بسم الله الرحمن الرحيم
ہفت روزہ عالمی خبروں پر تبصرے
24اپریل 2021
بائیڈن یورپ پر دباؤ ڈالنے کے لیے روس کو استعمال کر رہا ہے
کئی ہفتوں سے یوکرائن کی سرحد پر ایک لاکھ سے زائد روسی فوجیوں کے جمع ہونے کے بعد روسی وزیرِ دفاع نےجزوی انخلاء کا حکم دے دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ یکم مئی 2021 تک مکمل ہو جا نا چاہیے۔یہ حکم روسی وزیرِ اعظم ویلادمیر پوٹن کے سالانہ 'سٹیٹ آف دی یونین' خطاب کے ایک دن بعد اور یوکرائنی صدر Volodymyr Zelensky کی جنگ کی دھمکی کے دو دن بعد صادر ہوا ، جس میں پوٹن نے خبردار کیا تھا کہ، "میں امید کرتا ہوں کہ روس کے حوالے سے کوئی بھی ریڈ لائن عبور نہیں کرے گا" ۔بہرحال ، اس انخلاء کی حقیقی وجہ غالب امکان کے مطابق پچھلے ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو ہے جس میں اس نے پوٹن کے ساتھ ایک سمٹ (summit) کرنے کا عندیہ دیااور ساتھ ہی بحرِ اسود میں دو امریکی بحریہ کے جنگی جہازوں کی تعیناتی کا حکم واپس لے لیا۔
امریکہ اسی گرینڈ اسٹریٹیجک منصوبے پر چل رہا ہے جو برطانیہ نے وضع کیا تھا کہ یورپ (بلخصوص فرانس اور جرمنی) اور روس کے درمیان تنازعے کو ہوا دی جائے اور طاقت کا توازن قائم رکھا جائے۔طاقت کے توازن کو قائم کرنے کا نظریہ یہ ہے کہ دونوں طاقتوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکایا جائے، اس سے دونوں کی جانب سے امریکہ کو درپیش خطرہ کم ہو جاتا ہے اور بیک وقت دونوں یورپ اور روس امریکی حمایت اور ثالثی کے مرہونِ منت ہو جاتے ہیں۔یوکرائن کی سرحد پر روسی جارحیت اور پھرپسپائی دونوں امریکی قیادت کی وجہ سےہی ہوئیں اور یہ یورپ کوبائیڈن کے پہلے سمندر پار دورے سے قبل امریکہ کی حمایت اور قیادت کی ضرورت کی بروقت یاد دہانی کے لیے ہے ،یورپ کے اس دورے کا اعلان خاص اس وقت کیا گیا جب روسی فوجیوں کے انخلاء کا اعلان ہوا۔ شیڈول کے مطابق بائیڈن برطانیہ میں G-7سمٹ اور اس کے بعد برسلز میں NATO سمٹ میں شرکت کرے گا اور ساتھ ہی یورپی یونین کے اعلیٰ عہدیداران سے بھی ملاقات ہوگی جس کو US-EU سمٹ کا نام دیا جا رہا ہے۔
امریکی اور یورپی ایک ہی آئیڈیالوجی، گہرے تاریخی روابط اور مشترکہ تہذیب کے حامل ہیں مگر پھر بھی ایک دوسرے کے ساتھ شدید تناؤ اور مخاصمت کا شکار رہتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عیسائی یورپ میں پوپ کے نیچے تو اکٹھے تھے تاہم مختلف بادشاہوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ماضی کےعیسائی بادشاہوں کا آپسی مقابلہ سیکولر لبرل سرمایہ داریت کے اندراور بھی مضبوط ہو گیا ہے جس میں سترہویں صدی میں قائم ہونے والے Westphalia کے امن معاہدے کے بعد قومی ریاستوں کا ایک مصنوعی تصور پیدا ہوا۔مغربی اقوام ایک مشترک آئیڈیالوجی کے تحت متحد ہونے کے بجائےاپنی قوم سے وفاداری کو مغربی تہذیب سے بلعموم وفاداری پر مقدم رکھتی ہیں۔اسی قومی ریاست کے تصورکو مغرب نے انیسویں صدی کے دوران اپنی جارحانہ استعماری مہم جوئی کے دوران پوری دنیا میں پھیلا دیا۔
مسلمانوں کو قومی ریاست کے اس تصور کو مسترد کرنا ہوگا جو صرف آپسی چپقلش ،مخاصمت، تنازعے اور ضعف کو ہی جنم دیتا ہے، اوراس کے بجائے انہیں پوری امت پر محیط ایک ہی واحد ریاست تلے زندگی بسرکرنے کی طرف واپس آنا ہوگاجس میں ان کے درمیان کوئی سرحدیں حائل نہیں ہوں گی۔ اللہ کے اذن سے مسلم امہ جلد موجودہ حکمران طبقے کوجو مغرب کی طرف مائل ہے، اکھاڑ پھینکے گی اور نبوت ﷺ کے نقشِ قدم پر دوبارہ خلافتِ راشدہ کو قائم کرے گی جو تمام مسلم سرزمینوں کو اکٹھا کرے گی اور مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرائے گی اور مکمل اسلامی طرزِ حیات کو بحال کرے گی اور اسلام کے پیغام کو تمام عالم کے سامنے پیش کرے گی۔
چاڈ، پاکستان، ناجائز یہودی وجود
فرانسیسی صدر امینویل میکرون نے وسطی افریقہ کے ملک چاڈکے صدر ادریس دیبائی کے جنازے میں شرکت کے لیے چاڈ کا دورہ کیاجو تین دہائیوں سے اقتدار میں تھے جنہیں ملک کے شمالی حصے میں باغیوں سے برسرپیکار فوجیوں سے ملاقاتی دورے کے دوران قتل کر دیا گیا۔چاڈ مغربی افریقہ میں فرانس کا اہم ترین ایجنٹ ہےجہاں پانچ ہزار سے زائد فرانسیسی فوجی ان فوجی کارروائیوں کا حصہ ہیں جو فرانس نے اس پورے خطے میں مقامی باغیوں سے لڑنے کے لیے شروع کر رکھی ہیں۔فوج نے فوری طور پر یہ اعلان کیا ہے کہ قانون ساز اسمبلی اور ملک کا آئین تحلیل کر دیے گئے ہیں اور اقتدار مقتول صدر کےبیٹے، 37 سالہ فور سٹار جنرل محمد ادریس دیبائی کو منتقل کیا جائے گا۔باوجود مغربی جمہوری اقدار کی خلاف ورزی کے جنہیں فرانس مبینہ طور پر بہت اہمیت دیتا ہے، فرانس کے صدر کے پاس نئی قیادت کی حمایت کے علاوہ اور کوئی الفاظ نہ تھے۔ایک بیان میں فرانسیسی صدر میکرون نے کہا ، "فرانس ایک بہادر دوست سے محروم ہو گیا ہے اور چاڈکے استحکام اور علاقائی سالمیت کے ساتھ گہرے تعلق کا اظہار کرتا ہے"۔فرانسیسی وزیرِ خارجہ Jean-Yves Le Drian نے فوج کے اقتدار پر قبضے کا دفاع کرتے ہوئے کہا، "یہ غیرمعمولی حالات ہیں"۔واضح طور پرفرانس دیبائی کے بیٹے کو بھی اپنا وفادار بنانا چاہتا ہے جیسا کہ اس کا والد تھا۔اور، جب ان کے مفاد میں ہو، مغربی طاقتیں جمہوری انتخابات کے بجائے فوجی قبضوں کی بھی حمایت کرتی ہیں۔دریں اثناء،انہی ممالک میں مخلص مسلمانوں کوفوج سے رابطہ کرنے سے روکا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ تبدیلی صرف دھاندلی زدہ جمہوری طریقے سے ہی آ سکتی ہے۔
بڑے پیمانے پر عوامی مظاہروں کے بعد آخرکار پاکستان کی حکومت نےفرانس کی حکومت کی طرف سےتوہین ِ رسالت ﷺ کے لیے اپنے شہریوں کو دی جانے والی کھلی چھوٹ کی وجہ سے فرانس کے سفیر کی ملک بدری کے معاملے کو قومی اسمبلی میں بحث کے لیے پیش کرنے کےاپنے پرانے معاہدے کو قبول کر لیا۔ مگرپھر حکومتی اور اپوزیشن کے ممبران نے اسمبلی میں احتجاج شروع کر دیا اور سفیر کی بےدخلی کا مطالبہ کرنے لگے جس کی وجہ سے ڈپٹی اسپیکر نے اسمبلی کی کارروائی کو غیر معینہ مدت کے لیےمعطل کر دیا۔ بعد میں قومی اسمبلی کے سیکریٹیریٹ سے اعلان کیا گیا کہ کورونا وائرس کی تیسری لہر اور بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے اگلے ہفتے کے لیے اسمبلی کی کارروائی معطل رہے گی۔پاکستان کے وزیر ِاعظم عمران خان جیسے ایجنٹ حکمران اسلام کے مفاد کو مادی فوائد کے لیےمغربی ممالک کے ساتھ تعلقات پر ترجیح دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔دیگر مغربی ممالک کی طرح، پاکستان میں فرانس کا سفیر اس وجہ سے براجمان نہیں کہ پاکستان کی حکومت اس کی آؤ بھگت کرتی ہے بلکہ فرانس یہاں صرف پاکستان کی دولت اور وسائل کے استحصال میں اپنے ساتھی مغربی اقوام کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے آیا ہے۔مغربی سرمایہ دارانہ معاشی نظام ناکام ہو چکا ہے، اور اس کا ترقی کرنا صرف باقی دنیا کے استحصال کی وجہ سے ہے۔مسلمان تب ہی حقیقی معنوں میں ترقی کرنا شروع کریں گے جب وہ اسلامی خلافت کو دوبارہ قائم کریں گے جو مسلم زمینوں سے غیرملکی کفارکے اثرورسوخ کو ختم کرے گی، اورمسلم امہ کی محنت اور صنعت کومغرب کے فائدے کے لیے برآمدات کی تیاری میں ضائع کرنے کے بجائے اپنی مقامی ضرورت کی طرف مبذول کرے گی ۔
ناجائز یہودی وجود نے اعتراف کیا ہے کہ اس کامبینہ طور پرطاقتور ائیر ڈیفینس سسٹم شام کے زمین سے فضاء میں مار کرنے والے میزائل کو روکنے میں ناکام ہو گیا جس کا نشانہ ناجائز وجود کےجیٹ طیارے تھے مگر یہ میزائل 125 میل دورناجائز وجود کی ہی فضائی حدود کے اندراس کےخفیہ Dimona نیوکلئیر ریکٹرکے پاس جا گرا۔مسلم زمینوں میں دیگر مقبوضہ علاقوں کی طرح، غیر قانونی یہودی وجودکا تحفظ اس کی اپنی کمزور افواج نہیں بلکہ اردگرد کے مسلمان ممالک کی افواج کر رہی ہیں۔ایک بالغ کی طرح جو ایک بدتمیز بچے کے ساتھ جیسا رویہ رکھتا ہے، شام ناجائز وجودکا دفاع کرتا ہےمگر کبھی بھی براہِ راست اس پر ہاتھ نہیں اٹھاتا ،باوجود اس کےکہ اس کے پاس ناجائز وجود کو ایک ہی رات میں ختم کرنے کی طاقت ہے۔ مگر دیگر مسلم ممالک کے حکمرانوں کی طرح شام کے حکمرانوں نے بھی اپنی وفاداری اپنے مغربی آقاؤں کو بیچ ڈالی ہے جو ان کو اپنے درمیان موجود مقبوضہ علاقے پر حملہ کرنے سے روکے رکھتے ہیں۔اللہ کے اذن سے مسلم امہ جلدایجنٹ حکمرانوں سے اپنی جان چھڑا لے گی اور ان کی جگہ ایک صالح خلیفہ کو اطاعت کی بیعت دے گی جو صرف اسلام اور مسلمانوں کے مفاد سے مخلص ہو گا۔
ڈینمارک مسلم خواتین کو نشانہ بناتا ہے
ڈینمارک پہلا یورپی ملک بن گیا ہے جو خاص طور پرشامی مہاجرین کی رہائش کی اجازت کو منسوخ کر رہا ہے جن میں سے اکثریت مسلمان خواتین کی ہے۔ڈینمارک کا یہ کہنا ہے کہ اب دمشق اور ملحقہ علاقےمسلمانوں کی واپسی کے لیے محفوظ ہو چکے ہیں۔بہرحال یہ عیاں ہے کہ مغربی ممالک کے لیے اصل مسئلہ کثیر مسلمان آبادیوں کے اندراسلامی احیاء کے بڑھنے کا خوف ہے۔مغرب کاخاص طور پرمسلم خواتین کونشانہ بنانا اس خوف کو ظاہر کرتا ہے جو یہ ایک مسلم خاندان سے محسوس کرتے ہیں کیونکہ ایک مسلم خاندان مسلمان کا قلعہ اور مستقبل کی نسلوں کے پروان چڑھنے کی جگہ ہے۔