بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز11جنوری 2019
۔ چین اپنا من پسند اسلام تخلیق کررہا ہے،تو اس کا اتحادی کیوں بنا جائے جبکہ خلافت مسلم ریاستوں کویکجاکر کے ایک طاقتور مسلم ریاست بنا سکتی ہے؟
- ہمیں موجودہ کفر قوانین کوجدید دور سے ہم آہنگ کرنے کی نہیں بلکہ مکمل اسلام کو نافذ کرنے کے ضرورت ہے
- پرانے پاکستان کے حکمرانوں کی طرح "نئے پاکستان" کے حکمران بھی امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے کام کررہے ہیں
تفصیلات:
- چین اپنا من پسند اسلام تخلیق کررہا ہے،تو اس کا اتحادی کیوں بنا جائے
- جبکہ خلافت مسلم ریاستوں کو یکجاکر کے ایک طاقتور مسلم ریاست بنا سکتی ہے؟
7 جنوری 2019 کو چین کے مرکزی انگریزی اخبار، گلوبل ٹائمز نے ایک مضمون:"اسلامی براد ریوں سے کہا گیا ہے کہ چینی طور طریقے اختیار کریں، سیاسی بیانیہ بہتر کریں"شائع کیا(http://www.globaltimes.cn/content/1134757.shtml)۔ اس مضمون میں کہا گیاہے کہ "اسلام کو چینی طور طریقوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے چین بہت جلد ایک خاکہ جاری کرے گا"۔ اس خاکے کی وضاحت یوں کی گئی ہے کہ "بنیادی سوشلسٹ اقدار، قوانین، اور روایات کی تربیت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مثبت جذبات کی حامل واضح کہانیوں سے مسلمانوں کی رہنمائی کرنا"۔
تو اب چینی سوشلسٹ کافر حکومت چینی ساختہ اسلام تخلیق کرنے جارہی ہےاور طویل عرصے سے مشرقی ترکستان کے ایغور مسلمانوں کو اس نام نہاد چینی اسلام پرچلنے پرمجبور کرے گی۔ چینی حکومت کایہ جارحانہ رویہ قطعی حیرت انگیز نہیں ہے کیونکہ وہ مشرکین ہیں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹہراتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا
"(اے پیغمبرﷺ!) تم دیکھو گے کہ مومنوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کرنے والے یہودی اور مشرک ہیں "(المائدہ، 5:82)۔
اسلام کے خلاف چین کی جنگ کے باوجود مسلم دنیا کے حکمران ،جن میں پاکستان کے حکمران بھی شامل ہیں، چین کے اتحادی بنے ہوئے ہیں اور اسلام کے خلاف چین کی وحشیانہ سازشوں پر انہوں نے آنکھیں بند کررکھی ہیں۔ مسلمانوں کو لازمی ایغور مسلمانوں کے ساتھ اس ہونے والی غداری کے خاتمے کے لیے نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ یہ نبوت کے طریقے پر قائم خلافت ہی ہو گی جو اس بات کو یقینی بنائے گی کہ مسلم ریاستوں کو ایک طاقتور اور باوسائل ریاست میں یکجا کردے اور طاقت کے حصول کے لیے امریکی صلیبیوں، یہودی وجود، ہندو ریاست اور چینی مشرکین کے ساتھ اتحاد کرنے اور ان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے عہد کا خاتمہ کردے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۚ أَتُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا
"اے اہل ایمان! مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بناؤ کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپراللہ کا صریح الزام لو؟ "(النساء، 4:144)
- ہمیں موجودہ کفر قوانین کوجدید دور سے ہم آہنگ کرنے کی نہیں
- بلکہ مکمل اسلام کو نافذ کرنے کے ضرورت ہے
6 جنوری 2019 کو چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے موجودہ قوانین کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں برطانوی دور کے قوانین پر عمل کیا جارہاہے جو نہ تو اسلام سے اور نہ ہی مقامی روایات سے ہم آہنگ ہیں۔ چیف جسٹس نے بالکل درست کہا ہے کہ پاکستان میں برطانوی دور کے قوانین پرعمل کیا جارہا ہے۔ یہ بات انتہائی ناقابل قبول ہے کہ ایک ایسے ملک میں جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ہو اور جس کے قیام کے لیے ہزاروں لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کانظرانہ پیش کیا ہو، اس ملک میں اس کے قیام کے دن سے آج تک برطانوی کفر قوانین پر عمل کیا جارہا ہو۔ اس کے علاوہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے چیف جسٹس نے یہ بات بھی واضح کردی کہ پاکستان کا آئین اسلامی نہیں جبکہ حکمران اس آئین کو اسلامی قرار دیتے ہیں۔ اس قسم کے جھوٹے دعوے اس لیے کیے جاتے ہیں تا کہ پاکستان کے مسلمان دھوکے کا شکار رہیں اور کبھی کفر قوانین پرمبنی اس نظام کے خاتمے کے لیے کھڑے ہوں۔
لیکن چیف جسٹس نے اس مسئلے کے حل کے لیے جو نسخہ تجویز کیا ہے وہ ایسے ہی ہے کہ گرم کڑاہی سے نکل کر آگ میں گر گئے۔ موجودہ قوانین کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کا مطلب ہے کہ کفر قوانین کا نفاذ جاری رہے گا۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ موجودہ قوانین کفر قوانین ہیں ، لہٰذا انہیں مزید کفر سے ہم آہنگ کرنے کے بجائے ہمیں انہیں مکمل طور پر مسترد کر کے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قانون کو نافذ کرنا چاہیے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ "حکم تو صرف اللہ ہی کا ہے"(یوسف 12:67)۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا
"اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی فیصلہ کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا"(الاحزاب 33:36)۔
خلافت کے زمانے میں جب نئے نئے علاقے فتح کے بعد اسلامی ریاست کا حصہ بنے تو مسلمانوں نے کبھی اس بات کی کوشش نہیں کی کہ مقامی قوانین یا روایات کو اسلامی قوانین سے ہم آہنگ کیا جائے۔ انہوں نے اُس سب کو ختم کردیا جو اسلامی ریاست کا حصہ بننے سے قبل وہاں نافذ ہورہا تھا اور اسلام کو زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ کیا۔ یہی اسلامی ریاست ،خلافت ، کی شاندار کامیابی کی واحد وجہ تھی۔ خلافت نے مختلف مذاہب،رنگ اور نسل کے لوگوں کو ایک امت میں تبدیل کردیا۔ مسلمانوں نے معیشت، طب، انجینئرنگ، ادب، فنون اور فقہ وغیرہ سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی کی۔ مسلمانوں کو کبھی اس بات کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ وقت یا زمانے کی تبدیلی کی وجہ سے اسلام کے قوانین میں تبدیلی کی جائے کیونکہ اسلام کے قوانین اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے دیے ہیں، جو مستقبل میں قیامت تک آنے والے ہر زمانے اور اس کی ضروریات جانتے ہیں۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی وہ واحد ذات ہے جو ایسے قوانین دے سکتے ہیں جنہیں کبھی تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
- پرانے پاکستان کے حکمرانوں کی طرح "نئے پاکستان" کے حکمران بھی امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے کام کررہے ہیں
8 جنوری 2019 کو وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ترکی کے بین الا قوامی نیوزچینل، ٹی آر ٹی ورلڈ،کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ افغان جہاد کے بعد سے پاکستان نے 80 ہزار جانوں، 40 لاکھ افغان مہاجرین، عسکریت پسندی اور کلاشنکوف کلچر کی صورت میں بہت بھاری قیمت ادا کی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان اب تک اس ابتری کی صورتحال سے نکلنے کی کوشش کررہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ، ڈو مور کے مطالبے کے برخلاف پاکستان اب امن کا اتحادی ہوگا اور افغانستان کے امن عمل میں سہولت کار کا کردار ادا کررہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس بات کی تصدیق کی کہ پچھلے حکمرانوں نے امریکا کی ضروریات کے مطابق کرائے کی بندوق کا کردار ادا کرنے کو قبول کیا تھا ۔
دراصل صورتحال تبدیل ہوجانے کے بعد افغانستان میں امریکا کی سرکاری اور غیر سرکاری نجی افواج کی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے درکار سیاسی معاہدے کے حصول کے لیے کرائے کی بندوق کا کردار ادا کرنے کی ضرورت اب باقی نہیں رہی ہے۔ افغانستان کی جنگ میں 17 سال تک معاشی و فوجی وسائل جھونکنے کے بعد بھی امریکا کو جوش و جذبے سے بھر پور افغان مزاحمت کا سامنا ہے، لہٰذا امریکا افغانستان میں اپنی مستقل موجودگی کو مذاکرات کے ذریعے برقرار رکھنے کے لیے بہت زیادہ بیتاب ہے۔ پچھلے حکمرانوں کی طرح پاکستان کے موجودہ حکمران بھی اپنے ڈوبتے آقا کو بچانے کے لیے تیزی سے حرکت میں آگئے ہیں اور مسلمانوں کو یہ کہہ کر دھوکا دے رہے ہیں کہ ایسا کرنا ان کے بہترین مفاد میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
لَا يُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَيْنِ
"مسلمان ایک ہی سوراخ سے کبھی دوسری بار نہیں ڈسا جاتا"(بخاری ، مسلم)۔
مسلمانوں کو موجودہ حکمرانوں سے دھوکانہیں کھانا چاہیے۔ غیر ملکی کافر جارح سے تعاون کر کے 17 سال کی قربانیوں کو ضائع نہیں کیا جاسکتا جبکہ وہ سوویت یونین کی طرح بدترین شکست کے دہانے پر کھڑا ہے۔ امریکا سے تعاون کے نتیجے میں اس دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے غضب کا لازمی سامنا کرنا پڑے گا۔ پچھلے حکمرانوں کو امریکا نے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا تھا جب اسے ان کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ اس بار اگر امریکا کے ساتھ تعاون کیا گیا تو اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ امریکا افغانستان کے دروازے بھارت پر مزید کھول دے گا تا کہ وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے افغان سرزمین استعمال کرسکے۔ امریکا کی مستقل فوجی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ امریکا پاکستان کے خلاف فالس فلیگ حملے کرواتا رہے گا۔امریکا کی مستقل فوجی موجودگی کا مطلب ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار ہمیشہ امریکی حملے کے خطرے سے دوچار رہیں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
إِنَّمَا يَنْهَاكُمْ اللَّهُ عَنْ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ
"اللہ ان ہی لوگوں کے ساتھ تم کو دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی۔ تو جو لوگ ایسوں سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں"(محمد 60:9)۔
امریکا کے ساتھ اتحاد کی زنجیروں کو توڑنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ نبوت کے طریقے پر خلافت قائم کی جائے۔ خلافت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شریعت کو نافذ کرے گی، جہاد فی سبیل اللہ کرے گی اور افغانستان کے اندر اور باہر مجاہدین کی معاونت کرے گی تا کہ افغانستان سے امریکا کی موجودگی کا خاتمہ کردیاجائے۔