بسم الله الرحمن الرحيم
سعودی عرب اور ترکیہ: وہ دو حکومتیں جن کو شام کے انقلاب نے بے نقاب کر دیا ہے
تحریر: استاد شادي العبود
جب اللہ تعالیٰ نے اہلِ شام پر احسان کرتے ہوئے انہیں ظالم بشار الاسد کے خلاف عظیم فتح عطا کی، جو ہر لحاظ سے ایک تاریخی واقعہ تھا، تو دنیا کے حکمران حیرت زدہ رہ گئے اور شام کی سرزمین پر ہونے والے واقعات کو بغور دیکھنے لگے…
آج، مجرم بشار کے زوال کو تقریباً دو ماہ گزر چکے ہیں، اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ مختلف ممالک سے سیاسی وفود مسلسل شام کے عبوری انتظامیہ، جس کی قیادت احمد الشرع کر رہے ہیں، سے ملاقات کے لیے آ رہے ہیں تاکہ اس کے مستقبل کے منصوبوں اور نظریات کو سمجھ سکیں۔ ساتھ ہی ساتھ، وہ اپنی تجاویز پیش کر رہے ہیں اور مختلف معاملات پر مذاکرات کر رہے ہیں، خواہ وہ سیاسی نظام اور دستور نویسی ہو، اقتصادی ترقی اور تعمیرِ نو کا مسئلہ ہو، یا شام میں سکیورٹی کی بحالی اور مجرموں کے احتساب کا معاملہ ہو۔ دیگر اہم امور میں معاشی پابندیوں کا خاتمہ، عوامی معیارِ زندگی میں بہتری، بنیادی ڈھانچے کے منصوبے، تعلیم، صحت، توانائی اور ترقی جیسے مسائل شامل ہیں، جو کہ آسان نہیں بلکہ بڑے چیلنجز ہیں۔
نئی حکومت کی شام کے مستقبل سے متعلق سوچ وزیرِ خارجہ الشیبانی کے بیانات سے عیاں ہوتی ہے۔ فنانشل ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ملک "امداد پر انحصار نہیں کرنا چاہتا" اور مسائل کا حل امریکی و یورپی پابندیوں میں نرمی میں پوشیدہ ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی تاکید کی کہ حکومت کسی انقلاب کو ابھارنے یا دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی، جو خارجہ پالیسی میں ایک بنیادی تبدیلی کی علامت ہے۔ مزید برآں، انہوں نے ریاستی ملکیت میں موجود بندرگاہوں اور کارخانوں کی نجکاری اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے ارادے کا اظہار بھی کیا۔
اس پالیسی کے تحت نئی حکومت عرب اور علاقائی سطح پر سیاسی اور اقتصادی تعلقات مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ شام پر عائد سخت پابندیوں کو کم کیا جا سکے۔ اس مقصد کے تحت، احمد الشرع اور وزیرِ خارجہ اسعد الشیبانی نے گزشتہ ہفتے سعودی عرب کا پہلا سرکاری دورہ کیا، جہاں انہوں نے محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں شام میں استحکام اور سکیورٹی کے امور پر بات چیت ہوئی، لیکن سب سے اہم مسئلہ اقتصادی تعاون کا تھا۔ احمد الشرع نے بیان دیا:
"ہم نے مختلف سطحوں پر تعاون اور رابطے کو بہتر بنانے پر کام کیا، خاص طور پر انسانی اور اقتصادی میدان میں۔ ہم نے توانائی، ٹیکنالوجی، تعلیم اور صحت کے وسیع منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا، تاکہ پورے خطے میں حقیقی شراکت داری کو فروغ دیا جا سکے اور شامی عوام کی معیشت کو بہتر بنایا جا سکے۔"
ورلڈ اکنامک فورم، ڈیووس میں، وزیرِ خارجہ الشیبانی نے سعودی وژن 2030 کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ شام کے مستقبل کے لیے ایک قابلِ تقلید ماڈل بن سکتا ہے۔ اسی تناظر میں، وزیر داخلہ علی کُدہ نے کہا:
"ہم سعودی وژن 2030 سے فائدہ اٹھانے کے خواہاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ شام سعودی سرمایہ کاروں کی توجہ کا مرکز بنے۔ صدر الشرع کا دورۂ سعودی عرب، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ایک نیا سنگِ میل ثابت ہوگا، جس میں اقتصادی مسائل اور تعمیرِ نو کا معاملہ سرفہرست رہے گا۔"
سعودی عرب کے دورے کے بعد، احمد الشرع نے ترکی کا دورہ کیا، جہاں انہیں صدر رجب طیب اردوان نے مدعو کیا تھا۔ ترکی کے صدارتی ذرائع کے مطابق، دونوں ممالک نے ایک مشترکہ دفاعی معاہدہ پر دستخط کیے، جس کے تحت ترکی کو وسطی شام میں فضائی اڈے بنانے اور نئے شامی فوج کی تربیت کا اختیار دیا گیا۔ رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق، معاہدے کے نکات میں درج ذیل امور شامل ہیں:
ترکی کو شام میں نئے فضائی اڈے بنانے کی اجازت دی جائے گی۔ ترکی کو شامی فضائی حدود میں فوجی مقاصد کے لیے رسائی دی جائے گی۔ ترکی، نئی شامی فوج کی قیادت اور تربیت میں کردار ادا کرے گا۔ وسطی شام میں دو ترک فوجی اڈے قائم کیے جائیں گے، جن میں ممکنہ طور پر تدمر ایئرپورٹ اور T4 بیس شامل ہوں گے۔ ترکی کو کسی بھی ممکنہ حملے کی صورت میں شامی فضائی دفاع سنبھالنے کی اجازت ہوگی۔
یہ کوئی راز نہیں کہ سعودی عرب مکمل طور پر امریکہ کے تابع ہے اور اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا۔ امریکہ نے سعودی عرب کو شام میں انقلاب کی مخالفت کے لیے ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا اور زہر آلود امداد فراہم کی، جو انقلاب کو دبانے کا ایک ذریعہ بنی۔ مزید برآں، سعودی عرب نے کئی بین الاقوامی سازشی کانفرنسوں کی حمایت کی، جن کا مقصد شامی انقلاب کو کمزور کرنا اور اسے مجرم اسد کے دائرہ کار میں واپس لانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نئی شامی حکومت کو سعودی عرب کے ساتھ محتاط رہنے کی ضرورت ہے، تاکہ شام کو دوبارہ کسی بیرونی طاقت کے جال میں نہ پھنسا دیا جائے۔
جہاں تک ترکی کا تعلق ہے، اس نے پہلے بھی شام کی تحریک کو سیاسی حل اور مصالحت کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی، جو اقوام متحدہ کی قرارداد 2254 کے مطابق تھی—یہی وہ منصوبہ ہے جس کے ذریعے امریکہ شامی انقلاب کا گلا گھونٹ کر دمشق میں اسد کے نظام کو برقرار رکھنا چاہتا تھا۔
اب جبکہ بشار الاسد کی حکومت ختم ہو چکی ہے، ترکی نئی حکومت کو قابو میں رکھنے اور دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ امریکہ کی مقرر کردہ حدود سے باہر نہ نکل سکے۔ ترکی چاہتا ہے کہ نئی شامی ریاست ایک سیکولر نظام کے تحت ہو، جس میں اسلامی قوتوں کے لیے کوئی گنجائش نہ ہو، جبکہ سیکولر سیاست دانوں کو آگے بڑھانے کے لیے میڈیا میں بھرپور تشہیر کی جا رہی ہے۔
حالیہ دنوں میں، ترک وزیرِ خارجہ نے قطر کے دورے کے بعد یہ بیان دیا:
"میری گفتگو میں شام اور فلسطین کی صورتحال، بین الاقوامی پابندیوں کے خاتمے، اور شام میں امن و استحکام کے قیام پر توجہ مرکوز رہی۔"
اگر اس بیان کا ترکی-شام دفاعی معاہدے کے ساتھ تجزیہ کیا جائے، تو واضح ہو جاتا ہے کہ ترکی امریکہ کے ایجنڈے پر گامزن ہے۔ اس کا مقصد اسلامی منصوبے اور اس کے داعیوں کو دہشت گردی کے نام پر دبانا، اپنی فوج کو شام میں قانونی حیثیت دینا، اور اپنے فضائی اڈوں کے ذریعے شام میں اپنے اثر و رسوخ کو مزید مستحکم کرنا ہے۔
آخر میں یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے ہمیں عزت بخشی اور ہماری نصرت فرمائی، جب اس نے انقلاب کے سالوں میں ہمیں دوست اور دشمن میں فرق کرنے کی بصیرت عطا کی۔ ہم نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ مسلمانوں کے ممالک میں موجود یہ حکومتیں ہمارے انقلاب کے دوران محض مکر، دھوکہ دہی اور سازشوں میں مصروف رہیں۔ لہٰذا، ہمیں ان سے ہوشیار رہنا چاہیے اور اپنی وابستگی اس ذات سے مزید مستحکم کرنی چاہیے جس نے ہمیں اس مقام تک پہنچایا، یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ۔ ہم اللہ سبحانہ و تعالی کی طرف سے دی گئی نصرت پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں، جو اس نے کسی بھی مسلمان حکومت کے احسان یا فضل کے بغیر ہمیں عطا کی۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنا شکر مزید بڑھائیں اور اللہ کی حمد کریں، اور اسلام کو اہلِ شام اور پوری دنیا کے لیے نجات کا منصوبہ بنائیں، تاکہ اللہ ہمیں مزید توفیق اور نصرت عطا فرمائے اور ہم زمین پر اس کے احکامات نافذ کرسکیں۔ اسلام ہی وہ متبادل نظام ہے جسے ہم موجودہ تباہ حال نظام کی جگہ نافذ کریں گے تاکہ عدل قائم ہو، حقوق محفوظ رہیں، اور اہلِ شام کی قربانیوں کی حفاظت ہو۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ عوام ہی حقیقی اقتدار کے مالک ہیں اور اللہ کے بعد سب سے بڑی طاقت وہی ہیں، جن سے حکمران اپنی قوت اور شرعی حیثیت حاصل کرتا ہے، اور وہی مشکل ترین حالات میں اس کا دفاع کرتی ہے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمارے اعمال کو دیکھ رہا ہے کہ آیا ہم اس کی رضا کے طلب گار ہیں اور اس کے شرع کو نافذ کرتے ہیں؟ یا ہم بیرونی مددگار ممالک کو خوش کرنے کے لیے ایک سیکولر قومی ریاست کے قیام کی کوشش کرتے ہیں، جو مغرب کو راضی کرے مگر رب کو ناراض کر دے؟