الأربعاء، 04 جمادى الأولى 1446| 2024/11/06
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم


سوال کا جواب
افغانستان اور ایران کے درمیان جھڑپوں کے اسباب

 

سوال:

 

افغانستان اور ایران کے درمیان ہلمند ڈیم کے پانی   کی تقسیم کے طویل المدت تنازعے کے سبب کشیدگی میں اضافہ ہوا۔  جس دریا پر یہ ڈیم ہے وہ  دونوں ملکوں  کےلیے پانی کا اہم ذریعہ ہے۔ اخبار ڈوئچے ویلی(DW)نے3 جون 2023   کواپنے    ویب  سائٹ پر خبر شائع کی کہ    گزشتہ ہفتے مشترکہ سرحد کے قریب ایرن اور طالبان کے درمیان  بھرپور فائرنگ کا تبادلہ ہوا،  جس میں متعدد فوجی  ہلاک اور زخمی ہوئے۔  فریقین کے درمیان کشیدگی کی اس نئی لہر کے دوران    دونوں ایک دوسرے پر فائرنگ میں پہل کرنے   کے الزامات لگا رہے ہیں۔ فائرنگ کا تبادلہ کابل اور تہران کے درمیان ہلمند  یا "ہیرمند"،جیسا کہ افغانستان میں کہا جاتاہے، کے بارے میں اختلافات میں شدت اختیار کرنے پر ہوا ۔۔۔ الجزیرہ نے بھی یکم جون 2023کو اپنے ویب سایٹ پر روسی اخبار ازویستیا کا حوالہ دیتے ہوئے خبر شائع کی کہ ایران اور طالبان حکومت کے دوران  مختلف وجوہات کی بنا پر کشیدگی نظر آتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران افغانستان میں خانہ جنگی کے دوران  تحریک طالبان  کےمخالف  شمالی اتحاد کی مدد کرتا رہا ہے، جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان  مذہبی اور سیاسی اختلافات اس کے علاوہ ہیں۔  یہ بھی یاد رہے کہ  ہلمند نہر  جو کہ ایرانی سرزمین  میں پہنچ کر  آموجھیل میں گرتاہے، کے پانی کے ذخائر کے حوالے سے بھی  کشیدگی ہے۔ 1973 میں ہونے والے معاہدے کی رو سے افغانستان اس نہر سے  ایران کو سالانہ  850  ملین  مکعب  میٹر پانی  دینے کا پابند ہے۔ یہ مسئلہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پیچیدہ ہوگیاہے۔۔۔ لہٰذا جاننا یہ ہے کہ طرفین کے درمیان جھڑپوں اور مسائل کے اسباب کیا ہیں؟ معاملات کہاں  پہنچ جائیں گے؟ کیا کوئی بین الاقوامی قوت اس اختلاف کو ہوا دے رہی ہے یا  اس سے فائدہ اٹھا رہی ہےاور اس کو اپنے استعماری منصوں کے حصول کے لیے استعمال کر رہی ہے؟

 

جواب:

 

ان اسباب پر غور کرنے اور یہ دیکھنے کےلیے کہ  معاملات کہاں جارہے ہیں ہم مندرجہ ذیل امور کو پیش نظر رکھیں گے:

 

1۔ فارس نیوز ایجنسی نے 27 مئی 2023 کو خبردی کہ "ایرانی باڈر سیکورٹی اور طالبان حکومت کی سیکورٹی فورسز کے درمیان ساسولی  چیک پوسٹ کے قریب   سرحدی پٹی پر  مسلح جھڑپیں ہوئی ہیں۔ "باخبر ذرائع سے نقل کیا گیا ہے کہ"ایرانی باڈر سیکورٹی فورسز اور  مسلح طالبان کے درمیان   کشیدگی بڑھ کر  فائرنگ کے تبادلے تک پہنچ گئی۔"  اپنے پہلے سرکاری بیان میں ایران میں داخلی سیکورٹی فورسز کے ڈپٹی کمانڈر انچیف   قاسم رضائی نے کہا ، "تہران  افغانستان کے ساتھ سر حد پر کسی قسم کا افسوسناک واقعہ رونما ہونے کی ہرگز اجازت نہیں دے گا۔ تحریک طالبان کی جانب سے  ایران اور افغانستان کے مشترکہ سرحد پر  متعدد غلطیاں ہوئی ہیں ۔۔۔ہم پڑوسی ممالک سے کہتے ہیں کہ  ہماری سرحدیں دوستی کی سرحدیں ہیں اور یہ ضروری ہے کہ ہم کوئی افسوسناک واقعہ رونما ہونے کی اجازت نہ دیں۔ طالبان فورسز نے آج صبح  ایران کی طرف فائرنگ کی اور ہماری سرحدی محافظوں نے اس کا جواب دیا ، کچھ دیر کےلیے جھڑپیں رکی مگر  بعد میں یہ دوبارہ شروع ہوئیں اور یہ اب بھی جاری ہیں۔"    ایرانی داخلی سیکورٹی فورسز کے کمانڈر انچیف  احمد رضا ئی نے کہا"سرحدی محافظوں کو کسی بھی حملے کا بھر پور جواب دینے کا حکم دیا۔"۔ ایرانی سرکاری نیوز ایجنسی  ارنا نےخبردی کہ،" 27 مئی 2023   کوباڈر سیکورٹی فورسز اور طالبان عناصر کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں  جس کے نتیجے میں  تحریک طالبان فورس کے دو لوگ ہلاک ہوئے، اسی طرح ایرانی فورسز کے بھی دو بندے ہلاک ہوئے، اور دو  شہری زخمی ہوئے۔" 

2  ۔ افغان وزارت داخلہ کے ترجمان عبد النافع ٹکور نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا کہ ،"آج سرحدی صوبہ نمروزمیں ہونے والی جھڑپوں میں دو افراد ہلاک ہوئے جن میں سے ایک ایرانی اور دوسرا افغانی ہے۔ امارت اسلامیہ  اپنے پڑوسیوں کے ساتھ جھڑپوں کی حمایت نہیں کرتی۔"  (مقامی طلوع نیوز چینل 27.5.2023 )۔  افغان پولیس نے 29 مئی 2023 کو کہا کہ ایران اور افغانستان کے درمیان   سرحدی  گزر گاہ "ریشم پل"دوبارہ کھول دیا گیا ہے جس کو 28 مئی 2023 کو  فریقین کے درمیان چند گھنٹے تک جاری رہنے والی مسلح جھڑپوں کی وجہ سے  بند کردیا گیا تھا۔۔۔یہ سب اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ  دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی صورت حال  پرامن   نہیں  ہے، اور یہ کسی بھی وقت  دوبارہ  بے قابو ہوسکتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعدسے آج تک دو سال کے عرصے میں فریقین کے درمیان 10بار جھڑپیں ہوئی ہیں، اور اس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ یہاں  فریقین کے درمیان مسلسل کشیدگی موجود ہے۔

 

3۔ حالیہ دنوں میں افغانستان اور ایران کے درمیان ہلمند نہر یا ہیرمندجیسا کہ ایران میں کہا جاتا ہے، کے پانی کی تقسیم  کے حوالے سے اختلافات شدت اختیار کر گئے۔ اس موضوع کے حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات پرانے ہیں  چنانچہ  1973میں دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ ہوا   جس کی رو سےافغانستان  ایران کو سالانہ  اس نہر سے  820ملین مکعب  میٹر پانی دے گا،  مگر ایران کہتا ہے کہ  اس کو صرف دو ملین مکعب میٹر  پانی مل رہا ہے۔  اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان  بڑا مسئلہ پانی کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ ڈیڑھ صدی پہلے اس وقت پیدا ہوا جب انگریز نےخطے کو تقسیم کیا۔ ایرانی نائب وزیرخارجہ سید موسوی نے 28 مئی 2023کو ٹوئیٹ کیا، "آج سرحد(زابل۔نمروز) پر جو کچھ ہوا اس سے ہماری آنکھیں کھلنی چاہیے،  یہ استعماریوں کی سازشوں کا تسلسل ہے۔۔۔جب گولڈ اسمتھ نے 1872کی اپنی سازش کے ذریعےسیستان آباد کو آج کی اس حالت تک پہنچایا، آج اس کے وارث ایران اور افغانستان کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔۔۔دونوں ملکوں کی عوام اور عمائدین کو چاہیے کہ اس بات کا ادراک کریں کہ  کسی قسم کا تصادم دونوں ملکوں کےلیے اسٹریٹیجک  نقصان ہوگا۔"

4۔ یوں یہ کہانی اس وقت شروع ہوئی جب دونوں  ملکوں نے  جنرل گولڈ اسمتھ کی قیادت میں  انگریز ثالثی کمیٹی کا سہارا لینے پر اتفاق کیا تھا جس نے 1871میں سرحدوں کے تعین کا آغاز کیا اور ایک سال کے عرصے میں اس کام کو مکمل کیا۔ دونوں ملکوں کی طویل مشترکہ سرحد ہے،  جو شمال میں  آبنائے ذوالفقار سے شروع ہوتی ہے،  جہاں ایران ،افغانستان اور ترکمانستان کی تکون سرحد ہے اور جنوب میں  ملک سیاہ پہاڑ تک پھیلی ہوا ہے،  جہاں ایران، افغانستان اور پاکستان کی تکون سرحدہے،  اور اس کی لمبائی 945 کلومیٹر ہے۔انگریز کی جانب سے  حد بندی کے دوران سیستان اور بلوچستان  کے علاقے کو تقسیم کرنے کے بعد ہلمند نہر کے پانی کی تقسیم پر اختلافات شروع ہوئے، یوں انگریز نے افغانستان، ایران اور پاکستان کی اسلامی علاقوں کے درمیان   دائمی اختلافات  کا بیج بو دیا جیسا کہ انگریز نے ان تمام مسلم اور غیر مسلم علاقوں میں کیا  جن پر قبضہ کرکے کالونی بنایا گیا تھا ۔ پھر ان کو تقسیم کیا، پھر ان منقسم علاقوں میں بغاوت  کی چنگاری رکھ دی،   تاکہ ان علاقوں میں ان تین ممالک سے آزادی کی  تحریک  وجود میں آئے، اور یہاں انگریز کےلیے  ان علاقوں میں مداخلت کا دروازہ کھلا رہے،  اور یہ ممالک  باہمی سرحدی تنازعات میں الجھے رہیں، اور یہاں کے لوگ ایک دوسرے کو قتل کرتے رہیں۔  اس کے نتیجے میں انگریز ان علاقوں میں اپنے اثرونفوذ کو باقی رکھے،  ان ملکوں کو کمزور کرے تاکہ  یہ اس کے پنجے سے نہ نکلیں یا اگر اس کا اثرونفوذ ختم ہو جائے تو اس کو دوبارہ بحال کر سکے۔

 

5۔ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی  تنازعہ جاری ہے،  خاص طور پر  1896میں ہلمند نہر کا رخ موڑنے کے بعد،   جس کی لمبائی 1150 کلومیٹر ہے اور یہ کئی افغان صوبوں سے گزرتی ہے۔ اسی طرح  سیستان اور بلوچستان کے علاقوں سے جن کو انگریز نے افغانستان، ایران اور پاکستان کے درمیان تقسیم کیا! یہ نہرجا کر  آموجھیل میں گرتی ہے جو ایران کے ساتھ مشترکہ ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدوں کی دوبارہ حد بندی انگریز کرنل ہنری مک ماہون کے ہاتھوں انجام پائی اور  1905  میں  نہر کے پانی کو طرفین کے مابین تقسیم کیا گیا، اور اس میں افغانستان کےلیے یہ شرط رکھی گئی کہ وہ  ایسے ڈیم  نہیں بنا سکتا جن سے ایران کےلیے پانی کی سپلائی متاثر ہو ۔ اسی طرح ایران کے حق میں یہ فیصلہ بھی دیا گیا کہ  نہر کےپانی کا ایک تہائی اس کا ہے۔ تاہم افغان  فریق نے  افغانستان کے امیر حبیب اللہ خان کے عہد میں اس کو قبول نہیں کیا اور اس کو ایران کے حق میں جانبداری قرار دیا۔ یوں  اختلافات بدستور جاری رہے کئی ثالثی کمیٹیاں تشکیل دی گئی،   کئی معاہدوں پر دستخط کیے گئے جن کو  پھر  دہائیوں کے اندر توڑ دیا گیا۔  فریقین کے درمیان تنازعہ1934میں شدت اختیار کیا۔ طرفین نے 1921میں ہونے والے معاہدے کے دسویں شق  سے رجوع نہ کرنے کا فیصلہ کیاجس کا متن یہ تھا،"سرحدی تنازعات میں برطانیہ کو ثالث بنایا جائے گا۔"فریقین نے ترک ثالثی کمیٹی سے رجوع کیا مگر یہ کمیٹی ناکام ہوگئی۔۔یہاں سے فریقین کے درمیان  1936 اور 1939 کے مذاکرات شروع ہوئے اور جب ایرانیوں نے کمال خان ڈیم میں گرنے والے پانی  کا آدھا مانگ لیا تو  افغانستان نے انکار کردیا اور  مذاکرات ناکام ہوگئے۔ اسی طرح  1951 اور 1958 کے مذاکرات بھی ناکام ہوگئے۔   پھر 1973 میں دونوں کے درمیان معاہدہ ہوا  جس میں ایرانیوں کو10 فیصدسے کم پانی دیا گیا۔ تاہم افغان پارلیمنٹ نے اس کی توثیق نہیں کی۔ اس کے بعد 1978 میں کمیونسٹوں نے افغانستان میں انقلاب برپا کیا اور  سرے سے اس معاہدے کو ہی مسترد کردیا۔ پھر 1979 میں سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کیا یوں طرفین کے مابین صورت حال جوں کی توں رہی۔

 

6۔ یہ سلسلہ روس اور اس کے اتحادیوں کی  شکست اورافغانستان سے ذلت آمیز انخلاکے بعد مجاہدین کی حکومت  کے دوران  پھر  1996 سے 2001 تک  طالبان کی حکومت کے دوران جاری رہا۔  اس کے بعد  امریکہ نے حملہ کرکے افغانستان پر قبضہ کرلیا، اس عرصے میں خاص کر جب 2014 میں  اشرف غنی برسر اقتدار آیاتو ملک کے مغربی اور مشرقی علاقوں کے تمام دریاوں  میں ڈیم بنانے کا عزم کیا۔  ان دریاوں کی تعداد دس ہے۔  یہ دریا افغانستان سے نکلتے ہیں اور ہمسایہ ممالک میں گرتے ہیں،  مگر افغانستان ان سے فائدہ نہیں اٹھاتا۔  چنانچہ ان دریاوں پر 49 ڈیم تعمیر کیے گئے۔  ایرانی سرحد کے قریب نیمروز صوبے میں کمال خان ڈیم مکمل ہوگیا،  اس کو بنانے میں 4 سال لگے، اور اس کا افتتاح  مارچ 2021 میں کیا گیا۔ اس نے بڑی حد تک پانی میں ایران کے حصے کو متاثر کیا۔ اشرف غنی نے اس کا اشارہ دیا کہ وہ صرف تیل کے بدلے پانی دینے کا ارادہ رکھتاہے۔ اور15 اگست 2021 کو دوسری بار طالبان  کے برسر اقتدار  آنے پر ایران نے نئی حکومت سے  1973 کے معاہدے کی طرف رجوع کرنے کا مطالبہ کیا۔ یاد رہے کہ خود ایران کی بھی پانی کے معاملے میں  ہمسایہ ممالک کے ساتھ شراکت داری ہے، اگر موجود استعماری تقسیم باقی رہی تو اس سے مزید مسائل رونما ہوسکتے ہیں۔

 

7۔ ایرانی صدر ابراھیم رئیسی نے سیستان اور بلوچستان صوبوں  کے دورے کے دوران 18 مئی 2023 کو جابہار شہر میں  یہ کہتے ہوئے افغان حکام کو خبردار کیا کہ "ہیرومند(ہلمند نہر) کے پانی پر سیستان اور بلوچستان کے باشندوں کا حق ہے، معاہدوں اور اتفاقات میں یہی بات کی گئی ہے۔" انہوں نے افغان حکام کو دھمکی دیتے ہوئے کہا، " افغان حکام کو اس  معاملے کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ  اس مسئلے کے بارے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، ہم ان کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ جلد سے جلد ہیر مند نہر کے پانی میں  پاکستانی سیستان  اور ایرانی سیستان اور بلوچستان کے لوگوں کو ان کا حق دیں۔"  انہوں نے مزید کہا "حکومت  ایران کے مشرقی علاقوں میں بحر عمان سے پانی لانے کی بھرپور جدوجہد کر رہی ہے، مگر اس منصوبے میں وقت لگے گا۔۔۔"(ایرانی سائٹ عالم 18.5.2023 )۔ ارنا نیوز ایجنسی نے افغانستان میں ایرانی سفیر حسن کاظمی کا بیان شائع کیا کہ  ،"کجکی ڈیم میں پانی موجود ہونا ثابت ہوجائے  اور طالبان ہلمند نہر کے پانی میں ایران کو اس کا حصہ نہ دیں،   تو ذمہ داری ان پر ہوگی،   تب حجت مکمل ہوگی  اور ایرانی حکومت یہ جانتی ہے کہ کیا کرنا ہے۔۔۔"(العربیہ 25.5.2023 )۔ افغانستان میں سرگرم  ایرانی سفارت کار کے  بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان  صورت حال بگڑنے کا خطرہ ہے۔ ایران نے  پہلے کبھی امریکی موجودگی کے دوران یا اس کے تابع افغان حکومتوں کے دور   میں ایسا نہیں کیا  ، دہائیوں سے موجود اس مسئلے کے باوجود ان افغان حکومتوں کے ساتھ ایران کے   اچھے تعلقات تھے۔ ایرانی صدر کے بیان  اور دیگر ایرانی عہدہ داروں کی تنبیہ اور دھمکیوں سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ  دونوں ملکوں کے درمیان صورت حال معمول کے مطابق نہیں۔ یہ کشیدگی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک   ایران  اپنی طرف سیستان اور بلوچستان  کے علاقے میں پانی کا مسئلہ حل نہیں کرتا،  جیسا کہ ایرانی صدر نے  بحر عمان سے پانی لاکر   اس کو صاف کرنے،  پھر اس کو زرعی اراضی کے درمیان تقسیم کرنے کی طرف اشارہ کیا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ایرانی عہدہ دار اس معاملے کو  اپنی مقبولیت میں اضافے کےلیے استعمال کر رہے ہیں،   اور افغان حکام کو مسئلے کی بنیاد قرار دے رہے ہیں  کہ وہ  افغانستان  سے پانی کے بہاؤ کو روک رہے ہیں۔ یاد رہے کہ اس مسئلے کی عمر ڈیڑھ صدی سے زیادہ ہے، چونکہ اس علاقے میں ایرانی حکومت سے ناراضگی  پائی جاتی ہے ،کہ انہوں نے اس علاقے کو نظر انداز کیے رکھا اوراس کو پسماندہ رکھا، اس علاقے میں حکومت کے خلاف احتجاجی تحریکیں ہیں   جس میں علیحدگی کی تحریک بھی ہے۔

 

8۔ امارت اسلامی افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے27 مئی 2023 کواپنے ٹوئیٹ میں کہا کہ، "کابل  اپنے وعدوں کا پابند ہے  مگر پانی کا مسئلہ  سخت خشک سالی کا نتیجہ ہے۔"اور کہا : "ایران کی جانب اس حوالے سے  غیر مناسب بیانات سے  دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خراب ہوسکتے ہیں  ۔ایسے بیانات کو نہ دہرایا جائے۔"  یہ مناسب جواب تھا جس میں دھمکی نہیں مگر دھمکی کو مسترد اور خبردار کیا گیا، چاہے یہ ایرانی صدر کے بیانات کے بارے میں ہو یا دیگر عہدہ داروں  کے بیانات کے حوالے سے،  جن  میں افغانستان کو دھمکی دی گئی یا اس کو نیچا دکھانے کی کوشش کی گئی، ایسا لگ رہا ہے کہ افغانستان ایران کے ساتھ تعلقات کشیدہ کرنا نہیں چاہتا۔

 

9۔افغانستان میں ایرانی سرحد کے ساتھ کئی دریا ہیں،  جیسے ہلمند ،  فراہ ، ہریرود  اور کچھ  چھوٹے دریا بھی ہیں،  جیسے ھاروت نہر، خابوش نہر، خاش نہر، بودائی نہر۔  یہ سارے افغانستان سے نکلتے ہیں،    اور دونوں ملکوں کی مشترکہ سرحد پر واقع  بحیرہ بوزک اور بحیرہ صبری میں گرتے ہیں۔ہلمند نہر کو  سیستان کے میدانوں کےلیے پانی کی فراہمی کا اہم ترین ذریعہ سمجھا جاتاہے، خشک سالی سے متاثر  سیستان اور بلوچستان کے صوبوں کےلیے یہ شہ رگ کی حیثیت رکھتاہے۔ایسا لگتا ہے کہ  افغان دریا خاص کر ہلمند نہر ، دونوں ملکوں کے درمیان  تعلقات میں  بڑا جیوپولیٹیکل کردار ادا کرتے ہیں،  اور افغانستان  پانی کے مسئلے کو  اپنے اقتصادی اور سیاسی اہداف کے حصول کےلیے ایران وغیرہ   پر دباو ڈالنے کےلیے مضبوط آلے کے طور پر استعمال کر سکتاہے،  خاص کر جب اس پانی کا95 فیصد خود افغانستان کے اندر ہی بہتا ہے۔

 

10۔پہلے جو کچھ کہا گیا اس سے یہ واضح ہوگیا کہ مسئلے کی اصل وجہ   انگریز کی جانب سے مسلم  علاقوں  کی بندر بانٹ ہے۔ انہوں نے ہی سیستان اور بلوچستان کے تین ٹکڑے کردیئے! ایک ٹکڑا ایران کا دوسرا پاکستان کا اور تیسرا افغانستان  کا۔اسی وجہ سے  دریا کا دھارا اور اس کا راستہ تین  ملکوں  کے درمیان متنازعہ ہو گیا ۔ جس پر ان کا اختلاف ہوتا ہے اور وہ تنازعات کا شکار ہوتے ہیں۔اگر یہ تینوں ممالک  ایک ہی ریاست میں اکھٹے ہوتے جیسا کہ  اللہ کا حکم ہے  تو معاملات درست اور سیدھے   ہوتے۔  لہٰذا اس مسئلے کا حل،   جس کی وجہ سے ایران اور افغانستان کے درمیان  بات قتال تک پہنچی،   اس کے سوا کچھ نہیں کہ  دونوں ریاستوں کو اور عالم اسلام میں قائم باقی تمام ریاستوں کو تحلیل کرکے  اسلام کی اساس پر قائم ایک  ہی ریاست میں ضم کیا جائے ،  اور نسلی مذہبی اور انگریز کی کھینچی ہوئی لکیروں کے تفرقے کو ختم کیا جائے۔  اس  مسئلے کی جڑ ہمیں معلوم ہے،  اور یہ جڑ استعمار کی جانب سے اسلامی سرزمین کی تقسیم ہے۔  ہر کوئی  استعمار اور اس کےباقیات کی آگ میں جل رہا ہے۔بعض ایرانی عہدہ داروں نے اس کا اظہار بھی کیا،  جیسا کہ ہم نے اوپر کہا۔ مسئلے کا حل معلوم ہے اور وہ ہے  کہ اس خطےکو  ایک  ریاست میں یکجاکرنا جیسا کہ استعمار سے پہلے ایک تھا اور اس کو  حقیقی معنوں میں اسلام کی بنیاد پر قائم ایک ریاست میں تبدیل کرنا، اپنی تمام بنیادوں، فروعات اور پہلوؤں کے ساتھ، تب ہی پانی اپنے  جگہوں پر بہے گا، لوگوں  اور مویشیوں کو سیراب کرے گا  ، زمین اللہ کی مشئیت سے  نعمتیں اگائے گی،  تیل کی دولت بھی سب کے درمیان منصفانہ طور پر تقسیم کی جائے گی،  سب اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے،  اور اسلامی احکامات کے سائے میں خوشحال زندگی گزاریں گے۔۔۔

 

اس کے علاوہ  باقی تمام حل  جزوی  اور وقتی ہیں،  اور یہ ٹائم بم  ہے کسی بھی وقت پھٹ سکتاہے۔ اس لیے ہم سب کو نبوت کے نقش قدم پر خلافت  راشدہ کے قیام کی  سنجیدہ جدوجہد کی دعوت دیتے ہیں جو  مسلم علاقوں کو یکجا کرے گی، تب ہی اسلام کی وجہ سے مسلمان معزز ہوں گے،   اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی ہوں گے۔

 

یہ وہ حل ہے جس کی طرف اسلام ہماری رہنمائی کرتاہے؛  اسی میں عزت اور باوقار زندگی ہے

 

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا للهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ﴾

"اے ایمان والو!   اللہ اور اس کے رسول کی پکار کا جواب دو ، جب وہ تمہیں اس چیز کی طرف بلائیں جس میں تمہارے لیے زندگی ہے۔  جان لو کہ   اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتاہے اور اسی کے پاس تمہیں حاضر ہونا ہے۔"(الانفال، 8:24)۔

 

17 ذی القعدہ 1444ہجری

بمطابق 6 جون 2023

Last modified onبدھ, 05 جولائی 2023 22:25

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک