بسم الله الرحمن الرحيم
تفسیر سورۃ بقرۃ ،آیت 213 تا 214
فقیہ اور مدبر سیاست دان ،امیر حزب التحریر، شیخ عطا بن خلیل ابوالرَشتہ کی کتاب تیسیر فی اصول التفسیر سے اقتباس
كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمْ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلاَّ الَّذِينَ أُوتُوهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمْ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنْ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمْ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلاَ إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ (البقرة: 213-214)
"لوگ ایک ہی امت(مسلمان) تھے پھر(جبکہ وہ مومن اور کافر ہوئے) اللہ نے انبیاء کو بھیجا جو خوشخبری سناتے تھے اور ڈراتے تھے اور ان کے ساتھ حق کو بیان کرنے والی کتابیں نازل کیں تاکہ ان چیزوں میں لوگوں کے درمیان فیصلے کریں جن میں لوگ اختلاف کرچکے، اختلاف بھی انہی لوگوں نے واضح آیات آنے کے بعد ایک دوسرے سے ضد کی وجہ سے کیا کہ جن کو کتاب دی گئی تھی، پھر اللہ نے اختلاف کرنے والوں میں سے ایمان لانے والوں کو اپنی مشیت سے ہدایت دی، اللہ ہی جسے چاہتا ہے راہِ راست کی ہدایت دیتا ہے۔ کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ تم جنت میں داخل ہو گے ابھی تو تمہارے ساتھ سابقہ لوگوں جیسے واقعات پیش نہیں آئے، جس تنگی اور سختی کا ان کو سامنا ہوا اور وہ ہلادئیے گئے یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے بول اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی، سنو اللہ کی مدد قریب ہے"۔
اللہ تعالی نے ان آیات میں یہ بیان کیا ہے:
1۔ لوگ آدم علیہ السلام کے ابتدائی دور میں، جب آپ کو جنت سے نکال کر زمین پر اتاراگیا تھا ،اللہ کی عبادت اور اللہ پر ایمان رکھنے والے تھے ،اس لیے وہ ایک امت تھے اور امت سے یہاں مراد لوگوں کا وہ مجموعہ ہے جن کا عقیدہ ایک ہو۔
اس کے بعد انہوں نے آپس میں اختلاف کیا کچھ مومن ہوئے کچھ کافر، تب اللہ تعالیٰ نے مقررہ اوقات میں انبیاء کوبھیجا جو مومنوں کو جنت کی خوشخبری اور کافروں کو اللہ کی ناراضگی اور آگ سے ڈراتے تھے، اللہ تعالی ان انبیاء کے ساتھ اپنی واضح آیات والی کتابیں بھی نازل فرماتا تھا، جو خیر اور شر کو بیان کرتی تھیں تاکہ انبیاء ان کے درمیان متنازعہ امور میں فیصلے کریں۔
مگر یہ امتیں اپنے رسولوں سے اختلاف کرتی تھیں۔ شدید ترین اختلاف کرنے والے ان کے علماء ، مشائخ اور راھب ہوتے تھے، یہی لوگ نازل کی گئی کتابوں میں تحریف اور رد وبدل کرتے تھے حالانکہ ان کتابوں میں حق اور باطل کے درمیان فرق کو واضح کرنے والی قطعی دلائل بیان ہوتے تھے، یعنی یہ باطل پر اصرار جانتے بوجھتے کرتے تھے ، وہ جانتے تھے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں یہ باطل ہے ، بغیر حجت اور برہان کے جانتے ہوئے تکبر، عناد، ظلم اور عداوت کی وجہ سے گمراہی کا راستہ اپناتے تھے،۔ ہاں جو لوگ مخلص تھے اور رسول کے لائے ہوئے کی تصدیق کرتے تھے، اللہ ان کو راہ راست کی ہدایت دیتاتھا اور ان کو بتاتا تھا کہ اپنے رسولوں سے اختلاف کرنے والوں نے کیا تحریف اور تبدیلی کی ہے تاکہ وہ اس سے دور رہیں اور اس گناہ اور گمراہی میں نہ پڑیں بلکہ اللہ اپنے فضل سے ان کو اس سے بچاتاتھا،وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيم"اللہ جس کو چاہتا ہے راہ راست کی ہدایت دیتا ہے"۔
كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ"لوگ ایک ہی امت تھے پھر اللہ نےخوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء کو مبعوث کیا"اس میں"امۃ واحدۃ"کے بعد کی بات محذوف ہے، یعنی یہ امر کہ پھر انہوں نے اختلاف کیا اور مومن اور کافر بن گئے۔ اس محذوف پر دلالت'مبشرین و منذرین' کے الفاظ کرتے ہیں، کیونکہ رسولوں کو اختلاف کرنے والے لوگوں کے پاس بھیجا گیا تاکہ خوشخبری کے حقداروں کو خوشخبری سنائیں اور ڈرانے کے حقداروں کو ڈرائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے لوگ حق پر تھے سب ایک ہی امت تھے پھر بعض نے اختلاف کرکے کفر کا راستہ اختیار کیا اور کچھ ایمان پر ہی باقی رہے، جس وقت اللہ نے مومنوں کو خوشخبری سنانے اور کافروں کو ڈرانے والے رسولوں کو بھیجا، لوگوں کا یہ حال تھا۔
وَأَنزَلَ مَعَهُمْ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ"اور ان کے ساتھ حق کو بیان کرنے والی کتاب نازل کی تاکہ رسول لوگوں کے درمیان ان متنازعہ امور میں فیصلے کریں جن میں انہوں نے اختلاف کیا"، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں کے درمیان اختلافات اور تنازعات کے فیصلے کرنے کے لیے رسولوں کے پاس، ان پر نازل کردہ کتابوں میں لکھی ہوئی شریعتیں تھیں جیسا کہ اللہ فرماتا ہے"تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے شریعت اور منہج مقرر کیا"(المائدہ:48)۔
وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلاَّ الَّذِينَ أُوتُوهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمْ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ" اس میں اختلاف بھی صرف انہی لوگوں نے واضح نشانیاں آنے کے بعد باہمی عداوت کی وجہ سے کیا جن کو یہ نشانیاں پہلے دی گئی تھی"۔ "جن کو پہلے دی گئی تھی" یعنی اہلِ کتاب کے علماء ،مشائخ اور راہب جس کا قرینہ"واضح نشانیاں آنے کے بعد" کے الفاظ ہیں، گویایہ لوگ جاننے والے لوگ تھے ،یوں آیت بتا رہی ہے کہ شدید ترین اختلاف علماء اور راہبوں نے کیا ،انہوں نے ہی تبدیلی اور تحریف کو جانتے ہوئے بھی حق بات کو چھپایا۔
بَغْيًا بَيْنَهُمْ"آپس میں عداوت کی وجہ سے" یعنی بغیر حجت اور برہان کے تکبر،ظلم اور سرکشی کی وجہ سے۔ (بینھم) کا (بغیا) کے بعد آنے کا مطلب ہے کہ عداوت ان کے درمیان تھی ، یہ ان کے ساتھ تھی جہاں بھی گئے اور بیٹھے، یہ ان کے ساتھ گئی اور بیٹھ گئی۔
2۔ پہلی آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حق اور باطل کے درمیان تصادم رسولوں کے لوگوں کے درمیان موجودگی کے وقت بھی ہے، بات یہاں تک محدود نہیں بلکہ سخت اختلاف علم والے ہی کرتے ہیں اور ان کے درمیان مومنین بہت کم ہوتے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے:یأتی النبي و معہ الرجل والنبي معہ الرجلان"(قیامت کے دن )ایک نبی آئیں گے جس کے ساتھ ایک یا دو آدمی ہوں گے۔۔۔"(بخاری:5311،مسند احمد 3/58، تفسیر الطبری 2/8)۔
اس کا یہ مطلب ہے کہ مومنین ان فاسد معاشروں میں بڑی مشکل اور بڑی قربانیوں سے اپنا راستہ بناتے ہیں، اس میں رسول اللہ ﷺ کو تسلی دی گئی ہےکیونکہ آپ نے اپنی قوم اور اپنے وقت کے اہلِ کتاب یہود ونصاری کو حق کی دعوت دی مگر انہوں نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا جو رسول اللہ ﷺ لے کر آئے تھے بلکہ مزاحمت کی اور آپ ﷺ کی راہ میں رکاوٹ بن گئے، آپ ﷺ کو مکہ سے نکالا ،اللہ کی راہ سے روکا اور مدینہ میں آپ ﷺ کے خلاف قتال کیا، خندق میں آپ ﷺ کے خلاف لوگوں کو جمع کیا، وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ"اور(یہاں تک کہ) کلیجے منہ کو آگئے"(الاحزاب:10) ۔ یوں آپ ﷺ کو سخت مشکلات کا سامنا ہوا جیسا کہ سابقہ امتوں نے اپنے رسولوں کے ساتھ کیا۔
دوسری آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ یہ بیان کرتے ہیں کہ اس کی مخلوق میں یہی اللہ کی سنت ہے کیونکہ جنت کی قیمت بہت زیادہ ہے: مشکلات، آزمائشیں، سخت مصائب اور اس قدر سخت جھٹکے کہ رسول اور اس کے ساتھ مومنین بھی اس بوجھ کی وجہ سے کہہ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی، تب ان کے پاس اللہ کی مدد آتی ہے ۔یوں اللہ کی مدد حق پر ثابت قدم رہنے والوں اور آزمائش میں صبر کرنے والوں کے قریب ہے۔ اس دن مومن اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے، مومن اس دن اللہ کی نعمتیں اور رضا دیکھ کر ایسے خوش ہوں گے گویا انہوں نے کوئی مصیبت اور تنگی دیکھی ہی نہیں:یؤتی یوم القیامۃ بأشد الناس بلاء و مصیبۃ فیدخل الجنۃ و یسأل عن المصائب التی رآھا في الدنیا فکأنھا لم تکن في حیاتہ لعظم ذلک النعیم"قیامت کے دن سب سے زیادہ مصیبت زدہ کو لاکر جنت میں داخل کیا جائے گا اور اس سے ان مصیبتوں کے بارے میں پوچھا جائےگا جس کا دنیا میں اس نے سامنا کیا،تو ان نعمتوں کی عظمت کی وجہ سے اسے ایسا لگے گا کہ اس نے کوئی مصیبت دیکھی ہی نہیں"۔مسند احمد3/253،الزھد لابن مبارک 220، ابن أبی شیبہ13/248
لفظ (أم)یہاں منقطعہ ہے جو کہ نئی بات شروع کرنے کے لیے ہے، سابقہ آیت"لوگ ایک ہی امت تھے" اور یہاں "کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ تم جنت میں داخل ہوگے" میں خطاب کے صیغے میں تبدیلی واقع ہوئی ہے اور اس لیے(أم)منقطعہ، متصلہ سے خطاب کے صیغے کے مختلف ہونے کی وجہ سے زیادہ مناسب ہے، پھر(أم)متصلہ ایک ہی کلام کا تقاضا کرتا ہے اور اس سے پہلے ہمزہ استفہام کا آنا شرط ہوتا ہے، جیسا کہ آپ کہیں(أعندک زید ام عمرو؟)" کیا تمہارے پاس زید ہے یا عمرو؟" یعنی دونوں میں سے کون تمہارے پاس ہے؟ اس کا جواب اگر زیدہو تو زید ہے اور اگر عمرو ہو تو عمرو ہے، جبکہ (أم)منقطعہ استفہام اور خبر کے بعد واقع ہوتا ہے، یہاں یہ استفہام کے بعد نہیں تاہم کلام سے منفصل خبر کے بعد واقع ہے اس لیے یہ (أم)منقطعہ ہے۔
اور (ام) منقطعہ 'بل اور ہمزہ' کے معنی میں ہوتا ہے ،اس لیے معنی یہ ہوں گے: بل أحسبتم ان تدخلوا الجنۃ"بلکہ کیا تم نے یہ گمان کر لیا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوگے، یعنی گمان کا انکار اور بعید از امکان ہونا، یہی وجہ ہے کہ جیسا کہ اللہ نے فرمایا کہ آزمائش کے بغیر جنت میں داخلہ نہیں۔
وَلَمَّا يَأْتِكُمْ"اور اب تک تمہارے ساتھ نہیں آیا" یعنی تمہارے ساتھ پیش نہیں آیا ،(لما) میں نفی کیے گئے فعل کے واقع ہونے کی توقع ہے ، اور یہ (لم) سے مختلف ہے۔
وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ"حتیٰ کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے کہہ اٹھے" یہ اس بات پر دلالت کے لیے ہے کہ شدت بہت بڑی تھی اور ہولناکی بہت عظیم تھی کہ اس کے بوجھ کے وزن کو صرف عام لوگوں نے نہیں بلکہ ان رسولوں نے بھی بھاری سمجھا ،جن کی طرف وحی بھیجی جاتی ہے اور اور اس کے ساتھ رہنے والے مومنین بھی۔
مَتَى نَصْرُ اللَّهِ"اللہ کی مدد کب " یعنی اللہ کی مدد کب آئے گی؟ شک اور بے یقینی کی وجہ سے نہیں بلکہ مدت کی شدت کی وجہ سے۔
أَلاَ إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ"سنو اللہ کی مدد قریب ہے" یعنی اللہ نے اپنے رسولﷺ کو وحی کے ذریعے بتا دیا کہ اس کی مدد قریب ہے۔
اس کی ابتدا حرفِ تنبیہہ(أَلَا) اور حرفِ تاکید(إِنَّ)سے کی تا کہ عنقریب پورا ہونے والے اللہ کے وعدے کے بارے میں ان کے دل مطمئن ہوں۔
چونکہ انہوں نے کہا تھا"اللہ کی مدد کب" یعنی اللہ کی مدد کب آئے گی؟ گویا کہ وہ شدت سے مدد کے قریب ہونے کا توقع کر رہے تھے، تو سوال کا جواب تنبیہہ اور تا کید کے ساتھ آگیا کہ"سنو اللہ کی مدد قریب ہے"۔