الخميس، 30 رجب 1446| 2025/01/30
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

اے نوجوانانِ اسلام!

ہم تمہیں دنیا اور آخرت کی بھلائی کی طرف بلاتے ہیں، تو کیا کوئی لبیک کہنے والا ہے؟

 

تحریر: استاد عبدالخالق عبدون علی

 

نوجوان معاشرے کا ستون ہوتے ہیں، ان سے معاشرہ مضبوط ہوتا ہے اور قائم رہتا ہے، اور ان کے بغیر کمزور اور زوال پذیر ہو جاتا ہے۔ قومیں اور ملتیں اپنے نوجوانوں کے بازوؤں سے کھڑی ہوتی ہیں۔ ہر دور میں نوجوان ہی تبدیلی کے علمبردار اور اس کے پرچم اور جھنڈے اٹھانے والے ہوتے ہیں، اور اس کی قیادت کرنے والے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس توانائی، قوت اور جوش ہوتا ہے جو انہیں اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنی محنت، کوششوں، عزم اور صبر کے ذریعے امت کے لیے پختہ ثمرات پیش کریں۔ بشرطیکہ وہ اس صحیح راستے پر چلیں جو ہمارے نبی ﷺ نے ان کے لیے وضع کیا ہے۔ وہ حال کی قوت اور مستقبل کی امید ہیں، امت کے لیے ڈھال ہیں، اور تاریخی موڑ پر برتری کی تلوار ہیں اور ایک ایسی متحرک قوت ہیں جس سے چستی اور زندگی پھوٹتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے نوجوانوں پر توجہ دی اور انہیں مختلف شعبوں کے ان مشکل کاموں میں شامل کیا جن پر اسلامی ریاست کی تعمیر  ہوئی، بلکہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں شامل کیا۔ وہ ابتدائی دعوت میں سب سے زیادہ تعداد میں آپ ﷺ کے ساتھ کھڑے رہے، پس انہوں نے آپ ﷺ کی تائید کی، مدد کی اور اسلام کو پھیلایا اور اس راہ میں مصائب برداشت کیے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:

 

(ما آتى الله عز وجل عبدا علما إلا شابا، والخير كله في الشباب)

"اللہ عزوجل نے کسی بندے کو علم نہیں دیا مگر جوانی میں، اور تمام بھلائی جوانی میں ہے"۔

 

پھر انہوں نے اللہ عزوجل کا یہ قول تلاوت کیا:

 

﴿قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ﴾

"انہوں نے کہا ہم نے ایک نوجوان کو ان کا ذکر کرتے ہوئے سنا جسے ابراہیم کہا جاتا ہے" (سورۃ الانبیاء : آیت 60)

 

اور اللہ تعالی کا یہ قول:

 

﴿إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هدًى﴾

"بے شک وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کیا" (سورۃ الکہف: آیت 13)

 

میں ان نوجوانوں کے چند نمونوں پر اکتفا کروں گا جنہوں نے نبوت کے چشمے سے سیرابی حاصل کی جن کی پہچان ایمان اور عمل تھا

 

﴿إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هدًى﴾

"بے شک وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کیا" (سورۃ الکہف: آیت 13)

 

نوجوانوں نے اسلام کا دفاع انتہائی مشکل، نازک اور پیچیدہ حالات میں کیا، اور اپنی جانیں اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے ہجرت سے پہلے اور بعد میں قربان کر دیں۔

 

ان مواقع میں سے جو تاریخ نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے حوالے سے محفوظ کیے ہیں، جب وہ بیس سال کی عمر کے نوجوان تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے مدینہ ہجرت کرنے کا ارادہ کیا تاکہ وہ ریاست قائم کریں جس نے بعد میں دنیا پر حکومت کی، تو انہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنے بستر پر چھوڑا، اور اس نوجوان نے، جس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور رسول اللہ ﷺ کی زیر نگرانی پرورش پائی، اس فدائی مشن کو انجام دینے میں ایک لمحہ بھی تردد نہیں کیا جس کی خطرناکی کا اسے اندازہ تھا، لیکن فرض ہر چیز سے بالاتر ہے۔

 

دوسری طرف رسول اللہ ﷺ سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ جیسے نوجوان سے مدد لیتے ہیں اور انہیں ایک انتہائی مشکل اور حساس ذمہ داری سونپتے ہیں، جسے انہوں نے پوری کامیابی کے ساتھ سرانجام دیا۔ بارہویں نبوی سال میں اوس اور خزرج قبائل کے وفود مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ آئے اور انہوں نے بیعت عقبہ اولیٰ میں رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی، تو نبی کریم ﷺ نے مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو ان کے ساتھ بھیجا، اور انہیں حکم دیا کہ انہیں قرآن پڑھائیں، اسلام کی تعلیم دیں، اور ان میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا کریں، اور انہیں مدینہ میں قاری کہا جاتا تھا۔ ابن الاثیر نے "اسد الغابہ" میں کہا ہے:

 

(هاجر مصعب بن عمير إلى المدينة بعد العقبة الأولى، ليعلم الناس القرآن ويصلي بهم)

"مصعب بن عمیر نے بیعت عقبہ اولیٰ کے بعد مدینہ ہجرت کی تاکہ لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیں اور ان کو نماز پڑھائیں۔"

 

مصعب رضی اللہ عنہ انصار کے گھروں میں جاتے اور انہیں اسلام کی دعوت دیتے، یہاں تک کہ ایک ایک، دو دو لوگ اسلام قبول کرتے چلے گئے، اور انہوں نے مدینہ منورہ میں اسلام پھیلانے میں بڑی کامیابی حاصل کی، اور ان کے ہاتھوں پر بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا، جن میں تین انصار کے ائمہ اور سردار اور علمبردار عباد بن بشر، اسید بن حضیر اور سعد بن معاذ شامل ہیں۔ ان کے اسلام لانے سے ایک ہی دن میں بنی عبدالاشہل کے زیادہ تر مرد اور خواتین مسلمان ہوگئے۔ مصعب رضی اللہ عنہ تقریباً ایک سال مدینہ منورہ میں لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے رہے اور انہیں ان کے دین کی تعلیم دیتے رہے، پھر وہ نبی کریم ﷺ کے پاس لوٹے اور انہیں اس چیز کی خوشخبری سنائی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے کھولی تھی۔ تو رسول اللہ ﷺ، ان کی واپسی پر اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کے ذریعے کی جانے والی فتح پر بہت خوش ہوئے۔

 

اے نوجوانانِ اسلام: سر تا پیر خیر والے مصعب کے مقابلے میں تم کہاں ہو اور اسلام کے لیے کام کرنے، اس کے دین کو عزت دینے، اور اس کے پرچم کو بلند کرنے کے معاملے میں تم کہاں ہو تاکہ اللہ کا دین غالب ہو اور اسے تمام ادیان پر فوقیت حاصل ہو۔

 

﴿هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْـمُشْرِكُونَ﴾

"وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو" (سورۃ الصف: آیت 09)

 

پس کمر کس لو اور اپنے آپ سے اللہ کو خیر دکھاؤ اور اس باخبر گروہ میں شامل ہو جاؤ جو رات دن اسلام کو زمینی حقیقت میں قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے، نبوت کے نقشِ قدم پر قائم خلافت راشدہ ثانیہ کو قائم کر کے۔

 

کیونکہ اس کے بغیر تمہارے لیے نہ کوئی عزت ہے نہ بلندی، کیونکہ یہی تجارت اور صنعت ہے، یہی عزت و منزلت ہے، یہی دین و دنیا کی محافظ ہے، یہی اصل ہے یہی پناہ گاہ ہے، اسی سے احکام قائم ہوتے ہیں، حدود نافذ ہوتے ہیں، فتوحات حاصل ہوتی ہیں، اور سر حق کے ساتھ بلند ہوتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو یہود کے وجود کا خاتمہ کردے گی اور اسے قصہ پارینہ بنا دے گی اور فلسطین کو مکمل طور پر دار الاسلام میں واپس لائے گی، اور تمام اسلامی ممالک کو اپنی اصل میں اور اپنی پناہ گاہ میں واپس لائے گی۔ یہی وہ چیز ہے جو ممالک اور بندوں کو کفر اور اس کے کارندوں کے اثر و رسوخ، اس کے ظلم اور اس کے حواریوں سے آزاد کرائے گی، اور یہ عدل و خیر کو پھیلائے گی، اسلام اور مسلمانوں کو عزت دے گی، ظلم و شر کی جڑ کاٹ دے گی، اور کفر اور کافروں کو ذلیل کرے گی۔

 

خلیفہ کو نصب نہ کرنے اور اس کی بیعت کے لیے کام نہ کرنے والے کے لیے کیا 104 سال گناہ میں مبتلا رہنا کافی نہیں ہے کہ اب وہ توبہ کر لے اور کام کرنے والوں کے ساتھ کام کرے؟ کیا رسول اللہ ﷺ نے نہیں فرمایا: «وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً»  "اور جو شخص اس حال میں مر جائے کہ اس کی گردن میں بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا"؟ پھر

 

﴿أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ﴾

"کیا ایمان والوں کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر اور اس حق سے جو نازل ہوا ہے، نرم پڑ جائیں؟" (سورۃ الحدید: آیت 16)

 

مسلمانوں کے لیے خلیفہ قائم کرنے سے پیچھے ہٹ جا جانا سب سے بڑے گناہوں میں سے ہے؛ کیونکہ یہ اسلام کے سب سے اہم فرائض میں سے ایک کی ادائیگی سے گریز کرنا ہے، جس پر دین کے احکام کا قیام موقوف ہے، بلکہ زندگی کے میدان میں اسلام کا وجود موقوف ہے۔

 

اے امت کے نوجوانو اور اس کا پرچم اٹھانے والو: اپنے آپ سے اللہ کو خیر دکھاؤ اور فرائض کے تاج یعنی خلافت کے قیام کے لیے سنجیدہ کوششیں کر کے اس کی رضا کی طرف دوڑو، کیونکہ اللہ تم سے سوال کرے گا۔ جامع ترمذی میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

 

«لَا تَزُولُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ: عَنْ عُمُرِهِ فِيمَ أَفْنَاهُ، وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَ أَبْلَاهُ، وَمَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ، وَفِيمَ أَنْفَقَهُ، وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ»

"قیامت کے دن ابن آدم کا قدم اپنے رب کے سامنے سے اس وقت تک نہیں ہٹے گا جب تک اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں نہ پوچھا جائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اس نے کس چیز میں فنا کی، اس کی جوانی کے بارے میں کہ اس نے کس چیز میں گزاری، اس کے مال کے بارے میں کہ اس نے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، اور اس نے اپنے علم کے ساتھ کیا عمل کیا۔"

 

ولایہ سوڈان میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے رکن

Last modified onمنگل, 28 جنوری 2025 22:29

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک