
بسم الله الرحمن الرحيم
نظامِ اسلام سے مقاصد کے حصول
(حلقه11)
" القرآن الكريم اشیاء کی طرف توجہ دلاتا ہے"
کتاب "نظامِ اسلام" سے
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو عظیم فضل اور برکتوں کا مالک ہے، جو عزت اور شرف عطا فرماتا ہے، وہی وہ بنیاد ہےجسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، وہ عظمت ہےجسے کوئی حاصل نہیں کر سکتا۔ اور درود و سلام ہو ہمارے نبی محمد ﷺ پر، جو تمام انسانوں میں بہترین فرد ہیں، عظیم رسولوں کی مُہر ہیں، اور ان کے خاندان (رضی اللہ عنہم) اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) پر، اور اُن کے ان عظیم پیروکاروں پرجو اسلام کے نظام پر عمل پیرا ہوئے اور اس کے احکام پر پوری پابندی سے عمل کرتے رہے۔ اے اللہ! ہمیں بھی ان میں شامل فرما، ہمیں ان کی صحبت میں جمع فرما، اور ہمیں طاقت عطا فرما یہاں تک کہ ہم اس دن آپ سے ملاقات کریں جب قدم پھسل جائیں گے، اور وہ دن بڑا ہولناک ہو گا۔
اے مسلمانو:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
" بلوغ المرام من کتاب نظام الاسلام " کے عنوان کی اس کتاب میں جتنی اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے ، ہم آپ کے ساتھ کئی نشستیں کریں گے۔ ہماری یہ گیارھویں قسط ہے، جس کا عنوان ہے " القرآن الكريم اشیاء کی طرف توجہ دلاتا ہے" ۔ اس قسط میں ہم اس بات پر غور کریں گے جو کتاب ' نظام اسلام ' کے صفحہ آٹھ اور نو پر عالم اور سیاسی مفکر شیخ تقی الدین النبہانی ؒنے بیان کی ہے۔
شیخ نبہانی، اللہ ان پر رحم فرمائے، نے فرمایا: "۔ پس کائنات میں موجود ستاروں میں سے کسی ایک ستارے پر نگاہ ڈالنا، یا زندگی کی صورتوں میں سے کسی بھی صورت کے بارے میں غور و خوض کرنا، اور انسان کے کسی پہلو کا ادراک کرنا اللہ تعالی کے وجود کے حق میں قطعی دلیل ہے-چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم ان اشیاء کی طرف توجہ دلاتا ہے اور انسان کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنے ماحول اور اس سے متعلقہ امور پر نظر ڈالے اور دیکھے کہ کس طرح یہ اشیاء کسی ذات کی محتاج ہیں؛ اور اس کے نتیجے میں انسان ایک خالقِ مدبر کے وجود کا مکمل طور پر ادراک کرے۔اس بارے میں سینکڑوں آیات وارد ہوئی ہیں ۔ سورۃ آل عمران میں اللہ جل جلالہ فرماتے ہیں:
﴿إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ﴾
"بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں عقل رکھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں"(سورۃ آل عمران،3:190)۔
سورہ الروم میں اللہ جل جلالہ فرماتے ہیں:
﴿وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِلْعَالِمِينَ﴾
"اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق، اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف بھی ہے۔ یقیناً اس میں علم رکھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں" [سورۃ الروم 30:22]
سورہ الغاشیہ میں اللہ جل جلالہ فرماتے ہیں: ,
﴿أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ (17) وَإِلَى السَّمَاءِ كَيْفَ رُفِعَتْ (18) وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ (19) وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ﴾
"کیا وہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ انہیں کیسے پیدا کیا گیا؟ (آیت 17) اور آسمان کو، کہ کس طرح اسے بلند کیا گیا؟ (آیت 18) اور پہاڑوں کو، کہ کیسے گاڑ دیے گئے؟ (آیت 19) اور زمین کو، کہ کیسے بچھائی گئی؟ (آیت 20)" [سورۃ الغاشیہ17-20]
سورہ الطارق میں اللہ جل جلالہ فرماتے ہیں:
﴿فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ مِمَّ خُلِقَ (5) خُلِقَ مِن مَّاءٍ دَافِقٍ﴾
"تو انسان دیکھے کہ اسے کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ (آیت 5) اسے ایک اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا گیا ہے، جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔ (آیت 6)" [سورۃ الطارق 5-6]
سورہ البقرہ میں اللہ جل جلالہ فرماتے ہیں:
﴿إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ﴾
"بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں، رات اور دن کے بدلنے میں، اور ان کشتیوں میں جو سمندر میں لوگوں کے فائدے کے لیے چلتی ہیں، اور اس پانی میں جو اللہ نے آسمان سے نازل کیا، جس سے اس نے زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیا، اور زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیے، اور ہواؤں کے چلنے میں، اور بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں، ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو عقل رکھتے ہیں۔" [سورۃ البقرہ 2:164]۔
اس کے علاوہ، بہت سی آیات ہیں جو انسان کو اس بات پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتی ہیں کہ وہ اپنے اردگرد کی چیزوں اور ان سے وابستہ ہر چیز پر گہرائی سے غور کرے، جن سے انسان خالق ِ مدبر کے وجودپر استدلال کرسکتا ہے۔ تاکہ اللہ تعالی پر انسان کا ایمان پختہ اور عقلی ہو نیز یہ ایمان دلیل پر مبنی ہو۔
ہم اللہ کی مغفرت، بخشش، رضا اور جنت کے امید وار ہیں اور کہتے ہیں: بے شک یہ قرآن کا وہ طریقہ ہے جو اس خالق کے وجود کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اس کائنات پر حکومت کرتا ہے اور اس کی عظمت اور اس کی تمام مخلوقات پر اس کے تسلط کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید مندرجہ ذیل طریقے اختیار کرتا ہے:
پہلا طریقہ: "یہ انسان ، حیات اور کائنات میں کسی چیز کی طرف توجہ دلاتا ہے تاکہ انسان خالق کے وجود کی جانب راہنمائی حاصل کر سکے۔ جیسے کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
(وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّـهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ)
" اور اس کی نشانیوں میں سے رات اور دن اور سورج اور چاند ہیں ،سورج کو سجدہ نہ کرو اور نہ چاند کو اور اس الله کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو ۔" (سورۃ فصلت، 37)۔
چنانچہ، کائنات میں کسی بھی سیارے پر غور کرنا بلا شک اللہ، عزوجل، کے وجود کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
دوسرا طریقہ: یہ چیزوں کی طرف توجہ دلاتا ہے اور انسانوں کو ان پر غور و فکر کرنے کی ترغیب دیتا ہے، ان کے اردگرد اور ان سے متعلقہ اشیاء ااور معاملات کے بارے میں۔ جیسے کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
أَفَرَأَيْتُم مَّا تَحْرُثُونَ (٦٣) أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ (٦٤) لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَاهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ
"کیا تم نے دیکھا جو تم بوتے ہو؟ (63) کیا تم اسے بڑھاتے ہو یا ہم ہی بڑھانے والے ہیں؟ (64) اگر ہم چاہتے تو اسے خاک بنا دیتے، اور تم حیرت میں رہ جاتے۔" (سورۃ الواقعة، 65)۔
یہاں، انسان دیکھتا ہے کہ چیزیں ایک دوسرے پر کس طرح منحصر ہیں، جو اللہ، خالق اور منتظم کے وجود کا واضح احساس دلاتا ہے۔
تیسرا طریقہ: یہ زندگی کے کسی بھی مظہر پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِّمَنْ أَرَادَ أَن يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا
" اور وہی ہے جو رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے لایا، اس کے لیے جو یاد رکھنا چاہے یا شکر گزار ہونا چاہے۔" (سورۃ الفرقان، 62)۔
بے شک، زندگی کے کسی بھی پہلو پر غور کرنا بلا شک اللہ، عزوجل، کے وجود کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
چوتھا طریقہ: یہ انسانیت کے کسی بھی پہلو کو پہچاننے کی دعوت دیتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
وَفِي أَنفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ
"اور کیا تم اپنے اندر نہیں دیکھتے؟" (سورۃ الذاریات، 21)۔
اور یہ بھی فرماتے ہیں:
أَفَرَأَيْتُم مَّا تُمْنُونَ (٥٨) أَأَنتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ
"کیا تم نے دیکھا جو تم خارج کرتے ہو؟ (58) کیا تم اسے پیدا کرتے ہو، یا ہم ہی پیدا کرنے والے ہیں؟" (سورۃ الواقعة، 59)۔
انسانیت کے کسی بھی پہلو کو پہچاننا بلا شک اللہ، عزوجل، کے وجود کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
اس سیاق میں، مجھے ایک کہانی یاد آتی ہے جو کسی نے سنائی تھی جو کبھی کمیونسٹ تھا، جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ اللہ نے اسے ایمان کی طرف کیسے رہنمائی کی۔ مصنف ، داوود عبدالعفو، اپنی کتاب "میرا راستہ اللہ کی طرف" کے صفحہ 92 پر لکھتے ہیں:
"میرا اللہ کے ساتھ ملنا تقریباً اٹھارہ سال کے سفر کے بعد ہوا، جس میں میں کمیونسٹوں کے ساتھ سرخ ڈھول بجاتا رہا... 1964 کی گرمیوں میں، اگر مجھے صحیح یاد ہے، میں نے ایک کتاب 'مُروّی کائنات' اپنے دوست ڈاکٹر عبدالرحیم بدر کی لکھی ہوئی پائی، جس نے بنیادی طور پر میری زندگی کا راستہ بدل دیا۔
اس کتاب کو پڑھنے سے پہلے، میں یہ سمجھتا تھا کہ کائنات وسیع ہے، لیکن میں نے بعد میں جو سیکھا، وہ اس سے کہیں زیادہ تھا۔ میں نے جانا کہ سورج کے بعد ہمارے قریب ترین ستارہ چار نوری سال کی دوری پر ہے، اور کچھ ستارے جنہیں ہم دیکھتے ہیں اور مشاہدہ کرتے ہیں، وہ لاکھوں نوری سال دور ہیں، یعنی کچھ ستارے کائناتی طور پر غائب ہو چکے ہیں۔ پھر بھی، ہم انہیں ان کے غائب ہونے سے پہلے کی طرح دیکھتے رہتے ہیں کیونکہ جو روشنی انہوں نے جاری کی، وہ کائنات میں سفر کرتی رہتی ہے، اور جب وہ ہم تک پہنچتی ہے تب ہی ہم انہیں دیکھ پاتے ہیں ۔
ڈاکٹر عبدالرحیم بدر اپنی کتاب " مُروّی کائنات" کے صفحہ 52پر، دو سو کے نشان کے بعد، بیان کرتے ہیں: " ہم دوربین کی سمت کو جدھر بھی کرتے ہیں، ہمیں ستارے اور کہکشائیں ملتی ہیں جن کا مطالعہ ماہرین فلکیات نے کیا ہے، ان کی خصوصیات کو بیان کیا ہے، ان کے نام رکھے ہیں ، اور ان کی انتہائی دوری کا اندازہ لاکھوں اور اربوں (جب کہ ایک ارب ایک ہزار ملین ہوتا ہے) نوری سالوں میں لگایا ہے۔ تاہم، چاہے ماہرین فلکیات کتنے بھی صفر نوری سالوں کی گنتی میں لگاتے جائیں یا ان کی دوربینیں انہیں کتنی دور تک دیکھنے کی اجازت دیں، وہ لازمی طور پر ایک خاص حد تک پہنچتے ہیں اور کہتے ہیں، 'ہم نہیں جانتے کہ اس کے آگے کیا ہے۔
داود عبدالعفو اپنی ہدایت کی کہانی جاری رکھتے ہیں، کہتے ہیں: "یہ 1964 کے گرمیوں کی بات ہے، جیسا کہ میں نے ذکر کیا۔ میں شام اپنے خاندان کے ساتھ گزارتا ،پھر میں کتاب کو اپنے ساتھ چھت پر پڑھنے کے لیے لےجاتا، اور اس کے بعد وہاں سو جاتا تاکہ گرمی سے بچ سکوں، کیونکہ میں ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں نہیں سو سکتا تھا۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے کتاب پسند آئی، اس کے سائنسی مباحثے اور حقائق و اعداد و شمار کی تیزی سے آمد نے مجھے ایسا محسوس کرایا جیسے بھوکے لوگ کھانے کی طرف بڑھ رہے ہوں۔ تاہم، کتاب نے مجھے صرف لطف نہیں دیا، بلکہ یہ غور و فکر کا ایک دروازہ کھولنے میں مددگار ثابت ہوئی، جو مجھے ان تمام شعبوں سے دور لے گئی جن کی میں پہلے تلاش کرتا تھا۔ اس نے مجھے ایک نئے جہان میں داخل کیا جہاں میں اللہ، عزوجل، سے آمنے سامنے ملا۔ کیسے؟"
"ایک سادہ سی مساوات میرے اندر ایک تحریک پیدا کرتی ہے، جو رازوں اور اسرار سے بھری ہوئی اس وسیع و عریض کائنات میں میرے مقام، میری حیثیت اور میرے کردار کے بارے میں میرے سوالات سے جنم لیتی ہے:
قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا
"کہو، اگر سمندر میرے رب کے الفاظ کے لیے سیاہی بن جائے، تو سمندر خشک ہو جائے گا، اس سے پہلے کہ میرے رب کے الفاظ ختم ہوں، اگرچہ ہم سمندر کی مانند اور بھی سیاہی لے آئیں ۔"( الکہف۔ 109)
"اللہ تعالی نے سچ فرمایا۔ ایک سادہ سی مساوات، تو یہ کہتی ہے: ایک چھوٹی سی مخلوق ہے جو کویت کے علاقے حویلی کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے... اور حویلی کویت شہر کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے... اور کویت شہر، ریاست کویت کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے... اور ریاست کویت ہماری زمین کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے... اور ہماری زمین ہمارے شمسی نظام میں کچھ نہیں ہے... اور ہمارا شمسی نظام کہکشاں میں موجود لاکھوں شمسی نظاموں کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے، جو مل کر اس کہکشاں کو بناتے ہیں... اور کہکشاں اپنے مشاہدہ شدہ کائنات میں موجود اربوں کہکشاؤں کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے... اور بلا شبہ، اللہ کی سلطنت میں دیگر جہان ہیں، جو ہماری آنکھوں اور ہمارے محدب عدسوں سے دور ہیں... اللہ کی حمد ہو، جو جہانوں کا رب ہے، نہ کہ صرف ایک جہان کا رب... ایسے سوالات سے، میں نے ایک سادہ نتیجہ اخذ کیا... ایک بہت سادہ نتیجہ کہتا ہے: تم کون ہو؟ اے چھوٹے کیڑے—کیایہ اللہ تعالی کی طرف سے اولاد آدم کو دی جانے والی عزت کا انکار نہیں ؟— تم کون ہو؟ اے چھوٹے کیڑے، جو ایک کمرے کے اندر گرمی برداشت نہیں کر سکتا... جس کی حیثیت اللہ کی سلطنت میں کچھ بھی نہیں ہے؟ تو، آپ محدود عقل کے ساتھ فیصلہ کرنے والے کون ہیں... بہت محدود... اور اپنے ناقص دلائل کے ساتھ... بہت ناقص، اس وسیع کائنات پر... جو رازوں اور معموں سے بھری ہوئی ہے... اور جس کا ڈیزائن اور انتظام کامل ہے؟ کیا یہ بات معقول ہے کہ یہ کائنات، اپنی تمام وسعت، رازوں، اور پیچیدہ ڈیزائنوں کے ساتھ، محض اتفاق سے ہمیشہ سے موجود ہے اور ہمیشہ ایسا ہی رہے گی۔
بے شک، علم صرف اسی چیز کو پہچانتا ہے جو ٹھوس شواہد یا عقلی تصدیق سے حمایت یافتہ ہو۔ یہ واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ منظم کائنات ایک خالق کی محتاج ہے جو اسے وجود میں لایا، اوراس کی تخلیق اور انتظام کو مکمل کیا۔ میں نے اللہ کا سامنا کیا، ہاں، میں نے اللہ کا سامنا کیا ، زمین کی سطح سے آسمان میں ستاروں کی طرف دیکھتے ہوئے، جیسے کہ انہیں پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ آسمان کی ایک نئی رنگت میری آنکھوں میں بھر آئی ، میرے ضمیر اور وجود میں ایک نئی اہمیت... میں نے بغیر کسی شک کے محسوس کیا کہ وہ ایک اللہ کی تخلیق ہیں، جو واحد، ابدی، قادر مطلق اور خالق مدبرہے۔ جب میں نے اپنی والدہ کی اُس بات کو سمجھا، جو وہ اکثر نصیحت کے طور پر دہرایا کرتی تھیں، "میرے بیٹے، انہوں نے اللہ کو دیکھا نہیں ہے، لیکن انہوں نے اسے اپنی عقل کے ذریعے پہچانا!" ہاں، میں نے اپنی عقل کے ذریعے ، اس کائنات کی وسعت، اس کی تخلیق کی تکمیل، اور اس کے منظم امور کے درمیان ، اللہ کو جانا۔ جب اللہ نے مجھے اپنی طرف راہنمائی کی، میں نے کتاب کو ایک طرف رکھا اور گہری نیند میں چلا گیا، صرف اذان کے آواز پر جاگ اٹھا، جو فجر کی نماز کے لیے دی جا رہی تھی۔ میں نے وضو کیا اور مسجد میں جا کر نماز ادا کی، خود کو مؤمنوں کی جماعت کے درمیان پایا۔ میں ان کے درمیان اس طرح کھڑا ہوا جیسے میرے والد مجھے مقام ابراہیم میں کھڑا کرتے تھے۔
اے مومنو!
ہم اس قسط کو یہاں ختم کرتے ہیں۔ آپ سے ہماری اگلی ملاقات ان شاء اللہ اگلی قسط میں ہوگی۔ تب تک، اور جب تک ہم آپ سے دوبارہ ملیں، اللہ کی حفاظت، سلامتی اور امان میں رہیں۔ ہم اللہ سبحانہ و تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اسلام کے ذریعے عزت بخشے، اسلام کو ہمارے ذریعے عزت عطا کرے، ہمیں اپنی مدد عطا کرے، ہمیں مستقبل قریب میں ریاست ِ خلافت کے قیام کا مشاہدہ کرنے کی خوشی عطا کرے، اور ہمیں اس کے سپاہیوں، گواہوں اور شہداء میں شامل کرے۔ بے شک وہی محافظ اور اس پر قادر ہے۔ ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔