الجمعة، 20 جمادى الأولى 1446| 2024/11/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
شام میں امریکہ،روس اور ایران  کی دشواریاں

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سوال کا جواب

شام میں امریکہ،روس اور ایران  کی دشواریاں

سوال:

روسی جائنٹ چیف آف اسٹاف  والیری گیراسیموف نے کہا کہ " شام میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے امریکہ کا نہیں روس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے"(الجزیرہ21 جون2016 )۔ یہ کیری کے اس بیان کی طرف اشارہ تھا کہ جس میں اس نے کہا تھا کہ امریکہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے، اس نے کہا تھا" روس کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا صبر لامحدود نہیں بلکہ بہت محدود ہے(شام میں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے)" (الجزیرہ نیٹ15 جون2016)۔اس کا جواب روسی وزیر خارجہ لاو روف نے جمعرات 16 جون کو پیٹرز برگ کے بین الاقوامی فورم میں شرکت کے دوران دیتے ہوئے کہا کہ:" کیری کے بیان کے بارے میں امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کی گئی وضاحت  میں نے پڑھ لی۔ اب بھی کیا کم صبر کرنا چاہیے یا زیادہ " (رشیا ٹو ڈے 16 جون2016 )۔ یہ تو ایک پہلو سے ہے جبکہ دوسرے پہلو سے ایران کی دعوت پر روسی ،شامی اور ایرانی وزرائے دفاع کا  جمعرات 9 جون2016  کو طہران میں  شام میں عسکری کاروائیوں کو منظم کرنے کے حوالے سےاجلاس ہوا ۔۔۔ سوال یہ ہے کہ: کیا  حل کے لیے امریکہ کے سابقہ منصوبے (مذاکرات، جینوا اور ریاض  کے وفد)  کے حوالے سے امریکہ،روس اور ایران کو دشواریوں کا سامنا ہے؟ اگر ایسا ہے  تو کیا پھر زمینی مداخلت  ہونے والی ہے  اور اب اس کا وقت آگیا ہے؟ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔

جواب: یہ

بات درست ہے کہ شام میں امریکہ، روس اور ایران کو دشواریوں کا سامنا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ در اصل امریکہ ہی کی پریشانیاں اور دشواریاں بہت زیادہ بڑھ گئی  ہیں کیونکہ روس اور ایران شام میں امریکی منصوبے کی معاونت کرنے والے عناصر ہیں۔۔۔اگر اس کا معنی یہ ہے کہ  زمینی مداخلت کا وقت آگیا  تو یہ  حالات کے رخ کو دیکھنے پر موقوف ہے۔۔۔صورت حال کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل نکات کی طرف اشارہ ضروری ہے :

1۔ جنیوا میں مذاکرات کا آخری دور22 اپریل2016 کو اس وقت ختم ہوگیا تھا جب اپوزیشن یہ کہہ کر مذاکرات سے نکل گئی کہ  اپوزیشن میں سنجیدگی کا عنصر کم ہے۔اس کے بعد "مذاکرات کاروں کا سرغنہ" محمد علوش نے30 مئی2016 کو استعفیٰدےدیا(العربیہ نیٹ 30 مئی 2016)۔ ڈمیسٹوراں بھی مذاکرات کے نئے دور کے آغاز کا علان کر کے پیچھے ہٹ  گیا، "شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسٹیفن ڈی میسٹورا نےکہا کہ پرتشدد کاروائیوں  کےجاری رہنے کے باوجود  بین الاقوامی سیکیورٹی کونسل سے مشورے کے بعد  شام کے حوالے سے مذاکرات کو نئے سرے سے شروع کرنے کے لیے وقت جمعرات (26 مئی 2016)کوطےکیا جائے گا"(الواسط سائٹ 26 مئی 2016)۔ اس کے بعد9 جون2016 کو وہ واپس آیا اور" شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اسٹیفن ڈی میسٹورا نے  جمعرات کو کہا کہ  عالمی ادارہ  جنیوا میں شام کے بارے میں امن مذاکرات کا نیا دور اس وقت تک دوبارہ شروع نہیں کرے گا جب تک تمام فریقوں میں سے ذمہ داران  اقتدار کی سیاسی منتقلی کے  معاہدے  کے ان پیمانوں پر متفق نہیں ہوجاتےجن تک پہنچنے کی مہلت یکم آگست کو ختم ہو رہی ہے۔اور ڈی میسٹورا نے صحافیوں سے کہا" شام کے حوالے سے مذاکرات کے تیسرے رسمی دور کا وقت ابھی نہیں آیا"(9 جون 2016 بلادی نیوز) ۔

2۔ معمول کے برخلاف امریکہ نےبحیرہ روم سے شام کے اندر بمباری کرنی شروع کردی، اور  خطے میں بحیرہ روم سےامریکہ یہ بمباری 2003 میں عراق پر قبضے کے بعد پہلی بار کر رہا ہے۔ رشیا ٹو ڈے نے9 جون2016 کو  امریکی اخبار کے حوالے سے خبر دی کہ " امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے مطابق امریکی ائر کارفٹ کیرئر"ہیری ایس۔ ٹرومین" نے گزشتہ ہفتے بغیر کسی منصوبے کے خلیج سے اپنا رخ مشرقی بحیرہ روم کی جانب کرلیاـ اس کا مقصد  روس کو واضح پیغام بھیجنا تھا"۔

3۔ امریکی وزارت خارجہ میں 51 سفارتکاروں اور عہدیداروں نے ایک دستاویز پر دستخط کیے اور پھر اس کو  صدر اوبا ما کے حوالے کیا،جس میں اس سے شام میں عسکری کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اخبار " وال اسٹریٹ جنرل" نے  اپنے 16 جون جمعرات کے شمارے میں کہا ہے کہ "امریکی وزارت خارجہ کے 51 ملازمین نے  ایک خط پر دستخط کیے  جس میں  اوباما سےشام میں عسکری کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔۔۔" (رشیا ٹو ڈے17 جون2016 )۔

4۔ اورحال ہی میں سعودی نائب ولی عہد محمد بن سلمان  نے17 جون2016 کو اوباما سے وائٹ ہاوس میں  ملاقات  کی اور غیر سربراہ کے لئے شاذو نادر ہی ایسا انتظام کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سعودی وزیر خارجہ الجبیر نے  امریکہ کا دورہ کیا اور خاص کر امریکی عہدید اروں کے ساتھشام کے مسئلے پر تبادلہ خیال کیا ۔۔۔

5۔ ان دوروں،ملاقاتوں اور بیانات  کوباریک بینی سے دیکھنے سے  یہ واضح ہو جا تا ہے کہ :

ا۔ امریکہ شام میں بڑی ناکامی محسوس کر رہا ہے کیونکہ مذاکرات میں سےگرم جوشی نکل گئی ہے،  مذاکرات کرنے والے بعض قائدین  نےاپنا وقار کھو دیا ہے، امریکہ کو اب تک اسد کا متبادل نہیں ملا، شام کا انقلاب اسی طرح آب وتاب سے جاری ہے جبکہ مذاکرات کرنے والوں پر دباؤ ڈالاجارہا ہے۔ اس کو مد نظر رکھتے ہوئے  کہ امریکہ نےشام کے محاذ پر کیا پیش رفت کی ہے تو یہ نظر آتا ہےکہ اس نے سب سے اہم کامیابی یہ حاصل کی کہ بعض مسلح جماعتوں کو  سیاسی عمل (ریاض اور جنیوا میں وفد بھیجنا) کا حصہ بنادیا۔27 فروری2016  کو فائر بندی کا اعلان  امریکہ کے لیے بہت بڑی امید کا باعث تھا کہ وہمیدان میں موجود انقلابی تحریک کی طرف سے دباؤ کے بغیر ہیسیاسی عمل کے ذریعے شامی انقلاب پر  قابو اوراسد کا متبادل ڈھونڈ لے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاض وفد میں شرکت کرنے والے مسلح گروپوں کے  اندر سیاسی عمل کے خلاف قابل ذکر  آوازیں اٹھنے  لگیں، اور اس کے نتیجے میں ان مسلح گروپوں  اور دوسرے گروپوں پر امریکہ حمایت یافتہ سیاسی اقدام  کے خلاف جانے کے لئے دباؤ بڑھنے لگا۔ اس پر مستزاد  لوگوں نے بعض  جماعتوں کی جانب سے سیاسی عمل میں شرکت کرنے پر مایوسی کا اظہار کیا  جس سے دباؤ ڈالنے والی رائے عامہ قائم ہو گئی۔۔۔ان سب کی وجہ سے  حکومت کے خلاف بھر پور  مسلح سرگرمیاں شروع ہوئیں، خواہ  یہ کاروائیاں اخلاص پر مبنی تھیں یا  وقتی طور پر لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے تھیں، مگر اس کے نتیجے میں  مختلف مراحل میں جنوبی حلب میں  بعض اسٹریٹیجک علاقوں کو واپس لیا گیا(العیس کا معرکہ،خاطومان کا معرکہ اور اس کے بعد)۔  اس سب نے روس اور امریکہ کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کی کمر توڑ دی۔ میدان میں صورت حال کے  دھما کہ خیز ہونے کی وجہ سے جنیوا میں مذاکرات  کا کوئی اوقات کار نہیں دیا جا سکا اور یہ ایسی گولی بن گئی جو سیاسی عمل کے لئےقاتل ثابت ہو رہی تھی۔۔۔ یوں امریکہ کو دشواری کا سامنا ہے۔

ب۔جنوبی حلب کے معرکے، میدان جنگ کے زاوئے سے ایرانی لشکر اور ان کے ہمرکابوں کے لیے بڑی ناکامی کی علامت تھی۔  اسی لیے ایران نے شام میں مزید زمینی فوج کا مطالبہ کیا۔ نقصانات کا ہونا اور بہت کم کامیابیاں، اور اس کے ساتھ  ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے جنیوامیں ہونے والے معاہدے پر دستخط کے بعد اقتصادی پابندیوں میں کمی کی راہ میں بعض روکاوٹوں   کی وجہ سے ایران  اسد کو عسکری امداد دینے میں بے بس ہو گیا۔ اسی لیے ایران نے امریکہ  سے مطالبہ کیا کہ روس سے اس کی جان چھڑائی جائے جس پر  طہران میں وزرائے دفاع کا اجلاس ہوا۔۔۔یعنی  ایران کو بھی دشواریوں کا سامنا ہے۔

ج۔روس کی جہاں تک بات ہے،اس کے لیے کئی عوامل  پیدا ہوئے  جن سے وہ بے بس ہوا یا  امریکہ کے گندے مطالبات  کی وجہ سے بد دل ہو گیا، کیونکہ امریکہ چاہتا ہے کہ روس انقلابیوں کو اسی جگہ روکے رکھنے کے لیے مزید عسکر ی کاروائیاں کرے جہاں تک انہوں نے فتوحات حاصل کی ہیں  یعنی ان کی زمینی پیش رفت کو روکے۔30 نومبر2015 کو شام میں مدخلت کے وقت سے ہی روس  یہی کر رہا ہے اور کچھ عرصہ پہلے تک یہی کرتا رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ  کیری نے11 مئی2016 کو  لندن میں شام کو امداد دینے والوں کی سربراہی کانفرنس میں کہا" روس تین مہینے میں شام میں مسلح گرہوں کی بیخ کنی کرے گا"۔  یہی وہ ہدف تھا جو امریکہ روسی مداخلت کے ذریعے حاصل کرنا چاہتا تھا۔  رہی یہ بات کہ وہ کونسے عوامل ہیں  جن کے پیدا ہونے سے روسی مداخلت  فیصلہ کن ثابت نہ ہو سکی تو وہ یہ ہیں:

٭اسلام سے شدید عداوت  اور شام کی اسلامی تحریک سےبہت خوفزدہ ہونے  کے باوجود روسشام میں مداخلت کو  سوویت یونین کے انہدام کے بعد  روس کی عظمت کو اجاگر کرنے کے لیے ایک موقعے کے طور پر دیکھ رہا تھا۔ وہ  اپنی فضائی قوت اور میزائلوں کی طاقت کا مظاہر ہ کرنا چاہتا تھا اور بحر قزوین  اور بحیرہ روم سےشام کو نشانہ بنا نے کی صلاحیت  دیکھا نا چاہتا تھا۔ وہ یہ  توقع کر رہا تھا کہ  اس کے یہ وحشیانہ حملے  امریکی مقاصد کو پورا کریں گے اور اہل شام کو  امریکی شرائط کے مطابق حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کریں گے مگر یہ ناکام ثابت ہوئے۔

٭روس  عالمی تنہائی اور ان  بین الاقوامی پابندیوں سے نکلنا چاہتا تھا جو کریمیا کے جزیرے کو روس میں ضم  کرنے اور مشرقی یو کرائن میں  اشتعال پھیلانے پر لگی ہیں۔ مگر  ایسا بالکل نہیں ہوا بلکہ  بعض ملکوں کی نارضگی میں اضافہ ہوا اور  اس کے اور یورپی یونین کے درمیان فضاء کشیدہ ہو گئی۔  یورپی یونین نے روسی الزامات کو اہمیت نہیں دی بلکہ  بین الاقوامی عدالتی ٹریبو نل جانےکا اشارہ دیا۔ یورپی ممالک میں سے خاص کر برطانیہ  نے روس کے ساتھ  عداوت کا اظہار کیا،  اس کے بعد جرمنی  نے روس کو "دشمن" کی لسٹ میں شامل کیا، یعنی  یہ اس کی "سفید" کتاب میں دشمن ہے۔  چنانچہ جرمن چانسلر نے جاپان میں 26 مئی2016 کوسات بڑے ممالک کی سربراہی کانفرنس میںروس پر لگی پابندیوں میں نرمی کے بارے میں بحث کرنے سے انکار کردیا۔

٭ روس اقتصادی طور پر کمزور ملک ہے اوراس کے لیے اپنی سرحدوں سے دور کسی جنگ پر خرچ کو جاری رکھنا ممکن نہیں، خاص کر اس وقت جب اس کو مغرب کی جانب سے پابندیوں کا سامنا ہے اور تیل کی قیمتوں میں بے تحاشہ کمی اس کے علاوہ ہے۔  اس لیے شام میں جنگی اخراجات کو طویل مدت تک برداشت کرنا اس کے لیے ممکن نہیں۔ روس کے اس خرچے میں شام میں لڑنے والے ان 25 ہزار روسیوں کے اخراجات بھی شامل ہیں  جیسا کہ روسی وزارت دفاع نے کہا ہے:" ستمبر 2015 سے 25 ہزار عسکری اور سولین روسی شام کی جنگ میں شامل ہیں،  جس کی اجازت روسی پارلیمنٹ کی جانب سے منگل کو منظور کیے گئے  قانون میں دی گئی تھی ، جو کہ اس جنگ  کے لیے" پرانے جنگجووں " کے حوالے تھے " (اسکائی نیوز عربی 21 جون2016)۔

٭ روس کو شام کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ اپنے معاہدے کے مستقبل کا خوف بھی ہے، کیونکہ  دسمبر 2016 میں صدارتی انتخابات میں  امریکی انتظامیہ تبدیل ہو گی اس لیے روس  اوباما انتظامیہ کے جانے سے پہلے شاممیں اپنی جنگی مہم ختم کرنا چاہتا ہے یا پھر وہ چاہتا ہے کہ عسکری مداخلت امریکہ کے ساتھ اعلانیہ معاہدے کے ذریعے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ روس امریکہ کے ساتھ سودےبازی کو منظر عام پر لانے کا  مسلسل مطالبہ کر رہا ہے،  مگر امریکہ اس سے چشم پوشی کر رہا ہے۔۔۔روس نے امریکہ کے ساتھ  "جنگ بندی کی خلاف ورزی کرنے والےمسلح گروپوں کے خلاف روس- امریکہ کے مشترکہ فضائی حملوں کا مطالبہ کیامگر امریکہ نے انکار کر دیا۔۔۔

٭یہ روس کی حیران کن غلط فہمی ہے کہ وہ  کم از کم شام کے مسئلے میں اپنے آپ کو امریکہ کا شریک کار سمجھتا ہےاورشام کے مسئلے کے  بارے میں کسی بھی فیصلے میں لاو روف اور کیری  کی ملاقات  کو شام میں اعلانیہ عسکری اتحاد ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔  روس یہ نہیں سمجھ رہا کہ لاو روف اور کیری کی دوطرفہ ملاقاتیں  امریکہ کی جانب سے  یورپی ممالک کو شام کے مسئلے سے دور رکھنے کے لیے ہیں ۔  وہ یہ نہیں سمجھ رہا کہ وہ صرف شطرنج کا ایک مہرہ ہے، چاہے امریکی ٹیبل پر  یہ بڑا ہے۔ یوں شام میں امریکی بالادستی کے دفاع اور  شام کی تحریک کے کھوک سے اسلام کے جنم لینے کو روکنے کے لیے امریکہ  کبھی ایران اور اس کے ہمنواوں کو استعمال کرتا ہے اور کبھی روس سے کام لیتا ہے۔  مگر روس بڑا نظر آنے کی ہوس کا شکار ہو کر  اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ وہ شام میں امریکہ کا شراکت دار ہے۔ اس کی تائید  کیری کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ  شام میں روس کے حوالے سے امریکہ کا صبر بہت ہی محدود ہے، یعنی  وہ روس سے کہہ رہا ہے کہ جلدی کرو، آگے بڑھو  اور جنوبی حلب میں  شکست کھاتی ہوئی بشار کی فوج کو بچاؤ۔  اس کی تفسیر لاو روف کی جانب سے کیری کے بیان پر حیرانگی  اور امریکہ کو صبر کی تلقین سے بھی ہوتی ہے۔  یوں امریکہ سمجھتا ہے کہ روس اس کے ہاتھ میں شطرنج کا مہرہ ہے جبکہ روس سمجھتا ہے کہ شام میں مداخلت  امریکہ کے ساتھ عالمی شراکت کا نمونہ ہے!۔۔۔ ان سارے عوامل کی وجہ سے روس کو بھی دشواریوں کا سامنا ہے۔

6۔یوں امریکہ کو دشواری کا سامنا ہے، روس کو دشواری کا سامنا ہے اور ایران کو دشواری کا سامنا ہے، اور  جیسا کہ پہلے ہم نے کہا کہ یہ سب سے پہلے امریکہ کے لیے دشواری ہے،  لہذا اسد کے افواج اور ایرانی آلہ کاروں کی اس قدر  ہلاکت کی یہ صورت حال امریکہ کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ ظاہر ی بات ہے کہ امریکہ نے دیکھ لیا کہ ایران  کوشام میں سخت دشواری کا سامنا ہوا۔  ایرانی عسکری مداخلت  سے اگر چہ  دمشق میں حکومت کی عمر میں اضافہ ہوا  مگر  وہ  شام میں حل میں حصہ دار نہیں ہو گا۔ اب روس کی جانب سے بھی  وحشیانہ بمباری  اور تباہی پھیلانے والے میزائلوں کے استعمال کے باوجود بھی شام  میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے میں ناکامی  اور اہل شام کو سرکش حکومت کے سامنے سرنگوں کرنے میں ناکامی  کے سائے میں  شام میں  امریکہ  کے اختیارات  (آپشنز) داؤ پر لگ گئے ہیں، خاص کر انتخابات کے دوران جب دونوں ڈیمو کریٹک اور ریپبلیکن جماعتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہی ہیں اور اس پر مزید یہ کہ امریکی سفارت کاروں کی جانب سے شام میں مداخلت کے دستاویز پر دستخط کردیے۔۔۔۔یوں امریکہ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ مداخلت کا اہتمام کر رہا ہے۔۔۔اسی لیے اس نے ائر کارفٹ کیرئر "ہیری ٹرومین"کو خلیج سے بحیرہ روم روانہ کر دیا۔۔۔ اور بحیرہ روم سے شام کے اندر حملے کر رہا ہے۔۔۔سعودی وزیر دفاع محمد بن سلمان کو بلایا، وائٹ ہاوس آفس میں اوباما نے اس سے ملاقات کی،  اور ایسا ریاستوں کے سربراہوں کے علاوہ دیگرلوگوں کے ساتھ شاذ ونادر ہی ہو تا ہے،  اس کو دیکھنے والا یہ دیکھ سکتا ہے کہ یہ خاص عسکری نمائش ہے!

7۔ اس کے باوجود موجودہ امریکی انتظامیہ کی پالیسی، جیسا کہ ان کے عہدیداروں کے بیانات سے ظاہر ہو رہا ہے، یہ ہے کہ  عسکری مداخلت پیروکاروں،ہمنواوں اور ایجنٹوں کے ذریعے ہی ہوتی رہے۔۔۔ امریکہ وزارت خارجہ کے ترجمان نے سیکریٹری خارجہ کی جانب سے کہا کہ  امریکہ نے شام کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی۔کیری نے  شام کے حوالے سے واشنگٹن کی پالیسی کی تبدیلی کے امکان کے حوالے سے کہا:" ہم بدستور یہی سمجھ رہے ہیں کہ شام میں بہتر حل سیاسی ہی ہے"۔ کیری نے یقین دہانی کرائی کہ امریکہ کے موجودہ صدراوباما  اور ان کی انتظامیہ   اپنی مدت پوری کرنے تک شام کے مسئلے کا سیاسی حل نکالنے پر ہی توجہ مرکوز رکھیں گے (رشیا ٹو ڈے17 جون2016 )۔۔۔ رہی بات سفارتکاروں  کی جانب سے پیش کے جانے والی یاداشت کی تو  زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ اس کا حل عسکری نہیں سیاسی طور پر کریں گے۔ چنانچہ الجزیرہ نیٹ نے18 جون2016 کو واشنگٹن ٹائمز کے حوالے سے نقل کیا کہ " وائٹ ہاوس سفارتکاروں  کی یاداشت  کے محرکات  کا احاطہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے  اور وائٹ ہاوس کی ترجمان جنیفر فریڈمین سے منسوب قول  میں کہا گیا کہ اوباما انتظامیہ  نےشام میں درپیش چیلنجوں کے حوالے سے مختلف افکار پر غورو فکر کے لیے اپنے کان کھول رکھے ہیں، لیکن صدر اوباما  سمجھتے ہیں کہ شام کے مسئلے کا عسکری حل نہیں ہے۔ اخبار نے مزید کہا کہ "یہ یاداشت  شام کے بحران کے حوالے سے اوبامہ کی پالیسی کی ناکامی  کے حوالے سے ان موجودہ اور سابقہ امریکی عہدیداروں کے طویل  بحث کا نتیجہ ہے جن میں سے کئی نے خود اوباما انتظامیہ کے اندر کام کیا ہے"۔

خلاصہ:

1۔ یہ درست ہے کہ امریکہ کو دشواری کا سامنا ہے۔۔۔مگر امریکہ کی جانب سے زمینی مداخلت  فی الحال موخر ہے۔  امریکہ کی موجودہ انتطامیہ فی الحال  پیروں کاروں اور ایجنٹوں کے ذریعے میدان جنگ کو گرم رکھنا چاہتی ہے  غالبًا یہ صورت حال اوباما انتظامیہ کی مدت پوری ہونے تک جاری رہے گی۔۔۔ ہاں اگر معاملات بالکل قابو سے باہر ہو گئے تو الگ بات ہے۔

2۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اگر چہ شام میں  لیبیا اور یمن کے طرز پر بین الاقوامی  رسہ کشی نہیں بلکہ واحد "پہلوان" امریکہ ہے جو روس ،ایران اور بشار حکومت کو استعمال کرکے وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کر کے بھی  اہل شام کو امریکی منصوبے کے سامنے جھکانے  میں کامیاب نہ ہو سکا۔۔۔امریکہ اور اس کے پیرو کار   اہل شام کو سرکش حکومت کے ساتھ شراکت پر مجبور نہ کر سکے حالانکہ دونوں میں وسائل کا کوئی تقابل نہیں،  پھر بھی شام  ان ممالک اور ان کے پیروکاروں اور ہمنواوں  کے سامنے ڈٹاہوا ہے! اس سب کا سبب وہ عظیم اسلام ہے جو کفر اور اہل کفر اور ظلم اور اہل ظلم کے مقابلے میں  اہل شام کو متحرک کر رہا ہے۔۔۔وہ عظیم اسلام   جو سچے اور مخلص لوگوں  کے دلوں  میں ہے۔۔۔ کیونکہ کچھ لوگوں  کے دلوں میں اسلام صرف جذباتی طور پر ہے جس کے ساتھ  فکر نہیں۔۔۔ اور بعض کے دلوں میں  استقامت کے بغیر ہے۔۔۔مگر اسلامی جذبات  اور اسلامی فضاء کا غلبہ ہے  بیشتر لوگ اسلام کی صدا لگا رہے ہیں۔۔۔ اسی چیز نے امریکہ کو آج تک ناکام کیے رکھا:  شام میں اسلام کی کرنیں اگرچہ یہ ایک ریاست میں مجسم نہیں ہوئی ہیں، تو تب کیا حال ہو گا جب یہ ریاست کی شکل میں مجسم ہوگی؟ بہر حال   پھر یہی ہو گا ﴿وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ﴾.

" اور ظلم کرنے والے عنقریب جان لیں گے کہ وہ کس کروٹ گرنے والے ہیں"(الشوریٰ:227)۔


22 رمضان 1437ہجری

27 جون 2016

Last modified onجمعہ, 07 اکتوبر 2016 08:58

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک