الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب: دوعقود کو جمع کرنا

 

سوال: 

السلام وعلیکم، میں تیونس سے ایک نوجوان ہوں جو کہ حلال طریقہ سے گاڑی خریدنا چاہتا ہوں اور اس سلسلے میں میری توجہ ایسی کمپنیوں کی طرف دلائی گئی جو کہ طویل المدتی کرائے پرگاڑی دیتے ہیں اور جس میں سودے(بیع) کی میعاد کے آخر میں ملکیت کے انتقال کا امکان موجود ہوتا ہے یعنی کہ یہاں دو علیہدہ عقود(contracts) کوجمع کیا جا رہا ہے۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

ازطرف

Abdulaziz Marouany

 

جواب:

اسلام میں عقود واضح اور سادہ ہیں،ایک عقد دوسرےکے ساتھ غلط ملط نہیں ہوتے چنانچہ ایک کی بجاآوری کا دارومدار دوسرے عقد کی تکمیل پرنہیں ہوتا بلکہ ہرعقد کی معقولیت اس کی اپنی شرائطِ صحت اور شرائطِ انعقاد پر منحصر ہوتی ہے۔اسی لیے اسلامی عقوداپنے قابلِ عمل ہونے کے لحاظ سے آسان اور سادہ ہوتے ہیں ان میں پیچیدگیاں نہیں ہوتی اور نا ہی مسائل پیدا ہوتے ہیں جیسے کہ انسان کے بنائے ہوئے نظاموں میں ہوتا ہے چاہے وہ سرمایہ داریت ہو،اشتراکیت ہو یا کوئی اور۔

 

اللہ کے رسول ﷺ نے ایک ہی عقد میں دو عقود کو جمع کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اس کی مثال اس طرح دی جا سکتی جیسے کہ کوئی یہ کہے کہ میں اپنا گھر اس شرط پر بیچتا ہوں اگر تم ساتھ میں میرا یہ دوسرا گھر اس قیمت پر خریدو یا پھر یوں کہے کہ میں گھر بیچتا ہوں اگر تم اپنا گھر مجھ پر بیچ دو یا یوں کہے کہ میں گھر بیچتا ہوں اگر تم بیٹی کو میرے نکاح میں دے دو۔ایسا کرنا درست نہیں کیونکہ یہ کہنا کہ میں گھر بیچتا ہوں ایک بیع(عقد) ہے اور اس پر مزید اضافہ کہ اس شرط پر کہ تم اپنا گھر بیچو دوسری بیع(عقد)ہے۔اسی طرز پر دونوں عقود(بیوع) کو ایک ہی عقد میں جمع کرنے کی ممانعت ہے۔

جیسے کہ احمد عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن مسعود ؓنے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک عقد میں دو عقود کے جمع سے منع کیاہے۔یعنی ایک عقد میں دوعقودکا موجود ہونا۔

چنانچہ آپ کا سوال دو عقود کے ایک عقد میں جمع کرنے سے متعلق ہے۔ کیونکہ ایک عقد معین مدت کے لیے کرائے کا ہے مثلاًدس سال کے لیے اور پھر اس کے بعد یہ عقد فروخت کا بن جاتا ہے۔مالک کا  کرایہ اور فروخت کا مشتری (خریدار)سے مطالبہ ایک ہی عقد میں ہے اور یہ مذکور بالا حدیث کی رو سے اس کی ممانعت ہے۔

 

اگر آپ کو اس معاملہ میں حل چاہیے تو یہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ کسی گاڑی کے مالک سے اقساط پر فروخت کرنے پر معاملہ طے کریں جہاں آپ کچھ رقم بحیثیت بیعانیہ کے ادا کریں اورکل رقم جس کا تعین فروخت کے وقت ہو چکا تھا کا بقایا ماہانہ اقساط کی شکل میں پوری کر لی جائے۔ اس طرح فروخت کے اس عقد کے مطابق آپ اس گاڑی کے مالک ہونگے۔یہ بیع دراصل فروخت بر اقساط (بیع معجل اور بیع مؤخر)ہےجو کے مباح ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں اس شرط پر کہ قیمتِ فروخت کا تعین چاہے نقد ہو یا اقساط میں پہلے ہی طے پا چکے ہوں اور جس پر دونوں فریق کی باہمی رضامندی ہو۔ چنانچہ اگر دونوں کی رضامندی اس بات پر ہے کہ ادائیگی نقد اور فوری ہوگی اور خریدار قبول کرتا ہے یا پھربائع(مالک بیچنے والا)مؤخر شدہ اقساط  میں ادائگی کے عوض بیچنے پر تیارہے اور خریدار قبول کرتا ہے تو ایسا سب  صحیح ہے کیونکہ یہ سودےبازی کا حصہ تھا۔ اور دوکاندار سے مال کی قیمت پر سودےبازی کرنا جائز ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے بھی سودے بازی کی تھی۔ انس بن مالک ؓنے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک کمبل اور پیالہ بیچا اور کہا کہ کون ہے جو یہ پیالہ اور کمبل خرید لے؟ ایک شخص نے کہا "میں ایک درہم میں لیتا ہوں"رسول اللہ ﷺ نے کہا "کون ہے جو ایک درہم سے ذیادہ پر لے گا؟ کون ہے جو ایک درہم سے ذیادہ پر لے گا؟ "اس پر ایک شخص دو درہم دینے پر راضی ہوا اور رسول اللہ ﷺ نےان کو اس پر بیچ دیا۔

 

امام ترمذی ؒ نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے اور یہ کہ نیلامی سودا بازی ہے جس میں آخرکار قیمت کا تعین ہوتا ہے۔

 

عطاء بن خليل أبو الرشتة

17 ربيع الأول 1438هـ

الموافق 16/12/2016م

Last modified onجمعرات, 19 جنوری 2017 23:21

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک