بسم الله الرحمن الرحيم
سوال و جواب
شام میں رونما ہونے والے واقعات اور الاسد حکومت کا خاتمہ
سوال:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اخبار الشرق الاوسط نے 8 دسمبر 2024ء کو شائع کیا: "اور الاسد حکومت کا خاتمہ ہو گیا: شامی اپوزیشن نے آج اتوار کو اعلان کیا ہے کہ اس نے دمشق کو آزاد کرا لیا ہے اور صدر بشار الاسد کی 24 سالہ حکومت کا خاتمہ کر دیا ہے۔ سرکاری ٹیلی ویژن پر اپوزیشن کے بیان میں کہا گیا ہے کہ: "الحمد للہ دمشق شہر آزاد کرا لیا گیا ہے اور ظالم بشار الاسد کا تختہ الٹ دیا گیا ہے"۔ اپوزیشن نے مزید کہا کہ تمام قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے"۔
ھئیة التحریر الشام نے 27 نومبر 2024ء کو شمالی شام میں "رد العدوان" کے نام سے حملہ شروع کیا تھا، جس کے بعد 30 نومبر 2024ء کو شامی قومی فوج(Syrian National Army) نے "فجر الحرية" کے نام سے حملہ شروع کیا۔ حلب پر قبضہ کر لیا گیا اور ساتھ ہی اِدلب کے تمام علاقوں پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا گیا، پھر حماہ، حمص... اور آج دمشق... اور یہ سب تقریباً دس دنوں میں ہوا... تو شام میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟
براہِ مہربانی وضاحت فرمائیں،شکریہ
جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
معاملات کو واضح کرنے کے لیے درج ذیل حقائق پر غور کرنا ضروری ہے:
اول: وہ دھڑے جنہوں نے حملہ شروع کیا:
- 28 نومبر 2024ء کو بی بی سی کے مطابق حملے میں شریک دھڑے "غرفة عمليات الفتح المبين" ہیں، جس کی قیادت ھئیة التحریر الشامHayat Tahrir As-Sham کر رہی ہے اور اس میں ترکی کی حمایت یافتہ "الجبهة الوطنية للتحرير" اور "جماعة جيش العزة" شامل ہیں ... نیز شامی قومی فوج (SNA) بھی شامل ہے، جو ترکی کی حمایت یافتہ باغی دھڑوں کے اتحاد کی نمائندگی کرتی ہے اور "غرفة عمليات الفتح المبين" کا حصہ نہیں ہے۔.. اس طرح حملے میں شریک زیادہ تر دھڑے ترکی کے ماتحت اور وفادار ہیں۔ 'شامی قومی فوج' ترکی کی تخلیق کردہ ہے، ھئیة التحریر الشام ترکی کی نگرانی میں ہے، اور هئیة التحریرالشام اور ترکی کے درمیان قربت ہر صاحبِ بصیرت شخص کو متوجہ کرتی ہے۔
دوم: یہ اقدامات ابتداء میں بشار کے لیے ایک تادیبی پیغام کی طرح تھے کیونکہ اس نے اردوغان کے مطالبات کا جواب نہیں دیا تھا جہاں اس نے روسی صدر پیوٹن سے درخواست کی تھی: "انقرہ اور دمشق کے درمیان مفاہمت کی بات چیت کو آگے بڑھانے پر کام کریں اور بشار اس ملاقات کی دعوت قبول کر لیں جو اس نے بشار کو دی ہے"... (روئٹرز 25 اکتوبر 2024)، لیکن بشار نے جواب نہیں دیا بلکہ ترک فوج کے انخلاء کا مطالبہ کیا اور شرطیں عائد کیں اور ٹال مٹول کیا، اور روسی ثالث لافروف نے اس کی تصدیق کی اور 1 نومبر 2024ء کو ترکی کے اخبار حریت کو بتایا کہ بشار ترکی فوج کے انخلاء کا مطالبہ کر رہا ہے ... کہ اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ شمالی شام میں ترکی فوج کی موجودگی ہے، تو اردوغان ناراض ہو گیا اور ھئیة التحریر الشام اور شامی قومی فوج کو حرکت میں آنے کے لیے گرین سگنل دے دیا۔ "اپوزیشن کے ذرائع، جو ترکی انٹیلی جنس کے ساتھ رابطے میں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انقرہ نے حملے کے لیے گرین سگنل دے دیا ہے"۔( جرمن نشریاتی ادارہ ڈوئچے ویلے، 30 نومبر 2024)۔
سوم: اگرچہ یہ اقدام ابتدا میں ادلب کے گرد کم تناؤ والے علاقوں کو آزاد کرانے کے لیے تھا، اور ترکی کی جانب سے بشار کو مذاکرات کے لیے پیش کی جانے والی پیشکشوں کا جواب نہ دینے کے نتیجے میں تھا، تاکہ اس کے اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی حل تلاش کیا جا سکے، لیکن عوام کے بڑے حصے جو بشار کے ظلم و ستم کا شکار ہیں اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام محاذوں پر نکل آئے، اور ادلب کے گرد کم تناؤ والے علاقوں میں جو منصوبہ بندی کی گئی تھی وہ صرف اس تک محدود نہیں رہے، بلکہ اس سے تجاوز کرتے ہوئے شام کے مختلف علاقوں میں پہنچ گئے... اور چونکہ شامی فوج بھی بشار کے ظلم و ستم کا شکار تھی اور اس کے دفاع کے لیے کوئی دلچسپی نہیں رکھتی تھی، لہٰذا اس کا اپنی پوزیشنوں سے انخلاء کا سلسلہ جاری ہو گیا... پھر کم کشیدگی والے علاقوں de-escalation zone کے بعد عوام کے متحرک حصے حلب، حماہ، اور پھر حمص میں داخل ہوئے اور آخر کار شامی عوام کی نقل و حرکت دمشق تک پہنچ گئی، اور یہ سب 27 نومبر 2024ء کو نقل و حرکت شروع ہونے کے بعد سے دس دنوں میں تیزی سے ہوا۔
چہارم: علاقائی اور عالمی طاقتوں کے مؤقف
1- جہاں تک ایران اور روس کا تعلق ہے: تو وہ ہونے والے واقعات سے حیران رہ گئے اور روس نے حمیم فضائی اڈے اور طرطوس بحری اڈے میں سکیورٹی کو بڑھا دیا اور دونوں ممالک کے درمیان رابطہ ہوا ("ایرانی وزیر خارجہ عراقچی نے اپنے روسی ہم منصب لافروف کے ساتھ شام میں پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا"، ... اناضول، 30 نومبر 2024)۔
اس حملے کے بعد ایران نے اسے روکنے اور ترکی کے ساتھ مسائل حل کرنے کے لیے سفارتی طور پر حرکت کی، اس کے وزیر خارجہ عباس عراقچی 2 دسمبر 2024ء کو انقرہ پہنچے اور اپنے ترکی ہم منصب ہاکان فیدان سے ملاقات کی... جس نے اپنے امریکی ہم منصب بلنکن سے بات کی اور کہا: "نظام اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی عمل کو شام میں امن اور سلامتی کے لیے مثبت نتائج برآمد کرنے چاہئیں"... اناضول 1 دسمبر 2024)۔
2- جہاں تک ترکی کا تعلق ہے: تو وہ مذاکرات کے ذریعے بشار کے ساتھ پرامن سیاسی حل چاہتا تھا، جیسا کہ امریکہ بھی چاہتا تھا، لیکن بشار کو لگا کہ وہ جلدی جواب نہ دے کر رعایتیں حاصل کر سکتا ہے، اس لیے وہ اردوغان کی پیشکشوں پر جوابات میں اس خیال سے ٹال مٹول کر رہا تھا، کہ اس سے امریکہ ناراض نہیں ہو گا، اور ایسا لگتا ہے کہ اردوغان اس سے پریشان ہو گیا، اس لیے اس نے بشار کو سبق سکھانے کے لیے امریکہ سے منظوری لے لی تاکہ مذاکراتی حل ایک ایسے جنگی ماحول میں ہو جہاں بظاہر اردوغان کی بشار پرحاوی ہو... اس طرح اس نے اپوزیشن کے دھڑوں کو حملہ کرنے پر اکسایا اور انہیں اسلحہ اور انٹیلی جنس معلومات فراہم کیں:
الف- اردوغان نے 25 اکتوبر 2024ء کو قازان میں بڑے ممالک کے اجلاس کے موقع پر پیوٹن سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے کہا کہ "اس نے روسی صدر پیوٹن سے درخواست کی ہے کہ وہ انقرہ اور دمشق کے درمیان مفاہمت کی بات چیت کو آگے بڑھانے پر کام کرے اور بشار اس ملاقات کی دعوت قبول کر لے جو انہوں نے انہیں دی ہے"... (روئٹرز 25 اکتوبر 2024)۔
ب- روسی ثالثوں نے اردوغان کو ایک سے زیادہ بار جواب دیا کہ بشار کے ساتھ ملاقات اور مفاہمت کے لیے کچھ شرائط ہیں، بشمول شام سے ترکی فوج کا انخلاء... روس کے وزیر خارجہ لافروف نے 1 نومبر 2024ء کو ترکی کے اخبار حریت کو بتایا کہ "ترکی اور شام، دونوں باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بات چیت دوبارہ شروع کرنے میں سنجیدہ دلچسپی رکھتے ہیں، اور اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ شمالی شام میں ترک فوج کی موجودگی ہے"۔ تو یہ بشار کی ضد کی نشاندہی کرتا ہے جس نے اردوغان کے مفاہمت کے لیے بے چین موقف کا فائدہ اٹھایا، اور ساتھ ہی اس نے عرب ممالک کی حمایت کا بھی فائدہ اٹھایا اور اسے لگا کہ امریکہ اب بھی اسے چاہتا ہے کیونکہ اب تک امریکہ کو اس کا کوئی متبادل نہیں ملا!
ج- اور جب ترکی حکومت ان حالات میں بشار کے ساتھ مذاکراتی حل سے مایوس ہو گئی، تو اس نے امریکہ سے منظوری لے لی کہ مذاکراتی حل بشار پر دباؤ ڈالنے والی فوجی کارروائی کے بعد ہو۔ لہٰذا اردوغان نے 27 نومبر 2024ء سے مسلح دھڑوں کو حرکت میں لانا شروع کر دیا اور اس بات کی دلیل یہ ہے کہ یہ ترکی حکومت ہی تھی جس نے انہیں بشار حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے آگے بڑھنے کی اجازت دی یعنی ترکی کی جانب سے گرین سگنل دیا گیا۔ (اپوزیشن کے ذرائع جو ترکی انٹیلی جنس کے ساتھ رابطے میں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انقرہ نے حملے کے لیے گرین سگنل دے دیا ہے۔ جرمن نشریاتی ادارہ ڈوئچے ویلے، 30 نومبر 2024)؛ یہ اس لیے تھا تاکہ بشار اردوغان کے ساتھ بیٹھنے اور ترکی کے ساتھ مفاہمت کرنے اور اپوزیشن کے ساتھ صلح کرنے پر راضی ہو جائے... اور پھر امریکی احکامات کے مطابق سیاسی حل، یعنی شام کے لیے "ایک نئے دور" کا آغاز ہو، جیسا کہ اردوغان نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل گٹیرس کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کے دوران کہا "ترکی کے صدر طیب اردوغان نے جمعرات کو زور دے کر کہا کہ شام ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے جسے امن کے ساتھ سنبھالا جا رہا ہے"... (العربیہ-21، 5 دسمبر 2024)۔
3- جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے: تو وہ شامی اپوزیشن کے حملے سے حیران نہیں ہوا، امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا: "ہمیں مسلح شامی اپوزیشن کی جانب سے، نئے حالات سے فائدہ اٹھانے پر حیرت نہیں ہوئی"۔ (الجزیرہ نیٹ، 1 دسمبر 2024)، اور اس نے کوئی پریشانی کا اظہار نہیں کیا، الجزیرہ نیٹ کی یکم دسمبر 2024ء کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس نے کہا: "ہم شام میں صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور پچھلے 48 گھنٹوں کے دوران ہم نے علاقائی دارالحکومتوں سے رابطے کیے ہیں..."، امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان شان ساویت نے کہا "امریکہ اپنے شراکت داروں اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر کشیدگی کم کرنے، شہریوں اور اقلیتوں کے تحفظ، اور ایک سنجیدہ اور قابل اعتماد سیاسی عمل کے آغاز پر زور دیتا ہے جو اس خانہ جنگی کو یکبارگی اور ہمیشہ کے لیے سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2254 کے مطابق سیاسی تصفیہ کے ذریعے ختم کر سکے"۔ آر ٹی، 1 دسمبر 2024)"... الجزیرہ نے 2 دسمبر 2024 کو اپنی ویب سائٹ پر بتایا: : امریکی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ "موجودہ کشیدگی شامی قیادت کی طرف سے، تنازعے کے سیاسی حل کی اشد ضرورت کی تصدیق کرتی ہے، جو سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2254 کے مطابق ہو"، یہ 2015ء کی اقوام متحدہ کی قرارداد کی طرف اشارہ تھا، جس نے شام میں امن کے عمل کی منظوری دی تھی اور آج تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوا... اس قرارداد میں جنوری 2016ء میں شام میں امن مذاکرات شروع کرنے کی بات کی گئی تھی، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ شامی عوام ہی ملک کا مستقبل طے کریں گے۔ اس میں عبوری حکومت تشکیل دینے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور شہریوں کے خلاف کسی بھی حملے کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا گیا تھا... الحرة نے 4 دسمبر 2024ء کو اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا: "بلنکن نے کہا کہ اس وقت سب سے اہم بات... سلامتی کونسل کی قرارداد کی بنیاد پر سیاسی عمل کو آگے بڑھانا ہے، تاکہ شام میں خانہ جنگی کو حل کیا جا سکے اور ختم کیا جا سکے"... یہ خبر نیوز ایجنسی نے 7 دسمبر 2024 کو اپنی ویب سائٹ پر شائع کی: ترکی کی وزارت خارجہ نے کہا کہ ہم نے بلنکن کو مطلع کیا ہے کہ شامی حکومت کو اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے۔
4- جہاں تک یہودی ریاست کا تعلق ہے: تو یورو نیوز عربی نے 30 نومبر 2024ء کو درج ذیل رپورٹ کیا: "(اسرائیلی) وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو گزشتہ منگل کی شام حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی قبول کرنے کا اعلان کرنے کے لیے (اسرائیلیوں) کے سامنے آئے۔ اپنی تقریر میں، نیتن یاہو شامی صدر بشار الاسد کا ذکر کرنے سے باز نہیں آئے، اور اپنی تقریر میں کہا "الاسد آگ سے کھیل رہا ہے"۔ اس بیان کے چند گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ شامی دھڑوں نے شمالی شام میں الاسد کی افواج کے خلاف باضابطہ مربوط حملہ شروع کر دیا، جس نے بہت سے سوالات کو جنم دیا۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق، نیتن یاہو نے شمالی شام میں پیش رفت کے حوالے سے ایک خصوصی سیکیورٹی اجلاس منعقد کیا، جو اس طرح کے معاملے کے لیے غیر معمولی بات ہے... پھر الجزیرہ نیٹ نے 1 دسمبر 2024ء کو رپورٹ کیا کہ اخبار یدیعوت احرونوت نے کہا: "(اسرائیلی) فوج نے ایک ایرانی طیارے کو شام میں اترنے سے روک دیا کیونکہ اسے شبہ تھا کہ وہ لبنانی حزب اللہ کے لیے ہتھیار لے جا رہا ہے"، گویا یہودی ریاست اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ ایران شامی تھیٹر میں دوبارہ زور و شور سے واپس نہ آسکے، اور بہانہ یہ بنایا کہ وہ لبنان میں حزب اللہ کے لیے ہتھیار لے جا رہا ہے۔ اس طرح وہ شام اور پھر لبنان میں ایران یا ایرانی حزب اللہ کو عسکری قوت جمع کرنے نہیں دینا چاہتا تھا۔
پنجم:
خلاصہ... اوپر بیان کردہ نکات کی روشنی میں مندرجہ ذیل امور سامنے آتے ہیں:
1- وہ فریق جس کا شام میں کم تناؤ والے علاقوں پر حملوں کے آغاز پر کنٹرول تھا، وہ ترکی ہے اور اس کے پیچھے امریکہ ہے۔
2- وہ دونوں اس سے "ایک نئے دور"...اور "ایک سنجیدہ سیاسی عمل شروع کرنا" چاہتے تھے... شام میں نئی حکومت کے معاملات کو ترتیب دینے کے لیے... اور یہاں میں اس سلسلے میں امریکی اور ترکی حکام کے کچھ بیانات دہرا رہا ہوں:
امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان شان ساویت نے کہا: "امریکہ اپنے شراکت داروں اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر تناؤ کم کرنے، شہریوں اور اقلیتوں کے تحفظ، اور ایک سنجیدہ اور قابل اعتماد سیاسی عمل کے آغاز پر زور دیتا ہے جو اس خانہ جنگی کو یکبارگی اور ہمیشہ کے لیے سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2254 کے مطابق سیاسی تصفیہ کے ذریعے ختم کر سکے۔" آر ٹی، 1 دسمبر 2024)... ترکی کے صدر طیب اردوغان نے جمعرات کو زور دے کر کہا کہ شام ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے جسے امن کے ساتھ سنبھالا جا سکے... (عربی-21، 5 دسمبر 2024)۔
3- اگرچہ انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ اس سیاسی حل سے کیا مراد لیتے ہیں جس کی طرف یہ حملے لے جا رہے ہیں، لیکن محاذوں پر مختلف طاقتوں کے ٹکراؤ کی حقیقت اس بات کا امکان ظاہر کرتی ہے کہ جس چیز کا امریکہ اور اس کے حواریوں نے انتظام کیا ہے وہ ان طاقتوں کے درمیان ایک مخلوط شامی حکومت ہے جو ظالم کی جگہ لے گی جس کا تختہ الٹ دیا گیا ہے، اور اس میں خود مختار علاقے ہوں گے جو عراق میں کرد علاقے کی خود مختاری سے ملتے جلتے ہوں گے...
4- امریکہ، جو حل کو کنٹرول کرتا ہے، اس حل کو یہودیوں کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے ترتیب دے گا جیسا کہ امریکہ نے 27 نومبر 2024ء کی صبح یہودیوں اور لبنان کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے میں اور اسی دن شام میں فوجی تصادم کے آغاز سے ہی اسے یہود کے لیے یقینی بنایا تھا۔ اس طرح ایران کو لبنان میں موجود اپنی حزب کی حمایت کے لیے، شامی تھیٹر میں فوجی زور و شور کے ساتھ واپس آنے سے روکا جائے گا، یعنی ایران اور لبنان میں موجود حزبِ ایران کے درمیان زمینی فوجی رابطے کو کاٹ دیا جائے گا۔
یہ وہ امور ہیں جن کی طرف شام میں حملوں کے آغاز کے لیے اوپر بیان کردہ امریکی اور ترکی حکام کے بیانات اشارہ کرتے ہیں۔
ششم: اور آخر میں، آج شام میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے، یعنی بہایا گیا خون، تباہ شدہ مکانات، اور بے گھر خاندان، تو یہ ایک دردناک معاملہ ہے، خاص طور پر چونکہ یہ ایک ایسے سیاسی حل اور نئے دور کو تلاش کرنے کے لیے ہے جو مسلمانوں کے ممالک میں قائم ان سیکولر سول حکومتوں سے زیادہ مختلف نہیں ہے جنہیں استعماری کافروں اور ان کے ایجنٹوں نے سو سال پہلے اسلامی نظام حکومت (خلافت) کا خاتمہ کر کے قائم کیا تھا... اس کے بعد سے قومیں ہم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں ہیں جیسے لوگ کھانے کے پیالے پر ٹوٹ پڑتے ہیں... اس کے باوجود، امت ایک بار پھر عزت اور وقار کے ساتھ واپس آئے گی جیسا کہ پہلے تھی، اور خلافت راشدہ اللہ کے حکم سے ایک بار پھر قائم ہوگی... لیکن اللہ کا قانون یہ ہے کہ آسمان سے فرشتے ہم پر نازل نہیں ہوں گے جو ہمارے لیے خلافت قائم کریں اور ہم صرف بیٹھے رہیں بلکہ یہ ان لوگوں کے ہاتھوں ہوگا جو اپنے رب پر ایمان لائے اور جنہیں ہدایت نصیب ہوئی... اور ہمارے پاس ایسے لوگ موجود ہیں، چاہے وہ فوج میں ہوں یا اپوزیشن میں، چاہے ان کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو، خاص طور پر چونکہ واقعات کا مشاہدہ کرنے والا، دیکھتا ہے، جبکہ دس دن گزر چکے ہیں، کہ حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے والے صرف وہی نہیں ہیں جنہوں نے حکومت کے ساتھ اس محاذ آرائی کا آغاز کیا، جیسے ترکی کے حواری اور اس کے پیچھے امریکہ، تاکہ اس سیکولر تبدیلی کو ایک کندھے سے دوسرے کندھے پر منتقل کیا جا سکے... بلکہ محاذ آرائی میں دوسرے لوگ بھی شامل ہو گئے جو حکومت کے ظلم و ستم سے تنگ آ چکے ہیں اور نظام کو شامی مسلمان عوام کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے تبدیل کرنا چاہتے ہیں... تو ہم ان لوگوں سے اپیل کرتے ہیں: کہ وہ فاسد سیکولر سیاسی حل کو ناکام بنانے کی پوری کوشش کریں جو استعماری کافر اور ان کے ایجنٹ چاہتے ہیں... تاکہ ان کی قربانیاں، ان واقعات میں ضائع نہ ہو جائیں اور پھر یہ سب ماضی کی بات بن جائے! اور یہ کہ وہ اسلام کی حکومت، یعنی خلافتِ راشدہ، کے قیام کے لیے کام کرنے والوں کی حمایت کریں، تاکہ انہیں عظیم اجر اور عظیم فتح حاصل ہو... اور پھر وہ ان لوگوں میں سے ہوں، جن کے بارے میں خوشخبری سچ ثابت ہوئی،
﴿نَصْرٌ مِنَ اللهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ﴾
’’اللہ کی طرف سے مدد (نصیب ہوگی) اور فتح عنقریب ہوگی اور مومنوں کو (اس کی) خوشخبری سنا دیں‘‘(سورۃ الصف: آیت 13)
14 جمادی الثانی 1446 ہجری
8 دسمبر 2024 عیسوی
Latest from
- شام کا انقلاب بے نقاب کرنے اور واضح کرنے والی چیز ہے؛...
- بڑھے چلو دمشق کی جانب، یہاں تک کہ اس مجرمانہ حکومت کا خاتمہ ہو جائے!
- اگرچہ مسلم دنیا میں استعماری ڈھانچوں کے ذریعے حکومت کی جاتی ہے!
- حق پر ثابت قدم لوگوں کی سانسیں بھی مغرب کو دہشت زدہ کر رہی ہیں
- موجودہ سیاسی انتشار غداری اور ذلت کے تخت اور اپنے آپ کو...