بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 8 فروری 2019
- افواج پاکستان کی قیادت مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں امریکا کے مفادات کے حصول کو یقینی بنارہی ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی التجاؤں کو نظر انداز کررہی ہے
۔ ہیلتھ انشورنس کارڈ لوگوں کے لیے صحت کی سہولیات کو مہنگا کرے گا اور انشورنس کمپنیوں اور نجی اسپتالوں کی آمدن میں اضافے کا باعث بنے گا
- کمر توڑ گیس بِلز کی وجہ پاکستان کا سرمایہ دارانہ نظام ہے
- تفصیلات:
- افواج پاکستان کی قیادت مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں امریکا کے مفادات کے حصول کو یقینی بنارہی ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی التجاؤں کو نظر انداز کررہی ہے
4 فروری 2019کو جاری ہونے والی پریس ریلیز کے مطابق آئی ایس پی آر نے بتایا کہ "جنرل ہیڈ کواٹر میں ہونے والے 218 ویں کور کمانڈرز کے اجلاس نے خطے کے لیے امریکی پالیسی کی توثیق کی جس کی صدارت جنرل باجوہ،چیف آف آرمی اسٹاف، کررہے تھے"۔ دنیا کی سب سے طاقتورمسلم آرمی کے کمانڈرز نے "خطے میں امن عمل خصوصاً افغانستان میں مصالحاتی عمل پر ہونے والی پیش رفت پر" اطمینان کا اظہار کیا۔ کشمیر کے متعلق اس اجلاس نے"کسی بھی حملے کو روکنے کے لیےلائن آف کنٹرول ، ورکنگ باونڈری اور مشرقی سرحد پر تیاری کی حالت کا جائزہ لیا گیا"۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والا یہ ایک انتہائی پستی پر مبنی بیان ہے۔ ایک طرف فوجی قیادت کرائے کے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کے لیے سر توڑ کوشش کررہی ہے اور امریکی اڈوں، اس کے پرائیوٹ کنٹریکٹرز اور سرکاری افواج کو برقرار رکھنے کے لیے درکار سیاسی معاہدے کے حصول کے لیے معمول سے ہٹ کر اقدامات لے رہی ہے ، لیکن دوسری جانب جب تک بھارت لائن آف کنٹرول، ورکنگ باونڈری یا مشرقی سرحد پار نہ کرلے تو اس کی کسی حرکت کو حملہ تصور نہیں کیا جاتا جس کا جواب دینا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ اور بھارت نے صرف پچھلے ایک سال میں سیکڑوں کشمیری مسلمانوں کوشہید کردیا لیکن اس کا یہ عمل حملہ تصور نہیں کیا جاتا۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ فوجی قیادت نے امریکی خواہش پر بھارت کے فائدے کے لیےکشمیر کے مسئلے کو بھلا دیا ہے۔ انہیں کشمیری مسلمانوں کے خون اور عزت و آبرو کی کوئی پروا نہیں ہے جبکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا،
اَلْمُسْلِمُ أَخُو اَلْمُسْلِمِ، لَا يَظْلِمُهُ، وَلَا يَخْذُلُهُ
"مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اس کے ساتھ غلط نہیں کرتا اور نہ ہی (مشکل وقت میں) چھوڑتا ہے"(احمد)۔
فوجی قیادت بھارتی افواج کے ہاتھوں مسلسل قتل و غارت گری اور عزت و آبرو کی پامالی کو حملہ تصور نہیں کرتی کہ جس کا منہ توڑ جواب دیا جائے جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
إِلاَّ تَنفِرُواْ يُعَذِّبْكُمْ عَذَاباً أَلِيماً
"اور اگر تم نہ نکلو گے تو اللہ تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا"(التوبۃ، 9:39)۔
فوجی قیادت ملڑی انٹیلی جنس اور کمانڈ کے اندازوں کو اپنے کمزور موقف کا جواز بنا کر پیش کرتی ہے جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ،
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ
"اے اہل ایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا"(محمد، 47:7)۔
فوجی قیادت ویسٹ فیلین قومی ریاست کے تصور کی پامالی کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے مسلمانوں کی مدد کے حکم کی پامالی سے زیادہ اہمیت دیتی ہے جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَإِنِ ٱسْتَنصَرُوكُمْ فِى ٱلدِّينِ فَعَلَيْكُمُ ٱلنَّصْرُ
"اور اگر وہ تم سے دین (کے معاملات) میں مدد طلب کریں تو تم کو مدد کرنی لازم ہوگی"(الانفال، 8:72)۔
- ہیلتھ انشورنس کارڈ لوگوں کے لیے صحت کی سہولیات کومہنگا کرے گا اور انشورنس کمپنیوں اور نجی اسپتالوں کی آمدن میں اضافے کا باعث بنے گا
4 فروری 2019 کو وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد میں ہونے والی ایک تقریب میں پورے ملک کے لیے صحت انصاف کارڈ اسکیم کے پہلے مرحلے کا افتتاح کیا جس کے تحت تقریباً 80لاکھ لوگوں کو صحت کی سہولیات مفت فراہم کی جائیں گی۔ یہ کارڈ ، جوپی ٹی آئی کے صحت سہولت پروگرام کے ضمن میں آتا ہے، اُس ہیلتھ انشورنس اسکیم کا حصہ ہے جسے پہلے اسی جماعت نے خیبر پختونخوا میں 2016 میں جاری کیا تھا۔ اس اسکیم کے تحت ایک شہری نجی اور سرکاری اسپتال میں ہیلتھ انشورنس کارڈ کے ذریعے علاج کرواسکتا ہے جبکہ انشورنس کمپنیوں کو پریمیم حکومت فراہم کرے گی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پورے ملک میں موجودہ صحت کے ڈھانچے کو تبدیل کیا جاتا اور اس مقصد کے حصول کے لیے معیاری اور بڑے سرکاری اسپتال بنائے جاتے لیکن حکومت نے شعبہ صحت کو نجی اسپتالوں اور انشورنس کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ حکومت آنکھیں بند کر کے سرمایہ دارانہ امریکی نمونے کی پیروی کررہی ہے جو لوگوں کے صحت کے حوالے سےبنیادی حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام رہاہے۔ 2007 میں ایک امریکی صارف رپورٹ ،جس کا عنوان تھا "کیا آپ کامکمل احاطہ کیا گیا ہے؟" میں بتایا گیا تھا کہ 40 فیصد سے زائد انشورنس کے حامل افراد نے یہ بتایا کہ ان کی انشورنس پالیسی ان کی ضروریات کا مکمل احاطہ نہیں کرتی۔ اس قسم کی تقریباً تمام رپورٹس یہ بتاتی ہیں کہ انشورنس کی پالیسیاں امریکی عوام کی عمومی صحت کو بہتر بنانے میں ناکام رہی ہیں۔ سرمایہ داریت کے مخصوص کردار کے مطابق چند لوگوں کے فائدے کے لیے عوام کے مفاد کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ ہیلتھ انشورنس صرف نجی اسپتالوں اور انشورنس کمپنیوں کے منافع میں اضافے کاباعث ہوتی ہے۔ کیسر فیملی فاونڈیشن رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ ہیلتھ انشورنس کی لاگت میں صرف صحت کی انشورنس فراہم کرنے والی کمپنیوں کے نفع کی وجہ سے اضافہ نہیں ہوتا بلکہ انشورنس کی وجہ سےصحت اور انتظامی اخراجات میں ہونے والا اضافہ بھی انشورنس کی لاگت میں اضافہ کرتا ہے۔ ایم آئی ٹی اور ہارورڈ اسکول آف پبلک ہیلتھ کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق جن افرادکے پاس انشورنس ہوتی ہے ان کی جانب سے اسپتال کی سہولیات کو استعمال کرنے کی شرح میں 30فیصد اضافہ ہوگیا ہے، اسپتال میں گزارے جانے والے وقت میں 30 فیصد اضافہ ہوگیا ہے اور مختلف مراحل میں 45فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔ اسٹینفورڈ یونیورسٹی اور وہارٹن اکنامسٹ کے 2019 میں شائع ہونے والے پیپر کے مطابق صحت کی سہولیات میں ہونے والی وسعت، امریکی حکومت کی امداد سے چلنے والی صحت کی انشورنس پالیسی نے "اسپتال کے محاصل اور منافع میں کافی اضافہ کیا ہے"۔
سرمایہ داریت مریضوں کو صحت کی سہولیات مفت فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے، جبکہ نجی اسپتالوں اور انشورنس کمپنیوں کے چند مالکان کی جیبوں کو دولت سے بھر دیا ہے۔ صرف اسلام ہی پاکستان میں صحت کی سہولیات کے حوالے سے پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرے گا۔ اسلام نے صحت کو معاشرے کی بنیادی ضرورت قرار دیا ہے اور خلافت کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو بلا امتیاز رنگ، نسل و مذہب صحت کی سہولیات مفت فراہم کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
يَا عِبَادَ اللَّهِ تَدَاوَوْا
"اے اللہ کے بندے علاج کراؤ"۔
غزوہ خندق کے دوران آپ ﷺ کا گزر زخمی سپاہیوں کے پاس سے ہوا تو آپ ﷺ نے علاج کی فراہمی کے لیے ایک خیمہ نصب کرنے کا حکم دیا۔ بیمرستان کا انسٹیٹیوٹ (بیمار کا گھر) پورے دورِ خلافت میں ریاستِ خلافت کےلوگوں کے لیے ایک بہت زبردست سہولت کی فراہمی کا ذریعہ رہا۔ المنصوری اسپتال1283 عیسوی میں مصر کے شہر قاہرہ میں قائم کیا گیا تھا جس میں 8 ہزار مریضوں کا علاج کیا جاتا تھا۔ ہر مریض کو دو خدمت گزار فراہم کیے جاتے تھے۔ ہر مریض کو بستر اور کھانے کے برتن فراہم کیے جاتے تھے۔ اس اسپتال آنے والے اور داخل ہونے والے مریضوں کو مفت خوراک اور دوائیاں فراہم کیں جاتی تھیں۔ دورِ خلافت میں گشتی د واخانے ہوتے تھے جو معزور اور دور دراز علاقوں میں رہنے والوں کو معیاری علاج فراہم کرتے تھے۔ شعبہ صحت کے حوالے سے برتی جانے والی غفلت اس بات کی یاددہانی کراتی ہے کہ ہمیں فوری طور پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام عمل میں لانا چاہیے تا کہ ہمارے امور کی موثر دیکھ بحال ہوسکے۔
کمر توڑ گیس بِلز کی وجہ پاکستان کا سرمایہ دارانہ نظام ہے
2 فروری 2019 کو پیٹرولیم کے وزیر غلام سرور خان نے اِس بات کا اعتراف کیا کہ بڑھے ہوئے گیس کے بِل عوام پر بوجھ ہیں۔ انہوں نے عوام کو یہ کہہ کر "سہولت" فراہم کرنے کی پیشکش کی کہ وہ اپنے بڑھے ہوئے بِل چار برابرقسطوں میں جمع کراسکتے ہیں۔ وزیر موصوف کے مطابق یہ سہولت صرف اُن صارفین کے لیے ہوگی جنہیں 20 ہزار یا اُس سے زائد کے بِل موصول ہوئے ہیں۔ سوئی سدرن اور سوئی ناردن گیس کمپنی لمیٹڈ کو یہ احکامات دے دیے گئے ہیں کہ وہ ایسے صارفین کے گیس کے کنیکشن منقطع نہ کریں جو قسطوں میں بِل جمع کرائیں گے۔
17 ستمبر 2018 کو پی ٹی آئی حکومت نے گیس کی قیمتوں میں 143 فیصد تک اضافہ کیا تھا اور زرتلافی (سبسیڈی)میں کمی کردی تھی تا کہ مزید 94 ارب روپے صارفین سے وصول کیے جاسکیں۔ اُس وقت حکومت نے یہ دعوی کیا تھا کہ 98 فیصد تک گھریلو صارفین اس اضافے سے شدید متاثر نہیں ہوں گے۔ حکومت نے یہ دعوی کیا تھا کہ وہ صارفین جو 100 ایم ایم سی ایف ڈی سے لے کر 400 ایم ایم سی ایف ڈی تک گیس استعمال کرتے ہیں ان کے گیس کے بِل میں 10 سے 30 فیصد تک اضافہ ہوگا۔ حکومت نے یہ بھی دعوی کیا تھا کہ صرف2 فیصد صارفین کے بِلوں میں 143 فیصد کا زبردست اضافہ ہوگا جو 500 ایم ایم سی ایف ڈی سے زیادہ گیس استعمال کرتے ہیں۔ لیکن سردیوں میں گیس کے استعمال میں زبردست اضافہ ہوجاتا ہے کیونکہ گھریلو صارفین کھانا پکانے کے علاوہ کمروں کو گرم کرنے اور نہانے کے لیے گرم پانی کے حصول کے لیے بھی گیس کا استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا حالیہ موسم سرما میں جب صارفین کو گیس کے بِل موصول ہوئے تو وہ یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ ان کے گیس کے بِل پچھلے موسم سرما کے مقابلے میں دو سے تین گنا زائد ہیں۔
موجودہ سرمایہ دانہ معاشی نظام میں عوام کو کبھی کوئی سہولت اور آسانی میسر نہیں آئے گی۔ یہ معاشی نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ گیس کی ملکیت نجی شعبے یا سرکاری شعبے میں ہی رہے۔ اِس وقت گیس کے کنویں یا تو نجی کمپنیوں کی ملکیت میں ہیں یا نجی اور ریاست کی مشترکہ ملکیت ہیں۔ نجی کمپنی یا ریاست لوگوں کی مشکلات کو نظر انداز کرتے ہوئے گیس کی زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ نجی کمپنیاں گیس پر زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لیے جبکہ ریاست قرضوں پرسود کی ادائیگی کے لیے لوگوں کی کمر توڑ ڈالتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے برخلاف اسلام کا معاشی نظام گیس کو عوامی ملکیت قرار دیتا ہے جس کے تحت اس سے حاصل ہونے والے فائدے میں تمام لوگ شریک ہوتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،
«الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ»
"مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں: پانی، چراہگاہیں اور آگ"(احمد)۔
اس حدیث میں "آگ" سے مراد توانائی کی تمام اقسام ہیں۔ نبوت کے طریقے پر قائم خلافت میں گیس نہ تو نجی ملکیت میں ہو گی اور نہ ہی نجی و ریاستی مشترکہ ملکیت ہوگی۔ گیس کے مالک عوام ہوں گے اور گیس کے شعبے کو ریاست عوام کے وکیل کے طور پر چلائے گی تا کہ اس سے حاصل ہونے والے نقد فائدے یا براہ راست فائدے سے عوام مکمل طور پر مستفید ہوسکیں۔ اسلام کے معاشی نظام کےاس حکم کی وجہ سے گھریلو صارفین کے ساتھ ساتھ صنعت، تجارت اور زراعت کے شعبوں کو بھی گیس انتہائی مناسب قیمت پرمیسر ہو گی۔