بسم الله الرحمن الرحيم
سوال و جواب
اہل غزہ کی نقل مکانی
(ترجمہ)
سوال:
[26/1/2025 کو الجزیرہ نے اپنی ویب سائٹ پر خبر شائع کی کہ: (امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملے سے پیدا ہونے والے انسانی بحران کے بعد وہ اردن، مصر اور دیگر عرب ممالک پر نقل مکانی کرنے والے مزید فلسطینیوں کو پناہ دینے کے لیے دباو ڈالے گا... جب اس سے پوچھا گیا کہ یہ تجویز وقتی ہے یا طویل مدتی تو ٹرمپ نے کہا کہ "یہ بھی ممکن ہے اور وہ بھی"]۔ کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ٹرمپ اردن اور مصر کے حکمرانوں کے گرد گھیرا تنگ کر کے ان کو مشکل میں ڈال رہا ہے، کیونکہ ان دونوں نے اس سے پہلے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ اس نقل مکانی کے حامی نہیں ہیں؟ اور کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ غزہ کی پٹی کو اس کے باسیوں سے خالی کر کے، اس کو یہودی وجود میں ضم کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے، جبکہ عرب حکمران بلکہ مسلمانوں کے تمام حکمران قبر میں مدفون لوگوں کی طرح خاموش ہیں اور اس کے سامنے کوئی بھی حرکت نہیں کر رہے؟ اور کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا یہ نئے انداز میں وہی پرانی پالیسی ہے؟
جواب:
مندرجہ بالا سوالات کی وضاحت کے لیے ہم مندرجہ ذیل امور کو سامنے رکھیں گے:
1. ٹرمپ اپنے پیش رو بائڈن کے برعکس، اپنے اہداف کو پوشیدہ نہیں رکھتا، مثال کے طور پر بائڈن لوگوں کو یہ باور کرواتا تھا کہ امریکہ دو ریاستی حل کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے پر کام کر رہا ہے، جو کہ درحقیقت بے معنی الفاظ تھے! الجزیرہ نے 4/1/2024 کو اپنی ویب سائٹ پر خبر نشر کی کہ: (امریکی صدر جو بائڈن نے کل جمعہ کے دن کہا کہ دو ریاستی حل کے کئی طریقے ہیں، اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اقوام متحدہ میں کئی ایسے ممالک شامل ہیں جن کی ذاتی فوجی قوت نہیں ہے... الجزیرہ 4/1/2024) یعنی ان طریقوں کی بات کر کے بائڈن ایسی ریاست کی طرف اشارہ کر رہا ہے جس کی کوئی فوج نہیں ہو گی! مگر ٹرمپ نے لوگوں کو شش و پنچ میں رکھے بغیر اپنے ارادے کا اظہارِ کیا... اور اپنی انتخابی مہم کے دوران وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ: (جب میں مشرق وسطیٰ کے نقشے کو دیکھتا ہوں تو مجھے اسرائیل ایک بہت چھوٹا سا ٹکڑا لگتا ہے. میں سنجیدگی سے سوچتا ہوں کہ کیا مزید علاقے حاصل کیے جا سکتے ہیں؟ یہ بہت ہی چھوٹا ہے... سکائی نیوز 19/8/2024) ، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مغربی کنارے میں آباد کاری کے منصوبے کو جائز قرار دے کر یہودی وجود کی توسیع چاہتا ہے، اور زمین پر قبضہ کرنے کے لیے اور نئی آباد کاری کرنے کے لیے ان کے ہاتھ کھولنا چاہتا ہے.
2. اس بات کی تائید یہودی وجود کے لیے امریکہ کے سفیر کے طور پر اس شخص کی تعیناتی سے ہوتی ہے جو اس کے نظریے کا علمبردار ہے، اور یہ شخص مایک ھاکانی ہے جس کی تعریف کرتے ہوئے ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل ویب سائٹ میں اپنے اکاونٹ پر 13/11/2024 کو کہا کہ "یہ اسرائیل اور اسرائیلی عوام سے محبت کرتا ہے، اسی طرح اسرائیلی عوام بھی اس سے محبت کرتی ہے، مایک بغیر تردد کے مشرق وسطی میں امن کے لیے کام کرے گا". بی بی سی نے 13/11/2024 کو مایک ھاکابی کا ایک بیان یہودی چینل 12 کے توسط سے نقل کیا کہ ھاکابی یہودی وجود کی حمایت میں اپنے بیانات کے لیے مشہور ہے، ہاکابی نے 2015 میں اپنے ایک بیان میں کہا کہ: "اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کو ضم کرنے کا مطالبہ امریکہ کی جانب سے مانھاٹن کے متعلق مطالبے سے زیادہ مضبوط ہے". سوشل میڈیا میں اس کی ایک 2017 کے وقت کی ویڈیو موجود ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ "مغربی کنارہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے، یہ یہودا اور سامرہ ہے، آباد کاری نام کی کوئی چیز نہیں یہ سوسائٹی ہے، یہ محلے ہیں، یہ شہر ہیں، قبضہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے".
3. اس سفیر نے یہودی چینل 7 کے ساتھ بات کرتے ہوئے 15/11/2024 کو اپنے ان بیانات کو دہراتے ہوئے کہا کہ:" ایسی کوئی بات کرنا میرے لیے ممکن نہیں جس پر مجھے یقین نہ ہو، مغربی کنارے کی اصطلاح استعمال کرنے کے لیے میں ہرگز تیار نہیں ہوں، اس قسم کی کوئی چیز نہیں ہے، میں یہودا اور سامرہ کی بات کر رہا ہوں، میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ کوئی قابض نہیں ہے" اس نے کہا: "یاد کریں کہ گزشتہ جن چار سالوں میں ٹرمپ صدر رہا اس دوران ٹرمپ، تاریخ میں کسی بھی امریکی صدر سے زیادہ اسرائیل کا حامی رہا، اس نے القدس کو دارالحکومت تسلیم کرنے، امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے القدس منتقل کرنے اور گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کی قانونی ملکیت قرار دینے سمیت بہت کچھ کیا، اس نے دو ریاستی حل پر کوئی پیش رفت نہیں کی، کیونکہ یہ غیر عملی اور ناقابل عمل حل ہے"، اس نے کہا "میں نہیں سمجھتا کہ دو ریاستی حل کا کوئی جواز ہے، میرا سالہا سال سے یہی موقف ہے، اس موقف سے ٹرمپ متفق ہے اور میں اسی کے تسلسل کی توقع کرتا ہوں". ان بیانات سے مسئلہ فلسطین کے بارے میں ٹرمپ کا موقف واضح ہو جاتا ہے کہ وہ مغربی کنارے پر قبضے اور آباد کاری کو جواز دینا چاہتا ہے.
4. اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے پاس مسئلہ فلسطین کا فلسطینیوں کے لیے ریاست کی صورت میں کوئی نیا متعین حل موجود نہیں ہے چاہے اس ریاست کا حجم کچھ بھی ہو، بلکہ معاملہ امریکہ کی جانب سے یہودی وجود کی مغربی کنارے میں آباد کاری کو باقاعدہ سرکاری طور پر قانونی حیثیت دیے جانے کی طرف بڑھ رہا ہے، جیسا کہ یہودی وجود کے لیے امریکی سفیر کے بیانات اشارہ کر رہے ہیں،اور اس کا یہ کہنا کہ ٹرمپ اس کا حامی ہے، اور ٹرمپ کا اس کی تعریف کرنا، اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس مسئلے میں ٹرمپ کے نظریے کا علمبردار ہے. اس بات کی تائید ٹرمپ کی جانب سے ان یہودی آباد کاروں پر عائد پابندی اٹھائے جانے سے بھی ہو رہی ہے جن کی تجاوزات کو امریکہ نے بائڈن کے دور میں غیر قانونی قرار دے رکھا تھا. یوں ٹرمپ کی جانب سے امن کا مطلب، یہودی وجود کا مغربی کنارے کی زمین پر قبضے اور اس پر آباد کاری کو قبول کرنا ہے، اور ساتھ ہی فلسطینی اتھارٹی کو فی الحال کچھ حد تک خود مختار انداز میں بقا کا حق دینا ہے تاکہ وہ سیکیورٹی تعاون کے نام پر یہودی وجود کی خدمت جاری رکھے، لوگوں سے ٹیکس اکھٹا کر کے ان کو ہانگتی رہے، اور کچھ بلدیاتی خدمات کے ذریعے اتھارٹی کے کارندے لوگوں کو قابو میں رکھیں.
5. ٹرمپ نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ جو چاہتا ہے کرنے کی قدرت رکھتا ہے، اور یہ کہ وہ امن قائم کرنے کی طاقت رکھتا ہے تاکہ خطے کے حکمرانوں کو ایک وھم میں رکھ سکے اور ان کو سبز باغ دکھا سکے جیسے شیطان اپنے پیروکاروں کو سبز باغ دکھاتا ہے، چنانچہ الجزیرہ نے 23/1/2025 کو خبر نشر کی کہ: (امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ان کی انتظامیہ نے چار دن میں وہ کچھ حاصل کیا جو سابق صدر بائڈن کی انتظامیہ نے چار سال میں حاصل نہیں کیا، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اگر ان کی انتظامیہ نہ ہوتی تو اس ہفتے غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ نہ ہوتا۔ اسی طرح اس نے ذکر کیا کہ سعودی عرب، امریکہ میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، مگر وہ سعودیہ سے سرمایہ کاری کو ایک ہزار ارب ڈالر تک بڑھانے کا مطالبہ کرے گا...) اس کے باوجود ٹرمپ نے اس معاہدے سے یہودی وجود کے لیے "تحائف کا بستہ" حاصل کر لیا جیسا کہ یہودی اخبار یدیعوت احرنوت نے 14/1/2025 کو ذکر کیا کہ: (اسرائیل کے پاس اس بات کا حق ہو گا کہ اگر وہ ضرورت محسوس کرے تو اس جنگ بندی کو ختم کر سکتا ہے، اور عنقریب وائٹ ہاؤس ان پابندیوں کو اٹھا لے گا جو سابق صدر بائڈن کی انتظامیہ نے جرائم کا ارتکاب کرنے والے بعض آباد کاروں پر عائد کی تھیں، وہ اقوام متحدہ کی ان دو عدالتوں کے خلاف ایک بین الاقوامی مہم شروع کرے گا جنہوں نے اسرائیل کے خلاف، اور خاص طور پر نیتن یاہو اور ان کے وزیرِ دفاع گیلنٹ کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب کے الزام میں تحقیقات یا مقدمات چلائے تھے۔... )
6. یوں ٹرمپ اپنے پہلے اور موجودہ دونوں صدارتی ادوار میں یہود کے مفادات کی حفاظت کرنے والا شخص ہے، حتی کہ وہ بین الاقوامی قراردادیں جو امریکہ اور بڑے ممالک نے منظور کی تھیں اور امریکہ ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کی سرزنش کرتا تھا، تو اب ٹرمپ نے یہود کے مفادات کی مخالف ان قراردادوں کو روند ڈالا، اس نے اقوام متحدہ کے ان قراردادوں کو بھی روند ڈالا جن کے مطابق مغربی کنارہ مقبوضہ علاقہ ہے، جس پر یہودی وجود کو آباد کاری کا حق نہیں ہے، بلکہ یہودی وجود کو ان علاقوں سے نکل کر 4 جون 1967 کے حدود تک محدود ہونا ہے. اسی طرح اس نے القدس الشریف کے حوالے سے اقوام متحدہ کی اس قرارداد کو روند ڈالا جس کے مطابق یہ مقبوضہ فلسطینی علاقہ ہے، اس نے گولان کی پہاڑیوں کا شام کے مقبوضہ علاقے ہونے کی قرارداد کو بھی ملیامیٹ کر دیا، اور اس نے القدس اور گولان پر یہودی قبضے کو جواز فراہم کر دیا. یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ مغربی کنارے میں اب تک کی جانے والی آباد کاریوں اور یہود کے قبضے کو قانونی حیثیت دے گا اور مزید آباد کاری یا اس کی توسیع کے جائز ہونے کی حمایت کرے گا. اس کی ابتدا اس وقت ہو گئی تھی جب اس نے ان آباد کاروں کے لیے معافی کا اعلان کیا جن پر بائڈن انتظامیہ کے دور میں سزائیں عائد کی گئی تھیں۔
7. ٹرمپ خطے کے باقی ممالک کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے اپنے منصوبے پر توجہ مرکوز کرے گا تاکہ یہودی وجود کو اور یہودی وجود کی جانب سے فلسطین کی سرزمین کو غصب کرنے کو جواز فراہم ہو، اس کام کے لیے جن ممالک کا انتخاب ہوا ہے ان میں خاص طور پر سعودی عرب ہے کیونکہ سعودی ولی عہد کے ٹرمپ کے ساتھ گہرے مراسم ہیں، جو سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بھرپور توجہ دے رہا ہے اور اس میں شاید زیادہ تاخیر نہ ہو، کیونکہ سعودی حکومت کا ٹرمپ کی قیادت میں رپبلکن انتظامیہ کے منصوبے کی طرف بہت جھکاو ہے، اور یہ ہر دیکھنے والے اور بصیرت والے کو معلوم ہے۔ ٹرمپ نے 23/1/2025 کو اعلان کیا کہ(" سعودی عرب، امریکی معیشت میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا، لیکن میں اس کو ایک ٹرلین ڈالر تک بڑھانے کا مطالبہ کروں گا"... امریکی ٹی وی الحرۃ 23/1/2025)، مزید کہا کہ یہ بات بدھ کی شام مورخہ 22/1/2025 کو سعودی ولی عہد ابنِ سلمان کے ساتھ فون پر ہوئی. یعنی صرف ایک فون کال پر سعودی عرب کا عملی حکمران، امریکی صدر کے مطالبے کے سامنے جھک گیا اور اس کو یقین دلایا کہ وہ امریکی معیشت کو سینکڑوں ارب ڈالر کا سہارا دے گا. یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سعودی حکومت ٹرمپ کے دور میں امریکی مطالبات کے سامنے کس طرح ڈھیر ہوتی ہے. اسی طرح جب ابنِ سلمان سے مطالبہ کیا جائے گا تو وہ ایک اور فون کال پر یہود کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا اعلان کر دے گا۔
8. یہی وجہ ہے کہ یہودی وجود کی حمایت میں ٹرمپ کے اقدامات پر غور کرنے والا یہ دیکھ سکتا ہے کہ سوال میں مغربی کنارے کو ان کے باسیوں سے خالی کر کے اسے یہودی وجود میں ضم کرنے کے حوالے سے ٹرمپ کے بیان، اور خاص طور پر جب اس سے (سوال کیا گیا کہ کیا یہ تجویز وقتی ہے یا طویل مدتی تو اس نے کہا کہ "یہ بھی ہو سکتا ہے وہ بھی "... الجزیرہ 26/01/2025)... تو اس میں غور کرنے والا یہ دیکھ سکتا ہے کہ یہ ٹرمپ کی عادت ہے... جہاں تک سوال میں یہ بات ہے کہ:( کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ٹرمپ اردن اور مصر کے حکمرانوں کے گرد گھیرا تنگ کر کے ان کو مشکل میں ڈال رہا ہے، کیونکہ ان دونوں نے اس سے پہلے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ اس نقل مکانی کے حامی نہیں ہیں؟) تو ٹرمپ کو ان کی پرواہ نہیں ہے، پھر چاہے ان کا دم گھٹے یا نہ گھٹے۔ خاص طور پر جب ٹرمپ اس سے پہلے، اس سے بھی زیادہ واضح انداز میں کہہ چکا ہے کہ:( میں جب مشرق وسطی کے نقشے پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے اسرائیل بہت چھوٹا سا ٹکڑا نظر آتا ہے. میں سنجیدگی سے سوچتا ہوں کہ کیا مزید علاقے حاصل کرنے کا کوئی طریقہ ہے؟ یہ بہت چھوٹا ہے"... سکائی نیوز 19/8/2024) ، اس کا پچھلا بیان یہودی وجود کی توسیع کے بارے میں تھا جبکہ موجودہ بیان یہودی وجود کی توسیع کے طریقے کے بارے میں ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ کہ ٹرمپ، ان ایجنٹ حکمرانوں کے لیے حالات سازگار کر رہا ہے تاکہ زبردستی نقل مکانی کا راستہ آسان ہو جائے کیونکہ ان حکمرانوں نے، اور خاص طور پر اردن اور مصر نے اس کو مسترد کر دیا تھا... دوسرے لفظوں میں یہ (نبض دیکھنے) کا عمل ہے کہ کیا یہ حکمران ٹرمپ کے بیان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے لوگوں پر دباؤ ڈال سکتے ہیں؟ اور لوگوں کو ان کی زمین سے نکال کر زمین کو لوگوں سے خالی کر کے یہودی وجود کے حوالے کر سکتے ہیں؟ یا پھر اگر لوگ ان دونوں حکومتوں کے سامنے ڈٹ جائیں اور ان دونوں کو اللہ اور اس کے رسولﷺ اور مومنین کے ساتھ خیانت کرنے والے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے سے روک لیں تو اس منصوبے کو کسی ایسے وقت تک موخر کر دیا جائے، جس جو ٹرمپ مناسب سمجھے۔
9. ہم جانتے ہیں کہ مسلم ممالک کے حکمران خاص کر فلسطین کے ارد گرد کے حکمران اللہ، اس کے رسولﷺ اور مومنوں سے حیاء نہیں کرتے، اور ٹرمپ کے احکامات کو نافذ کرنا ان کی اولین ترجیحات میں سے ہے، انتخابات میں کامیابی اور صدر بننے پر ٹرمپ کو مبارکباد دینے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے سے یہ بلکل واضح ہے حالانکہ ٹرمپ نے یہود سے دوستی اور اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کو پوشیدہ نہیں رکھا، پھر بھی ان حکمرانوں نے اس کو مبارکباد دینے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کی:
ا. چنانچہ آر ٹی عرب دنیا کے اخبار نے 6/11/2024 کو نشر کیا کہ: [سعودی نیوز ایجنسی "واس" کے توسط سے خبر دی کہ سعودی بادشاہ نے ٹرمپ کو مبارکباد دی، اور "دونوں ممالک اور دوست عوام کے درمیان مضبوط تاریخی تعلقات کے ہونے کی تعریف کی، جن کو ہر میدان میں وسعت دینے اور مزید مضبوط کرنے کے لیے سب لوگ کام کر رہے ہیں". اسی طرح ترک صدر کی جانب سے مبارکباد کی خبر نشر کرتے ہوئے کہا... ( صدر نے ٹوئیٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ "میں اپنے دوست ٹرمپ کو صدارتی انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد پیش کرتا ہوں... ہم امید کرتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات مزید مستحکم ہوں گے... ")
ب. پھر الجزیرہ نے خبر نشر کی کہ مصری صدر نے مبارکباد کے پیغام میں کہا: ["میں منتخب امریکی صدر ٹرمپ کو خلوص دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں... مصر اور امریکہ اور ان دونوں کے دوست عوام کے درمیان تعلقات اور اسٹریٹیجک شراکت داری کو مضبوط کریں گے". اس کے بعد اردن کے بادشاہ کے بارے میں نشر ہوا: "امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں. ہم دوبارہ تمہارے ساتھ مل کر اردن اور امریکہ کی طویل مدتی شراکت داری کو آگے بڑھائیں گے..."، اسی طرح پاکستانی وزیر اعظم نے بھی ٹوئیٹر پر اپنے پیغام میں کہا: " میں منتخب ہونے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو تاریخی کامیابی حاصل کرنے اور دوسری بار صدر بننے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں! اور آنے والی انتظامیہ کے ساتھ مظبوط انداز میں کام کرنے کی امید کرتا ہوں تاکہ امریکہ اور پاکستان کی شراکت داری کو مزید وسیع کیا جا سکے"]... الخ
ج. حتی کہ شام کی عبوری حکومت کے سربراہ احمد الشرع نے بھی یہی روش اختیار کی اور فیس بک پر 20/1/2025 کو اپنے بیان میں کہا کہ:" عرب جمہوریہ شام کی عوام اور قیادت کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ کا صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دیتا ہوں" اس نے مزید کہا کہ "ہمیں یقین ہے کہ ٹرمپ ہی وہ قائد ہے جو مشرق وسطی میں امن قائم کرے گا اور اس خطے میں استحکام کو لوٹائے گا".
یہ لوگ مسلمانوں کی سرزمینوں میں حکمران ہیں اللہ ان کو ہلاک کرے یہ کدھر بھٹک رہے ہیں.
10. اس سب کے باوجود ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اپنے سچے اور مخلص جواں مردوں کے ذریعے ٹرمپ اور اس کے پیروکار حکمرانوں کے بیانات کو گرد و غبار کی طرح اڑا دے گی، اور اہلیانِ فلسطین کی جانب سے اپنے گھروں سمیت اپنی سرزمین کو مظبوطی سے تھامے رکھنا تو زبانِ زدِ عام ہے... جس نے ہزاروں کی تعداد میں ان کو سخت موسمی حالات اور نا گفتہ بہ زمینی صورتحال کے باوجود پیدل چلتے ہوئے دیکھا ہے، اور اس بات کے باوجود کہ وہ جانتے ہیں کہ یہود کی وحشیانہ بربریت نے ان کے گھروں کو تباہ ہر دیا ہے وہ اپنے گھروں کی طرف جانے میں جلدی کر رہے ہیں، اور وہ واپس پہنچنے کو عظیم کامیابی گردان رہے ہیں، تو جس نے یہ سب دیکھا ہو اور اس پر غور وفکر کیا ہو تو وہ یہ جان لے گا کہ ٹرمپ کے بیانات اور فلسطین کو اس کے باشندوں سے خالی کرنے کی اس کی سازش، چاہے غدار حکمرانوں میں سے اس کے چاہنے والے بھی اس کے ساتھ مل جائیں، پھر بھی یہ سب اس پر الٹا پڑے گا:
{وَ قَدْ مَكَرُوْا مَكْرَهُمْ وَ عِنْدَ اللّٰهِ مَكْرُهُمْؕ- وَ اِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُوْلَ مِنْهُ الْجِبَالُ}
"اور انہوں نے گہری سازشیں کیں اور اللہ کے پاس ان کی سازشیں لکھی ہوئی ہیں، اور ان کی سازشیں ایسی خطرناک ہیں کہ ان سے پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہل جائیں" (سورۃ ابراھیم: آیت 46)
پھر یہ مبارک سرزمین دار الاسلام بن کر اس کے لوگوں کو ہی ملے گی، اور یہ تمام غدار حکمران ہٹا دیے جائیں گے اور اللہ کے اذن سے خلافتِ راشدہ قائم ہونے والی ہے، یہود سے قتال اور ان کے وجود کے خاتمے کا وقت آنے والا ہے، اس بابت مسند احمد میں حذیفہ سے روایت ہے کہ صادق اور سچے نبی صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «...ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ» "....پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت قائم ہو گی" اسی طرح بخاری نے عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ: «تُقَاتِلُكُمْ الْيَهُودُ فَتُسَلَّطُونَ عَلَيْهِمْ...» "یہود تم سے قتال کریں گے پھر تم ان پر غالب آ جاؤ گے..." مسلم نے بھی ابن عمر سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لَتُقَاتِلُنَّ الْيَهُودَ فَلَتَقْتُلُنَّهُمْ...»
"یہود تم سے لازماً قتال کریں گے اور تم ان کو لازماً قتل کرو گے..." تب دنیا، القوی اور العزیز اللہ کی مدد سے منور ہو جائے گی.
11. لیکن جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے اور ہم کہہ چکے ہیں، اور اسی کو ہم اختتام میں دوبارہ دہرا رہے ہیں کہ:
[اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ خلافت قائم کرنے کے لیے اور دشمن سے لڑنے کے لیے آسمان سے فرشتے نہیں نازل کرے گا جبکہ ہم بیٹھے رہیں۔ بلکہ وہ اپنے فرشتوں کو مدد فراہم کرنے اور اس کی فتح کی بشارت دینے کے لیے ایسے لوگوں پر نازل کرتا ہے جو اپنے رب پر ایمان رکھتے ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں، ایسے مسلمان سپاہی ہیں جو جنگ میں صبر کرتے ہیں، اپنے امام کے ذریعے اپنی حفاظت کرتے ہیں اور اس کی اقتدا میں دشمن سے لڑتے ہیں:
﴿بَلَى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هَذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ﴾
"ہاں کیوں نہیں، اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو اور کافر اسی وقت تمہارے اوپر حملہ آور ہو جائیں تو تمہارا رب پانچ ہزار نشان والے فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد فرمائے گا" (سورۃ آل عمران : آیت 125)
پھر ہم ان لوگوں میں سے ہو جائیں گے جن کے حق میں یہ بشارت درست ثابت ہوئی
﴿نَصْرٌ مِنَ اللهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ﴾
"اللہ کی مدد اور جلد آنے والی فتح اور مسلمانوں کو خوشی سنا دیں" (سورۃ الصف: آیت 13)]
28 رجب 1446 ہجری
بمطابق 28/1/2025 عیسوی
<