بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 7دسمبر 2018
۔ معاشی ترقی و خوشحالی کے لیے ہمیں لازمی آئی ایم ایف کو مسترد کر کے اسلام کو نافذ کرنا ہوگا
- نبوت کے طریقے پر قائم خلافت نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو ذہنی دباؤ اور خودکشی سے بچانے کو یقینی بنائے گی
- آئی ایم ایف کی شرائط پرعمل کرنے کی وجہ سے پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے
تفصیلات:
معاشی ترقی و خوشحالی کے لیے ہمیں لازمی- آئی ایم ایف کو مسترد کر کے اسلام کو نافذ کرنا ہوگا
2 دسمبر 2018 کو ملک کے مالی بحران اور روپے کی گرتی قدر کی وجہ سے صدر پاکستان عارف علوی نے قوم سے درخواست کی کہ وہ مقامی اشیاء خریدیں اور درآمدی اشیاء کے استعمال سے گریز کریں۔ انہوں نے کہا کہ، "پاکستانی روپے پرموجود دباؤ کے پیش نظر میں پاکستانیوں سے کہتا ہوں کہ پاکستان کی بنی اشیاء خریدیں۔۔۔اس بحرانی کیفیت میں ہمیں لازمی پُرتعیش اور درآمدی اشیاء کی خریداری سے گریز کرنا چاہیے“۔
یہ درخواست اس وقت کی گئی ہے جب پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں تاریخ کی کم ترین سطح پر گر گیا۔ روپیہ 3.8فیصد قدر کھو بیٹھا اور 30 نومبر 2018 کو انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں اب تک کی کم ترین سطح 139.05روپے پر بند ہوا جبکہ 29 نومبر 2018 کو روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 133.99 روپےپر بند ہوا تھا ۔30 نومبر 2018 کو دن کے آغازپر روپیہ ڈالر کے مقابلے میں ایک دن میں تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے 144 روپے تک گرگیا تھا۔ دسمبر 2017 کے بعد سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی یہ چھٹی بار بے قدری ہوئی ہے۔پچھلے گیارہ مہینوں میں روپیہ 31.8فیصد یعنی 33.55 روپے کی قدر کھو چکا ہے اور اس کے مطابق ہی مہنگائی میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے حال ہی میں پاکستان کو اپنی کرنسی کے قدر ڈالر کے مقابلے میں 145 سے 150 تک گرانے کی تجویز دی تھی جب وہ نئی آنے والے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ بات چیت کررہی تھی جو اس سے 6 سے 12 ارب ڈالر کا بیل آوٹ پروگرام لینا چاہ رہی ہے۔
دوسرے کئی معاملات کی طرح باجوہ-عمر ان حکومت معیشت کے حوالے سے بھی عوام کو حقیقی حل دینے اور اس پر عمل کرنے کی جگہ انہیں دھوکہ دے رہی ہے۔ ادائیگیوں کے توازن (بیلنس آف پیمنٹ) کے مسئلے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اس قدر اشیاء نہیں بنا رہا جس کی اس کے معاشرے کو ضرورت ہے۔ اس وقت پاکستان کی درآمدات 55 ارب امریکی ڈالر سے زائد ہیں۔ ان درآمدات کا بڑا حصہ ان اشیاء پرمشتمل ہے: مینرل پروڈکٹس(معدنی تیل اور اس کی مصنوعات) 14.617ارب ڈالر، مشینری اور اس سے منسلک اشیاء 8.335ارب ڈالر، کیمیکلز 6.040 ارب ڈالر، لوہا اور اسٹیل 4.787 ارب ڈالر، ٹیکسٹائل اور میں استعمال ہونے والی اشیاء 4.097ارب ڈالر، گاڑیاں/ہوائی جہاز/مواصلات سے منسلک اشیاء 3.257ارب ڈالر، پلاسٹک 2.864ارب ڈالر، سبزیوں سے تیار اشیاء 2.852ارب ڈالر، جانور/سبزیوں سے حاصل چکنائی/موم 2.150ارب ڈالر اور خصوصی اشیاء 1.681ارب ڈالر۔ اس طرح یہ بات واضح ہے کہ 55 ارب ڈالر کی درآمدات میں سے 51 ارب ڈالر تو صرف دس اشیا ء کی درآمد پر خرچ ہوجاتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی چیز پُر تعیش اشیاء کے ضمن میں نہیں آتیں۔ ڈیزائنر کپڑے، ڈیزائنر چشمے، گھڑیاں، زیورات اور آرٹ کی اشیاء کو پُرتعیش اشیاء میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ اگر پُرتعیش اشیاء کی اس تعریف کو سامنے رکھا جائے تو پچھلے سال ان اشیاء کی درآمد پر 521 ملین ڈالر خرچ ہوئے۔ اگر ہم اس فہرست میں موبائل فونز کو بھی شامل کرلیں جن کی درآمد پر 847 ملین ڈالر خرچ کیے گئے تو پُرتعیش اشیاء کی درآمد پر 1.368ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ اگر ہم اسے 1.5ارب ڈالر بھی کرلیں تو ان تمام اشیاء کی درآمد کو بند کردینے سے بھی صرف اسی قدر بچت ممکن ہے جس سے ہمارے درآمدی بل پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ ادائیگیوں کے توازن کا خسارہ 12 ارب ڈالر سے زیادہ ہے اور اس طرح مسئلہ اپنی جگہ پرپھر بھی موجود رہے گا۔
1950 کی دہائی سے اب تک پاکستان آئی ایم ایف کے شرائط کے ساتھ منسلک 12 پروگرام لے چکاہےجس میں ہمیشہ ایک جیسی ہی شرائط ہوتی تھیں: ریاستی اداروں کی نجکاری، تجارت کو آزاد کرنا، بلواستہ ٹیکس، زرتلافی (سب سیڈی) میں کمی اور بجٹ خسارے میں کمی کرنا۔ آج اگر ہماری معیشت ہماری ضروریات کے مطابق اشیاء کو بنانے سے قاصر ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہلاکت خیز شرائط ہی ہیں۔ اور آج جب "تبدیلی" کی حکومت یعنی پی ٹی آئی کی حکومت آئی ایم ایف سے بیل آوٹ پیکج لینے کی کوشش کررہی ہے تو یہ شرائط بھی ان کے ساتھ ہی ویسے ہی آئیں گی جیسے کہ اس سے پہلے آتی رہی ہیں ۔ یہ شرائط کاروباری لاگت کو بہت زیادہ بڑھا دیتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے پاکستان سے اپنے کاروبار کو دوسرے ممالک میں منتقل کردیا ہے یا یہ کہ اپنی صنعتوں کو بند کرکے درآمدی اشیاء کی تجارت شروع کردی ہے۔
حقیقی حل اسلام کے معاشی نظام کامکمل نفاذ ہے جو ریاست پر یہ ذمہ داری ڈالتا ہے کہ وہ ایسے مواقع اور ماحول پیدا کرے جو کہ صنعتی و زرعی پیداوار اور کاروبار کے لیے انتہائی سازگار ہو۔ اسلام تیل،گیس اور بجلی کو عوامی ملکیت قرار دیتا ہے تا کہ لوگوں کو یہ سہولیات انتہائی مناسب قیمت پر ملیں۔ اسلام ظالمانہ ٹیکس، جیسا کہ جنرل سیلز ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس،نافذ نہیں کرتا اور اس طرح اشیاء کی قیمت کم اور وہ دوسرے ممالک کی اشیاء کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوتی ہیں۔ اسلام سونے اور چاندی کو کرنسی قرار دیتا ہے لہٰذا نبوت کے طریقے پر قائم خلافت میں کرنسی میں استحکام ہوگا اور کاروباری حضرات اس وجہ سے پریشان نہیں ہوں گے کہ ان کی کرنسی کی حقیقی قیمت کیا ہے جس کی وجہ سے کاروبار اور تجارت میں آسانی پیدا ہوگی۔ اسلام سودی قرضوں کو حرام قرار دیتا ہے اور اس طرح کاروباری حضرات کو بلا سودقرضے ملیں گے۔ یہ تمام پالیسی اقدامات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات ہیں جو مقامی پیداوار کو بڑھائیں گے اور ہمارے لیے آئی آیم ایف کے چنگل سے نکلنے میں معاون ثابت ہوں گے۔
- نبوت کے طریقے پر قائم خلافت نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں
- کو ذہنی دباؤ اور خودکشی سے بچانے کو یقینی بنائے گی
4 دسمبر 2018 کو پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پیمز) کے شعبہ نفسیات کے سربراہ پروفیسر رضوان تاج نے کہا کہ "دنیا بھر میں 10 سے 20 فیصد نوجوان لوگوں کو ذہنی و جذباتی مسائل کا سامنا ہوتا ہے جنہیں علاج کی ضرورت ہوتی ہے اور پاکستان میں 14 سال سے کم عمر لوگوں کی تعداد 32 فیصد ہے اور بچپن اور نوجوانی کی عمر میں کئی جذباتی مسائل کاسامنا ہوتا ہے، اور تعلیمی و پیشہ وارانہ مسائل بھی ہوتے ہیں ، اور پاکستان میں بھی جذباتی اور رویوں کے مسائل سامنے آئیں ہیں "۔
پاکستان میں والدین اپنے بچوں کی خوشیوں کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور ان پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں لیکن بڑھتے ہوئے معاشرتی مسائل کے سامنے وہ بھی بے بس ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کے ڈاکٹرز کچھ عرصے سے نوجوانوں میں ذہنی مسائل کے حوالے سے خبردار کررہے ہیں اور نوجوانوں کو ان مسائل سے بچانے کے لیے اقدامات کا مطالبہ کررہے ہیں۔ عالمی سطح پر 1960 سے 1980 کے عرصے کے دوران خودکشی کے اعدادوشمار میں تین گنا اضافہ ہوگیا تھا اور اب دنیا میں 15 سے 24 سال کے درمیان کی عمر والوں میں یہ موت کی دوسری بڑی وجہ بن چکی ہے۔ موجودہ انسانوں کا بنایا ہوا نظام اور نظریہ حیات ہر جگہ نوجوانوں کو تعلیمی دباؤ، بے روزگاری، معاشرتی تنہائی ، منشیات اور شراب کے استعمال ، ذہنی دباؤ،خود کو نقصان پہنچانےکی کوشش اور خودکشیوں سے بچانے میں ناکام ہورہاہے۔
ہمارا خوبصورت دین منفرد طریقے سے ان بڑھتے مسائل کو حل کرتا ہے جن کا سامنا ہمارے نوجوان اس انسانوں کے بنائے نظام میں کرتے ہیں۔ اسلام کی تعلیمی پالیسی نوجوانوں کو رزق اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر توکل کے افکار سے مزین کرتی ہے تا کہ وہ دنیاوی دباؤ کو واضح طور پر سمجھ سکیں۔ یہ تعلیمی پالیسی نوجوانوں کو زندگی کا مقصد بتاتی ہے جو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی کاحصول ہے تا کہ وہ بہتر طریقے سے بری باتوں کا سامنا کرسکیں جیسا کہ منشیات اور شراب نوشی وغیرہ۔ اسلام کا معاشرتی نظام مرد و عورت کے درمیان شرم وحیا اور پاکدامنی کو یقینی بناتا ہے تا کہ وہ جنس مخالف سے بلا روک ٹوک تفاعت کی وجہ سے پیدا ہونے والے دباؤ کا سامنا کرسکین جس کا سامنا مغربی دنیا کررہی ہے۔ اسلام میں صحت کا شعبہ اسلامی خلافت کی ذمہ داری ہے اور وہ اس قدر وسائل فراہم کرتی ہے کہ اس کے تمام شہریوں کی ذہنی و جسمانی صحت کو یقینی بنایا جاسکے۔ اسلام کامعاشی نظام مضبوط صنعتی و زرعی شعبے کے قیام کو یقینی بناتا ہے تا کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوجوان مرد و خواتین کو مناسب روزگار کے مواقع میسر ہوں۔ یقیناً ہمارے نوجوانوں کا خودکشی کے ذریعے موت کا شکار ہونا اس بات کی تکلیف دہ یاددہانی ہے کہ ہمیں جلداز جلد نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے بھر پور کوشش کریں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ
"مومنو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو آتش (جہنم) سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں "(التحریم:6)
آئی ایم ایف کی شرائط پرعمل کرنے کی وجہ سے پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے
4 دسمبر 2018 کوپاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر نے اس بات کو مسترد کردیا کہ ملک کو معاشی بحران کا سامنا ہے اور کہا کہ"جو معیشت کے حوالے سے افواہیں پھیلا رہے ہیں وہ ملک کی کوئی خدمت نہیں کررہے"۔ وزیر موصوف کا یہ تبصرہ اس وقت سامنے آیا جب ایک دن قبل ہی کراچی اسٹاک ایکسچینج کا انڈیک 1335 پوائنٹس گر کر 39160 پوائنٹس پر بند ہوا، اور اس طرح پچھلے 16 ماہ کے دوران ایک دن میں سب سے زیادہ پوائنٹس گرنے کا ریکارڈ قائم ہو گیا۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 30 نومبر 2018 کو شرح سود میں 150 بیس پوائنٹس اضافہ کر کے اسے 10 فیصد پر پہنچا دیا جس پر عمل درآمد 3 دسمبر سے ہوگا۔ 30 نومبر کوشرح سود میں ہونے والے اضافے کے ساتھ ہی روپیہ مزید گر کرڈالر کے مقابلے میں 139 روپے کا ہوگیا۔ اِن تمام باتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کا بیل آوٹ پروگرام لینے کے لیے اس کی شرائط تسلیم کرلی ہیں۔ اس سے پہلے آئی ایم ایف کے مشن نے پاکستانی حکام کو بتایا تھا کہ آئی ایم ایف کے نقطہ نظر سے روپیہ اب بھی اپنی اصل قدر سے زیادہ ہے اور 30نومبر سے قبل کی جانی والی مالیاتی سختی کرنسی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ناکافی ہے۔ ان تمام باتوں نے پاکستان کی تجارتی مارکیٹوں میں افراتفری کی صورتحال پیدا کردی تھی۔
حکومت کا آئی ایم ایف کی شرائط کے سامنے ٹھیر ہوجانے سے پاکستان کی گرتی معیشت ، خصوصاً صنعتی شعبے، کو مزید نقصان پہنچے گا۔ اس مالیاتی سال کے پہلے تین مہینوں میں بڑی صنعتی پیداوار (لارج اسکیل مینوفیکچرنگ یعنی ایل ایس ایم) کے شعبے کی پیداوار میں 1.71فیصد کمی آئی ہے کیونکہ اس شعبے سے منسلک 15 صنعتوں،جن میں ٹیکسٹائل، خوراک، کیمیائی کھاد، آوٹوموبائلز اور اسٹیل شامل ہیں، کی پیداوار میں کمی آئی ہے۔ بجائے یہ کہ بلا سود قرضے فراہم کیے جائیں یا ان شعبوں میں ریاست نجی شعبے کے ساتھ شراکت داری کرےتا کہ پیداوار میں اضافہ ہو، حکومت نے مزید سخت مالیاتی پالیسی اپنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ بینکوں کی جانب سے فراہم کیے جانے والے قرضوں پر شرح سود میں اضافے کا مطلب یہ ہے کہ صنعتی شعبے کو مزید مہنگے قرضے فراہم کیے جائیں گے۔ اس وجہ سے ایل ایس اہم سے وابستہ ان شعبوں کو بھی نقصان پہنچے گا جن کی پیداوار میں اب تک اضافہ دیکھا جارہاہے جن میں الیکٹرونکس، چمڑے سے تیار ہونے والی اشیاء، کاغذ،انجینئرنگ مصنوعات اور ربر کی مصنوعات کا شعبہ شامل ہے۔ ایل ایس ایم کے ذیلی شعبے روپے کی قدرمیں کمی کی وجہ سےپہلے ہی پیداواری عمل میں استعمال ہونے والی درآمدی اشیاء کے مہنگے ہونے کی وجہ سے مشکل میں تھے۔ ان کی مشکلات میں مزید اضافہ شرح سود میں اضافہ کرکے کیا گیاہے جس کے بعد سرما یہ کار صنعتی شعبے سے نکل کر مالیاتی مارکیٹوں کا رخ کرلے گا ۔ اس طرح صنعتی شعبے کے پیداوار میں مزید کمی آئے گی جس کے بعد پاکستان کی برآمدات بھی مزید کم ہوں گی اور پاکستان کی معاشرتی و معاشی صورتحال میں مزید تنزلی واقع ہو گی۔
شرح سود میں اضافے، کرنسی کی قدر میں کمی، بجلی و گیس کی قیمت اور ٹیکس کے بوجھ میں اضافہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کے پاس ایسی کوئی پالیسی نہیں ہے جس سے ملک کی معیشت کو بہتر بنایا جاسکے۔ درحقیقت جمہوریت میں کوئی بھی حکومت اس بات کی کوشش ہی نہیں کرتی کہ پاکستان اپنی زبردست صلاحیت کے مطابق ترق کرسکے کیونکہ وہ مغربی استعماری طاقتوں کی پالیسیوں کو نافذ کرتی ہیں چاہے وہ آئی ایم ایف، عالمی بینک یا کسی بھی دوسرے بین الاقوامی تنظیم کی صورت میں ہو۔ دنیا کے وسائل کولوٹنے پر لگی یہ مغربی طاقتیں پاکستان کی ریاست کو صنعتی طور پر کمزور رکھنا چاہتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ پاکستان اپنے وسائل کو اپنے بل بوتے پر اپنی ہی زمین سے نکالنے کے کبھی قابل نہ ہو، اس کے پاس بھاری صنعتیں نہ ہوں، وہ انجن سازی اور مشین سازی کی صلاحیت سے محروم ہو۔ وہ چاہتی ہیں کہ پاکستان درآمدی اشیاء پر انحصارکرتا رہے اور زرعی شعبے میں استعمال ہونے والی سادہ سی مشینری بھی درآمد ہی کرتا رہے اور مغربی مارکیٹوں کے لیے سستے بجلی کے پنکھے، آلات جراحی، دستکاری اور کھیلوں کا سامان بناتا رہے۔ وسیع بے روزگاری، مہنگی اشیاء، مغربی ٹیکنالوجی پر انحصار، قوم کے بہترین دماغوں کا مغرب چلے جانا ، مغرب کی استعماری پالیسی کی چند علامات ہیں۔ یہ استعماری پالیسی ایسٹ اینڈیا کمپنی کے وقت سے نافذ ہے اور آج جمہوریت کے ذریعے اسے نافذ کیا جارہا ہے جو کہ استعماری پالیسیوں کے لیے ایک ربر اسٹیمپ کا کام کرتی ہے۔ حکومت غیر ملکی احکامات کو تسلیم کررہی ہے جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَلَن يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا
"اور اللہ کافروں کوایمان والوں پرکوئی اختیار نہیں دیتا"(النساء:141) ۔
صرف نبوت کے طریقے پر قائم خلافت ہی پاکستان کو صنعتی شعبے کا بادشاہ بنا سکتی ہے۔ خلافت ایک طاقتور اور متنوع صنعتی شعبہ قائم کرے گی جس کامقاصد دنیا کی صف اول کی ریاست بننا ہوگا اور جس کی دفاعی صنعت میں ہونے والی تحقیق صنعتی شعبے کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ عوامی اثاثوں سے منسلک کارخانے اور بھاری صنعتوں سے وابستہ سرکاری کارخانے ریاست کے لیے وسیع محاصل جمع کرنے کا باعث بنیں گے جس سے معیشت میں جان پڑ جائے گی۔ خلافت صنعتی شعبے کے لیے تحقیق و ترقی کو خصوصی اہمیت دے گی اور ریاست خود اور نجی شعبہ بھی اس میں اپنا اپنا کردار ادا کریں گے۔ خلافت استعماری قرضے جن کے ساتھ تباہ کن شرائط بھی منسلک ہوتی ہیں کو لینا بند کردے گی اور اس کی جگہ شرع کے بتائے محاصل جمع کرے گی جو اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بہت زیادہ ہوں گے۔