السبت، 01 رمضان 1446| 2025/03/01
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
نظامِ اسلام سے مقاصد کے حصول- حلقه 14

بسم الله الرحمن الرحيم

 

نظامِ اسلام سے مقاصد کے حصول

 

(حلقه14)

 

"رسولوں (رسُل) کی ضرورت کا ثبوت"

(عربی سے ترجمہ)

 

 

کتاب "نظامِ اسلام" سے  

 

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو عظیم فضل اور برکتوں کا مالک ہے، جو عزت اور شرف عطا فرماتا ہے، وہی وہ بنیاد ہےجسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، وہ عظمت ہےجسے کوئی حاصل نہیں کر سکتا۔ اور درود و سلام ہو ہمارے نبی محمد ﷺ پر، جو تمام انسانوں میں بہترین فرد ہیں، عظیم رسولوں کی مُہر ہیں، اور ان کے خاندان (رضی اللہ عنہم) اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) پر، اور اُن کے ان عظیم پیروکاروں پرجو اسلام کے نظام پر عمل پیرا ہوئے اور اس کے احکام پر پوری پابندی سے عمل کرتے رہے۔ اے اللہ! ہمیں بھی ان میں شامل فرما، ہمیں ان کی صحبت میں جمع فرما، اور ہمیں طاقت عطا فرما یہاں تک کہ ہم اس دن آپ سے ملاقات کریں جب قدم پھسل جائیں گے، اور وہ دن بڑا ہولناک ہو گا۔ 

 

اے مسلمانو:                                             السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  

 

" بلوغ المرام من کتاب نظام الاسلام " کے عنوان  کی اس کتاب میں جتنی   اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے ، ہم آپ کے ساتھ کئی نشستیں کریں گے۔ ہماری یہ  چودھویں    قسط ہے، جس کا عنوان ہے " رسولوں (رسُل) کی ضرورت کا ثبوت" ۔ اس قسط میں ہم اس بات پر غور کریں گے جو کتاب ' نظام اسلام ' کے صفحہ 12 اور 13 پر عالم اور سیاسی مفکر شیخ تقی الدین النبہانی ؒنے بیان کی ہے۔

 

شیخ نبہانی، اللہ ان پر رحم فرمائے، نے فرمایا: "رہی بات رسولوں (رسُل) کی ضرورت کے ثبوت کی، تو یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ انسان اللہ جل جلاله کی مخلوق ہے اور جبلت تدین اس کے اندر فطری طور پر موجود ہے، کیونکہ یہ اس کی جبلتوں (غرائز) میں سے ایک ہے۔ اس لئے انسان اپنے خالق کی فطری طور پر تقدیس کرتا ہے، اور یہ تقدیس عبادت  کہلاتی ہے، جو انسان اور اس کے خالق کے درمیان تعلق  ہے۔ اگر اس تعلق کو بغیر کسی نظام (نظم) کے چھوڑ دیا جائے تو یہ پریشانی اور غیر خالق کی عبادت کی طرف لے جائے گا۔ لہذا، اس تعلق کو ایک درست نظام کے ذریعے منظم کرنا ضروری ہے۔ یہ نظام کوئی انسان نہیں بناسکتا کیونکہ انسان خالق کی حقیقت کا ادراک ہی نہیں کرسکتا  تو اس کے ساتھ تعلق کے لیئے نظام کس طرح بنائے گا ؟                 اس لئے یہ نظام خالق کی طرف سے ہی آنا چاہئے۔ چونکہ خالق کو یہ نظام انسان تک پہنچانا ہے، اس لئے اس دین کو پہنچانے کے لئے رسولوں کا ہونا ضروری ہے۔

 

انسانوں کےلیے رسولوں کی ضرورت کی دلیل یہ بھی ہے کہ انسان کو اپنی جبلتوں (غرائز) اور جسمانی ضروریات (حاجاتِ عضویہ) کی تسکین (اشباع) کی ضرورت (حاجہ) ہے۔ اگر ان جبلتوں اور جسمانی حاجات کا پورا کرنا کسی نظام کے بغیر ہو، تو یہ غلط اور خلاف معمول ہونے کی وجہ سے ، انسانیت کے لیے بدبختی (شقاوت) کا سبب بن جائے گا۔ اس لیے ایک ایسا نظام ہونا ضروری ہے جو انسان کی جبلتوں اور جسمانی ضروریات کو منظم انداز سے پوراکرے۔ یہ نظام انسان نہیں بناسکتا، کیونکہ انسانی جبلتوں اور جسمانی حاجات کو منظم کرنے  کے بارے میں اس کا فہم     اختلاف، تضاداور ناہمواری (تفاوت) کا شکار ہوتا رہتا ہے ۔ اسی طرح وہ         اس ما   حول سے بھی متاثر ہوتا ہے جس میں وہ رہتا ہے۔ پس اگر نظام  بنانے کا کام انسان کے سپرد کر دیا جائے تو یہ نظام بھی ناہمواری، اختلاف اور تضاد کا شکار ہو گا، جو انسانیت کے لیے بدبختی کا باعث بنے گا۔ لہذا، یہ نظام اللہ جل جلاله کی طرف سے ہی آنا چاہئے۔

 

Picture 15

 

اور ہم اللہ کی مغفرت، رحمت، رضا اور جنت کی امید رکھتے ہوئے کہتے ہیں: رسولوں کی ضرورت کا ثبوت عقل اور شریعت دونوں کے ذریعے ثابت ہے۔ شریعت کی دلیل کے لحاظ سے، اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی محمد صلى الله عليه وسلم کے بارے میں فرمایا:

 

وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ۔

"اور ہم نے آپ پر ذکر (کتاب) نازل کی تاکہ آپ لوگوں کے لیے واضح کریں جو اُن پر نازل کیا گیا ہے اور تاکہ شاید وہ غور و فکر کریں" (سورۃ النحل: 44)۔

 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہمارے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا مشن یہ ہے کہ لوگوں کے لیے وہ واضح کریں جو اللہ نے ان پر نازل کیا ہے۔ اس کی ایک مثال اللہ کا یہ فرمان ہے:

 

فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا

"پھر جب تم حالتِ اطمینان میں ہو جاؤ تو نماز قائم کرو۔ بے شک، نماز مومنین پر وقت مقررہ میں فرض کی گئی ہے" (سورۃ النساء: 103)۔

 

اللہ تعالیٰ نے نماز قائم کرنے کا حکم دیا اور اس کے کچھ اوقات کا ذکر کیا جیسے صبح، دوپہر اور شام۔ جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:

 

فَسُبْحَانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ * وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ۔

"تو اللہ کی تسبیح بیان کرو جب تم شام کرو اور جب تم صبح کرو۔ اور آسمانوں اور زمین میں اسی کے لیے حمد ہے، اور شام کے وقت اور دوپہر کے وقت بھی (سورۃ الروم: 17-18)۔

 

اللہ تعالیٰ نے دیگر مواقع پر عصر اور غروبِ آفتاب کا ذکر بھی کیا ہے، حالانکہ یہ شام کے وقت کے ذکر میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم کتاب میں نہ تو ہر نماز کے رکعات کی تعداد بیان کی ہے، نہ نماز کے ارکان (ارکانِ نماز) کی وضاحت کی ہے اور نہ ہی یہ بتایا ہے کہ نماز کیسے قائم کی جائے یا اس کے شرائط  اور کب یہ باطل ہو جاتی ہے۔ ان تمام چیزوں کی وضاحت ہمارے نبی صلى الله عليه وسلم نے اپنی احادیث اور عملی نمونوں کے ذریعے کی۔ آپ نے صحابہ (رضی اللہ عنہم) کے سامنے نماز ادا کی اور فرمایا:   «صَلُّوا كَمَا رَأيتُمُونِي أُصَلِّي»" نماز اس طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔"

 

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے پچھلے انبیاء اور رسولوں، جن پر سلام اور رحمت ہو، کے بارے میں فرمایا کہ ان کے مشن کا مقصد یہ ہے:

 

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ۔

"اور بے شک، ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا (جس نے کہا)'اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو'" (سورۃ النحل: 36)۔

 

اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کا مشن لوگوں کو اللہ کی توحید کی طرف دعوت دینا اور صرف اسی کی عبادت کرنا ہے۔ تمام انبیاء (علیہم السلام) اور رسولوں نے اپنی قوموں سے وہی بات کہی جو حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہی:

 

قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ۔

"بے شک، ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا، اور اس نے کہا، 'اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو؛ تمہارے لیے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ بے شک، میں تم پر ایک عظیم دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں'" (سورۃ الاعراف: 59)۔

 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ۔

"انسانیت ایک ہی امت تھی، پھر اللہ نے نبیوں کو خوشخبری دینے والااور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا اور ان کے ساتھ حق کے ساتھ کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان ان باتوں میں فیصلہ کرے جن میں وہ اختلاف کرتے تھے" (سورۃ البقرہ: 213)۔

 

اس سے واضح ہوتاہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کا مشن یہ ہے کہ وہ اللہ جل جلالہ کی اطاعت کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری دیں اور جو لوگ اللہ جل جلالہ کی نافرمانی کرتے ہیں، انہیں جہنم کی سزا سے ڈرائیں۔

 

یہ شریعت کی دلیل کے حوالے سے ہے جو لوگوں کےلیےرسولوں (علیہم السلام) کی ضرورت کو ثابت کرتی ہے۔ جہاں تک عقلی دلائل کا تعلق ہے، دو اہم نکات یہ ہیں:

 

پہلی دلیل : رسولوں (علیہم السلام) کی ضرورت اس حقیقت سے پیدا ہوتی ہے کہ لوگوں تک اللہ جل جلالہ کے دین کو پہنچانے کے لیے ان کی ضرورت ہے۔ یہ بات بے شک ثابت ہو چکی ہے کہ انسان کا تخلیق کار اللہ تعالی ہے۔ مزید برآں، دین کی طرف میلان (تدایُن) انسان میں فطری طور پر موجود ہے، کیونکہ یہ اس کی فطرت کا ایک حصہ ہے۔ انسان اپنی فطرت کے لحاظ سے اپنے خالق کی تقدیس کر تا ہے، اور یہ تقدیس عبادت کی شکل اختیار کرتی ہے۔ عبادت انسان اور اس کے خالق کے درمیان تعلق ہے۔

 

تاہم، اگر اس تعلق کو بغیر کسی ضابطے کے چھوڑ دیا جائے تو یہ کنفیوژن کا باعث بن سکتا ہے اور انسان دوسرے معبودوں کی عبادت کرنے لگ سکتا ہے۔ اس لیے اس تعلق کو ایک صحیح نظام کے تحت منظم کرنا ضروری ہے۔ یہ نظام انسانوں کی طرف سے وجود میں نہیں آ سکتا کیونکہ وہ خالق کی حقیقت کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تاکہ اپنے اور اس کے درمیان ایک نظام قائم کر سکیں۔ لہذا، یہ نظام خود خالق کی طرف سے آنا چاہیے، کیونکہ وہ العلیم اور الخبیرہے، اور یقیناً وہ  آگاہ ہے کہ اُس کی مخلوقات   کے لیئے  موزوں ترین   کیا ہے۔ کیونکہ وہ ہر چیز سے باخبر اور جاننے والا ہے؟ا للہ جل جلالہ نے فرمایا:

 

أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ   

"کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا، حالانکہ وہ لطیف اور باخبر ہے؟"         )سورة الملك: 14)

 

بے شک، وہ، جو عظیم ہے، ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ چونکہ یہ ضروری ہے کہ خالق اس نظام کو انسانیت تک پہنچائے، اس لیے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسولوں (علیہم السلام) کی ضرورت ہے تاکہ وہ اللہ جل جلالہ کے دین کو لوگوں تک پہنچا سکیں۔

 

دو سری دلیل :رسولوں کی ضرورت اس بات سے پیدا ہوتی ہے کہ لوگوں کو اس نظام کی ترسیل کی ضرورت ہے جو اللہ جل جلالہ نے ان کے لیے وضع کیا ہے اور یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے خالق، اپنے آپ، اور دوسروں کے ساتھ اپنے تعلقات کو کیسے منظم کریں۔ انسان فطری طور پر سماجی مخلوق ہیں۔ وہ دوسروں سے تنہائی میں نہیں رہ سکتے اور اپنی جبلتوں اور جسمانی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی حاجت رکھتے ہیں۔ اگر یہ تسکین کسی صحیح نظام کے بغیر حاصل کی جائے تو یہ اُسے غلط یا انحرافی طور پر پورا کرنے کی صورت اختیار کر سکتی ہے، جس کے نتیجے میں ا نسان کو پریشانی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

 

لہذا، ایک ایسا نظام ہونا ضروری ہے جو انسانی جبلتوں اور فطری ضروریات کے ساتھ ساتھ ان کے خالق، اپنے آپ، اور دوسروں کے ساتھ تعلقات کی تین اقسام کو منظم کرے۔ یہ نظام انسانوں کی     طرف سے نہیں ہو سکتا، کیونکہ ان کی جبلتوں اور ضروریات کو منظم کرنے کی سمجھ بوجھ عموماً عدم استحکام (تفاوت)، اختلافات (اختلاف)، اور تضاد (تناقض) کا شکار ہوتی ہے، اور ان کے ماحول سے متاثر بھی ہوتی ہے۔ اگر انہیں خود انسان پرچھوڑ دیا جائے تو ایسا نظام اختلافات اور تضادات کا شکار ہو گا، جو انسانی درد و کرب کی طرف لے جائے گا۔

 

اس لیے، یہ ضروری ہے کہ یہ نظام اللہ جل جلالہ کی طرف سے ہو، اور یہ ضروری ہے کہ رسول لوگوں تک اس نظام کو اللہ جل جلالہ کی طرف سے پہنچائیں۔

 

ہمیں یہ مثال بیان کرنا چاہیے کہ مختلف آلات کو تیار کرنے والی کمپنیاں اپنے انجینئروں اور ماہرین سے مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ ہر آلے کے ساتھ ایک چھوٹا سا کتابچہ شامل کریں۔ یہ کتابچہ وضاحتی تصاویر اور خاکے پر مشتمل ہوتا ہے جو آلے کے اجزاء، ہر حصے کا کام، آلے کے استعمال کے طریقے کی ہدایات، اور غلط استعمال ، جو اس آلے میں نقص یا ناکامی کی وجہ بن سکتے ہیں ،کے خلاف انتباہات فراہم کرتا ہے ۔ جب ان میں سے کوئی آلہ کسی بھی وجہ سے ناکام یا خراب ہوتا ہے، تو اسے فوراً تیار کرنے والی کمپنی یا کسی تجربہ کار انجینئر کے پاس مرمت کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی غیر ماہر اس میں مداخلت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو مالک اکثر اس طرح کی مداخلت کی اجازت دینے سے انکار کر دیتا ہے۔ تیار کرنے والی کمپنی اپنے آلات کو بہتر طور پر جانتی ہے اور ان کے استعمال کے لیے رہنما اصول وضع کرتی ہے۔ اسی طرح، اللہ جل جلالہ، جو کائنات، انسانیت، اور خود زندگی کا خالق ہے، اپنی مخلوقات کو بہتر ین طور پر جانتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ اس کی مخلوقات کے لیے کیا مفید ہے اور کیا نہیں۔ لہذا، وہی زندگی کا نظام قائم کرنے کا سب سے زیادہ مستحق ہے!

 

اے مومنو!

 

ہم اس قسط کو یہاں ختم کرتے ہیں۔ آپ سے ہماری اگلی ملاقات ان شاء اللہ اگلی قسط میں ہوگی۔ تب تک، اور جب تک ہم آپ سے دوبارہ  ملیں، آپ اللہ کی حفاظت، سلامتی اور امان میں رہیں۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اسلام کے ذریعے عزت بخشے، اسلام کو ہمارے ذریعے عزت عطا کرے، ہمیں اپنی مدد عطا کرے، ہمیں مستقبل قریب میں خلافت کے قیام کا مشاہدہ کرنے کی خوشی عطا کرے، اور ہمیں اس کے سپاہیوں، گواہوں اور شہداء میں شامل کرے۔ بے شک وہی محافظ اور اس پر قادر ہے۔ ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔

 

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔

 

Last modified onبدھ, 26 فروری 2025 21:19

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک