
بسم الله الرحمن الرحيم
نظامِ اسلام سے مقاصد کے حصول
(حلقه 9)
" فکر مستنیر کے ذریعےسب سے بڑے مسئلے
(الْعُقْدَةُ الْكُبْرَى) کا صحیح حل "
کتاب "نظامِ اسلام" سے
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو عظیم فضل اور برکتوں کا مالک ہے، جو عزت اور شرف عطا فرماتا ہے، وہی وہ بنیاد ہےجسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، وہ عظمت ہےجسے کوئی حاصل نہیں کر سکتا۔ اور درود و سلام ہو ہمارے نبی محمد ﷺ پر، جو تمام انسانوں میں بہترین فرد ہیں، عظیم رسولوں کی مُہر ہیں، اور ان کے خاندان (رضی اللہ عنہم) اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) پر، اور اُن کے ان عظیم پیروکاروں پرجو اسلام کے نظام پر عمل پیرا ہوئے اور اس کے احکام پر پوری پابندی سے عمل کرتے رہے۔ اے اللہ! ہمیں بھی ان میں شامل فرما، ہمیں ان کی صحبت میں جمع فرما، اور ہمیں طاقت عطا فرما یہاں تک کہ ہم اس دن آپ سے ملاقات کریں جب قدم پھسل جائیں گے، اور وہ دن بڑا ہولناک ہو گا۔
اے مسلمانو: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
" بلوغ المرام من کتاب نظام الاسلام " کے عنوان کی اس کتاب میں جتنی اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے ، ہم آپ کے ساتھ کئی نشستیں کریں گے۔ ہماری یہ نویں قسط ہے، جس کا عنوان" فکر مستنیر کے ذریعے سب سے بڑے مسئلے (الْعُقْدَةُ الْكُبْرَى) کا صحیح حل " ہے۔ اس قسط میں ہم اس بات پر غور کریں گے جو کتاب ' نظام اسلام ' کے صفحہ 6 پر عالم اور سیاسی مفکر شیخ تقی الدین النبہانی ؒنے بیان کی ہے۔
شیخ نبہانیؒ نے فرمایا: "کائنات ،انسان اور حیات کے بارے میں فکرِ مُسْتَنِیر (روشن فکر) کے بغیر اس صحیح حل تک پہنچنا ممکن نہیں۔ اس لیئے نشاۃِ ثانیہ (نہضہ) کی خواہش رکھنے والوں اور ترقی کی راہ پر چلنے والوں کو سب سے پہلے اس سوال کو روشن فکر (فکرِ مُسْتَنِیر) کے ذریعے حل کرنا چاہیئے۔ یہی حل ہی وہ عقیدہ ہے اور یہی وہ فکری بنیاد (القائدہ الفکریہ)ہے جس پر طرزِ زندگی اور زندگی کے نظاموں کے بارے میں ہر فروعی فکر کی عمارت استوار ہوتی ہے۔
اسلام اس عُقْدَۃُالْکُبریٰ کی طرف متوجہ ہوا اور انسان کے سامنے اس مسئلے کا ایسا حل پیش کیا ، جو فطرت (فطرۃ)کے عین موافق ہے ، عقل کو قائل کرتا ہے اور دل کو اطمینان بخشتا ہے۔اسلام نے اپنے اندر داخل ہونے کو اس حل کے عقلی اقرار پر موقوف کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام ایک ہی اساس یعنی عقیدہ پر قائم ہے۔وہ عقیدہ یہ ہے کہ اس کائنات ، انسان اور حیات سے قبل ایک خالق موجود ہے، جس نے اِن سب کو اور ہر شئے کو پیدا کیاہے۔ وہ خالق اللہ تعالیٰ ہے۔وہ اشیاء کو عدم سے وجود میں لایا۔اُس کا وجود ایک لازمی امر (واجب الوجود)ہے۔ وہ مخلوق نہیں ہے ورنہ وہ خالق نہ ہوتا۔یہ امر کہ وہ خالق ہے اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ وہ غیر مخلوق ہو۔یہ امر اس کے وجود کی لازمیت کا تقاضہ بھی کرتا ہے کیونکہ تمام اشیاء اپنے وجود کے لیئے اُس کی محتاج ہیں اور وہ کسی کا محتاج نہیں ہے "۔
اور اللہ کی مغفرت، معافی، رضا، اور جنت کی امید رکھتے ہوئے ہم کہتے ہیں:
گہرائی کے لحاظ سے سوچ کی تین اقسام ہوتی ہیں : سطحی فکر، گہری فکر، اور روشن فکر۔ ہر ایک قسم کی اپنی مخصوص تعریف ہے۔
نوٹ: سطحی، گہری ، اور روشن فکر
مثال |
تعریف |
فکر کی اقسام |
اگر آپ کو کوئی چیز درخت کی مانند نظر آتی ہے، تو آپ فوراً یہ کہہ دیتے ہیں، "یہ ایک درخت ہے" |
یہ سوچ چیزوں کی ظاہری صورتوں پر مبنی فیصلہ دیتی ہے۔ |
سطحی سوچ/فکر |
مثلاً، یہ کہنا کہ "یہ ایک لیموں کا درخت ہے، جس کی جڑیں زمین میں گہرائی تک پھیلی ہوئی ہیں، اس کا ایک تنا ہے، جس سے شاخیں نکلتی ہیں، اور ان شاخوں پر پتے اور پھل ہیں۔" یہاں آپ درخت کے مختلف حصوں کی تفصیلات کو واضح طور پر بیان کر رہے ہیں۔ |
یہ سوچ کسی چیز کے اجزاء کی اُن کے عین مطابق تفصیل سے وضاحت کرتی ہے۔ |
گہری سوچ/فکر |
مثلاً، یہ کہنا کہ "یہ لیموں کا درخت تُرش پھلوں کے درختوں میں شامل ہے، جو ساحلی علاقوں میں میٹھے سیب کے درختوں کے ساتھ اُگتے ہیں، ایک ہی زمین میں، اور ایک ہی پانی سے سیراب ہوتے ہیں۔ اللہ پاک ہے جو بہترین تخلیق کرنے والا ہے!"۔ |
یہ فکر ایک چیز کے اجزاء کی درست تفصیل بیان کرتی ہے اور اس سے آگے بڑھ کر اس چیز کی موجودگی کی وجوہات کواور اس کے ماحول کے ساتھ اس کےتعلق کو جوڑ کر واضح کرتی ہے۔ |
روشن فکر |
سطحی سوچ/فکر: یہ صرف چیزوں کی ظاہری شکل و صورت کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر آپ کچھ ایسا دیکھتے ہیں جو درخت کی مانند ہے، تو آپ فوراً بغیر کسی غور و فکر کے یا قریب سے جانچے بغیر کہہ دیتے ہیں، 'یہ ایک درخت ہے'۔سطحی سوچ سب سے نچلے درجے کی سوچ ہوتی ہے اور سوچ کی سب سے کم ترقی یافتہ شکل ہے۔
گہری سوچ/فکر: یہ کسی چیز کے مختلف اجزاء کا درست اور تفصیلی تجزیہ کرنے کا عمل ہے۔ یہ صرف یہ نہیں کہتی کہ "یہ ایک درخت ہے،" بلکہ یہ وضاحت کرتی ہے کہ "یہ ایک لیموں کا درخت ہے، جس کی جڑیں زمین میں گہرائی تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس کا ایک تنا ہے، جس سے شاخیں نکلتی ہیں، اور ان شاخوں پر پتے اور پھل موجود ہیں۔" گہری سوچ، سطحی سوچ سے بلند اور زیادہ ترقی یافتہ ہے اور ہر معاملے کی حقیقی نوعیت کو سمجھنے کے لیے لازم ہے۔ یہ علم کی گہرائی میں جانے اور چیزوں کی اصلیت کو سمجھنے میں مدد کرتی ہے۔
روشن فکر: یہ سوچ کی سب سے اعلیٰ اور ترقی یافتہ شکل ہے۔ یہ صرف کسی چیز کے اجزاء کی تفصیل نہیں دیتی، بلکہ اس کے وجود کے اسباب اور اس کے ارد گرد کے حالات کو بھی سمجھاتی ہے۔ یہ اس چیز کے لیے موزوں ماحول کا ذکر بھی کرتی ہے۔ مثال کے طور پر گہری سوچ کے مقابلے میں ، روشن فکر یوں وضاحت کرے گی ، "یہ لیموں کا درخت ایک تُرش پھل کا درخت ہے، جسے بڑھنے کے لیے ساحلی علاقوں جیسے مخصوص موسمی حالات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ترش پھلوں کے درخت متنوع ہوتے ہیں اور یہ اللہ جل جلالہ کی بے شمار نعمتوں میں شامل ہیں۔لیموں کے درختوں کے پھلوں میں اعلیٰ غذائیت ہوتی ہے اور یہ انسانی جسم کے لیے فائدہ مند ہیں۔. ان کے پھلوں کا ذائقہ، سیب کے درخت کے پھلوں کے ذائقے کے مقابلے میں، خالق کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے، سبحان اللہ ۔ لیموں کے درخت اور سیب کے درخت ایک ہی مٹی میں لگائے جاتے ہیں اور انہیں ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے، پھر بھی ان کے ذائقے میں فرق ہوتا ہے: لیموں کھٹا ہوتا ہے جبکہ سیب میٹھا ہوتا ہے۔ پاک ہے وہ خالق جس نے پیدا کیا، مہیا کیا اور اپنی تخلیق میں اختراع کیا۔
اللہ تعالیٰ نے سچ کہا جب فرمایا:
وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَانٌ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ يُسْقَىٰ بِمَاءٍ وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الْأُكُلِ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ۔
" اور زمین میں ٹکڑے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اور انگور کے باغ ہیں اور کھیتیاں اور کھجوریں ہیں ایک کی جڑ ملی ہوئی بعض بن ملی ،انہیں پانی بھی ایک ہی دیا جاتا ہے، اور ہم ایک کو دوسرے پر پھلوں میں فضیلت دیتے ہیں، بے شک اس میں عقل مندوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ "(سورۃ الرعد 13:4)
نوٹ: سطحی، گہری ، اور روشن فکر میں فرق
فکر کی نوعیت |
فکر کی اقسام |
سطحی فکر میں سوچنے کےعمل کے چار عناصر مکمل طور پر شامل نہیں ہوتے۔ حقیقت کے لحاظ سے، یہ فکر حقیقت کی مکمل تصویر کو دریافت یا پیش نہیں کرسکتی۔ حسی ادراک کے اعتبار سے، یہ فکرمکمل حقیقت کو محسوس کرنے یا اس کا ادراک کرنے میں ناکام رہتی ہے یہ صرف ایک حس تک محدود رہتی ہے، جبکہ دوسری حسوں کو نظرانداز کرتی ہے۔ پچھلی معلومات کے اعتبار سے، یہ حقیقت کی تشریح کے لیے ضروری معلومات حاصل نہیں کرتی ۔ تعلق کے لحاظ سے، یہ مختلف خصوصیات پراور حقیقت اور معلومات کے درمیان تعلقات پر توجہ نہیں دیتی ہے۔ سطحی فکر کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ان 4عناصر کی گہرائی سے جانچ نہیں کرتی۔ یہ حقیقت، حسی ادراک، پچھلی معلومات، اور حقیقت سے متعلق پچھلی معلومات، اوران کے درمیان روابط کو مکمل طور پر سمجھنے میں ناکام رہتی ہے۔ |
(1)سطحی فکر |
گہری فکرسطحی فکر کی الٹ ہے۔ اس میں سوچ کے عمل کے تمام پہلوؤں کے ذریعے حقیقت کو مکمل طور پر سمجھنا شامل ہے۔ گہری فکر حقیقت کا کئی زاویوں سے بار بار معائنہ کرنے، اسے کئی بار جانچنے، اور حقیقت سے متعلقہ سابقہ معلومات کو بازیافت کرنے کے لیے اپنی یادداشت کو احتیاط سے تلاش کرنے پر مشتمل ہے۔ یہ حقیقت کے ساتھ اُن سابقہ معلومات کا تعلق بھی جانچتی ہے، اور یہ سب بار بار اور توجہ کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ |
(2) گہری فکر |
روشن فکر گہری فکر سے اس لحاظ سے ممتاز ہے کہ یہ حقیقت کو دیگر متعلقہ واقعات کے ساتھ جوڑتی ہے۔ روشن فکر حقیقت کا ماحول، اس کا ماضی و مستقبل، اس سے مشابہ حقائق اور دیگر متعلقہ روابط پر غور و فکرکو شامل کر سکتی ہے ۔ روشن فکر کو بنیاد کے طور پر گہری فکر کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن یہ مشاہدہ کرنے کی جہت میں اضافہ کرتی ہے کہ جس حقیقت پر غور کیا جا رہا ہے وہ اپنے وسیع تر سیاق و سباق سے کیسے متعلق ہے۔ |
(3) روشن فکر |
روشن فکر اُن لوگوں کے لیے لازمی اور اُن کی ضرورت ہے جو اپنی امت کو بلند کرنا چاہتے ہیں اور اسے ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں۔ اسلام نے روشن فکرکے ذریعے سب سے بڑے مسئلے (الْعُقْدَةُ الْكُبْرَى) کو درست طریقے سے حل کیا ہے، ایک ایسا حل فراہم کیا ہے جو انسانی فطرت کے مطابق ہے، عقل کو قائل کرتا ہے، اور دل کو سکون بخشتا ہے۔ یہ حل ایک درست، مضبوط اور مستحکم عقیدہ ہے۔ یہ ایک ٹھوس فکری بنیاد ہے جس پر اسلامی امت زندگی کے تمام ذیلی افکار کی تعمیر کرتی ہے۔ ایسا کوئی پرانا یا نیا مسئلہ نہیں ہے، نا ہی کوئی ابھرتا ہوا معاملہ ہے، جس کا اسلام میں حل نہ ہو، یعنی شرعی قانونی فیصلہ۔ ہر سوال کا جواب موجود ہے، اور ہر چھوٹے یا بڑے مسئلے کے لیے اسلام میں واضح ہدایت موجود ہے کہ اس سے کیسے نمٹا جائے۔
الطبریؒ نے اپنی معجم الصغیر میں محمد بن عمر الانصاری سے روایت کیا، جو محمد بن سیرینؒ سے روایت کرتے ہیں، کہ ایک آدمی نے حضرت ابو ہریرہ سے پوچھا: "آپ نے ہمیں ہر چیز کے بارے میں احکام دیے ہیں؛ کیا آپ ہمیں فضلہ کے بارے میں بھی کوئی حکم دیں گے؟" ابو ہریرہ نے جواب دیا: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا :
مَنْ سَلَّ سَخِيمَةً عَلَى طَرِيقٍ مِنْ طُرُقِ الْمُسْلِمِينَ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ،
"جو شخص مسلمانوں کے راستے پر کوئی مضر چیز چھوڑتا ہے، اس پر اللہ، اس کے فرشتوں، اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔"
اسلام کا عقیدہ مندرجہ ذیل پانچ بنیادی عقائد پر مبنی ہے:
(1)یہ کہ کائنات، انسانوں، اور زندگی سے ماوراء ایک خالق ہے جس نے سب کچھ پیدا کیا۔ وہ سب کچھ پیدا کرنے والا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے۔
(2) یہ کہ خالق ہر چیز کو عدم سے وجود میں لایا ہے اور وہ واجب الوجود ہے۔
(3) یہ کہ خالق غیر مخلوق ہے، ورنہ وہ خالق نہیں ہوتا۔
(4)یہ کہ خالق کی خالق ہونے کی صفت اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ وہ غیر مخلوق ہو اور وہ وجود کے لیے ناگزیر ہے۔
(5)یہ کہ تمام چیزیں اپنے وجود کے لیے اسی پر منحصر ہیں، اور وہ کسی چیز پر منحصر نہیں ہے۔
واجب الوجود عقیدہ کے موضوع میں استعمال ہونے والی ایک تکنیکی اصطلاح یا محاورہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا غیرموجود ہونا ناممکن ہے۔ وہ کبھی عدم (غیر موجودگی) میں نہیں رہا، اور نا ہی وہ کبھی عدم (غیر موجودگی) میں جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے موجود ہیں اور ہمیشہ موجود رہیں گے۔ وہ خالق ہے، وہ ہر نقص سے پاک ہے۔اللہ تعالیٰ، اپنی ذات میں واجب الوجود ہیں۔ یعنی ان کا وجود کسی دوسری چیز پر منحصر نہیں ہے۔ ان کا کوئی خالق نہیں۔
سب سے بڑے مسئلے (الْعُقْدَةُ الْكُبْرَى) کا حل |
سب سے بڑا مسئلہ(الْعُقْدَةُ الْكُبْرَى) |
اسلام نے سب سے بڑے مسئلے کو اس طرح حل کیا ہے جو انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہے، عقل کو قائل کرتا ہے، اور دل کو سکون عطا کرتا ہے۔ حل یہ ہے کہ کائنات، انسانوں، اور زندگی سے ماوراء ایک خالق ہے جس نے ان سب کو تخلیق کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور جنوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ جو لوگ اللہ کی اطاعت کریں گے انہیں جنت سے نوازا جائے گا، جبکہ جو لوگ نافرمانی کریں گے انہیں جہنم کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ |
سب سے بڑا مسئلہ تین سوالات پر مشتمل ہے جو ہر بالغ انسان کے ذہن میں ابھرتے ہیں اور اگر ان کے قائل کرنے والے جواب نہ ملیں تو یہ اضطراب اور پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ سوالات ہیں: میں کہاں سے آیا ہوں؟ میں یہاں کیوں ہوں؟ میری آخری منزل کیا ہے؟ |
مزید وضاحت کے لیے، ہم یہ کہتے ہیں: "واجب الوجود" ( وَاجِبُ الوُجُودِ ) کی اصطلاح ، اللہ عز و جل کے حوالے سے "مُمْكِنُ الوُجُود" کی اصطلاح کے مقابلے میں ، (جو کہ مخلوق کے حواے سے ہے) ،استعمال ہوتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مخلوق کی موجودگی ضروری نہیں ہے۔ یہ ممکن ہے کہ وہ موجود ہو یا نہیں موجود ہو۔ "مُمْكِنُ الوُجُود" اپنی موجودگی کے لیے "واجب الوجود" (اللہ، عز و جل) پر منحصر ہے۔
اللہ کو "واجِبُ الوجود" کے نام سے پکارنا درست نہیں ہے کیونکہ اصطلاحات /محاورات مخصوص متن اور روایات پر مبنی ہوتے ہیں۔ البتہ، اگر ضرورت پیش آئے تو اللہ کی اس اصطلاح سے توصیف کرنا جائز ہے، جبکہ یہ کافی ہے کہ اللہ کے ناموں اور صفات کو اسی طرح بیان کیا جائے جیسے کہ یہ قرآن مجید اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں ذکر کی گئی ہیں۔
خلاصہ: خالق، جو اللہ جل جلالہ ہیں، کا غیر موجود ہونا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ وہ "واجِبُ الوجود" ہیں اور اپنی موجودگی کے لیے کسی اور چیز پر منحصر نہیں ہیں؛ ان کا کوئی سبب یا خالق نہیں ہے۔ اس کے برعکس، مخلوقات "مُمْکِنُ الوجود" ہیں اور ممکن ہے کہ وہ کبھی وجود میں نہ رہیں۔ "مُمْکِنُ الوجود" اپنی موجودگی کے لیے "واجِبُ الوجود" پر منحصر ہے۔
مخلوق کی موجودگی کا دارومدار خالق پر ہے، جل جلالہ، جن کی عظمت بے مثال ہے۔ اس کی ایک بہترین مثال انسان ہیں، جو کمزور مخلوق ہیں۔ ڈاکٹر محمد رطب النابلسی کہتے ہیں: "انسان کی زندگی صرف ایک مختصر کہانی ہے، مٹی سے... مٹی میں... مٹی میں... پھر حساب... اور انعام یا سزا... لہذا اپنی زندگی اللہ کے لیے گزاریں... اور آپ اللہ کی مخلوقات میں سب سے خوش مخلوقات ہوں گے۔"
یہ دونوں تکنیکی اصطلاحات، واجب الوجود (وَاجِبُ الوُجُودِ) اور ممکن الوجود (مُمكِنِ الوُجُودِ)، قرآن کے ایک لفظ میں منعکس ہیں جو ان کے معنی کو بیان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاخلاص کی دوسری آیت میں فرمایا، جو کہ سب سے سچا فرمان ہے : "اللّٰهُ الصَّمَدُ" (اللہ جو بے نیاز ہے)۔ صمد اس ہستی کی طرف اشارہ کرتا ہے ، وہ جس کو ہر حاجت میں تلاش کیا جاتا ہے او ر ہر حاجت روائی کے لیئے وہی مطلوب ہوتا ہے، اور جس پر ہر چیز اپنی موجودگی کے لیے منحصر ہے، جبکہ وہ کسی چیز پر منحصر نہیں۔
اے مومنو!
ہم اس قسط کو یہاں ختم کرتے ہیں۔ آپ سے ہماری اگلی ملاقات ان شاء اللہ اگلی قسط میں ہوگی۔ تب تک، اور جب تک ہم آپ سے دوبارہ ملیں، اللہ کی حفاظت، سلامتی اور امان میں رہیں۔ ہم اللہ عز و جل سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اسلام کے ذریعے عزت بخشے، اسلام کو ہمارے ذریعے عزت عطا کرے، ہمیں اپنی مدد عطا کرے، ہمیں عنقریب خلافت کے قیام کا مشاہدہ کرنے کی خوشی عطا کرے، اور ہمیں اس کے سپاہیوں، گواہوں اور شہداء میں شامل کرے۔ بے شک وہی محافظ اور اس پر قادر ہے۔ ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔