الجمعة، 17 رجب 1446| 2025/01/17
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

ریاست کی حقیقت یہ ہے کہ وہ نظریاتی ریاست ہوتی ہے۔

 

خبر:

 

گزشتہ جمعہ کو فرانس نے شامی انتظامیہ کو نئے دستور کی تیاری میں مدد کی پیشکش کی۔ دمشق میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے فرانسیسی وزیر خارجہ جان نویل بارو نے کہا: "ہم نے شامی انتظامیہ کو نئے دستور کی تیاری کے عمل میں تکنیکی اور قانونی مدد کی پیشکش کی ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "ہم شامیوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے اور ان کے نئے مستقبل کی تشکیل میں ان کی مدد کریں گے۔"

 

 

تبصرہ:

 

شام کو نئے دستور کی تیاری میں مدد کی پیشکش کرتے ہوئے، فرانسیسی وزیر خارجہ نے "تکنیکی" کی اصطلاح پر زور دیا، تاکہ اس حقیقت سے توجہ ہٹائی جا سکے کہ دستور بنیادی طور پر ریاست کی شناخت کا اظہار کرتا ہے۔ اس طرح یہ اس معاشرے کی شناخت کا اظہار کرتا ہے جس پر یہ ریاست مبنی ہوتی ہے، اس لحاظ سے کہ ریاست معاشرے کی ثقافت، زندگی کے بارے میں اس کے نقطہ نظر، اور اس کے طرز زندگی کے لیے ایک تنفیذی وجود ہوتی ہے۔ وہ مغربی حلقوں کی جانب سے پھیلائے جانے والے اس جھوٹ کو دہرا رہے ہیں – اور ہمارے ملک میں کچھ مغرب زدہ مفکرین بھی اس میں شامل ہیں – کہ ایک کامیاب ریاست غیر نظریاتی ہوتی ہے۔ ان کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کو کسی خاص آئیڈیالوجی سے تعلق نہیں رکھنا چاہیے، یعنی اسے زندگی کے بارے میں کسی خاص نقطہ نظر کو اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ اسے ایک خالص انتظامی ادارہ ہونا چاہیے جو حکمرانی، قوانین کا نفاذ، اور لوگوں کے معاملات کی دیکھ بھال کسی بھی قسم کے افکار کی طرف توجہ دیئے بغیر کرے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مغرب میں وجود میں آنے والی جدید ریاست اسی قسم کی ہے، یعنی یہ کسی بھی قسم کی فکر سے تعلق نہیں رکھتی ہے۔

 

اس بات پر کم سے کم یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سراسر جھوٹ اور جعلسازی ہے۔ کوئی بھی حقیقی ریاست ایسی نہیں ہے جس کا زندگی کے بارے میں کوئی نقطہِ نظر اور اس نقطہِ نظر کے اظہار کے لیے کوئی ثقافت نہ ہو۔ حقیقی ریاست سے مراد وہ ریاست ہے جو ایک ایسے معاشرے نے قائم کی ہو جس کا طرز زندگی ہو۔ یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو ایک مخصوص ثقافت کے ذریعے وجود میں پایا ہے، جس پر لوگ اکٹھے ہوئے اور اپنی زندگیاں اسی کے مطابق ڈھالیں، تو وہ ایک خاص شناخت والا معاشرہ بن گئے، اور پھر انہوں نے ایک ایسی ریاست قائم کی جو اس ثقافت سے پیدا ہونے والے قوانین کے ذریعے ان کے معاملات کی دیکھ بھال کرے، چنانچہ ریاست معاشرے کی ثقافت اور طرز زندگی کے لیے ایک تنفیذی وجود بن گئی۔ اور وہ مغربی ریاستیں جنہیں وہ جدید ریاستیں کہتے ہیں، اس اصول سے بالکل بھی مستثنیٰ نہیں ہیں، بلکہ یہ اس اصول کی واضح تصویریں ہیں۔ یہ ریاستیں تقریباً ڈھائی صدیوں سے موجود اس ثقافت کے لیے ایک تنفیذی وجود ہیں جس کے ذریعے مغربی معاشر ے کی تشکیل ہوئی ہے، اور جس کا اظہار روشن خیالی کے فلسفیوں نے قرون وسطیٰ کی تہذیب کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے کیا تھا۔ یہ ثقافت مذہب کو زندگی، معاشرے اور ریاست سے الگ کرنے کے عقیدے پر قائم ہے، یعنی سیکولرازم کا عقیدہ، اور یہ ثقافت، زندگی کو مادی فائدے کے طور پر دیکھتی ہے، اور خوشی کو زیادہ سے زیادہ جسمانی لذتیں حاصل کرنا گردانتی ہے۔ زندگی سے متعلق اس تصور کی بنیاد پر، انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ریاست کا کام عام آزادیوں کی حفاظت کرنا ہے۔ اور انہوں نے معاشرے اور ریاست سے مذہب اور کلیسا کو الگ کرنے کو بنیاد بنا کر، ریاستی نظام کے لیے جمہوریت کے فلسفے کو اپنایا، جس کے بعد قانون سازی اور ریاست کے قوانین کے انتخاب صرف عوام کے لیے ہے، پس اس فلسفے کے مطابق عوام ہی حاکمیت کے مالک ہیں۔

 

جہاں تک اسلامی ریاست کا تعلق ہے، تو اس کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ یہ اسلامی زندگی کی ریاست ہے، یعنی ایک ایسے اسلامی معاشرے کی ریاست ہے جس نے زندگی کے بارے میں نقطہ نظر اور طرزِ زندگی کے طور پر اسلام کو قبول کر لیا ہے، اس بنیاد پر کہ وہ اللہ تعالیٰ کو خالق اور منتظم مانتے ہیں، یعنی اس بنیاد پر کہ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ مسلمانوں کے اس عقیدے نے ان کے لیے زندگی گزارنے کا ایک مخصوص طریقہ متعین کیا ہے جو دنیاوی زندگی اور اس سے پہلے اور اس سے بعد کے بارے میں اسلامی تصورات نے وضع کیا ہے، چنانچہ اس طرز زندگی کو مکمل کرنے کے لیے ایک ایسی ریاست کا قیام ضروری ہے جو اس معاشرے میں لوگوں کے معاملات کی دیکھ بھال ان قوانین کے ذریعے  کرے جو اُس عقیدے سے اخذ کیے گئے ہوں جس پر یہ معاشرہ خود قائم ہوا تھا۔ چنانچہ یہ ریاست اسلام کے لیے ایک تنفیذی وجود ہونی چاہیے، اس لحاظ سے کہ یہ ایک آئیڈیالوجی، نظام، تہذیب اور طرز زندگی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست، اسلامی عقیدے پر قائم ہونی چاہیے، اس لحاظ سے کہ ریاست اس معاشرے کے ارکان میں سے ایک رکن ہے جو خود اسلامی عقیدے پر قائم ہے۔

 

اس پوری بات کا خلاصہ، اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں بیان کیا ہے:

 

﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيماً﴾.

"پس، تمہارے پروردگار کی قسم! یہ اس وقت تک مومن نہیں ہوں گے جب تک کہ یہ اپنے جھگڑوں میں تمہیں فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر تمہارے فیصلے سے متعلق  اپنے دلوں میں  کوئی تنگی نہ پائیں اور اسے پوری طرح تسلیم کریں۔" (سورۃ النساء: آیت 65)

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیے لکھی گئی

احمد القصص

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے رکنایجنٹ کی جگہ پراکسی نے لے لی

Last modified onجمعرات, 16 جنوری 2025 21:15

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک