السبت، 19 صَفر 1446| 2024/08/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز23 نومبر 2018


۔ ٹرمپ کے توہین آمیز بیانات کے باوجود امریکا کے ساتھ اتحاد "نئے پاکستان" میں بھی جاری ہے
- آبادی کوکنٹرول کرنے کی مہم کا مقصد سرمایہ دارانہ نظام کی معاشی ناکامی پرپردہ ڈالنا ہے
- اسلام کے نفاذ اور اس کی دعوت کو  پوری دنیا تک پہنچانے سے دین محمد ﷺ غالب ہوتا ہے

تفصیلات:


ٹرمپ کے توہین آمیز بیانات کے باوجود امریکا کے ساتھ اتحاد "نئے پاکستان" میں بھی جاری ہے


19نومبر 2018 کوامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کے خلاف پاکستان کے سیاسی رہنماوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا جس کی قیادت وزیر اعظم عمران خان نے کی۔ اس ردعمل میں اس بات کی جانب اشارہ تھا کہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے نظر ثانی کی جاسکتی ہےاور امریکا سے کہاگیا کہ وہ افغانستان میں اپنی ناکامی کی حقیقی وجوہات  جاننے کے لیے اپنے پالیسی کا تجزیہ کرے۔  وزیر اعظم عمران خان نے صدر ٹرمپ کو یاد دہانی کرائی کہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے حمایت کی جس کی وجہ سے اس کے 75 ہزار شہریوں کی جان گئی ، 123 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہو ا، دہشت گردحملوں کی وجہ سے قبائلی علاقے تباہ برباد ہوگئے اور کئی لاکھ لوگوں کو انسداد دہشت کردی کی کارروائیوں کی وجہ سے نقل مکانی کرنی پڑی ۔ انہوں نے یاد دلایا پاکستان اب بھی "افغانستان میں امریکی اور دیگر اتحادی افواج کو رسد کی فراہمی کے لیےمفت زمینی اور فضائی راستے (جی ایل او سیز/اے ایل او سیز) فراہم کررہا ہے"۔جناب خان صاحب نے سوال کیا کہ "کیا ٹرمپ کسی اور اتحادی کا نام بتاسکتے ہیں جس نے اس قدر قربانیوں دیں ہوں؟"۔ انہوں نے کہا  کہ 11/9 کے بعد سے امریکا نے 20 ارب ڈالر دیے جو ان نقصانات کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں جو پاکستان نے 17 سال کی طویل جنگ میں اٹھائیں ہیں۔انہوں نے مزیدکہا کہ،"اب ہم(پاکستان) وہ کریں گے جو ہمارے لوگوں اور ہمارے مفادات کے لیے بہترین ہوگا"۔


وزیر اعظم عمران خان کا تازہ تردیدی بیان اس وقت سامنے آیا جب ٹرمپ نے "اسامہ اور افغانستان" کے حوالے سے پاکستان پر کچھ نہ کرنے کا الزام اپنے ٹویٹر اکاونٹ کے ذریعے لگایا۔ ٹرمپ نے دراصل یہ کہا کہ پاکستان نے امریکا کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ بظاہر اس کا بیان پاکستان کی غدار سیاسی و فوجی قیادت کے اس بیانیے کی تصدیق کرتا ہے کہ پاکستان امریکا کے ساتھ دوہرا کھیل"ڈبل گیم"کھیل رہا ہے۔ لیکن مزیدار بات یہ ہے کہ باجوہ-عمران حکومت اس کے جواب میں یہ دعوی کررہی ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں  نے امریکی مفادات کی نگہبانی کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ یہ بات راحیل-نواز حکومت کے وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیان کے جیسا ہی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان اب بھی امریکی جنگیں لڑنے کے لیے خون کی صورت میں قیمت ادا کررہا ہے اور امریکی مفادات کے لیے اسلام کی تعبیرات کو تبدیل کیا۔  


انتخابات سے قبل عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی امریکی جنگ لڑنے کی پاکستان کی پالیسی کے سخت خلاف تھی۔ لیکن عمران خان کی جوابی ٹویٹس میں ٹرمپ کوپاکستا ن کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کی امریکا کے لیے خدمات کی  یاد دہانی کرائی گئی ہے۔ انہوں نے ٹرمپ کو یہ یاددہانی بھی کرائی کہ "نیا پاکستان" بھی "افغانستان میں امریکی اور دیگر اتحادی افواج کو رسد کی فراہمی کے لیےمفت زمینی اور فضائی راستے (جی ایل او سیز/اے ایل او سیز)     فراہم کررہا ہے"۔    لہٰذا باجوہ-عمران حکومت درحقیقت احتجاج نہیں کررہی بلکہ اپنی خدمات یاد کراکر التجا کر رہی ہے۔ یہ حکومت ٹرمپ کو یقین دہانی کرارہی ہے کہ پاکستان کے حکمران پہلے بھی امریکا کے ساتھ مخلص تھے  اورآج بھی پاکستان کی سیاسی، معاشی اور دفاع صلاحیتوں کو امریکی مفادات کے تحفظ اور نگہبانی کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ تو کون ہے جو اب بھی یہ کہے کہ یہ نیا پاکستان ہے؟


اگر حکومت واقعی امریکا مخالف ہوتی تو حکومت میں آنے کے پہلے دن ہی نیٹو سپلائی لائن ختم کردیتی۔ اگر یہ حکومت واقعی امریکا مخالف ہوتی افغان طالبان کو امریکا کے ساتھ مذاکرات کے میز پر بیٹھنے پر مجبور کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں استعمال نہ کرتی تا کہ وہ جنگ جو امریکا میدان جنگ میں ہار چکا ہے اسے مذاکرات کی میز پر فتح میں تبدیل کردیا جائے اور مسلم سرزمین سے امریکا کو بے دخل کرنے کے لیے مسلمانوں نے جو عظیم قربانیاں دیں ہیں وہ ضائع ہوجائیں۔ یہ بات واضح ہے کہ جمہوریت کے ذریعے کوئی تبدیلی نہیں آسکتی کیونکہ جمہوری حکمران اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کی نہیں بلکہ امریکا کے احکامات کی پیروی کرتے ہیں۔ حقیقی تبدیلی کے لیے ہمیں نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام عمل میں لانا ہوگا جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے امریکا کو خطے سے نکال باہر کرے گی،

 

فَمَنِ اعۡتَدٰى عَلَيۡكُمۡ فَاعۡتَدُوۡا عَلَيۡهِ بِمِثۡلِ مَا اعۡتَدٰى عَلَيۡكُمۡ

"جو تمہارے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرے تو تم بھی اس پر حملہ کرو جیسا کہ انہوں نے تم پر حملہ کیا"(البقرۃ:194) 

    ۔

آبادی کوکنٹرول کرنے کی مہم کا مقصد سرمایہ دارانہ نظام کی معاشی ناکامی پرپردہ ڈالنا ہے


19 نومبر 2018 کو  وفاق اور صوبوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ تیزی سے بڑھاتی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں ٹاسک فورسز قائم کی جائیں گی۔ اجلاس میں،جس کی صدارت وزیر اعظم عمران خان نے کی، آخری مردم شماری میں آبادی کے تخمینے 207.8ملین کو بنیاد بناتے ہوئے آبادی کی بہبود اور اسے کنٹرول کرنے کی بات کی گئی۔ اجلاس نے یہ فیصلہ کیا کہ آبادی کے بڑھنے کی شرح کو 2.4فیصد سالانہ سے کم کرکے 1.5فیصد سالانہ پر لانا ہے۔ اس سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا تھا کہ لوگوں کو یہ کہنا چاہیے کہ زیادہ بچے ہونا اچھی بات نہیں ہے اور حکومت کو لازمی اس حوالے سے کوئی حل پیش کرنا چاہیے۔


یہ بات انتہائی خوفناک ہے کہ ملک کی قیادت مغرب کی اندھی تقلید میں آبادی کو کنٹرول کرنے کے مسئلے پر یکجا ہے۔ آبادی کو کنٹرول کرنا مغربی سیکولر سوچ ہے کہ بہت زیادہ بچے خاندان پر بوجھ ہوتے ہیں اور آخر کار ریاست پر بھی بوجھ بن جاتے ہیں کیونکہ وہ سرمایہ دارانہ سوچ کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ وسائل محدود ہیں۔ اس سوچ کی وجہ سے مغربی اقوام نے خاندانی منصوبہ بندی یا بچوں  کی کم پیدائش کے حوالے سے اپنے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی۔ لیکن پچھلی ایک دہائی کے دوران مغربی اقوام کے ساتھ ساتھ مشرق کے صنعتی  طور پر ترقی یافتہ ممالک  نے آبادی میں کنٹرول کے معیشت اور سماجی شعبے میں منفی اثرات کو دیکھنا شروع کردیا ہے۔ ان کے پاس اس قدر نوجوان لوگ نہیں ہیں جو معاشی میدان میں کام کرسکیں اور سماجی ذمہ داریہ اٹھا سکیں جس میں بوڑھے لوگوں کی دیکھ بھال بھی شامل ہے۔ تو اب کئی مغربی ممالک نے اپنے شہریوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کرنی شروع کردی ہے  اور اس کے لیے انہیں معاشی سہولیات بھی فراہم کرتے ہیں۔ 

    چین آبادی کوکنٹرول کرنے کے حوالے سے سب سے آگے تھا جس نے 1979 میں صرف ایک بچے کی پالیسی اختیار کی لیکن اب اس نے بھی 2013میں اس پالیسی کو ختم کردیا ہے۔ اس نے اس پالیسی کواس لیے چھوڑ دیا کیونکہ اب یہ بہت عام ہو چکا تھا کہ ایک بچہ اپنے والدین اور دادا و دادی اور نانا و نانی کو سنبھالنے سے قاصر تھا جبکہ آبادی میں بوڑھے افراد کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔


مسئلہ آبادی میں اضافہ یا وسائل کی کمی کانہیں ہے۔ مسئلہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت منصفانہ طور پر پوری آبادی میں  ان وسائل کی تقسیم کا ہے۔ اقوام متحدہ   کے ترقیاتی پروگرام(یو این ڈی پی) کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 225 امیر ترین افراد کی کُل آمدنی دنیا کے ڈھائی ارب غریب ترین افراد کی کُل آمدنی کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ    یو این ڈی پی یہ حساب لگاتا ہے کہ اگر ان 225 امیر ترین افراد کی آمدنی پر سالانہ 4 فیصڈ ٹیکس لگایا جائے تو اس سے حاصل ہونے والی رقم  ترقی پزیر ممالک میں رہنے والی افراد کی خوراک، پانی،تعلیم اور صحت کی ضروریات کوپورا کرنے کے لیے کافی ہے۔


لہٰذا یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ ملک کی پوری جمہوری قیادت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کی جگہ  کافر مغربی اقوام کی اندھی تقلید کررہی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے پوری انسانیت کو اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ  ہر ایک زندگی کے لیے رزق کا بندوبست کرتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

إنًّ ٱللًّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ

" بیشک اللہ جسے چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے "(آل عمران:37)۔

 

اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خبردار کیا کہ ہم اپنے بچوں کو غربت کے خوف سے قتل نہ کریں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

وَلاَ تَقْتُلُوۤاْ أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُم إنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئاً كَبِيراً

" اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرنا۔ (کیونکہ) ان کو اور تم کو ہم ہی رزق دیتے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت گناہ ہے "(الاسراء:31)۔

 

غربت کی وجہ وسائل کی کمی نہیں ہے بلکہ انسانوں کا بنایا سرمایہ دارانہ نظام اس کا ذمہ دار ہے جو دولت کو چند ہاتھوں میں محدود کرکے بڑی آبادی کو اس سے محروم کردیتا ہے۔  تو غربت کے خاتمے کے لیے لازمی ہے کہ ہم سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر کے نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام عمل میں لائیں ۔ اسلام کا نفاذ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ معاشرے میں دولت منصفانہ طور پر تقسیم ہو اور اس کے نتیجے میں غربت کا خاتمہ ہوتا ہے۔


اسلام کے نفاذ اور اس کی دعوت کو  پوری دنیا تک پہنچانے سے دین محمد ﷺ غالب ہوتا ہے


20 نومبر 2018 کو عید میلاد النبی کے حوالے سے دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کی افتتاحی نشست سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ نبی پاک ﷺ نے معاف کرنے دینے،امن اور سکون کے پیغام کے ذریعے  اپنے وقت کی دو سپر پاورز، روم اور فارس کی سلطنت، سے زیادہ عزت حاصل کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ "نبی ﷺ نے شاید بہت زیادہ مالی وسائل پیدا نہ کیے ہوں لیکن اللہ نے ان میں رحم کا وصف ڈالا تھا"۔


جہاں تک رسول اللہ ﷺ کے وقت کی بڑی طاقتوں کی بات ہے تو معاملہ محض ان کے ساتھ عزت کے حصول میں مقابلہ نہیں تھا۔ یہ مقابلہ اور کشمکش  دومختلف طرز زندگیوں کے درمیان تھا اور پھر اسلام روم اور فارس دونوں علاقوں میں بالادست طاقت بن گیا۔ اسلام ریاست مدینہ میں مکمل طور پر نافذ کیا گیا اور اس کے نفاذ کے ایک حصے کے طور پر مسلمانوں نے اس کی دعوت کو پوری دنیا تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی اٹھائی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں ریاستوں کے حکمرانوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی  اور آپ ﷺ کی حکمرانی کے دور میں ہی ان کے ساتھ پہلا فوجی معارکہ بھی پیش آیا۔ اس کے نتیجے میں میں وہ بنیاد پڑ گئی جس کے بعد خلفاء راشدین کے دور میں یہ دونوں علاقے اسلامی ریاست کاحصہ بن گئے۔


یہی وہ بات ہے جس کے حوالے سے موجودہ حکمران انتہائی غافل ہیں یعنی یہ ان کی اسلامی ذمہ داری ہے کہ دین کے غلبے کو یقینی بنا ئیں لیکن وہ ایسا نہیں کرتے۔ پاکستان سمیت کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں جہاں اسلام مکمل طور پر نافذ ہو اور اس کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ذمہ داری کے اس تصور پر ہو کہ اسلام کی بالادستی کو پوری دنیا میں قائم کرنا ہے۔ بلکہ پرانے پاکستان کی طرح نئے پاکستان کے حکمران بھی اسلام کے دشمنوں سے اتحاد برقرار رکھ کر ان کے اثرو رسوخ  کو وسعت دے رہے ہیں جبکہ انہیں کفار کے ساتھ اتحاد ختم کر کے ان کے اثرو رسوخ کا خاتمہ کرنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر حکومت کا قیام ضروری ہے۔  نبوت کے طریقے پر قائم خلافت رسول اللہ ﷺ کی صحیح  معنوں میں پیروی کرنے والی ہو گی۔ وہ موجودہ مسلم علاقوں کوایک طاقتور ریاست میں یکجا کرے گی۔ وہ دشمن ریاستوں کے ساتھ معاہدوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردے گی اور ان کے علاقوں کو اسلامی ریاست میں شامل کرنے کے لیے کام کرے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ

"وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس (دین) کو (دنیا کے) تمام دینوں پر غالب کرے۔ اگرچہ کافر ناخوش ہی ہوں"(التوبہ:33)

Last modified onجمعرات, 29 نومبر 2018 01:17

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک