بسم الله الرحمن الرحيم
ہم نے موجودہ حکمرانوں کی بیعت کیوں کر رکھی ہے؟
7 اکتوبر کے واقعات کو 2 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ پوری دنیا صدمے کی حالت میں ہے کیونکہ کسی نے بھی صورتحال کو حل کرنے کی کوئی حقیقی کوشش نہیں کی۔ اس ہفتے، جب جنگ بندی کا اعلان کیا گیا، تو دنیا بھر میں اور خود غزہ میں، عوام نے اس خبر پر جشن منایا اور اسے فتح قرار دیا۔ جبکہ صرف ایک اچھی خبر یہ ہے کہ غزہ کے لوگوں کو اس خوفناک پیمانے کے مظالم کے خلاف عارضی مہلت مل گئی ہے ۔ جس کا تجربہ انہیں 'اسرائیلی' حملے کے بعد ہوا ہے۔
لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تشدد اور مظالم رک گئے ہیں- ابھی بھی فلسطین میں ہونے والے مظالم کی خبریں آ رہی ہیں، اور کس طرح یہودی وجود نے اب اپنی زیادہ توجہ مغربی کنارے پر مرکوز کر دی ہے۔ نومنتخب صدر ٹرمپ کے بیانات اور بینجمن نیتن یاہو اور آئی ڈی ایف دونوں کے بیانات اور اقدامات سے یہ واضح ہے کہ یہ مظالم ختم ہونے کا نام نہیں لیں گے۔
اس صورتحال میں نام نہاد مسلم حکمرانوں کی لاپرواہی نے دنیا پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ ہم نے ان حکمرانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ عملی اقدامات کریں، فلسطین کو آزاد کرانے کے لیے افواج بھیجیں، کیونکہ یہ سرزمین اور اسکے لوگ ہمارے دلوں کے بہت قریب ہیں۔ مگر انہوں نے کچھ نہیں کیا۔
اس کے بجائے، انہوں نے مضحکہ خیز طور پر مبہم اور کاغذی بیانات دیے۔ انہوں نے'اسرائیل' کے اقدامات کی 'مذمت' کی لیکن ساتھ ساتھ اپنے تجارتی اور سفارتی تعلقات کو منقطع کرنے سےانکار کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ایسے لوگوں کے ساتھ 'قانونی حل' قبول کیا جنہیں بین الاقوامی قوانین کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں ہے۔
ہم مسلسل سوچتے رہے کہ وہ یہ کیسے قبول کر سکتے ہیں؟ جبکہ ہمارے دل فلسطینی مردوں، عورتوں اور بچوں پر ہونے والی ہولناکیوں پر پارہ پارہ ہیں۔ مگر موجودہ خبروں اور سیاسی پیش رفت نے ہمیں اس سوال کا جواب دے دیا ہے، خواہ یہ جواب کتنا ہی بھیانک ہے۔ کیونکہ اس پیش رفت نے دنیا بھر کے حکمرانوں کی حقیقت عیاں کردی ہے۔
پہلی وجہ واضح طور پر' مفاد' ہے۔ مظالم کو جاری رکھنے کی اجازت دے کر وہ سب کسی نہ کسی طریقے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ چاہے یہ صرف اسرائیل کی حمایت کے زریعے ہو یا امریکہ اور اسرائیل دونوں کی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ خود بھی اس طرح کے مظالم کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، خصوصاً اگر ان کے زریعے انہی کے مفادات کا تحفظ مقصود ہو۔
شام میں بشار کی حکومت کے خاتمے کے بعد، ہمیں اس ہولناک ظلم و ستم کی کئی خبریں ملیں جو اس نے اپنے لوگوں پر ڈھائے تھے۔ شام میں لوگ کہا کرتے تھے کہ "دیواروں کے کان ہیں"۔ یہ دراصل حکومت کے وسیع انٹیلی جنس نگرانی کے نظام اور جاسوسوں کے نیٹ ورک اور خوفناک مخبرات کا حوالہ ہے۔ کوئی شخص جو حکومت کے بارے میں تنقیدی تبصرہ کرتا تو اس کے کسی تہ خانے میں غائب ہونے کا خطرہ ہوتا- یہاں 100 سے زیادہ حراستی مراکز اور خفیہ جیلوں کی ایک نامعلوم تعداد موجود ہے۔
ان جیلوں میں سے ایک سیڈنایا 'ریڈ' جیل ہے۔ اسے "ہیومن سلاٹر ہاؤس" کا نام دیا گیا، یہ منظم طریقے سے تشدد، مظالم اور قتل و غارتگری کا اڈہ تھا۔ جسے خاص طور پر 2011 میں شام کی خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سیاسی اختلاف رائے کو کچلنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
"استعمال کیے گئے طریقوں میں 'دولاب' (عربی میں "پہیہ") شامل تھا، جہاں قیدیوں کو گاڑی کے ٹائر میں زبردستی ڈال کر مارا پیٹا جاتا تھا۔ اور 'فَلَقَ' ("پاؤں کو مارنا") جس میں پاؤں کے تلوے پر موٹی تاروں سے ضرب لگائی جاتی تھی۔ قیدیوں کو ان کی کلائیوں یا بازوؤں سے بھی لٹکایا جاتا تھا، جس سے جوڑ علیحدہ ہوجاتے تھے اور طویل مدتی چوٹیں آتی تھیں۔ زیر حراست افراد نے یہ بھی بتایا کہ انہیں جان بوجھ کر بھوکا رکھا جاتا تھا یا کم مقدار اور اکثر ناقابلِ استعمال خوراک دی جاتی تھی۔ بہت سے قیدیوں کوخوراک اور قدرتی روشنی کی کمی کی وجہ سے شدید غذائی قلت، جلدی بیماریوں اور دیگر بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ طبی معائنے سے تقریباً مکمل طور پر انکار کر دیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ جان لیوا زخموں کا شکار، بہت سے لوگ مرنے کے لیے چھوڑ دیے جاتے تھے۔ جنسی تشدد ایک اور ہتھیار تھا جو قیدیوں کی بے عزتی کرنے اور ان پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ )مآخذ: الجزیرہ(
ایسی رپورٹس بھی موجود ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح مصر نے سی آئی اے کی مدد کی اور امریکی تشدد کی "آؤٹ سورسنگ" کے لیے اپنی خدمات فراہم کیں۔ )ماخذ: ٹائم میگزین(
اردن میں، حکام نے 9/11 کے بعد سخت نئے اقدامات متعارف کرائے ۔ انہوں نے یہ جواز پیش کیا کہ یہ اقدامات دہشت گردی سے لڑنے کے لیے ضروری ہیں۔ پس انھوں نے اردنی قانون کے تحت 'دہشت گردی' کی تعریف کو وسیع کیا اور ایسے جرائم کی تعداد بڑھا دی جن کی سزا موت یا عمر قید ہے۔ ابھی حال ہی میں، حکومت نے انسداد دہشت گردی سے متعلق قانون سازی کا ایک مسودہ پیش کیا ہے جو اس وقت پارلیمنٹ کے سامنے موجود ہے۔ ان قوانین کی مضبوطی کی قیمت انسانی حقوق ادا کریں گے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کو ایسے افراد کے بارے میں متعدد رپورٹس موصول ہوئی ہیں جنہیں ان کے اسلام پسند نظریات کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اور بغیر کسی مقدمے کے طویل عرصے تک حراست میں رکھا گیا ہے۔
اردن میں تشدد اور دیگر ناروا سلوک کا استعمال صرف ان لوگوں تک محدود نہیں ہے جن پر سیاسی جرائم یا دہشت گردی میں ملوث ہونے کا شبہ ہے۔ درحقیقت، ایمنسٹی انٹرنیشنل کو موصول ہونے والی تشدد کی کچھ سنگین ترین رپورٹیں عام جرائم میں ملوث مشتبہ افراد کے بارے میں ہیں۔ جن پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شدید تشدد کیا۔
سی آئی اے کے ایک سابق سینئر اہلکار نے کہا ہے کہ "اردن ہمارے غیر ملکی شراکت داروں (سہولت کاروں) کی فہرست میں سرفہرست ہے… وہ ہماری ہر طرح سے مدد کرنے کو تیار ہیں"۔ سی آئی اے کے ایک اور سابق اہلکار نے کہا کہ "اگر آپ کسی قیدی کو اردن بھیجتے ہیں تو آپ بہتر پوچھ گچھ کروا سکتے ہیں"۔ )مآخذ: ایمنسٹی انٹرنیشنل(
ترکی بھی شمالی شام کے ترک مقبوضہ علاقوں میں اپنی افواج اور اس کے حمایت یافتہ مقامی مسلح گروہوں کے ارکان کی جانب سے سنگین زیادتیوں اور ممکنہ جنگی جرائم کا ذمہ دار ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے مختلف دھڑوں کی طرف سے اغوا، من مانی گرفتاریوں، غیر قانونی حراستوں، جنسی تشدد اور دیگر تشدد رپورٹ کیے ہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ترک مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں اس بدسلوکی کو انجام دینے اور براہ راست نگرانی میں ملوث تھیں۔ ان میں لوگوں کے رہائش، زمین، اور جائیداد کے حقوق کی پامالی، بشمول وسیع پیمانے پر لوٹ مار اور املاک پر قبضے اور بھتہ خوری جیسے جرائم شامل ہیں۔ نیز ان بد سلوکیوں کو روکنے یا متاثرین کو معاوضہ فراہم کرنے اور احتساب میں ناکامی بھی رپورٹ ہوئی۔
ہیومن رائٹس واچ کے مشرق وسطیٰ کے نائب ڈائریکٹر ایڈم کوگل نے کہا ہے کہ، "شمالی شام میں ترکی کے زیرِ انتظام رہنے والوں پر تشدد اور جبری گمشدگیوں سمیت بدسلوکی تب تک جاری رہے گی جب تک ترک حکام اپنی ذمے داری کو تسلیم نہیں کرتے اور انہیں روکنے کے لیے عملی اقدامات نہیں اٹھاتے"۔ اس نے یہ بھی کہا کہ ،"ترک حکام اس ظلم وستم کے محض تماشائی نہیں ہیں، بلکہ قابض طاقت کے طور پر ذمہ دار ہیں، اور بعض صورتوں میں بظاہر جنگی جرائم میں براہ راست ملوث رہے ہیں"۔)مآخذ: ہیومن رائٹس واچ(
مزید یہ کہ فلسطینی علاقوں میں، ہمارے پاس اس کی مثالیں موجود ہیں کہ 'فلسطینی اتھارٹی' نے یہودی قبضے کے خلاف مزاحمت کو دبانے کے لیے کیا ِکیا ہے، اور کر رہی ہے؟۔ یہ یہودی وجود کی فوج کے ساتھ مل کر مربوط طریقے سےکارروائیاں کرنے کے لیے مشہور ہے۔ یہ جبر کے ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے کہ اسرائیلی ظلم اور اس کے ظلم میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
حال ہی میں، ہم جینن میں شدید ترین کریک ڈاؤن میں فلسطینی اتھارٹی کا کردار دیکھ سکتے ہیں۔ جہاں انہوں نے پناہ گزین کیمپ کا مسلسل محاصرہ کر رکھا ہے۔ پانی، بجلی منقطع کر دی ہے اور بیشتر بنیادی ضرورت کے سامان کے داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔ پی اے ایس ایف نے سنائپرز کو بھی چھتوں پر تعینات کر کے رکھا ہے۔ مزاحمتی جنگجوؤں یعنی مجاہدین کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے لیے گلیوں میں چوکیاں۔ مار پیٹ، گرفتاریوں اور تشدد کی بھی اطلاعات ہیں۔
سعودی عرب میں بھی ہمارے پاس ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً جو کچھ انہوں نے یمن میں کیا اور پھر جمال خاشقجی کا قتل۔ اور، پاکستان میں، ہمارے پاس ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ ہونے والے سلوک کی مثال موجود ہے جنہوں نے 20 سال سے زائد عرصہ ایک ایسے جرم کی پاداش میں حراست میں گزارا، جو انہوں نے کیا ہی نہیں تھا۔ اور جس ناکردہ جرم کی سزا وہ اب بھی بھگت رہی ہیں۔ ان کی حالت زار اذیت ناک اور غلط قید کا ثبوت ہے۔ نیز حکومتوں کی ملی بھگت اور عافیہ صدیقی کو لاوارث چھوڑنے کی منظر کشی کرتی ہے۔
یہ آج دنیا میں موجود مثالوں میں سے محض چند ایک ہیں۔ اس کے علاوہ لا تعداد مثالیں اور واقعات ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ چنانچہ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم ان لوگوں کو اپنے اوپر قیادت کرنے کی اجازت کیوں دے رہے ہیں؟ ہم اپنے اوپر ان کا اختیار کیوں قبول کررہے ہیں؟ جبکہ وہ اپنے دور حکومت میں مردوں، عورتوں اور بچوں کے خلاف اتنے واضح مظالم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔
کیا ہم خوف کے باعث ایسا کررہے ہیں؟
اگر ایسا ہے تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک اللہ نہ چاہے ہمارے ساتھ کچھ برا نہیں ہو سکتا- اور اگر کچھ ہوا بھی تو یہ ایک امتحان ہوگا۔ اور ہم چاہے جو مرضی کر لیں، اس امتحان کو خود تک آنے سے نہیں روک سکتے۔ لیکن ہمیں یہ حقیقت مطمئن اور پرسکون کرسکتی ہے کہ روزِ قیامت اس امتحان کا سامنا کرنے اور اللہ کے احکامات پر عمل کرنے کا پورا صلہ ملے گا۔
"قُلْ لَنْ يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ"
"آپ کہہ دیجئے کہ ہمیں ہرگز کوئی (برائی یا بھلائی) نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے اللہ ہی ہمارا مولیٰ ہے، اور اہل ایمان کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے"۔ ]سورۃ التوبہ [9:51۔
"وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ"
"اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے، اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے"]سورۃ یونس [10:107۔
تو پھر آخر ہم ان سے خوفزدہ کیسے ہوسکتے ہیں؟ اور اگر ہم ان سے نہیں ڈرتے تو کیا ہمیں غصہ نہیں آنا چاہیے؟ وہی غصہ اور بیزاری جب ہم یہ خبریں دیکھتے ہیں کہ اسرائیل فلسطین میں کیا کر رہا ہے؟ ایسی خبریں اور رپورٹیں جو ان کے دلوں میں چھپی ہوئی حقیقت کو آشکار کرتی ہیں اور ان لوگوں کے خلاف انکی نفرت کو ظاہر کرتی ہیں جو ان کے خلاف جدو جہد کر رہے ہیں۔
اور اگر ہم اس غصے کو محسوس کرتے ہیں تو ہم ان حکمرانوں کو ہٹانے کی خواہش کیوں محسوس نہیں کرتے؟ وہ حکمران جو ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں بہنوں اور بچوں کی حفاظت سے روک رہے ہیں؟ جو کھلم کھلا تمام قوانین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں اور خصوصاً اللّٰہ کےقانون کو نظر انداز کر رہے ہیں؟
ہم انہیں یہ اجازت کیوں دیتے ہیں کہ وہ ہم سے وفاداری کا مطالبہ کریں؟ یا بیعت مانگیں؟ ہم انہیں اپنا حکمران کیوں مانتے ہیں؟
یہ وہ تمام سوالات ہیں جن پر ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے – اور جب ہم ان پر غور کریں گے تو ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ آخر ہماری سرخ لکیر کیا ہے؟ اور کب مزید ظلم برداشت نہیں ہو گا؟
مرکزی میڈیا آفس، حزب التحریر کے لیے تحریر کردہ
من جانب فاطمہ مصعب
رکن مرکزی میڈیا آفس، حزب التحریر
Latest from
- یوم سقوط خلافت، یوم احیائے خلافت کا تقاضا کرتا ہے
- سوال و جواب: سوڈان میں عسکری آپریشن میں شدت
- اداریہ: خلافت کے خاتمے سے مسلمانوں نے کیا کھویا؟
- ڈیووس 2025: عرب خطے کے مستقبل پر خوش بینی کی حقیقت
- طوفان الاقصیٰ کے بعد کنانہ کی فوج کے جری جواں فلسطین کو آزاد کرانے کے لئے آخر کس بات کا انتظار کر رہے ہیں !