بسم الله الرحمن الرحيم
سوال و جواب
الحول (دورانیہ)
منجانب: کریم سیام
سوال:
السلام عليكم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
"الحول" ایک سال پر مشتمل نہیں ہوتا بلکہ یہ سال سے مختلف ہے اور یہ 10 مہینے اور 15 دن پر مشتمل ہوتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ﴾"اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس مہینے " (الاحکاف: 15) اگر ہم حمل کے نو مہینے نکال دیں تو باقی اکیس مہینے رہ جاتے ہیں یعنی "الحول" دس مہینے اور پندرہ دن کا ہوتا ہے، اس کا ذکر بھی قرآن میں آیا ہے: ﴿ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ﴾"مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں" (البقرہ: 233)۔
یعنی بچے کی ولادت کے اکیس ماہ تک ۔۔۔ اس بنیاد پر زکوۃ کا دورانیہ بھی 10 ماہ اور 15 دن ہو گا اور ہر 7 سال میں 8 مرتبہ زکوۃ دینا ہو گا۔
جواب:
وعليكم السلام و رحمۃ اللہ برکاتہ
لگتا ہے کہ سلام کے بعد آپ کوسوال شروع کرنے میں جلدی تھی! کوئی بات نہیں، ہم نے آپ کی جگہ سوال لکھ دیا ہے اور اس کا جواب بھی۔ اے کریم! کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ آپ سلام پہنچانے میں کنجوسی نہ کریں؟
میں نے آپ کے سوال کا جواب دینا دو وجوہات کی بنا پر مناسب نہیں سمجھا تھا: اولاً، "الحول" کا مطلب لغت اور شریعت میں حتمی طور پر ایک سال ہے۔ دوم، آپ نے جواب حاصل کرنے کی غرض سے سوال ہی نہیں کیا بلکہ جواب خود ہی دینے کی کوشش کی ہے یعنی "الحول" 10 ماہ اور 15 دن کو تصور کرکے زکوۃ کی عبادت کو بھی اسی سے منسلک کر لیا جیسے کہ سوال سے ظاہر ہے۔
مگر کچھ تدبر کے بعد میں نے سوال کے جواب دینا مناسب سمجھا تاکہ آپ کا سوال کچھ لوگوں کو شک میں مبتلا نہ کر دے، تاہم اللہ کی توفیق سے میرا جواب یہ ہے:
1۔ لغت میں "الحول " کا مطلب ایک سال ہےاور یہ بات مشہورہے۔ کچھ ڈکشنری کی کتب بغیر کسی وضاحت کےاس (الحول ) کا استعمال بطورایک سال کے کرتی ہیں کیونکہ اس کا معنی حتمی طور پر ایک سال ہی جانا جاتا ہے۔ میں آپ کی خاطر کچھ لغت کی کتب کے حوالہ جات درج کرتا ہوں جن میں اس (الحول ) کا تذکرہ ہے:
- لسان العرب – (العامُ: الحَوْلُ يأْتي عَلَى شَتْوَة وصَيْفَة، وَالْجَمْعُ أَعْوامٌ)
"العامُ (ایک سال) الحَوْلُ(دورانیہ) ہے جس میں سردی اور گرمی آتی ہے، اس کی جمع أَعْوامٌ ہے۔"
- الصحاح تاج اللغة وصحاح العربية – (والحَوْلُ: السنةُ۔۔۔)
"الحَوْلُ (دورانیہ) ایک سال ہے " - القاموس المحيط – (الحَوْلُ: السَّنَةُ، ج: أحْوالٌ وحُؤولٌ وحُوُولٌ.)
"الحَوْلُ (دورانیہ) ایک سال ہے ، اس کی جمع أحْوالٌ یا حُؤولٌ یا حُوُولٌ ہے "
- تاج العروس - (حَوْلُ: السَّنَةُ اعتِباراً بانقلابِها ودَوَرانِ الشَّمس فِي مَطالِعهاومَغارِبها)
"حَوْلُ (دورانیہ) ایک سال ہے جو لوٹتا ہے اور جو سورج کے مدار میں مشارق اور مغارب کا چکر کاٹتا ہے"
- القاموس الفقهي- (الحول: السنة.)
"الحَوْلُ (دورانیہ) ایک سال ہے "
2۔ چونکہ قرآن ایک واضح عربی زبان میں ہے اس کی تفسیر بھی عربی میں ہی ہو گی، مندرجہ ذیل تفاسیراس کی وضاحت بیان کرتی ہیں:
- تفسير الطبري: جامع البيان ت شاكر (5/ 31)
" ابو جعفر نے کہا: جہاں تک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قول ﴿حَوْلَيْنِ﴾ کا تعلق ہے، اس کا معنیٰ ہے دو سال۔ محمد بن عمرو نے مجھے بتایا کہ ابو عاصم نے ہمیں بتایا اور کہا کہ عیسیٰ نے ابن ابی نجیح نے مجاہد سے روایت کیا کہ ﴿وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ﴾"مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں" (البقرہ: 233) یعنی دو سال۔
- ·الزجاج کی کتاب:معاني القرآن وإعرابه (1/ 312)
"﴿حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ﴾ کا معنیٰ پورے 24 مہینے ، بچے کی ولادت سے لے کر دودھ چھڑانے تک"
- ·تفسيرالبغوي: طيبة (1/ 277)
" اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان: ﴿حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ﴾ یعنی پورے دو سال، اور یہاں تکمیل کا ذکر تاکید کی وجہ سے ہے"
3۔ اور جہاں تک آپ کے اس آیت :
﴿وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا﴾"اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس مہینے " (الاحکاف: 15)
کے بارے میں استدلال ہے کہ کیونکہ حمل 9 مہینے پر مشتمل ہوتا ہے تو دودھ چھڑانا21 مہینے میں ہو گا، لہذا آپ کا حَوْلَيْنِ ( دو حَوْلَ)کے بارے میں یہ تصور کہ وہ بھی 21 مہینے پر مشتمل ہوگا، جیسے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ﴾
"مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں اگر تم پوری رضاعت کی مدت تک دودھ پلانا چاہو۔" (البقرہ: 233)
آپ نے سمجھنے اور استدلال میں غلطی کی ہے۔ آپ نے تصور کیا کہ حمل صرف 9 مہینے کا ہی ہوتا ہے جو ایک غلط فہم ہے، کیونکہ حمل 6، 7، 8 اور 9 مہینے کا ہو سکتا ہے۔ مگر الحَوْلَ پورے 12 مہینے پر مشتمل ہوتا ہے۔ لہذا ان دو آیات کی تفسیر درج ذیل ہو گی:
﴿وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ﴾
"مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں" (البقرہ: 233)
یعنی مائیں پورے دو حَوْلَ (24 مہینے) دودھ پلا سکتی ہیں، جہاں تک اس آیت کا تعلق ہے:
﴿وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا﴾
"اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس مہینے " (الاحکاف: 15)
یعنی حمل کم سے کم 6 مہینے کا ہو سکتا ہے کیونکہ دودھ پلانے کی مکمل مدت 24 مہینے ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ حمل کا کم سے کم وقت 30-24=6 مہینے ہوا۔ یہ موضوع علماء میں مشہور ہے اور اس میں کوئی اختلاف بھی نہیں۔
4۔ لہٰذا آپ نے درست نہیں سمجھا اور استدلال میں غلطی کی ہے۔ آپ نے حَوْلَ کو تبدیل کر دیا جو کہ ایک متعین چیز ہے اور اس کے برعکس تبدیل ہونے والے حمل کے وقت کو مقررہ سمجھا۔ تاہم آپ نے آیت کے مفہوم کو ہی الٹ کر دیا اور سمجھا کہ حَوْلَ 10 مہینے اور 15 دن کا ہوتا ہے جو صرف خطا ہی نہیں بلکہ غلط تصور ہے ۔
میرے خیال میں یہ مسئلہ اب واضح ہو گیا ہے، اللہ آپ کی ہدایت کے راستے میں رہنمائی کرے۔
آپ کا بھائی
عطاء بن خليل ابو الرشتہ
10 جمادى الثانی 1438 ہجری
09/03/2017