
بسم الله الرحمن الرحيم
نظامِ اسلام سے مقاصد کے حصول
(حلقه13 )
" انسانی عقل محدود ہے اور اپنی حسی شعور سے ماورا چیزوں کو سمجھنے سے قاصر ہے"
کتاب "نظامِ اسلام" سے
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو عظیم فضل اور برکتوں کا مالک ہے، جو عزت اور شرف عطا فرماتا ہے، وہی وہ بنیاد ہےجسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، وہ عظمت ہےجسے کوئی حاصل نہیں کر سکتا۔ اور درود و سلام ہو ہمارے نبی محمد ﷺ پر، جو تمام انسانوں میں بہترین فرد ہیں، عظیم رسولوں کی مُہر ہیں، اور ان کے خاندان (رضی اللہ عنہم) اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) پر، اور اُن کے ان عظیم پیروکاروں پرجو اسلام کے نظام پر عمل پیرا ہوئے اور اس کے احکام پر پوری پابندی سے عمل کرتے رہے۔ اے اللہ! ہمیں بھی ان میں شامل فرما، ہمیں ان کی صحبت میں جمع فرما، اور ہمیں طاقت عطا فرما یہاں تک کہ ہم اس دن آپ سے ملاقات کریں جب قدم پھسل جائیں گے، اور وہ دن بڑا ہولناک ہو گا۔
اے مسلمانو:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
" بلوغ المرام من کتاب نظام الاسلام " کے عنوان کی اس کتاب میں جتنی اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے ، ہم آپ کے ساتھ کئی نشستیں کریں گے۔ ہماری یہ تیرھویں قسط ہے، جس کا عنوان ہے " انسانی عقل محدود ہے اور اپنی حسی شعور سے ماورا چیزوں کو سمجھنے سے قاصر ہے" ۔ اس قسط میں ہم اس بات پر غور کریں گے جو کتاب ' نظام اسلام ' کے صفحہ گیارہ اور بارہ پر عالم اور سیاسی مفکر شیخ تقی الدین النبہانی ؒ نے بیان کی ہے۔
شیخ نبہانیؒ، اللہ ان پر رحم فرمائے، نے فرمایا: " اگرچہ اللہ پر ایمان تک پہنچنے کے لیے عقل کا استعمال انسان پر فرض ہے لیکن انسان کے لیے اللہ کی ذات کا احاطہ کرنا ممکن نہیں، جو انسان کے حواس اور عقل سے بالاتر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی عقل محدود ہے اور ایک محدود قوت خواہ کتنی اعلی ہو جائے ،اس کی صلاحیت میں کتنا ہی اضافہ ہو جائے ،وہ محدود ہی رہتی ہے اور اپنی حد سے اگے نہیں بڑھ سکتی ۔چنانچہ انسان کی ادراک کرنے کی صلاحیت محدود ہے ،معلوم ہوا کہ انسان اللہ تعالی کی ذات کے ادراک سے قاصر ہے اور اللہ تعالی کی حقیقت کے ادراک سے بھی عاجز ہے کیونکہ اللہ تعالی کائنات انسان اور حیات سے ماورا ہے اور انسانی عقل کسی ایسی چیز کا ادراک نہیں کر سکتی جو اس سے ماورا ہو ۔اس لیے وہ اللہ تعالی کی ذات کے ادراک سے عاجز ہے۔ تاہم یہاں پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اگر انسان کی عقل اللہ تعالی کی ذات کے ادراک سے عاجز ہے تو پھر انسان اللہ پر عقلی طور پر ایمان کیسے لائے ؟ کیونکہ اللہ تعالی پر ایمان لانے کا مطلب ہے کہ اللہ تعالی کے وجود پر ایمان لانا اور اللہ تعالی کے وجود کا ادراک اس کی مخلوقات کے وجود کے ادراک کے ذریعے ہوتا ہے اور اس کی مخلوقات کائنات، انسان اور حیات ہیں اور ان مخلوقات کا ادراک عقل کے دائرے میں ہے ،اس لیے عقل نے ان سب کا ادراک کیا اور ان کے ادراک کے نتیجے میں خالق کی موجودگی کا بھی ادراک کیا اور وہ خالق اللہ تعالی ہے ،چنانچہ اللہ کے وجود پر ایمان عقلی ہے اور عقل کے دائرے کے اندر ہے ،اس کے برخلاف اللہ تعالی کی ذات کا ادراک ناممکن ہے کیونکہ اللہ تعالی کی ذات کائنات ،انسان اور حیات سے ماورا ہے لہذا وہ عقل کی پہنچ سے بھی ماورہ ہے ،عقل کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے سے ماورا کسی چیز کا ادراک کر سکے، عقل کی یہ عاجزی یعنی اپنے سے ماورا کا ادراک نہ کر سکنا ایمان کو مضبوط کرتی ہے اور یہ کسی قسم کے شک و شبہ کا باعث نہیں بنتی ،کیونکہ جب اللہ پر ہمارا ایمان عقل کے ذریعے ہے ،تو اس کے وجود کا ادراک بھی کامل ہوگا ،جب اللہ تعالی کے وجود کے بارے میں ہمارا شعور عقلی ہو تو اللہ تعالی کے وجود کے بارے میں ہمارا یہ شعور ایک یقینی شعور ہوگا ، اس سے ہمیں ایک مکمل ادراک اور خالق کے تمام تر صفات کے حوالے سے یقینی شعور حاصل ہوتا ہے ۔جس سے ہمیں یہ یقین ہوتا ہے کہ ہم اللہ پر مضبوط ایمان رکھنے کے باوجود اللہ تعالی کی حقیقت کے ادراک کی ہرگز طاقت نہیں رکھتے، پس ہم پر لازم ہے کہ ہم اس تمام کو تسلیم کریں جس کی اللہ نے ہمیں خبر دی ہے اور جس کے ادراک کرنے یا اس کے ادراک تک پہنچنے سے ہماری عقل قاصر ہے ،اور یہ انسانی عقل کی فطری عاجزی کی وجہ سے ہے ، جو اپنے محدود اور نسبتی پیمانوں کے ذریعے اپنے سے ماورا کا ادراک نہیں کر سکتی ،کیونکہ اللہ کے ادراک کے لیے ایسے پیمانوں کی ضرورت ہے جو نہ تو نسبتی ہوں اور نہ ہی محدود ہوں اور یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا نہ تو انسان مالک ہے اور نہ ہی وہ کبھی اس کا مالک بن سکتا ہے “۔
اور ہم اللہ کی مغفرت، رحمت، رضا اور جنت کی امید رکھتے ہوئے کہتے ہیں: یہ واضح ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے لیے عقل کا استعمال کرنا واجب ہے۔ تاہم، انسان اپنی حس اور عقل سے ماورا چیزوں کو نہیں سمجھ سکتا، کیونکہ انسانی عقل محدود ہے، اور اس کی صلاحیت چاہے کتنی ہی بلند ہو جائے، ہمیشہ ایسی حدود میں مقید رہتی ہے جنہیں وہ عبور نہیں کر سکتی۔ اس لیے انسانی ادراک بھی محدود ہے۔
اللہ تعالیٰ ازلی ہے اور زمان و مکان کی قید سے پاک ہے، کیونکہ وہی زمان و مکان کا خالق ہے۔ تو محدود کس طرح غیر محدود کو سمجھ سکتا ہے یا اس کا احاطہ کر سکتا ہے؟
ایک ملحدین کاگروہ امام ابو حنیفہ النعمانؒ کے پاس آیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ ہمیں اللہ، جو بابرکت اور بلند و برتر ہے، دکھائیں۔ وہ ایک ساحل کے قریب تھے، امام ابو حنیفہؒ وہاں سے اٹھے اور ساحل کے قریب ایک چھوٹا سا گڑھا کھودنے لگے، اور سمندر یا دریا سے پانی اس گڑھے میں ڈالنے لگے۔
ملحدین نے حیرت سے پوچھا: "ماذا تفعل يا أبا حنيفة؟ اے ابو حنیفہ! آپ کیا کر رہے ہیں؟ امام ابو حنیفہؒ نے جواب دیا: أترون هذه الحفرة الصغيرة؟ "کیا تم یہ چھوٹا سا گڑھا دیکھتے ہو؟ "انہوں نے کہا: نعم"ہاں"
امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا: أريد أن أنقل الماء من البحر أو النهر إلى هذه الحفرة "میں چاہتا ہوں کہ سمندر یا دریا کا پانی اس گڑھے میں منتقل کر دوں۔"
یہ سن کر وہ حیرت زدہ ہو کر بولے: هل جننت يا أبا حنيفة؟ أتريد أن تنقل ماء هذا البحر الكبير إلى هذه الحفرة الصغيرة؟ "کیا آپ پاگل ہو گئے ہیں، اے ابو حنیفہ؟ کیا آپ اس وسیع سمندر کا پانی اس چھوٹے سے گڑھے میں ڈالنا چاہتے ہیںز"
امام ابو حنیفہؒ نے پرزور انداز میں جواب دیا: بل أنتم المجانين! لأنكم تريدون لعقولكم الصغيرة المحدودة أن تستوعب الخالق الكبير اللامحدود"نہیں، بلکہ تم پاگل ہو! کیونکہ تم چاہتے ہو کہ اپنی چھوٹی، محدود عقلوں سے عظیم اور غیر محدود خالق کو سمجھ لو"
یہ واقعہ اللہ کی ذات کے فہم میں انسانی عقل کی محدودیت کو واضح کرتا ہے، اور یہ بتاتا ہے کہ محدود مخلوق ،عظیم خالق کا احاطہ نہیں کر سکتی۔
اور اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عقل اللہ ﷻ کی ذات کو سمجھنے اور اس کی حقیقت جاننے سے قاصر ہے، کیونکہ اللہ ﷻ کائنات، انسانیت اور زندگی سے ماورا ہیں۔ انسانی عقل ان چیزوں کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتی جو کائنات، انسانیت اور زندگی سے باہر ہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ کائنات کے اندر موجود کچھ محدود اشیاء کی حقیقت کو بھی پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہے۔ تو پھر وہ ان چیزوں کو کیسے سمجھ سکتی ہے جو ان سب سے ماورا ہیں؟
اللہ تعالیٰ کا وجود اس کی تخلیقات کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ کی ذات انسانی عقل کی گرفت سے باہر ہے۔ اللہ ﷻ کے وجود پر ایمان ایک ایسا معاملہ ہے جو عقل کی حدود میں آتا ہے اور جسے سمجھنا ممکن ہے۔ لیکن اللہ ﷻ کی ذات (ذاتُ اللہ) کو سمجھنا ناممکن ہے، اور عقل اس ادراک کو حاصل نہیں کر سکتی۔
یہی عقل کی عاجزی اور محدودیت ایمان کی تصدیق کے لیے ایک دلیل ہونی چاہیے، نہ کہ شک اور شبہ پیدا کرنے کا سبب۔
کتبِ عقائد میں اکثر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا جاتا ہے: العجزُ عن إدراك ذاتِ الله إدراكٌ "اللہ تعالیٰ کی ذات کو سمجھنے سے عاجزی خود ایک ادراک ہے۔"
یہ قول اپنے کہنے والے کی اللہ تعالیٰ کی معرفت کے مراحل میں گہرے علم اور فہم کی عکاسی کرتا ہے۔ اور کیوں نہ ہو، جب کہ وہ نبی کریم ﷺ کے بہترین صحابہ میں سے تھے اور آپ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تھے!
اس قول کا مفہوم یہ ہے کہ واجب الوجود، یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کو عقل کے ذریعے سمجھنے سے عاجزی اور اس کےادراک کو ناممکن پانا، خود اللہ ﷻ کے وجود اور اس کی عظمت کا اعتراف ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی سمجھ سے عاجزی ہی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ باقی تمام اشیاء سے بالاتر اور منفرد ہیں۔
مزید برآں، حضرت علی بن ابی طالب المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے کلمات میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: العجزُ عن إدراكِ ذاتِ الله إدراكٌ، والبحثُ عن سرِّ ذاتِ الله إشراكٌ "اللہ تعالیٰ کی ذات کو سمجھنے سے عاجزی ہی ادراک ہے، اور اس کی ذات کے راز کی جستجو کرنا شرک ہے۔"
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرنا شرک کے مترادف ہے، کیونکہ مخلوق کے لیے خالق کی ذات کی حقیقت کو جاننا ممکن ہی نہیں۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی اپنی ذات کو جانتے ہیں۔
لہٰذا، جو شخص اللہ تعالیٰ کی ذات کو سمجھنے کی جستجو کرے، وہ درحقیقت اپنی ذات میں الوہیت کا دعویٰ کر رہا ہے، اور یہی شرک ہے۔
اللہ تعالیٰ ہی بہتر جاننے والے ہیں۔
اسلام اللہ ﷻ کی تخلیقات پر غور و فکر کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور اللہ ﷻ کی ذات پر تفکر کرنے سے روکتا ہے۔ ابو الشیخ الاصبہانی ؒنے اپنی کتاب "عظمت" میں نقل کیا کہ ابو العباس الحراوی نے کہا: محمد بن زیاد الزیادی نے ہمیں معتمر سے، معتمر نے المغیرہ بن سلمہ سے اور المغیرہ بن سلمہ نے ابو امیہ، جو شبرمہ کے آزاد کردہ غلام تھے، سے نقل کیا کہ انہوں نے کہا: کچھ صحابہ کرام کھڑے ہوئے تھے اور نبی ﷺ ان کے پاس
آئے، تو وہ خاموش ہوگئے۔ آپ ﷺ نے پوچھا، مَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ؟ تم کیا بات کر رہے تھے؟
انہوں نے جواب دیا: یَا نَبِیَّ اللَّہِ ﷺ نَظَرْنَا إِلَى الشَّمْسِ فَتَفَكَّرْنَا فِيهَا، مِنْ أَيْنَ تَجِيءُ؟ وَأَيْنَ تَذْهَبُ؟ وَتَفَكَّرْنَا فِی خَلْقِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ "اے اللہ کے نبی ﷺ، ہم نے سورج کو دیکھا اور سوچا کہ یہ کہاں سے آتا ہے اور کہاں جاتا ہے؟ ہم اللہ کی تخلیق میں غور و فکر کر رہے تھے۔"
آپ ﷺ نے فرمایا: كَذَٰلِكَ فَافْعَلُوا، تَفَكَّرُوا فِي خَلْقِ اللَّہِ، وَلَا تَفَكَّرُوا فِي اللَّہِ
"ایسا ہی کرو: اللہ کی تخلیق پر غور و فکر کرو، لیکن اللہ کی ذات پر تفکر نہ کرو۔"
اس حدیث سے یہ واضح ہے کہ اسلام ہمیں اللہ کی تخلیقات پر غور و فکر کرنے کی ترغیب دیتا ہے، کیونکہ یہ ہماری عقل کے دائرے میں ہے، لیکن اللہ کی ذات پر تفکر کرنا ہماری عقل کی حدود سے باہر ہے اور اس سے روکا گیا ہے۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وجود کو دو امور میں سے کسی ایک کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے:
1۔ پہلا امر: حسی ادراک یا تو براہ راست ہوتا ہے یا اس کے اثرات کے ذریعے۔ جو چیز براہ راست ادراک کی جاتی ہے، اس کے وجود میں کوئی شک نہیں ہوتا؛ مثال کے طور پر، جب آپ ایک اونٹ کو دیکھتے ہیں، تو آپ اس کے وجود پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر حواس کسی چیز کی حقیقت کی تصدیق نہیں کر سکتے، تو اس کے وجود کو اس کے اثرات سے استنباط کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً، اگر آپ سڑک پر گوبر دیکھیں، تو آپ اس بات کا یقین کر سکتے ہیں کہ اونٹ کا وجود ہے، حالانکہ آپ نے اونٹ کو خود نہیں دیکھا۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے بدوی نے کہا، البَعَرَةُ تَدُلُّ عَلَى البَعِيرِ, وَالأثَرُ يَدُلُّ عَلَى المَسِيرِ, فَسَمَاءٌ ذَاتُ أبرَاجٍ, وَأرضٌ ذَاتُ فِجَاجٍ, وَبِحَارٌ ذَاتُ أموَاجٍ, ألا تَدُلُّ عَلَى الوَاحِدِ القَدِيرِ
"گوبر اونٹ کی نشاندہی کرتا ہے، اور آثار سفر کی نشاندہی کرتے ہیں۔ آسمان جس میں برج ہیں، زمین جس میں راستے ہیں، اور سمندر جس میں لہریں ہیں؛ کیا یہ سب ایک قادر و توانا ذات کی نشاندہی نہیں کرتے؟"
2۔ دوسرا امر: ایسی نصوص کا آنا جو کسی ایسے ذرائع سے ہوں جن کی صداقت قطعی ہو۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی قابل اعتماد شخص آپ کو بتائے کہ آپ کے کام کی جگہ پر آپ کے لئے انعام رکھا گیا ہے۔ آپ کیا سوچیں گے اگر یہ اطلاع دینے والا اللہ، رب العالمین ہوں؟ اللہ سے زیادہ سچا کون ہو سکتا ہے؟ اللہ سے زیادہ راست گو کون ہو سکتا ہے؟
اور چونکہ اللہ، عز و جل، پر ایمان عقل پر مبنی ہے، ہمارے لیے اس کی موجودگی کا ادراک مکمل ہے، جو فیصلہ کن دلائل اور ناقابلِ تردید شواہد کی موجودگی سے حاصل ہوتا ہے، جو شک یا ابہام کے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑتے۔ چونکہ اللہ کی موجودگی کا ہمارے ادراک کا تعلق عقل سے ہے، یہ ادراک قطعی ہے۔ یہ یقین اس بات سے پیدا ہوتا ہے جو اللہ نے حکم دیا ہے، جسے ثابت کرنے والے قطعی دلائل موجود ہیں۔ اس سب سے ہمیں اس کی تمام خدائی صفات کا مکمل فہم اور یقینی شعور حاصل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود، ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ہم اللہ کی ذات کو سمجھنے سے قاصر ہیں، حالانکہ ہمارا ایمان مضبوط ہے۔ ہمیں ان چیزوں کو قبول کرنا ہوگا جو ہماری عقل سے باہر ہیں یا جو اس کی قدرتی حدود کی وجہ سے ہم تک نہیں پہنچ سکتیں اور نہ ہم ان کا ادراک کر سکتے ہیں۔ ایسا فہم اس پیمانے کی ضرورت رکھتا ہے جو نہ تو نسبتی ہو نہ ہی محدود، اوریہ خصوصیات انسانیت کے پاس نہیں ہیں اور نہ وہ انہیں حاصل کر سکتی ہے۔
اے مومنو!
ہم اس قسط کو یہاں ختم کرتے ہیں۔ آپ سے ہماری اگلی ملاقات ان شاء اللہ اگلی قسط میں ہوگی۔ تب تک، اور جب تک ہم آپ سے دوبارہ ملیں، آپ اللہ کی حفاظت، سلامتی اور امان میں رہیں۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اسلام کے ذریعے عزت بخشے، اسلام کو ہمارے ذریعے عزت عطا کرے، ہمیں اپنی مدد عطا کرے، ہمیں مستقبل قریب میں خلافت کے قیام کا مشاہدہ کرنے کی خوشی عطا کرے، اور ہمیں اس کے سپاہیوں، گواہوں اور شہداء میں شامل کرے۔ بے شک وہی محافظ اور اس پر قادر ہے۔ ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔