الثلاثاء، 22 جمادى الثانية 1446| 2024/12/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
پاکستان کی جانب سے نیو کلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت  کی درخواست

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب

پاکستان کی جانب سے نیو کلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت  کی درخواست

سوال:

پاکستانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ " اس نے باقاعدہ طور پر نیو کلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت  کے لیے  درخواست دے دی ہے  جو کہ ایسا اقدام ہے جس کی مخالفت خود گروپ کے اندر سے ہوگی کیونکہ بھارت کو بھی اس گروپ میں شامل کرنے کا کہا جارہا ہے"( رائٹرز: 20/5/2016 )۔ امریکہ نے پاکستان کی درخواست پر اعتراض کیا ۔۔۔اس سے قبل چین بھارت کو شامل کرنے کی کئی درخواستوں پر اعتراض کر چکا ہے جبکہ امریکہ نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔۔۔  چین کی طرف سےبھارت کو قبول کرنے پر اعتراض تو سمجھا جا سکتا ہے، مگر امریکہ کی جانب سے پاکستان پر اعتراض  اور بھارت کے بارے میں کوئی اعتراض نہ کرنے سے یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ بھارت اور پاکستان کی موجودہ حکومتیں  امریکہ کی وفادار ہیں، پھر  یہ دہرا رمعیار کیوں؟اس کے علاوہ اس گروپ کے کام کی کیا نوعیت ہے؟  امید ہے آپ مہربانی کر کے اس سوال کی وضاحت کریں گے، اللہ آپ کو بہترین جزا دے۔

جواب:

ہم ان مسائل کو مندرجہ ذیل طریقے سے پیش کریں گے:

پہلا: استعماری کافرممالک کا اپنے  ایجنٹوں کے ساتھ برتاؤ مختلف ہوتا ہے اور اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ایجنٹ کس ملک کا   ہےاور اس بات پر کہ اہداف کیا ہیں:

ا۔ ایجنٹ ممالک کے ساتھ برتاؤ مختلف ہو تا ہے، یہ اس بات پر موقوف ہو تا ہے کہ یہ ایجنٹ اسلامی دنیا کے حکمران ہیں یا غیر اسلامی ممالک کے،  کیونکہ یہ بڑی ریاستیں سمجھتی ہیں کہ اسلامی دنیا میں حکمران کا زوال آنے والا ہے،  ان حکمرانوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے معاہدوں  کے بارے میں وہ اپنا حساب لگاتے ہیں کہ یہ جلد یا بدیر ان حکمرانوں کی تبدیلی سے یہ  معاہدے ختم ہوجائیں گے، مسلمان کسی استعماری کافر ملک کے ساتھ  کوئی بھی معاہد ہ دباؤ اور زبردستی میں کر تے ہیں  اور یہ ہمیشہ نہیں رہے گا۔  اگرچہبھارت اور پاکستان کی موجود حکومتیں  امریکہ کی وفادار ہیں لیکن اس کے باوجود  امریکہ یہ نہیں بھول سکتا کہ  پاکستان کے لوگ مسلمان ہیں  جو امریکہ کی بالادستی کو قبول نہیں کرتے۔۔۔جہاں تک بھارت کی بات ہے  تووہاں لو گوں کی اکثریت کفار مشرک ہیں اور کفر ایک ملت ہے،  اسی لیے امریکہ کا رویہ  بھارتی حکومت کے ساتھ پاکستانی حکومت سے مختلف ہے۔

2۔جس طرح بھارت میں حکومت  امریکہ کی وفادار ہے اسی طرح پاکستان میں بھی حکومت  امریکہ کی وفادار ہے  مگر  ان دونوں ممالک میں امریکہ کے اہداف الگ الگ ہیں۔بھارت میں امریکہ کا ہدف  بھارت کو چین کے سامنے لاکھڑا کرنا ہے، جبکہ پاکستان میں  امریکہ کا ہدف  اس کو پاکستان اور افغانستان میں  امریکہ کے خلاف مزاحمت  کو کچلنے کے لیے استعمال کرنا ہے،  دوسرے لفظوں میںبھارت کو چین کے خلاف اور پاکستان کو امریکہ کے خلاف مزاحمت کو کمزور کرنے کے لیے مسلح کرنا ہے۔

3۔ ان دو امور کی وجہ سے امریکہ بھارتی حکومت کو  ایٹمی قوت  اور  اور جدید  اسلحہ کی فراہمی  کے ذریعے چین کے سامنے کھڑا کر رہا ہے،  مگر وہ   ایٹمی  اسلحے کی ترقی میں پاکستان کی مدد نہیں کر رہا ہے،  بلکہ مزاحمت کا راستہ روکنے کے لیے  ہلکے اور بھاری روایتی ہتھیاروں کی فراہمی سے اس کی مدد کرتا رہتا ہے۔

دوسرا: عمومی بات کرنے سے بچنے کے لئے ہم  یہ آپ کے سامنے رکھیں گے کہ بھارت اور پاکستان کے ساتھ امریکہ  کیسے معاملات کرتا ہے جبکہ دونوں ایٹمی طاقت بن چکے ہیں :

1۔ پاکستان کا بھارت کے ساتھ مقابلہ 1965 اور 1971 کی جنگوں میں عروج پر تھا۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے ایٹمی پروگرام  شروع کیا جس سے پاکستان کی سیکیورٹی کو خطرات لاحق ہو گئے۔  اسی وجہ سے پاکستان نے بھی خفیہ طریقے سے عسکری مقاصد کے لیے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا۔  اس بات کا انکشاف پہلی بار پاکستانی وزیر خارجہ  ذوالفقار علی بھٹو نے کیا اور کہا: "اگر ہندوستان نے ایٹم بم بنایا تو ہم بھی گھاس کھائیں گے اور بھوک سے مریں گے سو سال پیچھے چلے جائیں گے مگر ہم بھی ایک ایٹم بم حاصل کر لیں گے۔۔۔ عیسائیوں کے پاس ایٹم بم ہے، یہود نے ایٹم بم حاصل کر لیا ہے، اور اب ہندو ں کے پاس بھی ایٹم بم ہے تو مسلما ن ایٹم بم کے مالک کیوں نہیں بن سکتے؟"( یسن راحیل 16 جنوری 2009 ، جنوبی ایشیاء پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں، ہفت روزہ بلٹز ڈھاکہ)۔پھر پاکستان نے بھی ایٹمی تحقیقی ادارہ قائم کیا  جس کا نام پاکستان ایٹامک انرجی کمیشن (PAEC) ہے۔پاکستان کا ایٹمی قوت حاصل کرنے کی کوشش کرنا پر امن مقاصد کے لئے تھا۔1965 میں پہلے تحقیقاتی ایٹمی  ریکٹر نے کام شروع کیا اور 1972 میں پہلےایٹمی پاور پلانٹ نے  قدرتی یورنیم  اور بھاری پانی  کےپلانٹ (کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ)نےکام شروع کیا ،  یہ دونوں پلانٹ بین الاقوامی ایٹمی انر جی ایجنسی کی نگرانی میں تھے۔۔۔ اس میدان میں پاکستان کی کوششیں  معمول کے مطابق جاری رہیں یہاں تک کہ 1974 میں بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا تو پاکستان کے مسلمان جذباتی ہو گئے  اور انہوں نے ایٹمی تنصیابات کے قیام اور ایٹمی ایندھن کی پیداوار کے لئےکوششوں کو تیز کردیا اور آخر کار 1987 میں اس کے حصول میں کامیاب ہو گئے۔

روایتی ہتھیاروں میںبھارت کی برتری کو پیش نظر رکھتے ہوئے  پاکستان کو بھارتکی فوج کی پاک سرزمین میں مداخلت روکنے کے لیے  ایٹمی اسلحے سے کام لینے کی پالیسی اپنانی پڑی۔ اس کے علاوہ پاکستان نے مختلف قسم کےبلاسٹک میزائل(غوری،شاہین 11- M،… Tarmukوغیرہ)  کا پروگرام شروع کیا جو ایٹمی وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔(http://www.atomicarchive.com/Reports/India/Missiles.html)

یوں  سرد جنگ کے دوران اور اس کے بعد  پاکستان نے  بھر پور قوت کے ساتھ  اپنے ایٹمی پروگرام کو وسعت دی،  جس میں ایٹمی جنگی وارہیڈ ز اور بلاسٹک میزائل کی پیداوار کا پروگرام  اور جنگی طیاروں کو ایٹمی وار ہیڈ لے جانے کے قابل بنانا شامل تھے۔

2۔ امریکہ نے سرد جنگ کے دوران اور اس کے بعد بھی بھارت کی جانب سے  ایٹمی پروگرام کو ترقی  دینے کی کوشش کی حمایت کی،  امریکہ نے 1974 میں بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے لیے  پلوٹونیم کے حصول کے لیے  بھاری پانی کے تحقیق کے ریکٹر کے حصول میں مدد دی۔  دھماکوں کے بعد بھی امریکہ کا رویہ نرم تھا،  واشنگٹن نے تارا پور  (ممبئی سے باہر)میں  ایٹمی پاور پلانٹ کے لیے افزودہ یورینیم فراہم کرنے کے لیے 30 سالہ معاہدے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔

امریکہ کے ساتھ اس معاہدے کے انعقاد نے بھارت کو اپنی ایٹمی صلاحیت کو بڑھانے، دفاعی میدان کو وسعت دینے  ،   ایٹمی فیزائل مٹیریل کو الگ کرنے اور اینٹی بلاسٹک  میزائل شیلڈ   کو ترقی دینےاور سب میرین کو نیو کلیئر وار ہیڈ کے ساتھ مسلح کرنےکےلیے بھارت کو سنہری موقع فراہم کیا، جس نے بھارت کو واضح فائدہ پہنچایا۔۔۔بھارت نے جنگی بنیادوں پر میزائل (اگنی،پرتھوی ۔۔۔وغیرہ ) تیار کرنے پر کام شروع کیا اور اپنے عسکری ڈھانچےکو ترقی دی۔

(http://www.atomicarchive.com/Reports/India/Missiles.shtml)

3۔  یوں بھارت اور پاکستان  ایٹمی ممالک بن گئے، اور اپریل 1998 میں امریکہ کی وفادار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)  کی انتخابات میں کامیابی  کے ساتھ اچانک ماحول تبدیل ہو گیا، اوربی جے پی  نے پانچ ایٹمی تجربات کیے، جس کے جواب میں پاکستان کی جانب سے چھ ایٹمی دھماکے کیے گئے کہ وہاں بھی حکومت امریکہ کی وفادار تھی۔ کلنٹن انتظامیہ کا  رد عمل دونوں ملکوں پر پابندی لگا نے کا تھا اور اس وقت اس کی صدارتی مدت اختتام کے قریب تھی، جو ضمنی طور پر  برصغیر پاک و ہند میں دو ایٹمی قوتوں کا اعتراف تھا۔

4۔ بش انتظامیہ کے زیر سایہ  پاکستان اور بھارت کے ساتھ  امریکہ کے تعلقات میں قابل ذکر تبدیلی آئی،   امریکہ  نے دیکھا کہ بھارت  چین کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بننے کی صلاحیت رکھتا ہے اس لیے اس کے ساتھ اسٹریٹیجک شراکت قائم کر لی۔ ساتھ ہی امریکہ نے پاکستان کو نیٹو سے باہر اہم اتحادی کا ٹائٹل دےدیا، پھر امریکہ نے پاکستان سے  امریکہ کے نائب کے طور پر قبائلی علاقوں میں "دہشت گردی" کے خلاف جنگ کا مطالبہ کیا۔ اس پالیسی کو الگ الگ تعلقات (The de-hyphenation) کا نام دیا گیا یعنی  امریکہ نے بھارت کے لیے ایک پالیسی اپنائی اور پاکستان کے لیے دوسریمذکورہ بالا پالیسی اپنائی۔

5۔ امریکہ کی اس پالیسی کی رو سے بھارت چین کے خلاف امریکہ کی فرنٹ لائن اسٹیٹ بن گیا جبکہ پاکستان  امریکہ کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ بن گیا۔۔۔چونکہ پاکستان کی غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے اور بھارت میں غالب اکثریت مشرکین کی ہے۔۔۔ چنانچہ امریکہ نے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائے:

ا۔ مزاحمت کے خلاف لڑنے کے لیے پاکستان کی مدد ایٹمی میدان میں نہیں بلکہ صرف روایتی اسلحے سے کرتا رہا یہاں تک کہ پاکستان کو دی جانے والی معاشی و فوجی امداد کا مقصد بھی یہی تھا ۔۔۔ حتی کہ ریگن انتظامیہ کے عہد میں بھی پاکستان کی عسکری اور معاشی امداد  پاکستان کو ایٹمی پروگرام سے باز رکھنے کے لیے دی جاتی تھی۔  سیکیورٹی اور ٹیکنالوجی کے لیے امریکی وزارت خارجہ کے نمائندے جیمس باکلے نے مختصراً کہا:" پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بھر پور پابندیوں کو جاری رکھنے کی جگہ ، جو سابق انتظامیہ نے لگائیں تھیں،  ہمیں امید ہے کہ اس کا علاج روایتی وسائل کے ذریعے کر لیں گے، تا کہ پاکستانی ریاست  کے خدشات کو دور کیا جائے اور  وہ ایٹمی صلاحیت کے حصول کو پہلی ترجیح نہ بنائے"( اختر علی کی کتاب Pakistan’s Nuclear Dilemma: Energy and Security Dimensions (Karachi: economic Research Unit, 1984), p. 10)

اور روایتی وسائل سے مراد روایتی اقتصادی اور عسکری امداد ہے۔ ایٹمی میدان میں تعاون نہ کرنے کی یہ امریکی پالیسی جاری رہی، بلکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی ترقی کو روکنے کی کوشش کی گئی۔امریکی صدر باراک اوباما نے اکتوبر میں کہا کہ پاکستان کو ایٹمی صلاحیت کو ترقی دینے سے باز رہنا چاہیے( رائٹرز 20/5/2016 )۔

اسی طرح امریکہ نے کئی بار پاکستان کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے انکار کیا اور نیو کلیئر سپلائرز گروپ میں اس کی شمولیت کو مسترد کر دیا۔۔۔امریکہ کی جانب سےپاکستان کی نیو کلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت پر اعتراض نےپاکستان کو مقامی طور پر تیار کی گئی پلوٹونیم کے استعمال کے ذریعے  ٹیٹیکل ایٹمی اسلحہ بنانے پر مجبور کر دیا۔پلوٹونیم اس لئے استعمال کیا گیا کہ  اس سے ایٹمی وار ہیڈ کو چھوٹا اور مختصر  بنانا ممکن ہوتا ہے۔

(http://www.dawn.com/news/1248033)

ب۔ مگر امریکہ بھارت کو روایتی اسلحے کے ساتھ ساتھ ایٹمی اسلحے میں بھی امداد دے رہا ہے،  اس کی وضاحت کے لیے ہم اس امداد کے بعض واقعات پیش کرتے ہیں:

۔  جنوری 2004 کو صدر بش  اور بھارتی وزیر اعظم واچپائی نے اسٹریٹیجک شراکت کے ایک معاہدے(NSSP) کا اعلان کیا،  جس کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان چار متنازع میدانوں میں تعاون تھا: سول نیوکلیئر انرجی،  سول خلائی پروگرام، جدید ترین ٹیکنالوجی کے میدان میں تجارت اور  میزائل ڈیفنس۔ 2005 – 2006 میں  نیو دلی کو اسلحہ سے متعلق  ایٹمی پروگرام کے لیے بغیر کسی معاہدے کے آزادی سے ایٹمی ایندھن کے حصول کے لئے امریکہ نے  وعدہ کیا جیسا کہ سی ٹی بی ٹی اور ایف ایم سی ٹی، اور یہ کہ  اس کے میزائل پروگرام پر بھی کسی قسم کی پابندی نہیں ہو گی۔ 2007 میں بھارت  نے"123 معاہدہ" کیا جس کی رو سے  امریکہ اور بھارت ایٹمی میدان میں پر امن تعاون کریں گے۔ ان سمجھوتوں میں بھارت کو اپنے ایٹمی پروگرام کے لیے  مقامی طور پر یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت دی گئی،  اوریہ امریکہ کی جانب سے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے ، این پی ٹی کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس کے مطابق  ان ممالک کے علاوہ جن کو ایٹمی اسلحہ رکھنے کی اجازت ہے کسی بھی ملک کو ایٹمی اسلحہ بنانے کے لیے  کسی بھی وسیلے سے امداد دینا یا حوصلہ افزائی کرنا یا ابھارنا  ممنوع ہے۔(See SIPRI, The NPT: The Main Political Barrier to Nuclear Weapon Proliferation (London: Taylor and Francis, 1980), Appendix A, p.43)

۔ الشرق الاوسط اخبار نے اپنے سائٹ پر 7/5/2016 کو یہ خبر شائع کی کہ بھارتی وزیر اعظم مودی نے"امریکہ کے ساتھ  بڑے عسکری معاہدے پر دستخط کر دئیے جس پر دستخط کرنے سے بھارت 14 سال سے انکار کر رہا تھا، یہ معاہدہ  امریکی اور بھارتی فوج کو  دونوں ملکوں  کے فوجی اڈوں کو  آپریشن  کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے ان کو مشترکہ بحری تعاون اور اصلاح اور تجدید کے لیے بھی استعمال کیا جا سکے گا، اسی طرح اس معاہدے کے مطابق  دونوں ملکوں کی بحری افواج   اینٹی سب میرین  جنگوں میں تعاون کریں گی اور یہ انتہائی حساس عسکری ٹیکنالوجی  اور حکمت عملی کا میدان ہے  جس میں امریکہ اپنے  روایتی حلیفوں کے علاوہ کسی کو اپنا شریک نہیں بناتا۔ دنیا میں امریکہ کے پاس ہی سب میرین کا سب سے بڑا بیڑہ ہے جبکہ چین کو سب میرین کے میدان میں بھارت پر برتری حاصل ہے۔۔۔"۔ سب میرین  کسی بھی ایٹمی حملے کی صورت میں جوابی حملے کے لیے انتہائی اہم ہیں  کیونکہ ریڈار کے ذریعے ان کا پتہ لگانا ممکن نہیں۔بھارت  نےاس معاہدے سے فائدہ اٹھا کر  حال ہی میں  سب میرین "اریانہ" سے بلاسٹک میزائل کا کامیاب تجربہ کیا، اوراس تجربےنے پاکستان اور چین کو تشویش میں مبتلا کر دیا  کیونکہ  اس سے ثابت ہوگیا کہ بھارت نے جوابی حملہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرلیا ہے۔(http://missilethreat.com/china-concerned -about-indian-submarine-missile/)

۔ امریکہ نے بھارت کو نیوکلیئر سپلائی گروپ میں شامل کرنے کی کوشش کی مگر چین نے اعتراض کیا۔۔۔امریکہ کی جانب سے بھارت کو نیو کلیئر سپلائرز گروپ میں شامل کرنے  کا مقصد یہ تھا کہ  اس سےبھارت  کو اپنے ایٹمی وار ہیڈز میں اضافہ کرنے کا موقع ملے گا۔(http://www.icanw.org/the-facts/nuclear-arsenals)

تیسرا: نیوکلیئر سپلائرز گروپ  کی حقیقت یہ ہے:

1۔ یہ گروپ مئی 1974 میں بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکہ کرنے کے بعد بنا یا گیا اور اس کا پہلا اجلاس نومبر 1975 میں ہوا۔ اس کی ابتداء سات ممالک نے کی( کینیڈا، مغربی جرمنی، فرانس، جاپان، سوویت یونین، برطانیہ اور امریکہ)، 1976 – 1977 میں  اس کے اراکین کی تعداد 15 ہو گئی،اور اب اس کے 48 رکن ہیں۔۔۔ مگر اس میں بالادستی بڑے ایٹمی ممالک خاص کر امریکہ کو حاصل ہے۔

2۔ اس گروپ کا مقصد ایٹمی اسلحے کی ترقی میں استعمال ہونے والے مواد  کے درآمد اور برآمد کو کنٹرول کر کے  ایٹمی اسلحے کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنا  اور موجودہ ایٹمی مواد کی حفاظت  اور سیکیورٹی کے وسائل کو بہتر بنانا ہے۔یہی گروپ  یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کس ملک کو  ایٹمی مواد اور ایٹمی ٹیکنالوجی  کے حصول کی اجازت دی جائے  اور کس ملک کو اس سے روکا جائے۔

3۔ اس گروپ میں شامل ہونے والوں کے معاملات کو کنٹرول کرنے کی وجہ سے بڑی ایٹمی طاقتیں  خصوصاً امریکہ کے اثرورسوخ  کا ان کے مفادات کے مطابق  اثر ہوتا ہے۔۔۔اسی طرح نیو کلیئر سپلائرز گروپ  ایسی کوئی پالیسی ترتیب نہیں دے سکتا  جو ایٹمی پھیلاو کو روکنے کے لیے کار گر ہو، اور ایٹمی مواد کی برآمد  کی نگرانی   بڑی ایٹمی طاقتوں، جس کی قیادت امریکہ کرتا ہے، کے بغیر نہیں ہوسکتی خاص کر اس مواد کی جس کو دہرے  کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اور یہی وہ جگہ ہے جہاں  بڑے ممالک خاص کر امریکہ اپنے  مفاد کے مطابق بعض مواد کو روکتے ہیں اور بعض کو دہرے استعمال کا بہانہ بنا کر بر آمد کرتے ہیں۔۔۔

یوں نیو کلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت  اگر چہ  ایٹمی مواد اور اس کے لوازمات کے حصول کو آسان بنا تا ہے  جس سے پیداوار اور ترقی کو تیز کرنے میں مدد ملتی ہے۔۔۔ مگر  اس امر کے لیے  ان بالادست ممالک کے منصوبوں کے بارے میں بیداری اور ذہانت  کی ضرورت ہے،  اس لیے اس گروپ میں شامل ہونے والے  ملک کے لیے اس میں شامل ہونا  اپنے ایٹمی پروگرام کو ترقی دینے کا وسیلہ ہونا چاہیے نہ کہ بڑے ممالک کی جانب سے غلط فائدہ اٹھانے کا ۔۔۔

 4  رمضان 1437 ہجری

9/6/2016 م

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک