بسم الله الرحمن الرحيم
میونخ سکیورٹی کانفرنس 2025 اور مغرب کے اندرونی تضادات
(ترجمہ)
اسد منصور کی تحریر
میونخ سکیورٹی کانفرنس کا اکسٹھواں اجلاس 14 سے 16 فروری 2025ء کو جرمنی کے شہر میونخ میں منعقد ہوا۔ اس کانفرنس کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک، مغربی دنیا کے دو دھڑوں، یعنی امریکہ اور یورپ کے درمیان واضح اختلاف تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کانفرنس کا مقصد کیا ہے، اور یہ تقسیم کیوں پیدا ہو رہی ہے؟
آئیے اس کانفرنس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ یہ کانفرنس "انٹرنیشنل ملٹری اسٹڈیز میٹنگ / میونخ ملٹری اسٹڈیز کانفرنس" کے طور پر وجود میں آئی، جسے 1963ء میں ایوالڈ-ہینرخ وان کلائسٹ-شمینزن Ewald-Heinrich von Kleist-Schmenzin نے قائم کیا تھا، جو ایک جرمن پبلشر اور دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک فوجی افسر تھا۔ ان کا خاندان ہٹلر اور جنگ کے خلاف تھا، اور انہیں 1944ء میں ہٹلر کے قتل کی سازش میں شامل ہونے کا بھی ملزم ٹھہرایا گیا، کیونکہ وہ وان شٹاؤفن برگ گروپvon Stauffenberg circleکے مزاحمتی جنگجوؤں میں شامل تھا۔
جرمنی نے ایوالڈ کے اس تصور کی حمایت کی کیونکہ جنگ کے بعد جرمنی کا نظام مکمل طور پر بدل چکا تھا۔ اب وہ جنگوں میں ملوث ہونے کے بجائے ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھرنے کے لئے غیر فوجی ذرائع کو استعمال کرنا چاہتا تھا، کیونکہ اسے ایسی فوجی طاقت تیار کرنے سے روک دیا گیا تھا جو دوسروں کے لئے خطرہ بن سکے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ کے زیر اثر جو لوگ جرمنی میں اقتدار میں آئے، ان میں خصوصی طور پر 1949ء میں بننے والی حکومت کے پہلے چانسلر کونراڈ آڈیناور Konrad Adenauer تھے جو بنیادی طور پر ہٹلر کے اور دوسروں کے خلاف جنگوں کے مخالف تھے۔
یہ کانفرنس 1963ء سے لے کر ہر سال فروری میں منعقد ہو رہی ہے، سوائے 1991ء میں، جب پہلی خلیجی جنگ کے باعث اسے منعقد نہیں کیا گیا، اور 1997ء میں، جب اس کے بانی کی ریٹائرمنٹ کی وجہ سے اسے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ تب سے، یہ کانفرنس موجودہ اور مستقبل کے سکیورٹی چیلنجز پر بات چیت کے لئے ایک اہم پلیٹ فارم بنی ہوئی ہے۔ اس میں 60 سے زائد ممالک کے رہنما، حکام اور نمائندے شریک ہوتے ہیں، جو اسے ایک عالمی حیثیت دیتے ہیں۔ بڑی طاقتیں اس کانفرنس میں شامل ہو کر اپنی پالیسیوں کو عالمی سطح پر پیش کرتی ہیں اور ان کا دفاع کرتی ہیں، کیونکہ خیالات کا اظہار اور ان کا دفاع عالمی رائے عامہ پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔
1992ء میں سوویت یونین کے زوال کے بعد، اس کانفرنس کے اجلاس میں، مغربی ممالک نے اس دشمن (سوویت یونین) اور اس کے خطرے کے خاتمے پر اطمینان کا اظہار کیا۔ تاہم، غالب طاقت، امریکہ، نے اسی اجلاس میں اعلان کیا کہ مغرب کا نیا دشمن "سیاسی اسلام" ہے۔ استعماری مغربی ریاستوں، جو تاریخی طور پر اسلام کی دشمن رہی ہیں، انہوں نے اس تصور کو اپنا لیا۔ یہ اعلان اس وقت کے امریکی وزیر دفاع ڈک چینی Dick Cheney نے کیا، جو بعد میں جارج ڈبلیو بش کے نائب صدر بنے اور اسلامی علاقوں پر استعماری منصوبے "گریٹر مڈل ایسٹ پروجیکٹ" کے نفاذ کے لئے ہونے والی جارحیت کے معماروں میں شامل تھے، جس کا آغاز 2001ء میں افغانستان اور 2003ء میں عراق پر حملے سے ہوا۔
2003ء کے اجلاس میں مغربی دنیا کے دو دھڑوں کے درمیان تصادم اس وقت ابھرا جب فرانس اور جرمنی نے اس جنگ کی مخالفت کی جسے امریکہ عراق پر مسلط کرنا چاہتا تھا۔ انہوں نے روس کے ساتھ مل کر ایک مخالف محور تشکیل دیا۔ اسی طرح، 2015ء کے اجلاس میں بھی اُس وقت تنازعہ کھڑا ہو گیا جب اُس وقت کے امریکی وزیر خارجہ، جان کیری، نے یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنے اور روس کے خلاف جنگ کی تیاری کی بات کی۔ اس اقدام کی فرانس اور جرمنی نے مخالفت کی اور یوکرین کی موجودگی میں روس کے ساتھ "منسک معاہدہ" Minsk Agreement طے کیا۔
2025ء کے اجلاس میں ایک بار پھر امریکہ اور یورپ کے درمیان اختلافات بھڑک اٹھے۔ جرمنی نے امریکہ کے مقابلے میں یورپ کی قیادت کو مضبوط بنانے کی کوشش کی۔ جرمن صدر فرینک-والٹر اسٹین مائر Frank-Walter Steinmeier نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا: "جرمنی ایک قابل اعتماد شراکت دار رہے گا، آپ ہم پر بھروسہ کر سکتے ہیں!... میں اپنے شراکت داروں اور دوستوں سے واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں: جرمنی کی خارجہ پالیسی اور سلامتی پالیسی یورپی، ٹرانس اٹلانٹک اور کثیرالجہتی رہے گی... ہم اپنے مفادات کا تحفظ کریں گے، مشترکہ حل تلاش کریں گے اور اپنی بین الاقوامی شراکت داری کو وسعت دیں گے۔ اور میں یہ بات بالکل واضح کر دوں: یورپ ہماری پالیسی میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے”۔
اس کے جواب میں، امریکی نائب صدر جے ڈی وینس (JD Vance) نے یورپیوں پر حملہ کرتے ہوئے کہا: "واشنگٹن میں اب ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں ایک نئی قیادت ہے، ہم آپ کے خیالات سے اختلاف کر سکتے ہیں، لیکن ہم عوامی سطح پر آپ کے اظہارِ رائے کے حق کا دفاع کریں گے، چاہے ہماری رائے مختلف ہی کیوں نہ ہو"۔ انہوں نے مزید کہا: "لوگوں کو مسترد کرنا، ان کے خدشات کو نظر انداز کرنا، میڈیا کو بند کرنا، انتخابات کو ہونے سے روکنا... اس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ یہ جمہوریت کو تباہ کرنے کا سب سے یقینی طریقہ ہے... اگر آپ اپنے ہی ووٹروں سے خوفزدہ ہیں، تو امریکہ آپ کے لیے کچھ نہیں کر سکتا”۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ٹرمپ کی قیادت میں، امریکہ دنیا کا "پولیس چیف" ہے، اور اگر یورپ امریکی احکامات سے انحراف کرے گا تو وہ امریکہ کی جانب سے سزا کا مستحق ٹھہرے گا۔ اسی طرح امریکہ نے یورپ کو کم تر ظاہر کرتے ہوئے، اس بات پر زور دیا کہ وہ امریکہ کے تابع رہے۔ انہوں نے مزید کہا: "یورپ کو لاحق سب سے بڑا خطرہ روس یا چین نہیں ہے، نہ ہی کوئی بیرونی طاقت بلکہ مجھے جس خطرے کی سب سے زیادہ فکر ہے وہ اندرونی ہے – جس میں یورپ کا اپنی اور امریکہ کے ساتھ مشترکہ بنیادی اقدار سے پیچھے ہٹنا شامل ہیں”۔
ونس نے جرمنی کی نازی حمایتی جماعت آلٹرنیٹو فیر ڈوئچلنڈ AfD کا دفاع کیا، اس کی رہنما ایلس وائیڈل سے ملاقات کی، اور دیگر جماعتوں کی جانب سے اس سے تعاون نہ کرنے پر اس کے گرد کھڑی کی گئی مشکلات پر تنقید کی۔ جرمن چانسلر اولاف شلٹز کو نیچا دکھانے کے لئے، اس نے ان سے ملاقات نہیں کی، جس سے نازی نظریات کی حمایت کا واضح اشارہ ملا۔
جرمن وزیر دفاع بورس پسٹوریس نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یورپ میں آزادیِٔ اظہار پر اس کی تنقید "ناقابلِ قبول" ہے۔
کانفرنس کے سربراہ کرسٹوف ہوئسگن نے کانفرنس کے اختتام پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "یہ کانفرنس ابتدا میں ایک ٹرانس اٹلانٹک کانفرنس تھی۔ لیکن نائب صدر ونس کی تقریر کے بعد ہمیں اس بات پر تشویش ہے کہ ہماری مشترکہ اقدار کی بنیاد اب پہلے جیسی نہیں رہی"۔ وہ مغربی اتحاد کے ٹوٹنے پر افسوس کر رہے تھے، کیونکہ یہ آپس میں لڑتے ہوئے ایسے بھائیوں کی طرح ہیں جو اپنے مفادات کے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وہ سرمایہ دارانہ خیالات جو انہیں کبھی جوڑے رکھتے تھے، اب ماند پڑ چکے ہیں، کیونکہ ان کا مادی اور مفاد پرستانہ نقطۂ نظر خود ان کے درمیان اختلافات کو بڑھاتا ہے اور انہیں ایک واحد قوت کے طور پر یکجا کرنے میں ناکام رہا ہے۔
امریکہ جس آزادیِ اظہار کا دفاع کرتا ہے، وہ درحقیقت انتہا پسند نازی قوم پرستوں کے لئے ہے، نہ کہ مسلمانوں کے لئے، جن کی آوازوں کو دبایا جاتا ہے اور جنہیں اپنے اسلامی خیالات کے اظہار سے روکا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو صرف وہی بولنے کی اجازت ہے جو مغرب ان سے کہلوانا چاہتا ہے، جبکہ انہیں مغربی نظریات، پالیسیوں یا قابض یہودی وجود کی حمایت پر تنقید کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔
امریکہ یورپ کو اپنی گرفت میں رکھنا چاہتا ہے اور جب یورپ اس تسلط سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے سبوتاژ کر دیتا ہے۔ وہ اس کے اندرونی اختلافات کو ہوا دیتا ہے اور ان شدت پسند قوم پرست جماعتوں کی حمایت کرتا ہے جو یورپی یونین کی مخالفت کرتی ہیں تاکہ وہ اقتدار میں آ کر یورپی اتحاد سے الگ ہو جائیں، جیسا کہ برطانیہ میں ہوا، اور اس طرح وہ یورپی یونین اور اس کی کرنسی کو تباہ کر سکے، جو ڈالر کے مقابلے میں کھڑی ہے۔ پہلے یہ شبہ تھا کہ امریکہ خاص طور پر جرمنی اور عمومی طور پر یورپ میں نازی تحریکوں کی حمایت کر رہا ہے اور یورپی یونین کے خلاف ہے، جس پر ہم نے تجزیے پیش کئے تھے۔ لیکن اب ٹرمپ کی کھلی پالیسی کے ذریعے یہ بات مکمل طور پر ثابت ہو چکی ہے۔
مغرب کے یہ دونوں دھڑے، امریکہ اور یورپ، دنیا کی بدحالی کا اصل سبب ہیں۔ انہوں نے نہ صرف خود آپس میں بڑی جنگیں لڑی ہیں بلکہ دنیا بھر میں جنگوں کو ہوا دی ہے، نسل کشی کی پالیسی اپنائی ہے، اقوام کو استعماری غلامی میں جکڑا ہے اور ان کا خون چوسا ہے، خاص طور پر مسلم سرزمینوں کو استعماریت میں تبدیل کیا، انہیں ٹکڑوں میں بانٹا، ان کے وسائل لوٹے، اور ان کے خلاف براہِ راست اور بالواسطہ جنگیں مسلط کیں، اور آج بھی ان کے معاملات پر گرفت مضبوط رکھنے کے لئے وہ آپس میں جھگڑ رہے ہیں۔
چنانچہ یہ کانفرنس درحقیقت امن کے قیام کے لئے نہیں، بلکہ ایک ایسا میدان ہے جہاں بڑی طاقتیں، بالخصوص امریکہ اور یورپ، آپس میں ٹکراتی ہیں۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مغربی دھڑوں کے اندرونی اور باہمی اختلافات پر گہری نظر رکھیں اور ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مغربی تسلط اور استعماری شکنجے سے نجات حاصل کریں، اور اپنی خلافتِ راشدہ کو قائم کریں، جو، ان شاء اللہ، دنیا کو ان کے شر سے پاک کرے گی۔