
بسم الله الرحمن الرحيم
نظامِ اسلام سے مقاصد کے حصول
(حلقه 10)
" ہر چیز کا کوئی خالق ہونا لازم ہے جو اسے تخلیق کرتا ہے"
کتاب "نظامِ اسلام" سے
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو عظیم فضل اور برکتوں کا مالک ہے، جو عزت اور شرف عطا فرماتا ہے، وہی وہ بنیاد ہےجسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، وہ عظمت ہےجسے کوئی حاصل نہیں کر سکتا۔ اور درود و سلام ہو ہمارے نبی محمد ﷺ پر، جو تمام انسانوں میں بہترین فرد ہیں، عظیم رسولوں کی مُہر ہیں، اور ان کے خاندان (رضی اللہ عنہم) اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) پر، اور اُن کے ان عظیم پیروکاروں پرجو اسلام کے نظام پر عمل پیرا ہوئے اور اس کے احکام پر پوری پابندی سے عمل کرتے رہے۔ اے اللہ! ہمیں بھی ان میں شامل فرما، ہمیں ان کی صحبت میں جمع فرما، اور ہمیں طاقت عطا فرما یہاں تک کہ ہم اس دن آپ سے ملاقات کریں جب قدم پھسل جائیں گے، اور وہ دن بڑا ہولناک ہو گا۔
اے مسلمانو: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
" بلوغ المرام من کتاب نظام الاسلام " کے عنوان کی اس کتاب میں جتنی اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے ، ہم آپ کے ساتھ کئی نشستیں کریں گے۔ ہماری یہ دسویں قسط ہے، جس کا عنوان" ہر چیز کا کوئی خالق ہونا لازم ہے جو اسے تخلیق کرتا ہے" ہے۔ اس قسط میں ہم اس بات پر غور کریں گے جو کتاب ' نظام اسلام ' کے صفحہ 7 پر عالم اور سیاسی مفکر شیخ تقی الدین النبہانی ؒنے بیان کی ہے۔
شیخ تقی الدین النبہانی رحمہ اللہ نے فرمایا: جہاں تک اشیاء کے لیے ایک ایسے خالق کے وجود کی ضرورت کا تعلق ہے تو یہ اس لیے ہے کہ وہ تمام اشیاء جن کا عقل ادراک کرتی ہے مثلا انسان حیات اور کائنات سب کی سب محدود ، عاجز اور ناقص اور محتاج ہیں بس انسان محدود ہے کیونکہ وہ ہر چیز میں ایک حد تک جا سکتا ہے اس سے تجاوز نہیں کر سکتا لہذا وہ محدود ہے ،زندگی بھی محدود ہے کیونکہ اس کا مظہر ہی انفرادی ہے اور حواس کے ذریعے اس بات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ یہ ایک فرد کے اندر ہی ختم ہو جاتی ہے لہذا یہ بھی محدود ہے ،کائنات بھی محدود ہے کیوں کہ یہ ایسے اجسام کا مجموعہ ہے جس میں ہر جسم محدود ہے اور محدود اشیاء کا مجموعہ بھی لازمی طور پر محدود ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ انسان ، کائنات اور حیات سب کے سب قطعی طور پر محدود ہیں جب ہم ایک محدود چیز پر غور کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ازلی نہیں ہے کیونکہ اگر وہ چیز ازلی ہوتی تو محدود نہ ہوتی لہذا محدود چیز لازمی طور پر کسی اور کی مخلوق ہوگی اور وہ ذات ہی انسان حیات اور کائنات کی خالق ہے پھر یہ خالق یا تو کسی اور کی مخلوق ہوگا یا خود اپنا ہی خالق ہوگا یا پھر وہ ازلی ہوگا جس کے وجود کا ہونا ایک لازمی امر ہو ،اس کا کسی اور کی مخلوق ہونا تو باطل ہے کیونکہ اس صورت میں وہ محدود ٹھہرے گا نیز اپنے اپ کا خالق ہونا بھی باطل ہے کیونکہ اس صورت میں وہ ایک ہی وقت میں اپنا خالق اور اپنے اپ کا مخلوق ہوگا اور یہ بھی باطل ہے لہذا یہ خالق ازلی اور واجب الوجود ہی ہو سکتا ہے اور یہ خالق اللہ تعالی ہے۔
انسان کے حواس جن اشیاء کو محسوس کرتے ہیں ،محض ان اشیاء کے وجود سے ہی ایک صاحب عقل شخص اس بات کا ادراک کر سکتا ہے کہ ان کا کوئی خالق ہے کیونکہ ان تمام اشیاء میں اس امر کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ ناقص و عاجز ہیں اور کسی ذات کی محتاج ہیں لہذا یہ قطعی طور پر مخلوق ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے کہ خالق مدبر کی ذات موجود ہے ، کائنات ، انسان اور حیات میں سے کسی ایک کی طرف نگاہ ڈالنا ہی کافی ہے۔ پس کائنات میں موجود ستاروں میں سے کسی ایک ستارے پر نگاہ ڈالنا، یا زندگی کی صورتوں میں سے کسی بھی صورت کے بارے میں غور و خوض کرنا، اور انسان کے کسی پہلو کا ادراک کرنا اللہ تعالی کے وجود کے حق میں قطعی دلیل ہے-
اور ہم اللہ کی رحمت، مغفرت، رضا اور جنت کی امید رکھتے ہوئے کہتے ہیں: بے شک، خالق مدبر کے وجود کی تصدیق کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ آسان اور قابلِ رسائی ہے، جسے ہر انسان سمجھ سکتا ہے۔ یہ وہی طریقہ ہے جس کی طرف قرآنِ کریم دعوت دیتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ (١٧) وَإِلَى السَّمَاءِ كَيْفَ رُفِعَتْ (١٨) وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ (١٩) وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ (سورۃ الغاشیہ :17-20)
کیا وہ اونٹوں پر غور نہیں کرتے کہ انہیں کیسے پیدا کیا گیا؟ اور آسمان پر کہ اسے کیسے بلند کیا گیا؟ اور پہاڑوں پر کہ انہیں کیسے گاڑا گیا؟
اور زمین پر کہ اسے کیسے بچھایا گیا؟ "
جو بھی اللہ کی مخلوقات پر غور کرتا ہے، وہ اس کی عظمت کو پہچان لیتا ہے اور اس کے وجود کے ثبوت کے طور پر لیتاہے۔ جیسے کہ ایک بدو نے کہا جب اس نے اونٹ کی لید دیکھی: "لید اونٹ کے ہونے کی نشانی ہے، اور نشانات راستے کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ کیا یہ بلند آسمان، اس زمین کی یہ وادیاں ، اور سمندر کی موجیں اس بات کا ثبوت نہیں کہ ایک قادرِ مطلق ہستی موجود ہے؟"
دوسرا طریقہ ان لوگوں کے لیے ہے جو آسان اور عمومی طریقے سے مطمئن نہیں ہوتے، خاص طور پر وہ لوگ جن کی سوچ پر کمیونسٹ نظریات کا اثر ہوا ہے، جس کی وجہ سے وہ صرف مادی اور محسوس شواہد کو ہی قبول کرتے ہیں۔ میں نے اس کا سامنا 1970 کی دہائی میں اپنے طلبہ کے ساتھ کیا، اور میں نے خود کو اس بات پر مجبور پایا کہ میں خالق کے وجود کو ان کے سامنے خالص عقلی دلیل کے ذریعے ثابت کروں، بغیر قرآن و سنت کے دلائل پر انحصار کیے۔میں نے مکالمے اور بحث کا طریقہ اختیار کیا، جس میں انہیں ہر قسم کے سوالات کرنے کی اجازت دی، چاہے وہ کتنے ہی مشکل یا پیچیدہ کیوں نہ لگیں۔ میں نے ان کے سوالات کا انتہائی باریک بینی اور وضاحت کے ساتھ جواب دیا۔میں نے ہر ایک سے درخواست کی کہ وہ ایک نوٹ بک اور دو قلم لائیں: ایک سرخ قلم سوالات لکھنے کے لیے اور دوسرا نیلا قلم جوابات لکھنے کے لیے۔ یہ نوٹ بک میری کتاب "مَعَالَم الإِيمَانِ المُستَنِير" (روشن ایمان کی نشانیاں)کی بنیاد اور ابتدائی خاکہ بن گئی۔
جہاں تک اس مثالی طریقے کا تعلق ہے جسے ہم حزب التحریر کے نوجوانوں نے کمیونسٹوں کے ساتھ بحث کرتے وقت اپنایا، جو خالق کے وجود کا انکار کرتے ہیں، ہم نے اس گفتگو کا آغاز ایک بنیادی سوال سے کیا: "کیا آپ کائنات میں موجود محسوس کی جانے والی اشیاء کو تین بنیادی اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں، جو کائنات میں موجود تمام چیزوں کو شامل کر سکیں ، تاکہ ہم اپنی گفتگو کو یہاں سے جاری رکھ سکیں؟"
اگر وہ ایسا کر سکتے تھے تو یہ بہت اچھا ہوتا تھا۔ اگر نہیں، تو ہم ان کی مدد کرتے رہتے، یہاں تک کہ ہم اس کو تین اقسام میں محدود کر دیتے: انسان، زندگی، اور کائنات۔
پھر ہم ہر ایک زمرے پر الگ الگ بات چیت شروع کرتے ہیں، چار پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے: عاجزی، نقص، محتاجی، اور محدودیت۔ اس بحث کے دوران ہم اپنے گفتگو کے ساتھی کے سامنے بارہ سوالات پیش کرتے ہیں۔
ہم پہلے انسانوں سے آغاز کرتے ہیں: کیا انسان ناقص ہے؟ کیا وہ محدود ہے؟ کیا وہ محتاج ہے؟ کیا وہ عاجز ہے؟
پھر ہم زندگی کے موضوع کی طرف بڑھتے ہیں: کیا زندگی ناقص ہے؟ کیا یہ محدود ہے؟ کیا یہ محتاج ہے؟ کیا یہ عاجز ہے؟
آخر میں ہم کائنات کی جانب رجوع کرتے ہیں: کیا کائنات ناقص ہے؟ کیا یہ محدود ہے؟ کیا یہ محتاج ہے؟ کیا یہ عاجز ہے؟
اگر ہم انسانوں، زندگی، اور کائنات کی عاجزی، نقص، محتاجی، اور محدودیت کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں، تو ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ یہ سب چیزیں اپنی ذات کے سوا کسی اور چیز کے ذریعہ تخلیق کی گئی ہیں، کیونکہ محدود چیزیں ازلی نہیں ہو سکتیں؛ ورنہ وہ محدود نہ ہوتیں۔ ان کے وجود کے آغاز کے لیے وضاحت درکار ہے، لہذا یہ ضروری ہے کہ محدود چیزیں کسی اور کے ذریعہ تخلیق کی گئی ہوں۔
یہ حسی مشاہدے (حواس خمسہ) سے واضح ہے کہ انسان، زندگی، اور کائنات سب عاجز، ناقص، اور محتاج ہیں۔
انسان: انسان عاجز ہیں، کمزوری کی حالتوں کا سامنا کرتے ہیں؛ ان کی عقل اور صلاحیتوں میں کمی ہے، اور انہیں مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔
زندگی: زندگی بھی عاجز ہے، جو درد اور بیماریوں سے بھری ہوئی ہے، اور نظام اور طریقہ کار کی کمی کے باعث ناقص ہے۔ اسے پانی، ہوا، اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔
کائنات: اسی طرح، کائنات بھی اپنی ترتیب قائم کرنے میں عاجز ہے، تعمیر اور ترقی میں ناقص ہے، اور اس نظام کی محتاج ہے جو اسے منظم کرتا ہے۔
یہ بھی مشاہدے (حواس خمسہ) سے واضح ہے کہ انسان، زندگی، اور کائنات سب محدود ہیں:
انسان ہر پہلو میں ایک حد تک ترقی کرتے ہیں جسے وہ عبور نہیں کر سکتے، لہذا وہ محدود ہیں۔
زندگی صرف انفرادی طور پر ظاہر ہوتی ہے، اور یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ فرد کے ساتھ ہی اس کا ختم ہوجانا اسے محدود بناتا ہے۔
کائنات مختلف اجسام پر مشتمل ہے، جن میں سے ہر ایک محدود ہے، اور محدود چیزوں کا مجموعہ بھی ناگزیر طور پر محدود ہے۔
اس کے بعد ہم خالق کی صفات پر اپنی بحث کا آغاز کرتے ہیں، یہ کہتے ہوےکہ: "یہ ''کوئی اور'' ضرور انسانوں، زندگی، اور کائنات کا خالق ہونا چاہیے، اور اس کی تین ممکنات ہیں جن کا ہم ایک ایک کر کے جائزہ لیں گے۔"
پہلا امکان: یہ کسی اور چیز کے ذریعہ پیدا کیا گیا ہے۔ یہ ایک غلط امکان ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ بھی محدود ہے۔
دوسرا امکان: یہ خود کا خالق ہے۔ یہ بھی غلط ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ ایک ہی وقت میں پیدا ہونے والا اور خالق ، دونوں ہے، جو کہ ایک تضاد ہے۔
لہذا، باقی رہ جانے والا واحد امکان یہ ہے کہ خالق ازلی اور واجب الوجود ہے، اور وہ اللہ، جَلَّ جَلَالُهُ ہے۔
مزید یہ کہ جو شخص عقل رکھتا ہے وہ صرف چیزوں کی موجودگی سے، جو کہ اپنے حواس سے محسوس کی جاتی ہیں، یہ سمجھ سکتا ہے کہ ان کا ایک خالق ہے جو انہیں پیدا کرتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ یہ تمام چیزیں ناقص، عاجز، اور کسی اور چیز کی محتاج ہیں؛ لہذا، وہ بلا شبہ پیدا کردہ ہیں۔
یہ بات واضح کرنا باقی ہے کہ مخلوق کی صفات خالق کی صفات کے متضاد ہیں، جو کہ اللہ کی جلالت اور بزرگی کی نشانی ہے۔ اگر مخلوق ممکن الوجود ہے تو خالق واجب الوجود ہے۔
اگر مخلوق عاجز ہے تو خالق قادر مطلق ہے۔ اگر مخلوق ناقص ہے تو خالق کامل ہے۔ اگر مخلوق کسی اور چیز کی محتاج اور منحصر ہے تو خالق غیر محتاج ، بے نیاز (الصمد)ہے۔ اور اگر مخلوق محدود ہے تو خالق، جَلَّ جَلَالُهُ، ازلی اور لامحدودہے۔
نوٹ: خالق، جو اللہ ہے، کے وجود کی حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے اور یہ کہ وہ "اول" اور واجب الوجود ہے ، اور کائنات، انسانیت، اور زندگی کا خالق ہے:
مخالفین نے ابو حنیفہ ؒسے پوچھا، "آپ کا رب کب وجود میں آیا؟" انہوں نے جواب دیا، "اللہ تاریخ اور وقت سے پہلے موجود تھا؛ اس کے وجود کا کوئی آغاز نہیں ہے۔" ابو حنیفہ ؒ نے پوچھا، "چار سے پہلے کیا ہے؟" انہوں نے کہا، "تین۔" انہوں نے پوچھا، "تین سے پہلے کیا ہے؟" انہوں نے جواب دیا، "دو۔" انہوں نے پوچھا، "دو سے پہلے کیا ہے؟" انہوں نے کہا، "ایک۔" پھر انہوں نے پوچھا، "اور ایک سے پہلے کیا ہے؟" انہوں نے کہا، "اس سے پہلے کچھ نہیں ہے۔" انہوں نے نتیجہ نکالا، "اگر عددی" ایک "سے پہلے کچھ نہیں ہے تو اُس حقیقی " ایک " کا کیا معاملہ ہوگا، جو کہ اللہ ہے! وہ ازلی ہے، اور اس کے وجود کا کوئی آغاز نہیں ہے۔"
پھر مخالفین نے پوچھا، "آپ کا رب کس طرف ہے؟" انہوں نے جواب دیا، "اگر آپ ایک اندھیرے مقام میں لیمپ لاتے ہیں تو روشنی کس طرف جاتی ہے؟" انہوں نے کہا، "ہر طرف۔" انہوں نے کہا، "اگر مصنوعی روشنی کے ساتھ ایسا ہے ، تو کیا آسمانوں اور زمین کو روشن کرنے والے کے لیے ایسا ہی نہیں ہونا چاہیے؟۔"
انہوں نے پوچھا، "کیا ہم آپ کے رب کی حقیقت کے بارے میں کچھ جان سکتے ہیں؟ کیا وہ لوہے کی طرح ٹھوس، پانی کی طرح مائع، یا دھوئیں اور بھاپ کی طرح گیس کی شکل میں ہے؟" انہوں نے پوچھا، "کیا آپ مردہ شخص کے قریب بیٹھے ہیں؟" انہوں نے جواب دیا، "ہاں۔" انہوں نے پوچھا، "کیا آپ ان کے مرنے کے بعد ان کو محسوس کر سکتے ہیں؟" انہوں نے کہا، "نہیں۔" انہوں نے کہا، "مرنے سے پہلے کیا وہ بولتے اور حرکت کرتے تھے؟" انہوں نے جواب دیا، "ہاں۔" انہوں نے پوچھا، "کیا تبدیل ہوا؟" انہوں نے کہا، "ان کی روح کا نکلنا۔" پھر انہوں نے پوچھا، "آپ کہتے ہیں کہ ان کی روح نکل گئی؟" انہوں نے کہا، "ہاں۔" انہوں نے پھر پوچھا، "اس روح کی مجھے وضاحت کریں: کیا یہ لوہے کی طرح ٹھوس، پانی کی طرح مائع، یا دھوئیں اور بھاپ کی طرح گیس کی شکل میں ہے؟" انہوں نے جواب دیا، "ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے!" انہوں نے کہا، "اگر آپ ایک مخلوق کی روح کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے، تو آپ کیسے توقع کرتے ہیں کہ میں اللہ کی حقیقت کی وضاحت کروں؟" اور کافر خاموش رہ گئے۔
اے مومنو!
ہم اس قسط کو یہاں ختم کرتے ہیں۔ آپ سے ہماری اگلی ملاقات ان شاء اللہ اگلی قسط میں ہوگی۔ تب تک، اور جب تک ہم آپ سے دوبارہ ملیں، آپ اللہ کی حفاظت، سلامتی اور امان میں رہیں۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اسلام کے ذریعے عزت بخشے، اسلام کو ہمارے ذریعے عزت عطا کرے، ہمیں اپنی مدد عطا کرے، ہمیں مستقبل قریب میں خلافت کے قیام کا مشاہدہ کرنے کی خوشی عطا کرے، اور ہمیں اس کے سپاہیوں، گواہوں اور شہداء میں شامل کرے۔ بے شک وہی محافظ اور اس پر قادر ہے۔ ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔