الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب

نیٹ ورک مارکیٹنگ

(Network Marketing)

 

عبد الحمید فواگرہ اور عمار اویس کے سوال کا جواب

 

عبد الحمید فواگرہ کا سوال:

السلام علیکم ، میں نیٹ ورک مارکیٹنگ (network marketing) سے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں۔

میرے ایک دوست نے  مجھے ایک نئی نوکری   کے لیے دعوت دی،جس میں مجھے  پہلے سے زیادہ تنخواہ ملے گی۔ کام کی نوعیت انٹرنیٹ پر آن لائن ہے ۔ میں نےزُوم سافٹ ویئر پر چند تعارفی ملاقاتیں کیں، ملاقاتوں کا مقصدنوکری کا تعارف اور موجودہ حالات کے پیش نظر، بالخصوص کورونا وبا کی صورت حال میں ہماری  اضافی آمدنی کی ضرورت تھا ،نیز اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے کہ تمام کاروباری معاملات اب بلواستہ اور الیکٹرانک ذرائع پر منتقل ہوچکے ہیں۔

 


نوکری " جنیسز کاسمٹیکس"(Genesis Cosmetics (اور "میڈیکل کمپنی"  کے ساتھ ہے،جس میں ہر شخص کی ایک آن لائن  دکان  یا آن لائن اکاؤنٹ    ہو گا،وہ شخص کچھ اشیاء خریدے گا جن کی قیمت کم از کم ایک ہزار ڈالر سے دو ہزارڈالرکے درمیان ہو گی،جس کی ادائیگی بینک کے ذریعے کی جاتی ہے، پھر آپ  کو گھر پر وہ اشیاء موصول ہوجاتیں ہیں۔ کام کا طریقہ کار یہ نہیں کہ جواشیاء میری ملکیت میں آئی ہیں ان کی فروخت یا تشہیر  کروں ،یا انٹرنیٹ کے ذریعے اسے بیچوں ،  جو کہ ایک روایتی طریقہ ہے ،بلکہ کام یہ ہے کہ   دیگر افراد کو اس کی ترغیب دی جاتی ہےاورانھیں اس کام میں شریک کرنے کا کام کیا جاتا ہے ،اور ایک ٹیم بنائی جاتی ہے۔نیز نئے آنے والوں کو اس کام کے لیے قائل  کرنا ہوتا ہے  اور بڑے خاندان، رشتہ داروں عزیز و اقارب  اور دوستوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کے ساتھ رابطہ کرنے والی ویب سائٹ کے ذریعے اس حوالے سے بات چیت کرنا ہوتاہے اور  زُوم پر ان کو ملاقاتوں میں لاکرشریک کرنا ہوتا ہے،اسی طرح اس شعبے کے پرانے  اور تجربہ کار لوگوں کے ساتھ ملاقاتیں کرنا ہوتی ہیں، جنہوں نے خاصہ منافع حاصل کیا ہوتا ہے۔

 

منافع  اس کمیشن کے ذریعے حاصل ہوتا ہے جو آپ ہر نئے  ساتھی کی شمولیت پر وصول کرتے ہیں، جس نے پہلا قدم اٹھانا ہوتا ہے یعنی اشیاء کی خریداری جو عموماً اس کے ذاتی استعمال کے لیے ہوتی ہے۔آپ جتنا زیادہ دوسرے ساتھیوں کو شامل کرتے رہیں گے اور ممبران کی اس لڑی میں اضافہ کرتے رہیں گے ، اتنا ہی زیادہ کمیشن وصول ہوگا۔

 

اسی طرح آپ جن کو دعوت دیتے ہیں ، وہ دیگر لوگوں کو دعوت دیں گے ،اس طرح وہ بھی کمیشن وصول کرتے ہیں،اور آپ کو بھی  ہر نئے شامل ہونے والے ممبر پر اصل کمیشن کے ساتھ اضافی کمیشن بھی ملتا ہے، یوں یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہے ،کمیشن  کا تخمینہ 35 امریکی ڈالر ہے۔

یوں جیسے جیسے ٹیم میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، مجھے مزید رعایت، کمیشن اور نئےپوائنٹ  وصول ہوں گے،اورمنافع بڑھتا جاتا ہے،جو کہ دعوت دینے والے کے مطابق دومہینوں میں چار ہزار ڈالر تک پہنچ جاتا ہے۔

 

مجھے اس معاملے  میں اور اس کے جواز میں شک نظر آتا ہے، پس میرا پہلا سوال یہ ہے کہ اس کام سے متعلق شریعت کا موقف کیا ہے؟ اور علماء و مشائخ کی رائے کیا ہے؟ اُمید ہے کہ آپ  اس پر روشنی ڈال کر مستفید فرمائیں گے۔ سوال لمبا ہونے پر معذرت خواہ ہوں۔ 

 

عمار ابو اویس کا سوال:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،امید ہے کہ مندرجہ ذیل موضوع سے متعلق مجھے جلدی جواب دیدیں گے،وجزاکم اللہ خیراً۔

حال ہی میں e-commerceیا آن لائن تجارت  ، بالخصوص نیٹ ورک مارکیٹنگ ، کو کافی رواج ملا ہے، اس  کےجائز اور ناجائز ہونے کے حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ نیٹ ورک مارکیٹنگ کے بارے میں کیاحکم ہے؟ میں پہلے کمپنی کے طریقہ کار کو واضح کردیتا ہوں،تاکہ معاملہ واضح ہو جائے۔ سب سے پہلے  جو شخص اس کاروبار میں شامل ہونا چاہتا ہے ، کمپنی اسے شروع میں ویب سائٹ پر اپنی ایک شناخت (ID) بنانے کے لیے مخصوص مقدار کی رقم ادا کرنےکا کہتی ہے ، اور یہ اس کے لیے ایجنسی کا اجازت نامہ ہوتا ہے۔شناخت بنانے کا خرچ کمپنی اٹھاتی ہے، چنانچہ کمپنی  اس کام کےلیے اس شخص سے رقم لیتی ہے۔شامل ہونے کے بعد کام کچھ اس طرح شروع ہوتا ہے کہ کام کے دو حصے  ہوتے ہیں ۔پہلے حصے میں ایجنٹ اشیاء کی تشہیراورفروخت کا کام شروع کرتا ہے،اشیاء پہلے سے معلوم اورحقیقی ہوتی  ہیں ، اس میں کوئی دھوکہ نہیں ہوتا ،ایجنٹ اپنا ہدف ایک کمیشن کے بدلے  حاصل کرتاہے جو ان اشیاء کو فروخت کرنے کے نتیجے میں کمپنی اس ایجنٹ کو ادا کرتی ہے،ملحوظ رہے کہ  ایجنٹ  خریداروں کی معلومات کمپنی کو ارسال کرتا رہتا ہے، اور کمپنی ان خریداروں کواشیاء ترسیل کرتی ہے اور اپنے ایجنٹ کوایک شرح کے حساب سے کمیشن دیتی ہے، جبکہ ایجنٹ ان اشیاء کا مالک نہیں ہوتا ، کیونکہ وہ کمپنی کے لیے تشہیر کا کام کرتا ہے نہ کہ اشیاء بیچنے کا کام ۔ یہ تو ہوئی ایک بات، دوسری بات جو بہت اہم ہے ،وہ یہ کہ ایجنٹ کمپنی  کی بھی تشہیر کرتا ہے اور دیگر خریدار لاتا ہےجو اس کے تحت دائیں بائیں لڑیوں کی شکل میں بڑھتے جاتے ہیں ،اگر وہ اشیاء  بیچ  کراور نئے خریدار  شامل کرکے  ان دونوں میں (دائیں اور بائیں)توازن قائم رکھ سکے، توایجنٹ ہرخریدار پر جو وہ لاتاہے ، 500 پوائنٹ حاصل کرتا ہے، مثلا 1000 پوائنٹ دائیں اور 1000 بائیں حاصل کرسکے تو ایجنٹ کمپنی میں ایک رتبہ ترقی پاتا ہے، پھر وہ بطورمستقل آمدنی کے طور پرمستقل کمیشن حاصل کر لیتا ہے، جوں جوں  دائیں بائیں پوائنٹ بڑھتے جاتے ہیں،توں توں ایجنٹ کا عہدہ اور کمیشن ترقی کرتا جاتا ہے۔ دوسرے شامل ہونے والے بھی یہی کام کرنے میں لگے رہتے ہیں، اور اسی طرح ان کو بھی ترقی ملتی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا اس کام میں کوئی دھوکہ یا قمار ہے؟ یایہ   رائلٹی (مستقل حق) کے تحت داخل ہے؟

براہ کرم اس حوالے سے اسلامی حکم واضح کیجیے ، جزاک اللہ خیرا  ً۔

 

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔

آپ دونوں کے سوالات یکساں نوعیت کے ہیں،اس سے قبل بھی نیٹ ورک مارکیٹنگ سے متعلق ہمیں اسی طرح کے سوالات موصول ہوئے تھےاور13 اکتوبر 2007، 8 مارچ 2009اور19 اگست 2015کو ان سوالات کے جوابات بھی دیے جاچکے ہیں  ۔ میں انہی جوابات میں سے یہاں بقدر ضرورت  اقتباس نقل کرتا ہوں :

 

اسلام میں لین دین کے معاملات واضح  اور آسان ہیں، ان میں کوئی پیچیدگی نہیں ، ان سب میں یہ بات مشترک ہے کہ کوئی بھی لین دین  اپنی حقیقت اور معاہدے  کی حیثیت کے لحاظ سےمعلوم ہونا چاہیے، پھر اس سے متعلق نصوص کا علم ،ان کی تحقیق اور درست اجتہاد کے ذریعے اس میں سے حکم کا استنباط ہونا چاہیے۔

 

آپ کے سوالات میں جن کمپنیوں کا ذکر کیا گیا ہے ،وہ کئی  خرید و فروخت کی اشیاء میں نیٹ ورک مارکیٹنگ  کا کام کرتی ہیں، یہ  کمپنیاں  شرط لگاتی ہیں، کہ  جو شخص ان کی اشیاء کی تشہیر کرے، وہ ان اشیاء میں سے کوئی شے خریدے گا، جیساکہ پہلے سوال میں ذکر ہے، یا یہ شرط لگاتی ہیں کہ نوکری کرنے  کا خواہشمند مخصوص رقم ادا کرے،"یوں اسے ایجنسی کا اجازت نامہ دیا جاتا ہے" جیسا کہ دوسرے سوال میں مذکور ہے،جس کے ذریعے کمپنی اسےخریدار لانے کا حق دیتی ہے ،جس کے بدلےمیں کمپنی اسے کمیشن دیتی ہے،یعنی وہ کمپنی کے لیے بروکر(دلال/ایجنٹ )بنتا ہے ،جو کہ کمپنی کے لیے خریداروں کو راغب کر کےلاتا ہےاوراس کیلئے کمیشن لیتا ہے۔  کمپنی صرف اس وقت ہی اسے کمیشن دیتی ہے جب وہ خریداروں کی ایک متعین تعداد کو کامیابی سے راغب کر کے لے آئے،یعنی کمپنی کے اس پروگرام کے مطابق جو اسی مقصد کے لیے تیار کیا گیا ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر پہلا خریدار یا رقم دینے والا پہلا شخص ان لوگوں کا کمیشن وصول کرتا ہے جنہیں  وہ لے کر آیا ہے ، نیز ان لوگوں کا بھی کچھ نا کچھ کمیشن وصول کرتا ہے، جو دوسرے (اس کے لائے ہوئے خریدار) لے کر آتے ہیں، مارکیٹنگ کی "ایجنٹی" کاکام اسی ترتیب سے مسلسل جاری رہتا ہے، یعنی  ایجنٹوں(بروکروں) کی ایک لڑی  بنتی ہے، اسی کو نیٹ ورک مارکیٹنگ کہتے ہیں۔

 

تجارتی سرگرمیوں کی یہ قسم شریعت کی مخالف ہے ، اس کی وضاحت کچھ یوں ہے:

1-   یہ در ست نہیں کہ بیچنےوالا ایسی کوئی شرط لگائے کہ ایک آدمی میرا دلال/ایجنٹ (broker)صرف تب ہی بن سکتا ہے جب وہ مجھ سے کوئی چیز خرید لے، بلکہ اس قسم کا تجارتی لین دین تب ہی جائز ہوگا جب اس پر ایجنٹی کی حقیقت کا انطباق کیا جاسکتا ہو، یعنی یہ کہ  بیچنے والا  کسی شخص سے کہے کہ جب آپ میرے پاس گاہک لے کر آئیں گے تو میں آپ کو ہر ایک گاہک کے بدلے مزدوری دوں گا۔سوال میں کوئی چیز خریدنے یا رقم   دینے کی جوشرط مذکور ہے ، یہ شرط اس میں نہیں ہونی چاہیے، تاکہ وہ ایجنٹ بن سکے۔چونکہ کمپنی کی تشہیر کرنے والے کے لیے کمپنی کی اشیاء خریدنا جیسا کہ پہلے سوال میں ذکر کیا گیا ،یا مخصوص رقم کی ادائیگی شرط قرار دیتی ہے، جیسا کہ دوسرے سوال میں ذکر کیا گیا ،یوں اسے کمپنی میں کمیشن کے بدلے بطور ایجنٹ   کا م کرنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے، یعنی وہ کمپنی کے پاس گاہک لائے گا اور اس کے بدلے کمیشن وصول کرے گا، چاہے کمیشن 6 گاہکوں کے بعد ہو یا 2 گاہکوں کے بعد ہو۔  تو معاملہ ایک ہےیعنی ایجنٹی ، مگراس شرط کی وجہ سے دو معاملے بن ہوجاتے ہیں، یعنی ایک اشیاء خریدنا یا مخصوص رقم ادا کرنا،اوردوسرا ایجنٹی کرنا۔صورت بھی ایسی ہے کہ ایک معاملہ دوسرے معاملے کے لیے شرط ہے۔ تو اس قسم کے معاملے سے رسول اللہ ﷺ نے نہی کی ہے۔((نَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ صَفْقَتَيْنِ فِي صَفْقَةٍ وَاحِدَةٍ)) " رسول اللہ ﷺ نے ایک عقد میں دو عقد جمع کرنے سے منع فرمایا"۔ اس حدیث کو احمد نے عبد الرحمن بن عبد اللہ بن مسعود سے روایت کیا ہے، انہوں نے اپنے والد عبد اللہ بن مسعود ؓسے روایت کیا ہے۔ یہ ایسے ہے کہ اگر کہا جائے:   جب تم مجھے یہ چیز بیچ دو گے تو میں تمھیں اپنا ایجنٹ بناؤں گا۔ اوریہ واضح ہے کہ سوال کے مطابق یہی حقیقت ہے، پس ایک ہی معاہدے میں خریدوفروخت اور   ایجنٹی دونوں موجود ہیں ، یعنی کمپنی سے خریدنے کا لازم ہونا  ایجنٹی(یعنی کمپنی میں خریدار لانے کیلئے تشہیر کرنے کے بدلے کمیشن وصول کرنے)  کے کام کے لیے شرط ہے۔

 

2-   بلا شبہ دلالی/ایجنٹی( brokerage)بیچنے والے(کمپنی) اورگاہک لانے والے کے درمیان ایک معاہدہ ہے، اور اس معاملے میں ایجنٹی کا کمیشن اسی شخص کیلئے ہونا لازمی ہے جو گاہکوں کو کمپنی میں لاتا ہے،نہ کہ ان گاہکوں کے بدلے جن گاہکوں کو دیگر لوگ لائیں، کیونکہ ایجنٹ کو اس کا کمیشن ،کمپنی سے گاہک کی خریدوفروخت کے بدلے میں ملتا ہے۔ جبکہ مذکورہ معاہدے میں ایجنٹی کا کمیشن ایجنٹ یعنی تشہیر کرنے والا ان لوگوں کے بدلے بھی لیتا ہے جن کو وہ لے کر  آیا ہے تاکہ وہ کمپنی سے خریدیں، اور ان کے بدلے بھی   جن کو دیگر لوگ لے کر آئے ہیں۔یہ ایجنٹی کے معاہدے کے خلاف ہے۔

 

3-   کمپنی سے خریداری کے بھاؤ میں بہت زیادہ گراں فروشی سے کام لیا جاتا ہے، جسے غبن فاحش کہتے ہیں،خریدار کو اس کا بخوبی علم ہوتا ہے، لیکن یہ معاملہ دھوکے سے پاک نہیں،  یہ دھوکہ ان   پیچیدہ   اسالیب کے ذریعے کیا جاتا ہے  جن کو کمپنی اپنے کام کو فروغ دینے کیلئے اختیار کرتی ہےتاکہ گاہک  کوکمپنی کی اشیاء خرید کر اس کی خطیر قیمت ادا کرنے پر قائل کیا جائے،جن کی حقیقی قیمت نہایت کم ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ کمپنی   خریدار کو روشن مستقبل کے جھانسے دیتی ہے کہ اس کے پاس یہ موقع ہو گا کہ وہ کمپنی کی اشیاء کی تشہیر کرے تاکہ وہ کمپنی میں گاہک لائے جس کے بدلے اسے کمیشن ملے گا اور ان خریداروں کے بدلے بھی جو اس کے لائے ہوئے خریدار آگے لے کر آئیں گے!

 

جب خریدار دیگر خریداروں کو نہ لا سکے ،بالخصوص وہ خریدار جو خریداروں کی لڑی کے آخر میں آتے ہیں ،تو وہ دھوکے میں پھنس جاتے ہیں اور ان  اشیاء کے بدلے ادا کی گئی خطیر رقم گنوا بیٹھتے ہیں جن کی قیمت اس کے دسویں حصے کے برابر بھی نہیں تھی۔دھوکہ اسلام میں حرام ہے۔نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ ((اَلخَدِيعَةُ فِي النَّارِ)) " دھوکہ جہنم لے جاتا ہے"(بخاری نے ابن ابی عوف سے روایت کیا)۔ ایک ایسا شخص جو خرید و فروخت میں دھوکہ کرتا ہے،اس کیلئے آپ ﷺ نے فرمایا:

(( اِذَا بَايَعْتَ فَقُلْ لاَ خِلاَبَةَ))

" جب تم لین دین کرو تو کہوکہ کوئی دھوکہ نہیں ہوگا"(بخاری نے عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کیا) ۔

اور حدیث میں خلابہ کا ذکر آیا ہے ،خلابہ  کے معنی دھوکہ کے ہیں۔ یہ حدیث کے الفاظ ہیں اور ان کا مفہوم اس بات پر دلالت کرتا ہے، کہ دھوکہ حرام ہے۔

 

خلاصہ یہ ہے کہ یہ لین دین جس طرح سوالات میں ذکر کیا گیا ہے ،ایجنٹی کی شرائط کے خلاف ہے اور یہ دھوکہ سے خالی نہیں ہوتا ، چنانچہ یہ ایک خلافِ شریعت لین دین ہے، میں اللہ سبحانہ وتعالی ٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں اپنے فضل و کرم سے خلافت قائم کرنے اور اسلام کے نظام معیشت کو نافذ کرنے کی توفیق بخشے، وہ نظام جو صاف ستھرےاقتصادی و معاشی معاملات کو بیان کرتا ہے جو تمام شہریوں کو خوشگوار اور پرامن  زندگی فراہم کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے۔

 

  اس مسئلہ میں میرے نزدیک یہی راجح ہے، باقی اللہ ہی  بہتر جانتا ہے اور وہ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔

                                                                 

آپ کا بھائی

عطاء بن خليل أبو الرشتة

 

23 جمادی الثانی 1442ھ

5 فروری 2021ء

Last modified onمنگل, 08 جون 2021 20:02

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک