بسم الله الرحمن الرحيم
انسانیت اور سرمایہ دارانہ نظام کا جہنم
(ترجمہ)
انجینئر وسام العطرش کی تحریر
پہلی جنگ عظیم کے دوران انسانیت کو لرزا دینے والے تباہ کن واقعات اور اموات کے سلسلے کے بعد، اور خلافت کے زوال سے عین قبل، چیک (Czech) مصنف اور ڈرامہ نگار کیرل چاپیک (Karel Čapek (نے اپنا تھیٹر ڈرامہ آر۔یو۔آر۔ (Rossum’s Universal Robots, 1920) شائع کیا۔ اس ڈرامے میں آزاد منڈی کی معیشت اور بے قابو سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید کی گئی، ساتھ ہی اس کے انسانیت کے مستقبل پر ممکنہ طور پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے خبردار کیا گیا۔ چاپیک نے اپنی کہانی کے واقعات کے ذریعے ایک ایسے وقت کا تصور پیش کرتے ہوئے جہاں بے قابو سائنسی اور تکنیکی ترقی کے نتیجے میں ایسے روبوٹ وجود میں آئیں گے جن کی ذہنی اور عملی صلاحیتیں انسانوں سے بھی آگے بڑھ جائیں گی، بارہا انسانیت کے مستقبل کے بارے میں خبردار کیا۔ اس کے خیال میں، انسانیت کا مستقبل ایسی صنعتوں کے رحم و کرم پر ہوگا، جن کی نمائندگی روبوٹس کریں گے، اور جو بالآخر انسانیت کو مکمل طور پر نیست و نابود کرنے کی کوشش کریں گے۔
کیرل چاپیک وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے "روبوٹ" کی اصطلاح ایجاد کی، جس کا استعمال ایک فرضی مکینیکل انسان کے لیے کیا گیا۔ آج بھی بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ "روبوٹ" صرف ایک سائنسی اصطلاح ہے، لیکن حقیقت میں یہ لفظ چیک زبان کے لفظ "روبوتا" سے نکلا ہے، جس کا مطلب مشقت یا غلامی ہے۔ اپنے ڈرامے کے ذریعے، چاپیک نے سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے غیر انسانی اثرات پر تنقید کی، اور روبوٹ کو صنعتی ترقی اور ٹیکنالوجیکل پیشرفت کی استحصالی نوعیت کی علامت کے طور پر پیش کیا، جو صرف منافع کی خواہش سے چلائی جاتی ہے۔
چاپیک شاید یہ نہ جانتے ہوں کہ ان کی سائنسی تخیل کس حد تک مستقبل کی پیش گوئی میں درست ثابت ہوگی۔ ٹیکنالوجی کی صنعتوں نے اس حد تک ترقی کر لی ہے کہ روبوٹ، ڈرونز، اور مہلک ہتھیار قتل و غارت اور اجتماعی نسل کشی کے عمل کا حصہ بن چکے ہیں، جو فاشزم اور نازی ازم کی وہ ہولناکیاں بھی پیچھے چھوڑ چکے ہیں جنہیں ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں۔ یہ مظالم ایسے کرائے کے قاتل انجام دیتے ہیں جو خونریزی اور جسمانی اعضا کے ٹکڑے کرنے میں لذت محسوس کرتے ہیں، گویا کوئی جنگی کھیل کھیل رہے ہوں۔ دوسری جانب، سرمایہ دارانہ نظام انسانی تکالیف سے بالکل بے پروا ہے اور صرف روبوٹ بنانے کے حقوق محفوظ کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، جبکہ اپنے اقدامات کے اخلاقی پہلو کو مکمل طور پر نظرانداز کر چکا ہے۔
چیک ناول نگار کارل چاپیک نے نہ تو دوسری جنگ عظیم کی ہولناکیاں دیکھیں، نہ ہی ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی بمباری کے مناظر، اور نہ ہی بیسویں اور اکیسویں صدی کے بے شمار جھوٹے دعووں پر شروع کی جانے والی جنگوں، تنازعات، اور تباہ کن جھگڑوں کا مشاہدہ کیا۔ ان میں عراق اور افغانستان کی جنگیں بھی شامل تھیں، جو امریکی اور مغربی غلبے کو یقینی بنانے اور سرمایہ دارانہ تہذیب کی انسانیت پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے لڑی گئیں۔ ان جنگوں نے قوموں کے وسائل کی بے رحمانہ لوٹ مار کی اجازت دی، اور یہ سب کچھ انصاف، مساوات، اور خودمختاری کے پردے میں کیا گیا۔ آج اگر چاپیک زندہ ہوتے تو وہ اس سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں کیا کہتے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ بے رحم اور جابرانہ بنتا جا رہا ہے، جو انسانیت کے وجود، اس کی اصل، اور عزت و وقار کے ہر تصور کا دشمن بن چکا ہے، اور جو لوگوں کو ان کے امن، صحت اور بقا سے محروم کر رہا ہے؟ جبکہ اب تک روس-یوکرین جنگ اور کووڈ-19 وبا کے واقعات ابھی ہماری یادداشت سے محو نہیں ہوئے ہیں۔
امریکی مصنف جان بیلامی فوسٹر اپنی کتاب "دی گریٹ فنانشل کرائسز: کازز اینڈ کونسیکوئنسز (The Great Financial Crisis: Causes and Consequences)" میں لکھتے ہیں: "سرمایہ دارانہ نظام، اس نظریے کے مطابق، فطری طور پر مکمل روزگار اور تیز رفتار ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوتا بلکہ طویل مدت تک، یا ممکنہ طور پر ہمیشہ کے لیے، سست رفتار ترقی، بلند بے روزگاری یا جزوی روزگاری، اور زائد پیداوار کی کیفیت—یعنی جمود—کا شکار رہ سکتا ہے... (صفحہ 13) ...موجودہ نظام کے تحت، حالیہ تاریخ کے اس مرحلے پر اور موجودہ عدم مساوات کی ساخت کے ساتھ، پیداواری سرمایہ کاری میں وہ اضافی سرمایہ جذب کرنے کا کوئی امکان نہیں جو مالیاتی بحرانوں کو جنم دیتا ہے...(صفحہ 21) ...پھر بھی، سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ 1987 کے اسٹاک مارکیٹ کریش کے بعد کے دو عشروں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مدت کے بڑے مالیاتی بحرانوں نے امریکی معیشت میں قرض سے جی ڈی پی کے تناسب کی طویل مدتی بڑھوتری کو روکنے میں بہت کم اثر ڈالا، جو کہ مختصر رکاؤٹوں کے بعد بھی مسلسل بڑھتا رہا ہے۔ (صفحہ 73)"۔
سرمایہ دار مغرب طویل عرصے سے، اور آج بھی، مجموعی طور پر انسانیت اور خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف جرائم میں شریک رہا ہے، اور اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ اگر مغربی تہذیب زوال پذیر ہوتی ہے تو اسلام اس کا فطری جانشین ہوگا۔ وہی مغرب، جو انسانی حقوق کا دعویدار ہے، بوسنیا، چیچنیا، عراق، افغانستان، لیبیا، سوڈان، یمن، شام، لبنان اور دیگر مقامات پر مسلمانوں کا خون بہانے میں شریک رہا ہے۔
جہاں تک فلسطین کی بابرکت سرزمین کا تعلق ہے، وہ دہائیوں سے ان ظلم و ستم کا بوجھ اٹھا رہی ہے۔ مغرب نے سب سے ناپاک لوگوں کو طاقت دی، جو انبیاء (علیہم السلام) کے قاتل ہیں، اور انہیں سب سے مہلک ہتھیاروں سے مسلح کیا۔ ان کے ارد گرد غدار حکومتوں کو بٹھا کر، انہوں نے نسل کشی کی مہمات کا آغاز کیا، جو پچھتر (75) سال سے زیادہ عرصے سے جاری ہیں، اور اب غزہ پر تباہ کن جنگ کی صورت میں اس کا عروج ہے۔
اس طرح، غزہ وہ مقام بن گیا جہاں تمام جھوٹے مغربی نعروں کے ٹکڑے بکھر گئے، اور "طوفان الاقصیٰ" آپریشن نے ایک تاریخی لمحے کو اجاگر کیا جس نے سرمایہ دارانہ تہذیب کو ایک زبردست دھچکا پہنچایا۔ اس صورتحال نے خود مغربی معاشروں میں بھی ایک ثقافتی جھٹکا پیدا کر دیا، جو مغرب کے بڑے دارالحکومتوں میں عوامی احتجاج کی صورت میں ظاہر ہوا، اور ایسا گہرا عدم اطمینان پیدا ہوا جسے کوئی سطحی سیاسی چالاکیاں مٹا نہیں سکتی۔
آج، سرمایہ دارانہ مغرب تمام نمایاں حقوق کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی سیاسی منافقت اور علانیہ صلیبی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کی اخلاقی اور نظریاتی زوال، تمام اقسام کی انحرافات کی حمایت، اس کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی بحرانوں کا تسلسل، اور اس کے بدصورت چہرے کا ہر صاحبِ عقل کے سامنے بے نقاب ہونا شامل ہیں۔ یہ بات سب پر واضح ہو چکی ہے کہ دہشت گردی ایک مکمل طور پر مغربی تخلیق ہے اور استعماری جنگوں کی تیاری نہ صرف سرمایہ دارانہ نظریہ کو پھیلانے کا ایک طریقہ ہے بلکہ اس کا بنیادی جزو ہے، جو "مؤثر ترین کی بقا "( urvival of the fittests (کے اصول پر مبنی ہے۔
تاہم، مالی اور تجارتی سرمایہ داروں، اور ہتھیاروں کے تاجروں کے ذہنوں پر چھائے ہوئے تکبر اور عظمت کے خبط، جو اس وحشی سرمایہ دارانہ دنیا پر قابض ہیں اور جن کی قیادت امریکہ کر رہا ہے، ان سچائیوں کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ جب تک فوجی برتری اور اقتصادی غلبہ ان خونخوار انسانی شکاریوں کے ہاتھوں میں رہے گا، جو دولت پر اجارہ داری رکھتے ہیں، انسانیت ان استحصالی نظاموں اور قوانین کے تحت تکلیف اٹھاتی رہے گی جو صرف مادی فائدہ حاصل کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ یہ جدید غلامی کی سب سے بدترین اور بدنما شکل ہے، جو فریب اور ادارہ جاتی استحصال پر مبنی ہے، جہاں جدید آلات اور ٹیکنالوجیز جبلتوں کو قابو کرتی ہیں، جبکہ دوسری جانب مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس کی تعریف کی جاتی ہے۔
یوں، ٹرمپ اور مسک کے درمیان اتحاد عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے رہنماؤں کی جو تکبر اور خود پسندی کی فطری حالت ہے، کی عکاسی کرتا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی طاقت جدید ترین ٹیکنالوجیز سے مسلح ہو کر انسانیت، قوموں، گروپوں اور افراد کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہے، اپنے طرز زندگی، خیالات اور زندگی گزارنے کے طریقوں کو مسلط کرتی ہے۔ یہ کنٹرول طاقتوروں کے مفاد میں دوسروں کے وسائل، دولت، اور یہاں تک کہ ذاتی معلومات لوٹنے تک پھیلا ہوا ہے۔ زندگی کی ضروریات اور روزگار "ڈونرز" کے ہاتھوں میں ڈال دی جاتی ہیں، جو پہلے تباہی پھیلاتے ہیں اور بعد میں تعمیر نو سے منافع کماتے ہیں۔ طاقتور ریاستوں اور کارپوریشنز کے مابین یہ اتحاد ایسی سطح پر پہنچ چکا ہے جہاں وہ اپنی برتری اور خدائی کے زعم میں "کمزوروں" کے ردعمل کو یکسر نظرانداز کرتے ہیں۔ یہی وہ ذہنیت تھی جس نے ٹرمپ کو مشرق وسطیٰ میں انتشار کی دھمکی دینے کی جرات دی، اگر غزہ کے یرغمالیوں کو آزاد نہ کیا گیا۔
ٹرمپ، جو آزادی اور جھوٹے بیانات کے نقاب میں آمریت کو چھپائے ہوئے ہے، نے یورپی سرمایہ داری نظام میں جمہوریت کے تحفظ کے بہانے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ تاہم، یہ ایک انحطاط پذیر عالمی نظام کے لیے فطری حالت ہے، جو ایک مضبوط ریاست کے اُٹھنے کا منتظر ہے جو ایک بلند اصول پر قائم ہو، جو اس فرسودہ نظام کو اکھاڑ پھینکے اور انسانیت کو اس کے ظلم سے آزاد کرائے۔ یہ کردار اسلامی ریاست کا ہے، جس کے ذریعے مسلم اُمت پر فرض ہے کہ وہ انصاف اور امن کو بحال کرے۔
صرف ایسی تبدیلی کے ذریعے ہی انسانیت کو سرمایہ دارانہ نظام کے دوزخ سے بچایا جا سکتا ہے، اور خلافت کے زیرِ سایہ گزشتہ صدیوں کی عظمت دوبارہ حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ وہی نظام تھا جس کے تحت تخلیق کاروں، جیسے کہ سائنسدان اور انجینئر بدیع الزمان ابو العز بن اسماعیل بن الرزاز الجزری نے شام میں ترقی کی، جبکہ یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ الجزری نے پہلی بار ایک پروگرامایبل (programmable) روبوٹ ڈیزائن کیا تھا، جو ایک مخصوص کام کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ جب آرتقید امیر نے ان سے اپنے وضو کے لیے ایک ایسا آلہ بنانے کی درخواست کی جو خادموں کی جگہ لے سکے، تو الجزری نے ایک انسان نما مشین ڈیزائن کی: ایک مجسمہ جس کے ہاتھ میں پانی کا برتن تھا اور دوسرے ہاتھ میں تولیہ تھا، اور اس کے عمامے پر ایک پرندہ بیٹھا ہوا تھا۔ نماز کے وقت، وہ پرندہ چہچھاتا، جس سے روبوٹ امیر کے قریب آتا اور برتن سے پانی ان کے ہاتھ میں ڈال دیتا۔ جب امیر اپنا وضو مکمل کر لیتا، تو روبوٹ تولیہ پکڑ کر اسے تھما دیتا، پھر واپس اپنی جگہ پر چلا جاتا اور پرندہ خوشی سے چہچھاتا رہتا۔