھ حد تک ریلیف فراہم کرنا رہی ہے، کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں انتخابات کے دوران لوگ انھیں ووٹ نہیں دیں گے۔ جنرل عاصم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ دونوں وزراء ایس آئی ایف سی کا حصہ نہیں بنیں گے ۔ انہوں نے اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ وزارت خزانہ مسلم لیگ (ن) کی پہنچ سے دور رہے ۔ عاصم- شریف حکومت کی ترجیح استعماری معاشی پروگرام اور سرمایہ کاری کی پالیسیوں کو بیک وقت نافذ کرنا ہے۔ اگرچہ حکمران دھڑے خوب مال کما رہے ہیں، لیکن پاکستان عالمی سرمایہ دار گدھوں پر انحصار کررہا ہے۔
عاصم- شریف حکومت نے پاکستان کےمعاشی مسئلہ کو ڈالر کی کمی یا ڈالر کے ذخائر میں کمی سے تعبیر کیا ہے۔ یہ حکومت بین الاقوامی قرض دہندگان سے سود ی قرضوں اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے ڈالر کمانا چاہتی ہے۔ لیکن اس حکمت عملی کے ذریعےحکومت ،پاکستان کو مزید قرضوں میں غرق کر رہی ہے، جبکہ مقامی معیشت پر غیر ملکی تسلط میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایس آئی ایف سی(SIFC)کی یہ حکمت عملی پاکستان کی اقتصادی خودمختاری کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ معدنیات، توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ہوا بازی اور زراعت مضبوط ریاست کے لیے ضروری شعبے ہیں۔ یہ شعبے، جہاں بہت زیادہ سرمایہ درکار ہوتا ہے، غیر ملکی سرمایہ کاروں کو فروخت کرنے کے لیے تیار ہیں، جبکہ ریاست کو لوگوں کے مفاد میں ان شعبوں کی نگرانی اور ترقی خود کرنی چاہیے۔ خلیجی ممالک پر حکمرانی کرنے والے مغرب کے ایجنٹس ان شعبوں میں دلچسپی کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں اور وہ ان شعبوں میں ملکیت کا کچھ فیصد حصہ خریدنا چاہتے ہیں۔
امریکی اسٹریٹجک ایجنڈے کی پیروی کے نتیجے میں پاکستان کے لیے اقتصادی میدان میں پانچ نمایاں خطرات پیدا ہو رہے ہیں:
سب سے پہلے، فوج کو بھارت سے دور رکھنا: پہلا خطرہ پاکستان کی مسلح افواج کا رخ بدلنا ہے۔ اپنے محل وقوع اور مضبوط فوج کی وجہ سے، پاکستان ہمیشہ سے خطے میں ایک اہم اسٹریٹجک کھلاڑی رہا ہے۔ تاہم، اب یہ مکمل طور پر براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اقتصادی تحفظ کو یقینی بنانے پر مرکوز ہے۔ اس کے لیے فطری طور پر سرحدوں پر امن کو برقرار رکھنا اور خطے میں ہندوستان کے علاقائی عزائم کو پاکستان کی جانب سے کسی قسم کا چیلنج نہ کرنا، ضروری ہے۔
دوم، یہودی وجود اور ہندو ریاست کے ساتھ معمول کے تعلقات کے قیام کے لیے راہ ہموار کرنا: سرمایہ کار تنازعات سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور منافع کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں۔ یہی وہ سوچ ہے جو پاک فوج کے اندر پروان چڑھ رہی ہے۔ سوچ یہ ہے کہ پاکستان کو کسی بھی ریاست کے ساتھ تصادم نہیں کرنا چاہیے، اسے ہر ایک سے سرمایہ کاری کو راغب کرنا چاہیے اور ملک کو کسی بھی بین الاقوامی کیمپ میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس ذہنیت کو فوج کی قیادت میں امریکہ نواز عناصر کی طرف سے آگے بڑھایا جا رہا ہے جس کا مقصد بھارت کے ساتھ دشمنی کو کم کرنا اور یہودی وجود کو تسلیم کرنے کی بنیاد بنانا ہے۔
تیسرا، فوج کی کارکردگی میں کمی آنا: فوج کے اندر پالیسی سازی کے اہم عہدوں کو نام نہاد معاشی ماہرین سے بھرا جا رہا ہے۔ایس آئی ایف سی (SIFC)خود فوجی افسران کے زیر انتظام ہے جن کا کام غیر ملکی سرمایہ کاری کو آسان بنانا ہے۔ اس سے فوج کی ترجیحات تقسیم ہو جاتی ہیں، اور اس کی جنگ لڑنے کی صلاحیت کمزور ہو جاتی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا اور شہادت کے حصول کے لیے اسلامی فکر کے بجائے فائدے اور نقصان کا اصول تیزی سے اہم فیصلوں کی بنیاد بنتا جا رہا ہے۔
چوتھا، عوام کے لیے بڑھتی ہوئی معاشی تکلیف: معاشی مشکلات سے دوچار امت کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے نتیجے میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے جھوٹے وعدے کیے جا رہے ہیں۔ حقیقت میں استعماری معاشی پروگرام نے مقامی صنعت کو تباہ کر دیا ہے اور ملک کو مزید قرضوں کے جال میں دھنسا دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری نے معیشت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ پاور سیکٹر میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری، بدنام زمانہ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز(IPPs)نے توانائی کے شعبے کو قرضوں میں غرق کر دیا ہے۔ یہی معاملہ چین پاکستان اقتصادی راہداری(CEPC) کا بھی ہے۔ایس آئی ایف سی بھی صرف اسی طرح کے مزید وعدے کررہا ہے۔
پانچویں، سٹریٹجک اثاثوں کی نجکاری: عاصم- شریف حکومت کےاقتصادی منصوبے کا مرکزی نقطہ اہم اثاثوں کی نجکاری کرنا ہے: معدنیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، زراعت، ہوا بازی اور توانائی کے شعبے۔ اگرچہ یہ توجہ کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن عسکری قیادت کی حمایت کے پیش نظر اس کے حصول کی طرف پیش قدمی مضبوط ہے۔ واضح معاشی نقصانات کے علاوہ، نجکاری کا منصوبہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ہماری خارجہ پالیسی پر بھی اثر انداز ہونے کے قابل بنائے گا۔
اے پاکستان کے مسلمانو اور اس کی مسلح افواج!
خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل(SIFC)ہماری غربت کو بڑھانے اور دشمنوں کے سامنے ہماری فوجی صلاحیتوں کو کم کرنے کا استعماری منصوبہ ہے۔ فوجی قیادت میں موجود امریکہ کے ایجنٹ ا س منصوبے پر جارحانہ عمل کر رہے ہیں۔ جہاد کو ترک کرنے سے ہماری ذلت اور رسوائی ہی بڑھے گی جب تک کہ ہم اپنے دین کی طرف نہ لوٹ جائیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،
إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ وَأَخَذْتُمْ بِأَذْنَابِ الْبَقَرِ وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ، وَتَرَكْتُمُ الْجِهَادَ سَلَّططَ اللهُ عَلَيْكُمْ ذُلًّا لَا يَنْزِعُهُ حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُم
" جب تم بیع عینہ(سود کی ایک شکل)کرنے لگو گے ، بیلوں کے دم تھام لو گے، کھیتی باڑی میں مست و مگن رہنے لگو گے، اور جہاد کو چھوڑ دو گے، تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط کر دے گا، جس سے تم اس وقت تک نجات و چھٹکارا نہ پا سکو گے جب تک اپنے دین کی طرف لوٹ نہ آؤ گے ۔"(ابو داود)۔
ہر ایک مسلمان کو مسلح افواج میں اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ خلافت راشدہ کے دوبارہ قیام کے لیے حزب التحریر کو اپنی نصرۃ فراہم کریں۔
ولایہ پاکستان سے محمد سلجوق
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیے تحریر کیا گیا
Latest from
- موجودہ سیاسی انتشار غداری اور ذلت کے تخت اور اپنے آپ کو...
- قابض فوج کے جانی نقصانات... فوجیوں میں معذوری، دماغی بیماریاں...
- غزہ کا مسئلہ استعمار کے آلہ کار نہیں...
- فلسطین اور غزہ کی آزادی کے لیے خلافت اور جہاد کے لیے وسیع سرگرمیاں
- اے مسلمان ممالک کی افواج! کیا تم میں کوئی صالح جواں مرد نہیں کہ وہ افواج کی قیادت کرے؟