بسم الله الرحمن الرحيم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال و جواب
میں کفر اور شرک سے کیسے بچ سکتا ہوں کہ موت بحالتِ مسلمان ہو؟
اسلام زیدن
سوال:
اسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
میں کفر اور شرک سے کیسے بچوں کہ موت بحالتِ مسلمان ہو؟ کیونکہ اپنے اعمال کے حوالے سے بدترین نقصان کرنے والوں میں سے نہیں ہونا چاہتا۔ کیا کفر صرف عمل کا نام ہے یا کہ قول یا پھر یقین ہے؟
برائے مہربانی جواب سے مطلع فرمائیں اللہ سبحانہ و تعالٰی کی رحمت آپ پرہو۔
جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
آپ کا سوال دوہرا ہے
اولاً: کوئی کفر اور شرک سے کیسے بچ سکتا ہے کہ اس کی موت بحالتِ مسلمان ہو؟
دوئم:کفر کیا عمل ہے کہ قول یا پھر یقین؟
ہم دوسرے سوال سے جواب شروع کریں گے کہ پہلے سوال کا جواب اسی میں پنہاں ہے۔۔۔۔
سوال کے دوسرے حصے کا جواب یوں ہے:
عقیدہ اور ایمان ہم معنی ہیں اور اُس قطعی یقین(تصدیق) کو کہتے ہیں جو کے حقیقت کے مطابق ہو اور دلیل کے ساتھ اختیار کیا گیا ہو اور جس کا مسکن دل ہے۔ اس کا تعلق قطعی یقین(تصدیق) نا کہ محض یقین(تصدیق) کے ساتھ ہے اور یہ کہ حقیقت کے مطابق ہو اور دلائل کے ساتھ ہو تاکہ دل کے اندر گہری جڑوں کے ساتھ براجمان ہو تبھی کوئی مؤمن ہو گا۔ کفر کا ٹھکانہ بھی دل ہی ہے کیونکہ اس کا تعلق تصدیق کے ساتھ اور تصدیق کا محل دل ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
قَالَتِ الْأَعْرَابُ آَمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُم
” دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے۔کہہ دیجیے کہ تم ایمان نہیں لائے (بلکہ یوں) کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا“(الحجرات: 14)۔
ایسا اس لیے کہا گیا کیونکہ ان کی تصدیق ابھی ان کے دلوں میں اتری نہیں تھی۔
وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ
"لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تمہارے لیے ایمان کو عزیز بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں سجا دیا۔ کفر اور گناہ اور نافرمانی سے تم کو بیزار کردیا۔ یہی لوگ راہ ہدایت پر ہیں"(الحجرات: 7)۔
مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌعَظِيمٌ
"جو کوئی ایمان لانے کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ کفر کرے،وہ نہیں جسے (کفر پر زبردستی) مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو بلکہ وہ جو (دل سے اور) دل کھول کر کفر کرے۔ تو ایسوں پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا غضب ہے اور ان کو بڑا سخت عذاب ہو گا"(النحل: 106)۔
چنانچہ ایمان اور کفر کا دارومداردل کی قبولیت اور یقین ہے نا کہ قول یا فعل۔ ایسا اس لیے کہ قول اور عمل اعضاء اور زبان سے ہوتے ہیں جو کہ ہرگز دل کی تسلیم ورضا کے مصداق نہیں۔ لیکن اس سلسلے میں دو باتیں توجہ طلب ہیں:
1-قول اور فعل ایمان نہیں مگر ایمان پر دلالت کرتے ہیں، اس صورت میں یہ قول اور فعل ایمان کا حکم رکھیں گے اور انہیں کی بنیاد پر کوئی ایمان سے عاری ہو سکتا ہے(نقص ایمان پر منتہج ہونگیں)۔ ایک مسلمان چار معاملات میں اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے:
ا-اعتقاد کے ذریعے: جیسے کہ اسلام کے علاوہ کچھ اور عقیدہ رکھنا۔ مثال کے طور پر حضرت محمد ﷺ کے بعد کسی کی رسالت کا عقیدہ رکھنا جیسے کہ غلام قادیانی کی رسالت کا عقیدہ رکھنا تو پھر ایسے فرد نے کفر کیا کیوں کہ اس کا دل اسلام کے علاوہ پر ٹہرا ہوا ہے۔
ب-شک کرنا: یعنی اسلام کی حتمی تعلیمات میں شک کرنا۔ جیسے کہ اگر کوئی رسول اکرم محمد ﷺ کی رسالت پر شک کرے تو ایسا کرنے والا کافر ہے کیونکہ اس کے دل میں رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر اعتقاد نہیں رہا۔
ج-ایسا قول جو کسی عقیدہ کی طرف اشارہ کرتا ہو جیسے کہ کوئی خالق کا وجود سے انکار کرے یا قرآن کے حرفِ خدا ہونے سے انکار کرے تو ایسا بولنے والا کوئی بھی اپنے قول کی بنیاد پر کافر ہوا۔ ہاں اس بات کا لحاظ رہے کہ ایسے قول میں تاویل کی گنجائش نا ہو بلکہ انکار صریح اور قطعی ہو۔
د-عمل جو کہ کسی عقیدہ کی دلالت کرتا ہو: جیسے کہ کسی بت کو سجدہ کرنا، عیسائی یا یہود کی عبادات کی طرح عبادت کرنا وغیرہ تو پھر ایسے اعمال اپنے کرنے والے کے عقیدے پر دلیل ہیں۔ تو پھر جس نے بھی کسی بت کو سجدہ کیا یا یہود و نصاریٰ کے طریقہ پر عبادت کی تو اس نے کفر کیا کیونکہ ایسا عمل اسلام سے متناقض عقیدہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
یہی چار صورتیں ہیں جن میں ایک مسلمان کافر ہو جائے گا۔ جہاں تک اسلام سے ہٹ کر بات پر اعتقاد یا اسلام میں حتمی معاملات پر شک کی بات ہے تو یہ بات ظاہر ہے کہ یہ دونوں صورتیں دل سے تصدیق سے متعلق ہیں۔ حالانکہ اعمال اور اقوال دل سے صادر ہونے والے افعال میں سے نہیں ہیں بلکہ اعضا اور زبان کے افعال ہیں لیکن چونکہ یہ اعمال اور اقوال ان افعال سے متعلق ہیں جو کے دل سے صادر ہوتے ہیں اور اشارہ کررہے ہوتے ہیں اس اعتقاد کی طرف جو دل میں ہے۔ اسی لیے درج بالا امثال کے لیے وہی حکم ٹہرا جو کہ اعتقادی معاملات کے لیے تھا۔ باقی تمام ایسے اقوال اور افعال جو اپنے کرنے والے کے عقیدے پر دلالت نہیں کرتے ایمان اور کفر کی بحث سے جدا رہیں گے مثلاً کسی مسلمان کا حالتِ اسلام میں گناہ کر جانا۔ پس مسلمان اسی بات پر ہمیشہ عمل پیرا رہے کہ کسی سے گنا سرزد ہو جانے پراس پر کفر کا معاملہ نہیں کیا گیا سوا اس کے کہ وہ رد پر مبنی ہو۔ مثلاً اگرکوئی روزہ کی فرضیت کا منکر ہو کر روزہ نا رکھے۔ ایسی صورتحال کفر کی ہے۔ جبکہ وہ بندہ جو روزہ تو نا رکھ رہا ہو مگر اس کی فرضیت مانتا ہے تو ایسا فرد گناہگار ہے کافر نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ،
إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِأَخِيهِ يَا كَافِرُ فَقَدْ بَاءَ بِهِ أَحَدُهُمَا
"جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کافر بولے تو(یہ خطاب) دو میں سے ایک کے لیے رہے گا"۔
اس کی روایت امام بخاریؒ نے ابوہریرہؓ سے کی۔ امام احمدؒ نے ابن عمرؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ، مَنْ كَفَّرَ أَخَاهُ فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا"جس نے بھی اپنے بھائی کی تکفیر کی تو دو میں سے ایک پر درست ٹھرے گی"۔
2- قطعی تصدیق (تصدیق الجازم) لسانیت میں (commitment) کے لیے قرینہ ہے اوریہ کہ زبان دل کے ساتھ متفق رہے اور کسی ایسی بات کا انکار نا کرے جس پر قطعی یقین ہے۔ تو پھر اس اعلان کے بعد کہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہوں مکمل وثوق کے ساتھ اس بات کا اقرارکرتا ہوں کہ وہی کائنات کا خالق ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور ساتھ ہی یوں نہیں کہہ سکتا کہ (ناعوذباللہ) اللہ سے غلطی ہوئی یا اس کا کوئی شریک ہے یا یہ کہ وہ خالق نہیں۔ یا پھر اللہ جو خالق کائنات ہے کی فرض کی ہوئی کسی ایسی ذمہ داری کا منکر ہو جائے جس کی اللہ کی طرف سے فرضیت قطعاً ثابت ہو، جیسے کہ اگر کوئی اللہ پر ایمان کا اقرار کرے مگر نماز یا روزوں یا ضروریاتِ دین میں سے کسی بات کا منکر ہو تو ایسا فرد کافر ہو جاتا ہے کیونکہ اس نے اس بات کا انکار کیا جو اللہ کے احکامات میں سے قطعی ثابت ہے۔
ایسے ہی ابلیس نے کفر کیا،اللہ کی لعنت اس پر ہو، اس نے اللہ کے حکم کی صحت کا انکار کیا جب اسے آدم ؑکو سجدہ کرنے کا حکم ملا حالانکہ اسے اللہ کی موجودگی پرایمان تھا۔ چونکہ اس نے اللہ کے حکم کی صحت کا انکار کیا تھا اس پر اللہ نے فرمایا:
قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ
"(اللہ نے) فرمایا جب میں نے تجھ کو حکم دیا تو کس چیز نے تجھے سجدہ کرنے سے باز رکھا۔اس( شیطان) نے کہا کہ میں اس سے افضل ہوں۔ مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے بنایا ہے"(الاعراف: 12)
شیطان نے اللہ کے سجدہ کرنے کے حکم کو غلط ٹہرایا۔ ابلیس، اللہ کی لعنت اس پر ہوِ، سمجھا کہ صحیح یہ ہے کہ آدم اسے سجدہ کرے نا کہ وہ آدم کو سجدہ کرے چنانچہ انکار کر گیا، اللہ کی لعنت ہو اس پر، اللہ کے حکم کی صحت کا اسی وجہ سے کافر مجرمین میں سے ٹہرا۔ اسی طرح وہ جن کے دلوں میں موسیٰؑ کی لائی آیات کی صحت پر تو ایمان تھا مگرزبانوں سے اس کا انکار کیا اور ان کو جادو جانا تو انہوں نے کفر کیا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ
"اور بے انصافی اور غرور سے ان سے انکار کیا لیکن ان کے دل ان کو مان چکے تھے۔سو دیکھ لو فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا"(النمل: 14)
خلاصہ:
کفر کی اصل یقین ہے (اسلام کے علاوہ پر) جوکہ قول یا فعل نہیں ہے سوائے اس کے کہ یہ کسی ایسی بات کے انکار یا قبولیت پر دلالت کریں جو اسلام سے قطعی طور پر جانی والی باتوں میں سے ہو۔
ایسی صورت میں میں ایسے اقوال و افعال پر ایمان کے احکام لاگو ہوں گے اور کرنے والا کافر ہو گا۔ معاذاللہ
سوال کے پہلے حصے کا جواب:
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کوئی کفر اور شرک سے کیسے بچے اور اس کی وفات حالت اسلام پر ہو اس حوالہ سے دو بنیادی باتیں ہیں۔
1۔ عقیدہ کو درست طریقے سے لیا جائے یہ ہی قرآن مجید اوررسول اقدس ﷺ کی سنت مطہّر میں ہے۔ ان میں اہم ترین عمور کے خلاصے کو درج ذیل نقات میں بیان کیا جاتا ہے۔
ا۔ایمان یقین کے ساتھ قائم کیا جائے نا کہ ظن کے ساتھ ۔ یعنی کہ وہ دلائل جو کسی درپیش معاملے کی طرف نشاندہی کریں وہ اپنے ماخذ اور تشریع میں غیر متنازع فیہ ہوں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ لَيُسَمُّونَ الْمَلَائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثَى * وَمَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا
"جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے وہ فرشتوں کو(اللہ کی) لڑکیوں کے ناموں سے موسوم کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کو اس کی کچھ خبر نہیں۔ وہ صرف ظن پر چلتے ہیں۔ اور ظن یقین کے مقابلے میں کچھ کام نہیں آتا" (النجم: 27-28)۔
چنانچہ عقائد کے معاملات میں ظن کافی نہیں بلکہ مطلق قطعیت درکار ہے۔
ب۔ عقائد کے معاملات میں عقلی استدلال صرف ان صورتوں تک محدود رہے گا جن کی جانچ حسی احساس کے تابع ہے۔ جیسے کہ اللہ سبحان و تعالیٰ کی مخلوقات کا ادراک۔ اور وحی منصوصہ سے نقلی دلائل ان تمام معاملات کا احاطہ کریں گے جو مغیّبات میں سے ہیں اور انسانی حسوں کی دسترس سے باہر ہیں۔ اور جو نصوص میں درج آیا ہے اسی پر اکتفا کرنا اور اسے اسلامی عقائد سے متعلق مباحث اور فلسفوں سے پاک رکھا جائے۔ بلکہ عقیدہ بنانا جہاں عام فہم اور سادہ ہو وہی گہرا اور مستنیرہ ہو بلکل اسی طرح جیسے کے رسول اللہ ﷺ کے اصحاب اکرامؓ نے ایمان کو سمجھا تھا۔
- مخلوقات پر سوچ بچار، غوروفکر اور مشاہدہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچنا کہ ان کا ایک خالق موجود ہے۔ اللہ قادرِمطلق فرماتے ہیں:
أَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ * وَإِلَى السَّمَاءِ كَيْفَ رُفِعَتْ * وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ * وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ
" یہ لوگ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتےکہ کیسے (عجیب)پیدا کیے گئے ہیں۔ اور آسمان کی طرف کہ کیسا بلند کیا گیا ہے۔ اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح کھڑے کیے گئے۔اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی" (الغاشیہ:20-17)
اور فرمایا کہ:
أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ* أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بَلْ لَا يُوقِنُونَ
"کیا یہ کسی کے پیدا کیے بغیر ہی پیدا ہو گئے ہیں۔ یا یہ خود (اپنے تئیں) پیدا کرنے والے ہیں۔ یا انہوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟ (نہیں) بلکہ یہ یقین ہی نہیں رکھتے" (الطور:7)
اور فرمایا:
وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِلْمُوقِنِينَ * وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ
"اور یقین کرنے والوں کے لیے زمین میں(بہت سی) نشانیاں ہیں۔ اور خود تمہارے نفوس میں تو کیا تم دیکھتے نہیں؟" (الذاریات:21-20)
وہ قرآن پاک کی آیات پر غورو خوض کرتا ہے جو اس کی دسترس میں ہیں جنہیں اللہ نے اس کے لیے آسان بنا دیا:
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ
"اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان کر دیا ہے تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟" (القمر: 17)
اور ایمان لاتا ہے اس میں موجود ظاہر اور غائب پر اور ہمارے حواس کی پہنچ سے باہر مغیبات پر بحث نہیں کرتا بلکہ ان پر ایمان لاتا ہے جیسے کہ وحی میں مذکور آیا۔ وہ اللہ کی ذات مبارک میں بحث سے مکمل پرہیز کرتے ہوئے اللہ کے ان ناموں پر ایمان لاتا ہے جیسے وحی میں سکھائے گئے۔
لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ
"وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں لیکن وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے اور وہ بھید جاننے والا خبردار ہے "(الانعام: 103)
اور تمام مغیّبات پر ایمان لاتا ہے: یوم آخرت پر، جنت پر، جہنم پر وغیرہ۔ بغیر کسی کمی بیشی کے صرف ان تفصیلات کی حد تک اپنے آپ کو روکے رکھتا ہے جن کا ذکر قرآن میں اور سنت صحیحہ میں آیا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
تِلْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هَذَا فَاصْبِرْ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ
"یہ (حالات) منجملہ غیب کی خبروں کے ہیں جو ہم تمہاری طرف بھیجتے ہیں۔ اور اس سے پہلے نہ تم ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم (ان سے واقف تھی)، تو صبر کرو انجام پرہیزگاروں ہی کا (بھلا) ہے" (ھود: 49)
اور فرمایا:
قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ
"کہہ دو کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے۔ اور نہ یہ جانتے ہیں کہ کب (زندہ کر کے) اٹھائے جائیں گے" (النمل: 65)
2۔ ایک مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی نصبت اپنی نیتوں میں مخلص اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ سچا ہو نا چاہیے۔ اللہ ہی پر انحصار کرتا ہے اور اس کی دی ہوئی ہدایت سے ہدایت حاصل کرتا ہے۔ اسی کا ڈر رکھتا ہے ، ظلم اور حکم عدولی سے بچتا ہے اور اللہ ﷻ سے دعا گو رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے حق اور ایمان پر غیر متزلزل رکھے۔ جیسے کے امام ترمذی کی سنن میں انسؓ سے روایت میں آیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ اکثر کہا کرتے تھے، يَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ"اے دلوں کے پلٹنے والے میرے دل کو اپنے دین پر پکا کر دے"۔ تو پھر اللہ تعالیٰ، اپنے اذن سے، اپنے مضبوط قول سے مضبوط ہی رکھے گا۔
يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ
"اللہ مؤمنوں (کے دلوں) کو(صحیح اور) پکی بات سے دنیا کی زندگی میں بھی مضبوط رکھتا ہے اور آخرت میں بھی (رکھے گا) اور اللہ بے انصافوں کو گمراہ کر دیتا ہے اور اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے" (ابراہیم: 27)
اور جتنا کوئی اپنے تقوی، اخلاص اور حقانیت میں بڑھے گا اللہ اس کے معاملات میں اتنی ہی آسانی پیدا فرمائے گے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى * وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى * فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى * وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى * وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى * فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى * وَمَا يُغْنِي عَنْهُ مَالُهُ إِذَا تَرَدَّى * إِنَّ عَلَيْنَا لَلْهُدَى * وَإِنَّ لَنَا لَلْآخِرَةَ وَالْأُولَى
"تو جس نے (اللہ کے رستے میں مال) دیا اور پرہیزگاری کی۔ اور نیک بات کو سچ جانا۔ اس کو ہم آسان طریقے کی توفیق دیں گے۔ اور جس نے بخل کیا اور بے پروا بنا رہا۔ اور نیک بات کو جھوٹ سمجھا۔ اسے سختی میں پہنچائے گے۔اور جب وہ (دوزخ کے گھڑے میں) گرے گا تو اس کا مال اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔ ہمیں تو راہ دکھا دینا ہے۔ اور آخرت اور دنیا ہماری ہی چیزیں ہیں"(اللیل:13-5)
3- آخر میں سوال کرنے والی کی توجہ اس امر کی طرف مبزول کرانا چاہتا ہوں کہ مسلمان وہ ہے جو اسلام کے عقیدہ پر یقین اور ایمان رکھتا ہے جو کہ اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رُسل اور انبیاء پر، یومِ آخرت پر اور قضاء اور قدراور اس میں خیر یا شر کے من جانب اللہ ہونے پر ایمان اور یقین رکھنا ہے۔ جیسے کہ اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا آَمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآَخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا
"مومنو! اللہ پر اور اس کے رسول پر اور جو کتاب اس نے اپنی پیغمبر (آخرالزماں) پر نازل کی ہے اور جو کتابیں اس سے پہلے نازل کی تھیں سب پر ایمان لاؤ۔ اور جو شخص خدا اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے پیغمبروں اور روزقیامت سے انکار کرے وہ رستے سے بھٹک کر دور جا پڑا"(النساء: 136)۔
اور جیسا کہ رسولِ اکرم ﷺ کی حدیث میں ہے جسے امام بخاریؒ نے ابو ھریرہؓ سے اور امام مسلمؒ نے عبداللہؓ ابن عمرؓ سے روایت کی اور امام مسلمؒ سے روایت کی گئی حدیث کے الفاظ یوں ہیں کہ عبداللہؓ ابن عمرؓ نے کہا کہ میرے والد عمرابن خطاب نے مجھ سے کہا کہ ایک بار ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ اسی اثنا ایک شخص وہاں حاضر ہوا جو بہت سفید لباس میں ملبوس اور بہت سیاہ بالوں والا تھا۔ نہ تو اس پر کوئی سفر کے آثارنظر آتے تھے اور نہ ہی اسے ہم میں سے کوئی جانتا تھا یہاں تک کہ وہ نبی ﷺ کی طرف رخ کر کے بیٹھ گیا۔ اس نے اپنے دونوں گٹھنے آپ ﷺ کے دونوں گھٹنوں سے لگا د یئے اور اپنے دونوں ہاتھ دونوں رانوں پر رکھے اور پھر کہا کہ اے محمد ﷺ! مجھے اسلام کے بارہ میں (کچھ) بتایئے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا"اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور یہ کہ تم نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو اگر تم وہاں جانے کی طاقت رکھتے ہو۔ اس نے کہا آپ ﷺ نے ٹھیک کہا۔ حضرت عمرؓ نے کہا ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ وہ (خود) ہی آپ ﷺ سے سوال کرتا ہے اور (خود) ہی اس کی تصدیق کرتا ہے۔ پھر اس نے کہا مجھے ایمان کے بارہ میں بتایئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ، أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ"(ایمان یہ ہے کہ) تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اور آخری دن پر اورقدر اور اس کے خیر اور شر پر ایمان لاؤ"۔ اس نے کہا کہ آپ ﷺ نے ٹھیک فرمایا۔ پھر اس نے کہا مجھے احسان کے بارے میں بتایئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ، أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ"(احسان یہ ہے کہ) تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو۔ اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں یقیناً دیکھ رہا ہے"۔ پھر اس نے کہا مجھے اس گھڑی کے بارہ میں بتایئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس سے اس متعلق پوچھا جا رہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ پھر اس نے کہا کہ مجھے اس کی کوئی نشانی بتایئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ لونڈی اپنے مالک کو جنے گی اور تم دیکھو گے کہ ننگے پاؤں، ننگے بدن، محتاج اور بکریاں چرانے والے بلند وبالا عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے۔ انہوں نے کہا پھر وہ چلا گیا۔ میں کچھ دیر وہاں رہا توآپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ، يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟" اے عمرؓ! کیا تم جانتے ہو کہ یہ پوچھنے والا کون تھا؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ، فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ" یہ جبرائیلؑ تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے تمہارے پاس آئے تھے"۔
اختتاماً، میں دعا گو ہو کہ سوال کرنے والے کو اللہ رب العزت اپنی عبودیت میں اور اپنے رسول ﷺ کی اطاعت میں گزری اچھی زندگی عطا کرے۔ دونوں جہاں کی کامیابی عطا کرے اور واقعتاً یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔
آپ کا بھائی
عطا بن خلیل ابو الرشتہ
3 شعبان 1438 ہجری
30 اپریل 2017
ختم شد