الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب: قیدیوں پرتشدد کا حکم

سوال:
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته معزز شیخ،

ملزم سے اعترافِ جرم کرانے کی غرض سے تشدد کے بارے میں کیا حکم ہے جب کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر اس شخص کے ملوث ہونے میں شبہ پایا جائے؟خصوصاً جب یہ معلوم ہو کہ تشدد سے  کوئی بھی جرم تسلیم کرایا جا سکتا ہے۔ سوال کا دوسرا حصہ: کیا اعترافِ جرم کرانے کی خاطر ذہنی ادویات کا استعمال جائز ہے کیونکہ تشدد کے ذریعے ممکنہ موت بھی واقع ہو سکتی ہے؟

آپکا بھائی: جمعہ برو – ولایہ سوریہ

 

جواب:

وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته،

ملزم پر تشدد کرنا اسلام کی رو سے ایک سنگین  جرم اور اسکا مرتکب سزا کا مستحق ہے اور تشدد کے ذریعے اعتراف کرانے کی کوئی قانونی حیثیت بھی نہیں ہے۔مزید براں جرم ثابت ہونے کی صورت میں قاضی بھی تشدد کی سزا  نہیں دے سکتا بلکہ صرف اسلام میں مذکورہ سزائیں ہی دی جا سکتی ہیں۔ مزید وضاحت کے لئے مندجہ ذیل تفصیل ہے:

 

1- ہم نے دستور کی دفعہ نمبر13 میں مفصلاً ذکر کیا ہے کہ: "بر ی الذمہ ہونا اصل ہے عدالتی حکم کے بغیر کسی شخص کو سزا نہیں دی جا سکتی ، کسی بھی شخص پر کسی بھی قسم کا تشدد جا ئز نہیں ، جو اس کا ارتکا ب کر ے گا اس کو سزادی جا ئے گی ۔" اس دفعہ کی تفصیل میں درج ذیل کا ذکر ہے:
مسلم نے وائل  بن حجر سے روایت کیا ہے کہ


«جَاءَ رَجُلٌ مِنْ حَضْرَمَوْتَ وَرَجُلٌ مِنْ كِنْدَةَ إِلَى النَّبِيِّr، فَقَالَ الْحَضْرَمِيُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا قَدْ غَلَبَنِي عَلَى أَرْضٍ لِي كَانَتْ لأَبِي، فَقَالَ الْكِنْدِيُّ: هِيَ أَرْضِي فِي يَدِي أَزْرَعُهَا لَيْسَ لَهُ فِيهَا حَقٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِr لِلْحَضْرَمِيِّ: أَلَكَ بَيِّنَةٌ؟ قَالَ:  لاَ، قَالَ: فَلَكَ يَمِينُهُ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الرَّجُلَ فَاجِرٌ لا يُبَالِي عَلَى مَا حَلَفَ عَلَيْهِ وَلَيْسَ يَتَوَرَّعُ مِنْ شَيْءٍ، فَقَالَ: لَيْسَ لَكَ مِنْهُ إِلاَّ ذَلِكَ»

"رسول الله کے پا س ایک شخص حضر مو ت سے اور ایک شخص کندہ سے آیا۔حضرمی شخص نے کہا 'یا رسول اللهؐ! اس شخص نے  میر ے والد کی زمین پرقبضہ کر رکھاہے،'  کندی شخص نے کہا: 'یہ میری زمین ہے، میرے قبضے میں ہے اور میں ہی اس میں کھیتی باڑی کرتا ہوں، اور اس شخص کے پاس کوئی ثبوت بھی نہیں۔' رسول اللهؐ نے حضرمی شخص سے پوچھا: 'کیا تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے؟' وہ شخص بولا: 'نہیں'اس پر آپؐ نے کہا: 'پھر اسے حلف لینا ہوگا'،  وہ شخص بولا: 'اللہ کے رسولؐ یہ شخص تو فاجر ہے ، اسے قسم کی کوئی پرواہ نہیں اور کسی کا ڈر بھی نہیں۔' آپؐ نے فرمایا: 'تم اس قسم دینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکتے'"

 

البیھقی نے صحیح  اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے کہ

«البينة على المدعي، واليمين على من أنكر»

"دعویٰ کرنے والے پر گواہ ہے اور انکار کرنے والے پر قسم ہے۔" 

 

پہلی حدیث میں رسول اللہ ؐ نے دعویٰ کرنے والے کو گواہ کا پابند قرار دیا، اس کامطلب ہے کہ جس شخص پر الزام عائد کیا جا رہا ہے وہ بری ہے جب تک جرم ثابت نہیں ہوتا۔ دوسری حدیث میں رسول اللہ ؐ نے گواہی کے وجوب  کی حقیقت کو بیان کیا  کہ وہ مدعی پر ہےاور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مدعی علیہ اس وقت تک بری الذمہ ہے جب تک الزام ثابت نہ ہو۔

 

2- تاہم ملزم بری الذمہ ہے جب تک جرم ثابت نہ ہو جائے، لہٰذا اعترافِ جرم کی غرض سےکسی قسم کا بھی تشدد حرام ہو گا، اور اس کی صریح ممانعت پر مندرجہ ذیل دلائل ہیں:

 

i. اللہ تعالیٰ نے کسی مسلمان کو جسمانی ضرر پہنچانے سے منع فرمایا ہے اور اس کے مرتکب کے لئے سزا مقرر کی ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَاناً وَإِثْماً مُبِيناً

"اور جو لوگ ایمان لانے والے مردوں اور عورتوں کو بغیر کچھ کئےایذا پہنچاتے ہیں ،انہوں نے بہتان اور کھلا گنا اپنے سر لیا۔" (الاحزاب: 58)

ii. مسلم  نے ہشام بن حزم سے روایت کیا  ہے کہ وہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے سنا ہے کہ:

«إِنَّ اللهَ يُعَذِّبُ الَّذِينَ يُعَذِّبُونَ فِي الدُّنْيَا»

"اللہ ان لوگوں کو سزا دے گا جو دنیا میں لوگوں پرتشدد کرتے ہیں" 

iii. مسلم  نے ابو ہریرہ ؓسے روایت کیا  ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا، قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ۔۔۔۔ »

"دو طرح کے جہنمی لوگ میں نے ابھی تک نہیں دیکھے: ایسے لوگ جو  دوسروں پر کوڑے (گائے کی دم جیسے)برسائیں۔۔۔"

 

3-    مزید براں جبراً اعترافِ جرم کی کوئی قانونی حیثیت بھی نہیں کیونکہ یہ بیان اختیار سے نہیں لیا گیا۔

 

i. ابنِ ماجہ نے اپنی سنن میں ابو ذر غفاری سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا:

«إِنَّ اللَّهَ قَدْ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ، وَالنِّسْيَانَ، وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ»

"بیشک اللہ تعالیٰ نے میری امت کوخطا، بھول، اور مجبوری میں کئے گئے اعمال پر معاف فرما دیا ہے۔"

 پس کسی سے جبراً کچھ کرگزرنے کی کوئی سزا نہیں ہے۔

ii. الحاکم نے المستدرک میں دو آئمہ (مسلم اور بخاری) کی مسند میں ابنِ عباس ؓسے روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا:

«تَجَاوَزَ اللَّهُ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ، وَالنِّسْيَانَ، وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ»

"اللہ تعالیٰ نے میری امت کوخطا، بھول، اور مجبوری میں کئے گئے اعمال پر معاف فرما دیا ہے۔"

 

4- اس پر مزید یہ کہ اگر جرم مستندقاضی کے سامنے شرعی شواہد کی بنیاد پرصحیح طور پرثابت  بھی ہو جائے تب بھی صرف شرعی مقررکردہ سزائیں ہی دی جا سکتی ہیں نہ کہ ایسی سزا جس کو شریعت نے منع قرار دیا ہو۔مثلاً: ایسی سزا دینا جائز نہیں جو اللہ تعالیٰ نے آخرت میں دینی ہو، اس کی دلیل بخاری کی حدیث ہے جو ابو ہریرہ ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا:


»وَإِنَّ النَّارَ لا يُعَذِّبُ بِهَا إِلاَّ اللَّهُ«
"اور بیشک آگ  کا عذاب صرف اللہ ہی دے  سکتا ہے۔"

 

تاہم اگر ملزم پر مستند قاضی کے روبرو جرم ثابت ہو بھی جائے، تب بھی وہ آگ یا اس جیسی کوئی سزا جاری نہیں کر سکتا  جیسے بجلی  وغیرہ،اور نہ ہی ایسی سزا جو اللہ تعالیٰ نے آخرت کے لئے رکھی ہو۔ لہٰذا کسی کو آگ میں جلانا، ناخن نکالنا، بھویں نکالنا، بجلی  کا کرنٹ دینا، پانی میں ڈبونا، ٹھنڈا پانی ڈالنا، بھوکا رکھنا،سردی میں حفاظتی بندوبست نہ کرنا، اس طرح کوئی اور سزا دینا حرام ہے۔ بلکہ صرف وہ سزا ئیں دی جا سکتی ہیں جو شریعت نے مقرر کر دی ہیں ان کے علاوہ حکمران کے لیے کوئی اور سزا دینا منع ہے۔

لہٰذا تشدد کرنا بالکل جائز نہیں  اور جو کوئی اس کا ارتکاب کرے گا یہ شریعت کے منافی ہے اور ثابت ہونے پر سزا کا حقدار ٹھہرے گا۔

 

آپکا بھائی،

عطاء بن خليل أبو الرشتة

27 صفر 1438هـ

27/11/2016م

Last modified onجمعہ, 17 فروری 2017 21:25

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک