بسم الله الرحمن الرحيم
تاریخ کو اس کے درست مقام پر رکھنا
خلیل مصعب، ولایہ پاکستان
ابن خلدون رحمہ اللہ نے اپنی تصنیف "مقدمہ" میں تاریخ کی اہمیت کے بارے میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
(فإن فن التاريخ من الفنون التي تتداوله الأمم والأجيال ... وتؤدي لنا شأن الخليقة كيف تقلبت بها الأحوال واتسع للدول فيها النطاق والمجال وعمروا الأرض حتى نادى بهم الارتحال وحان منهم الزوال)
"تاریخ کا فن ان فنون میں سے ہے جو اقوام و امم ہاتھوں ہاتھ لیتی ہیں... تاریخ ہمارے سامنے دنیا کا حال رکھتی ہے، حالات کس طرح بدلتے رہے اور مختلف ریاستوں کا دائرہ اور میدان کیسے پھیلتا گیا، انہوں نے زمین کو آباد کیا یہاں تک کہ ان کے کوچ کرنے کا نقارہ بج گیا اور ان کا زوال آ گیا"۔
تاریخ کا مطالعہ لوگوں کے بارے میں گہری سمجھ بوجھ فراہم کرتا ہے، کہ وہ کس طرح خود کو منظم کرتے تھے اور اپنے امور کو سنبھالتے تھے۔ ابن خلدون رحمہ اللہ آگے لکھتے ہیں:
( وفي باطنه نظر وتحقيق وتعليل للكائنات ومبادئها دقيق وعلم بكيفيات الوقائع وأسبابها عميق فهو لذلك أصيل في الحكمة عريق وجدير بأن يعد في علومها وخليق وإن فحول المؤرخين في الإسلام قد استوعبوا أخبار الأيام وجمعوها وسطروها في صفحات الدفاتر)
"تاریخ کے اندر تحقیق و جائزہ بھی ہے اور کائنات کے اسباب و مبادی کا علم بھی، اور واقعات کی نوعیت اور ان کے اسباب کے بارے میں گہرا علم بھی۔ اس لیے تاریخ اپنی حکمت میں مستند، گہری بنیادوں پر قائم، اور علوم میں شمار ہونے کے لائق ہے۔ اسلام کے عظیم مؤرخین نے اپنے ادوار کے واقعات کی چھان بین کی، انہیں جمع کیا اور انہیں کتب کے صفحات پر تحریر کر لیا"
ابن خلدون نظریاتی مؤرخین کو ایک بصیرت فراہم کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
(أن التاريخ إنما هو ذكر الأخبار الخاصة بعصر أو جيل فأما ذكر الأحوال الملمة للآفاق والأجيال والأعصار فهو أس للمؤرخ تنبني عليه أكثر مقاصده وتتبين به أخباره)
"تاریخ صرف کسی خاص دور یا نسل کی مخصوص خبروں کا تذکرہ نہیں کرتی، بلکہ جہاں تک وسیع تر حالات، نسلوں اور ادوار کا تعلق ہے، یہ مؤرخ کا بنیادی حوالہ بن جاتی ہے، جس پر اس کے بیشتر مقاصد تعمیر ہوتے ہیں اور جس کے ذریعے اس کی خبروں میں وضاحت آتی ہیں"۔
ابن خلدون مزید بیان کرتے ہیں:
(كانت حقيقة التاريخ أنه خبر عن الاجتماع الإنساني الذي هو عمران العالم وما يعرض لطبيعة ذلك العمران من الأحوال مثل التوحش والتأنس والعصبيات وأصناف التغلبات للبشر بعضهم على بعض وما ينشأ عن ذلك من الملك والدول ومراتبها وما ينتحله البشر بأعمالهم ومساعيهم من الكسب والمعاش والعلوم والصنائع وسائر ما يحدث من ذلك العمران بطبيعته من الأحوال)
"تاریخ کی حقیقت یہ ہے کہ یہ انسانی معاشرے کی خبر دیتی ہے، جو دنیا کی تہذیب کا عکس ہیں، اور جو کچھ اس تہذیب کی فطرت کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے، جیسے وحشت، مانوسیت، گروہی تعلقات، اور انسانوں کا ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کے مختلف طریقے۔ اس کے نتیجے میں بادشاہتیں، ریاستیں، اور ان کے مختلف طبقے وجود میں آتے ہیں۔ نیز، جو کچھ انسان اپنے کاموں اور کوششوں کے ذریعے حاصل کرتے ہیں، جیسے روزی، علوم، صنعتیں، اور دیگر تمام حالات جو اس تہذیب کی فطرت سے پیدا ہوتے ہیں"۔
ماضی سے بالکل سبق حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کی تصدیق قرآن مجید میں ہوتی ہے، جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلُ ۚ كَانَ أَكْثَرُهُم مُّشْرِكِينَ﴾
"کہہ دو (اے نبی)، زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ تم سے پہلے گزرنے والوں کا کیا انجام ہوا - ان میں سے زیادہ تر مشرک تھے" (سورۃ الروم؛ 30:42)۔
تاہم، بعض اوقات لوگ تاریخ کا غلط استعمال کرتے ہیں تاکہ اپنی نامناسب یا قابل مذمت حرکات کو جواز فراہم کر سکیں۔ ابن خلدون رحمۃ اللہ علیہ اس حوالے سے فرماتے ہیں:
(وفي كتب المؤرخين معروفة وإنما يبعث على وضعها الحديث بها الانهماك في اللذات المحرمة وهتك قناع المخدرات ويتعللون بالتأسي بالقوم فيما يأتونه من طاعة لذاتهم فلذلك تراهم كثيرا ما يلهجون بأشباه هذه الأخبار وينقرون عنها عند تصفحهم الأوراق الدواوين ولو ائتسوا بهم في غير هذا من أحوالهم وصفات الكمال اللائقة بهم المشهورة عنهم لكان خيرا لهم لو كانوا يعلمون)
"مؤرخین کی کتب سے یہ بات ظاہر ہے کہ یہ باتیں لکھنے پر انہیں جو چیز آمادہ کرتی ہے وہ ممنوعہ لذتوں میں ان کی مشغولیت اور پردۂ راز کو بے نقاب کرنے کی خواہش ہے۔ وہ دوسروں کی تقلید کا جواز پیش کر کے اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔ اس لیے آپ دیکھتے ہیں کہ وہ اکثر ایسی کہانیوں کو ہی دہراتے رہتے ہیں اور تاریخ کے ورق پلٹتے وقت بھی انہی کو تلاش کرتے ہیں۔ اگر وہ دوسروں کی تقلید میں ان کے دیگر حالات اور ان کی خوبیوں کی پیروی کرتے، جو ان کے لائق اور ان کے متعلق مشہور تھیں، تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا، اگر وہ جانتے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے،
﴿لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم﴾
"تو یہ ان کے لئے بہتر ہوتا" (آل عمران؛ 3:110)۔
مزید ارشاد ہے،
﴿لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ﴾
"اگر انہیں معلوم ہوتا" (البقرۃ؛ 2:102)۔
لہٰذا، تاریخ کو اس کے صحیح مقام پر رکھنا ضروری ہے۔ بحیثیت مؤمن، ہم ایمان رکھتے ہیں کہ احکام اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ ہمارے اعمال کی بنیاد شریعت کے احکام ہیں۔ جب کسی عمل کا جائز ہونا طے پا جاتا ہے، تو اس عمل کو انجام دینے کے اسلوب مختلف ہو سکتے ہیں۔ بہترین حکمت عملی طے کرنے کے لیے تاریخ سے رہنمائی لی جا سکتی ہے۔
مثال کے طور پر، جب عثمانیوں نے بلقان میں اپنی سرحدوں کو وسیع کیا، تو کئی غیر مسلم گروہ ان کے زیرِ اقتدار آئے۔ ان گروہوں کو مؤثر طریقے سے منظم کرنے کے لیے، انہوں نے "میثاقِ حضرت عمر" کو ایک نظیر کے طور پر استعمال کیا۔
مذہبی علوم کی ایک تحقیق کار، کارن بارکی کے مقالے "The Ottoman Millet System: Non-Territorial Autonomy and its Contemporary Legacy" سے اقتباس : "عثمانی حکمرانوں نے سلطنت میں شامل مختلف مذہبی اور نسلی گروہوں کے فرق کو تسلیم کیا۔ وہ یہ ادراک رکھتے تھے کہ اس وسیع تفریق کو ضم کرنا ممکن نہیں ہے اور نہ ہی کسی گروہ کو علاقائی بنیادوں پر حقوق دینا قابل عمل تھا۔ اس کے بجائے، ہر گروہ کی تنظیمی طاقت اور ساتویں صدی میں معاہدۂ عمر کی نظیر، جس نے غیر مسلم برادریوں کے حقوق و فرائض کو واضح کیا تھا، اس کی روشنی میں انہوں نے مذہبی گروہوں کے سربراہوں کے ساتھ حسب موقع معاہدے کیے۔ ملّت سسٹم ان انتظامات کا عمومی نام ہے جو برادریوں اور سلطنت کے درمیان کیے گئے تھے"۔
عثمانی خلافت میں ملّت سسٹم صدیوں تک جاری رہا، جو مسلم حکمران اور ان کے ذمی رعایا کے درمیان تعلقات کو منظم کرتا تھا۔ تاہم، انیسویں صدی میں تنظیمات اصلاحات متعارف کرائی گئیں، جہاں عثمانی ریاست کے اہلکار، جو فرانسیسی قانونی نظام سے متاثر تھے، نے شریعت پر مبنی احکام میں کئی تبدیلیاں کیں۔ 1869ء میں عثمانی قانون شہریت (Ottoman Law of Nationality) نے مسلمانوں اور ذمیوں کے درمیان فرق کو ختم کر کے "عثمانی" کی اصطلاح متعارف کی گئی۔
عثمانی اہلکاروں کی جانب سے اپنی تمام رعایا کو "برابر" کرنے کی کوشش کو مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
اپنی کتاب "A Brief History of the Late Ottoman Empire" میں ایم شکری ہانی اوغلو اس مسئلے پر تفصیلات فراہم کرتے ہیں: "یہ فرمان یونانی پادریوں کی دیگر غیر مسلم مذہبی اداروں پر حاصل خصوصی مراعات یافتہ حیثیت کو محدود کرتا تھا۔ اصلاحات کے فرمان پر ایک عام یونانی ردعمل یہ تھا: 'ریاست نے ہمیں یہودیوں کے برابر کر دیا ہے۔ ہم مسلم برتری سے مطمئن تھے۔' یہ بات خاص طور پر واضح تھی کہ تمام عثمانی مذہبی برادریاں اس بات پر اصرار کرتی تھیں کہ ہر برادری اور مرکز کے درمیان تعلق دو طرفہ رہے؛ ملت کے رہنماؤں کا اصرار تھا کہ کسی بھی نئی مراعات کو ان پر ایک مخصوص برادری کے طور پر لاگو کیا جائے، نہ کہ بطور 'عثمانی'۔ اس طرح، مختلف برادریوں کے درمیان رکاوٹوں کو ختم کرنے کی بجائے، ملت کے نمائندوں نے ان رکاوٹوں کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کی"۔
پرانا نظام، جو شریعت پر مبنی تھا اور مختلف برادریوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر حقوق دیتا تھا، اسے ایک ایسے نظام سے بدل دیا گیا جو نسلی قوم پرستی پر مبنی تھا۔ ایم شکری ہانی اوغلو بعد میں لکھتے ہیں: "1870 تک، بلغاریہ کے لوگوں نے ریاست سے اس روایت کے مطابق تسلیم کیے جانے کی درخواست کی، کہ انہیں نسلی بلغاریوں کے طور پر نہیں بلکہ ایک علیحدہ مذہبی برادری کے طور پر تسلیم کیا جائے، جس کی قیادت استنبول میں ایک اتھنارک (نسلی گروہ کا سیاسی رہنما) کرے"۔
تاہم، روایتی انتظام کو برقرار رکھنے کی کوششیں ناکام ہوگئیں۔ تمام برادریوں کے لیے مساوی شہریت کے اصرار اور ساتھ ہی کئی غیر مقبول معاشی اصلاحات نے مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کے درمیان عدم اطمینان کو ہوا دی۔ بلغاریہ اور مقدونیہ جیسے علاقوں میں کسان طبقے نے بغاوتیں شروع کر دیں، اور یہ بغاوتیں، یورپی طاقتوں کی حمایت کے ساتھ، بالآخر قومی آزادی کی تحریکوں میں تبدیل ہو گئیں جنہوں نے خلافتِ عثمانیہ کو ختم کر دیا۔
آج جو صورت حال ہم دیکھتے ہیں، وہ اس کا حتمی نتیجہ ہے: مسلم دنیا کئی قومی ریاستوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ہر ریاست خلافت کے خاتمے سے پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ کمزور حالت میں ہے اور ہر ریاست مغربی استعماری طاقتوں کی سازشوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ قوم پرستی نے مسلم دنیا کو کس طرح کا فائدہ پہنچایا ہے۔ کرد، جو کبھی عثمانی خلیفہ کے وفادار رعایا تھے، آج ترک حکومت کی طرف سے تشدد اور دشمنی کا سامنا کر رہے ہیں۔ فلسطین کے یہودی اور مسلمان، جو صدیوں تک خلافت کے تحت امن و سکون سے رہتے تھے، آج صہیونی قوم پرستی کے منصوبے کی وجہ سے صرف 2024 میں تقریباً پچاس ہزار فلسطینیوں کی موت کے ذمہ دار ہیں۔
کیرن بارکی بیان کرتی ہیں کہ لبنانی خانہ جنگی کے بعد، ایک صحافی نے لکھا: "بہت سے لبنانی دانشور اور سیاست دان، اپنے ملک میں جنگ اور پڑوسی ممالک میں آمرانہ حکومتوں کی ناکامی کے پیش نظر، عثمانی حکومت کے آخری دور کو یاد کرنے میں مبتلا ہیں۔ وہ اسے شہری امن اور جدیدیت کا ایک نمونہ قرار دیتے ہیں۔ وہ اس نظام کی یورپی استعمار کے ہاتھوں تباہی پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں"۔یہاں ہمیں تاریخ کی اہمیت نظر آتی ہے۔ اکثر لوگ فرض کر لیتے ہیں کہ وہ جس حقیقت میں رہتے ہیں، وہ ناقابلِ تبدیل ہے، اور اس طرح وہ اپنے حالات کو قبول کر لیتے ہیں، چاہے وہ جابرانہ اور ظالمانہ ہی کیوں نہ ہوں۔ تاہم، تاریخ ہمیں مختلف متبادل حقائق پیش کرتی ہے اور ہمیں اپنے موجودہ حالات کو تبدیل کرنے کے امکانات کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ بحیثیت مخلص مومن، ہمارا مقصد شریعت کے نظام کو قائم کرنا ہے، اور تاریخ سے ہمیں وہ قیمتی اسباق مل سکتے ہیں جن سے ہمیں اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے مدد مل سکے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ ثُمَّ انظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ﴾
"کہہ دیجیے، زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا" (سورۃ التوبة: 6:11)۔
Latest from
- شام میں مغربی وفود کا تانتا اور سابقہ نظام حکومت کی نقل تیار کرنے کی کوشش۔
- سودی قرضے معیشت کی بربادی کا ایک سبب ہیں نہ کہ حل
- خلافت کے انہدام کی برسی اور اس کی جلد واپسی کے آثار پر...
- مغربی ممالک میں مسلمان: اسلامی دنیا کے حکمرانوں کی بدعنوانی اور...
- وہ جو غزہ کے لئے حرکت میں نہیں آئے، کیا وہ جنین کے لئے حرکت میں آئیں گے؟!