السبت، 21 جمادى الأولى 1446| 2024/11/23
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب

دوسری خلافتِ راشدہ کے قیام کے بعد حزب کا کام کیا ہوگا

ابو موسو کو

سوال: 

السلام علیکم ہمارے امیر آپ کیسے ہیں؟میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جب  اسلامی ریاست قائم ہوگی  تو حزب  کونسے مرحلے پر گامزن ہوگی؟

 

بعض لوگ کہتے ہیں کہ حزب تیسرے مرحلے کی حالت میں گامزن ہوگی اور بعض کہتے  ہیں کہ حکمرانی کی طرف منتقل ہوتے ہی  تیسرا مرحلہ پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا اور حزب بالکل نیا کام شروع کرے گی جو کہ حکمرانوں کے احتساب اور معاشرے کو سدھارنے کا ہے۔۔۔کونسی بات درست اور راجح ہے؟

 

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ہم نے التعریف کتاب میں یہ ذکر کیا ہے:

 

۔8 حزب التحریر کا طریقہ

٭دعوت کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے میں چلنے کا طریقہ  احکام شرعیہ میں سے ہے،  جو دعوت میں رسول اللہ ﷺ کے طریقے سے اخذ کیے گئے ہیں کیونکہ آپ کی پیروی فرض ہے، الہ تعالی کا ارشاد ہے:

  ((لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا)) "یقینا تمہارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے  اس شخص کے لیے جو اللہ اور قیامت کے دن سے امید رکھتا ہو اور اللہ کو خوب یاد کرتاہو"(الاحزاب) اور اللہ کا ارشاد ہے: ((قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ)) " کہدئیجے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کرے گا اور اللہ بہت معاف کرنے والا مہربان ہے"(آل عمران) اسی طرح اللہ کا ارشاد ہے: ((وَمَا آتاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقابِ)) "اور جو رسول تمہیں دیں وہ لے لو اور جس چیز سے منع کریں اس سے باز رہو"(الحشر)۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی آیات ہیں جو رسول اللہ ﷺ کی پیروی کے فرض ہونے،  آپ کو نمونہ بنانے اور آپ سے ہی اخذ کرنےپر دلالت کرتی ہیں۔

 

٭ مسلمان  دار الکفر میں زندگی گزار رہے ہیں اور ان پر حکمرانی  اللہ کے نازل کردہ کے ذریعے نہیں ہورہی ہے اس لیے ان کا دار رسول اللہ ﷺ کی  بعثت کے وقت مکہ سے مشابہ ہے اس لیے  دعوت کے مرحلے میں مکی دور کی پیروی ہی ان پر لازم ہے۔

 

٭مدینہ میں ریاست کے قیام تک مکہ میں رسول اللہ ﷺکی سیرت کی چھان بین سے  یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کچھ واضح اور نمایاں مراحل سے گزرے، جن میں آپ ﷺ نے مخصوص اور نمایاں اعمال انجام دیے تھے۔  اس لیے حزب نے  اس کو اپنا طریقہ کار بنایا اور وہ انہی مراحل پر گامزن ہے اور رسول اللہ ﷺ کے نقش قدم کی پیروی میں ان مراحل میں وہی اعمال انجام دے رہی ہے۔

 

اسی بناپر حزب نے  اپنا طریقہ متعین کیا کہ وہ تین مراحل سے گزرے گی۔

 

پہلا: تربیت کا  مرحلہ تاکہ حزب کی فکر اور طریقے پر ایمان رکھنے والے افراد وجود میں آئیں  تاکہ یہ ایک حزبی گروہ بن جائیں۔

 

دوسرا: امت کے ساتھ تفاعل کا مرحلہ تاکہ امت اسلام کی علمبردار بن جائے اور اسلام  کو اپنا موت وحیات کا مسئلہ بنائے اور اس کو کارزارحیات میں  عملی طور پر وجود میں لانے کےلیے کام کرے۔

 

٭ تیسرا: حکمرانی ہاتھ میں لینے کا مرحلہ،  اسلام کو جامع اور ہمہ گیر طور پر نافذ کرنا اور اس کو ایک پیغام کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا۔

 

۔جہاں تک پہلے مرحلے کی بات ہے: اس کی ابتداء حزب نے  اپنے بانی، جلیل القدر فقیہ، عظیم مفکر، ماہر سیاست دان، القدس کے قاضی  شیخ تقی الدین النبہانی رحمۃ اللہ علیہ  کے ہاتھوں القدس میں 1372ہجری 1953 عیسوی میں کی،  اس مرحلے میں حزب امت کے افراد سے رابطے کرتی تھی اوراپنی فکر اور طریقے کو انفرادی طور پر ان کے سامنے پیش کرتی تھی،  جو حزب کی فکر کو قبول کرتا اس کو  پڑھنے کےلیے حزب کی حلقات سے جوڑا جاتا  تا کہ اس کو حزب کے افکار اور ان احکام پر چلایا جائے جن کو حزب نے اختیار کیا ہو، وہ ایک اسلامی شخصیت بنتا، اسلام کو اوڑنا بچھونا بناتا اور  اسلامی عقلیہ   اور نفسیہ کا حامل بنتا  اور دعوت کا علمبردار بن جاتا۔ جب وہ شخص  یہاں تک پہنچتا اور اپنے آپ کو حزب پر پیش کرتا تو حزب اس کو اپنے  ممبران میں شامل کرلیتی۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ دعوت کے پہلے مرحلے میں کیا کرتے تھے،  جو کہ تین سال تک جاری رہا جس میں آپ ﷺ انفرادی طور پر لوگوں کو دعوت دیتے تھے، جس چیز کے ساتھ اللہ نے آپ کو مبعوث کیا تھا وہ ان کے سامنے پیش کرتے اور جو  ایمان لاتا اسے خفیہ طور پر اس دین کی اساس پر اپنی جماعت میں شامل کر لیتے،  اس کو اسلامی تعلیمات سکھانے پر توجہ دیتے،  جو کچھ نازل ہوتا اس کو پڑھواتے، اس دوران قرآن نازل ہوتا رہا  یہاں تک کہ آپﷺ  نے ان کو اسلام کے ذریعے بیدار کیا ، آپ ﷺ ان لوگوں سے خفیہ طریقے سے ملتے اور غیر معروف جگہوں پر خفیہ طور پر ان کو تعلیم دیتے، وہ خفیہ طور پر اپنی عبادات کرتے، پھر مکہ میں اسلام کا چرچا ہوا لوگ اس کے بارے میں گفتگو کرنے لگے اور اس میں داخل ہونے لگے۔۔۔

 

جب حزب اس جماعت سازی میں کامیاب ہوگئی اور  معاشرے نے اس کو محسوس کیا اس کو اور اس کے افکار کو پہچان لیا  کہ وہ کس بات کی طرف دعوت دے رہی ہے تو حزب دوسرے مرحلے کی طرف منتقل ہوگئی:

 

  دوسرا مرحلہ: جو کہ  امت کے ساتھ تفاعل کا مرحلہ ہے تا کہ امت اسلام کی علمبردار بن جائے، اور عام بیداری  پیدا کی جائے  اور حزب  کے تبنی کردہ اسلامی افکار اور احکام کے حوالے سے رائے عامہ تیار کی جائے، تاکہ امت ان کو اپنے افکار بنائے اور ان کو کارزار حیات میں وجود میں لانے کے لیے سرگرم عمل ہو، ریاست خلافت کے قیام کے کام، خلیفہ کے تقررمیں حزب کے ہمسفر ہوں  تاکہ اسلامی زندگی کا دوبارہ احیاء ہو اور  اسلام کے پیغام کو دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے۔  اس مرحلے میں حزب  عوام کو اجتماعی طور پر مخاطب کرنے کی طرف منتقل ہوگئی۔  اس مرحلے میں مندرجہ ذیل اعمال انجام دیتی رہی :

 

1۔حزب کے جسم  اور اس کے ممبران کی تعداد کو بڑھانے کےلیے حلقات میں توجہ کے ساتھ افراد کی  تربیت،  اسلام کی دعوت کا علمبردار بننے کی قدرت رکھنے والی شخصیات کی تیاری - فکری تصادم اور سیاسی جدوجہد کے ذریعے ۔

 

2۔اسلام کے ان افکار اور احکام کے ذریعے امت کی اجتماعی تربیت جن کو حزب نے اختیار کیا ہے،  مساجد  اور مجالس میں درس پریزنٹیشن، عوامی اور اجتماعی  میں بیانات اور اخبارات، کتابوں اور پمفلٹس کے ذریعے امت کے اندر بیداری اور اس کے ساتھ تفاعل۔

 

3۔ کفریہ عقائد اس کے نظاموں اور افکار  کے خلاف فکری جدوجہد، فاسد عقائد، غلط افکار، خلط ملط تصورات کے خلاف جدوجہد  ان کی کجی، غلطی اور اسلام سے تضاد  کو بیان کرنا  تاکہ امت  ان سے اور ان کے اثرات سے نکلے۔

 

سیاسی جدوجہد۔۔۔۔

۔۔۔ جب معاشرہ حزب  کے سامنے منجمد ہوگیا اور امت کا  اپنے قائدین اور ان راہنماؤں  پر سے اعتماد اٹھ گیا جن سے امید لگائی ہوئی تھی،  مشکل حالات نے  خطے کو سازشی منصوبوں کی آماجگاہ بنایا، تسلط اور قہر کا دور دورہ ہوا جو حکمران اپنی اقوام سے روا رکھتے ہیں، حکمرانوں نے حزب اور اس کے شباب  کو اذیتیں دی،  جب اس سب کی وجہ سے  حزب کے سامنے ایک جمود ہو گیا تو حزب نے  طاقت رکھنے والوں سے نصرہ طلب  کرنا شروع کی۔۔۔

 

حزب کی جانب سے نصرہ کے ان اقدامات کے ساتھ ساتھ  اس نے ان سب کاموں کو بھی جاری رکھا جو وہ  کرتی تھی حلقات میں توجہ کے ساتھ تعلیم ، اجتماعی تربیت،   اس بات پر توجہ کہ امت اسلام کی علمبردار بن جائے، رائے عامہ تیار کرنا،  کافر استعماری ممالک  کے خلاف جدوجہد اور ان  کے منصوبوں کو آشکار اور انکی سازشوں کو بے نقاب کرنا،  حکمرانوں کو جھنجوڑنا، امت کے مفادات کی حفاظت اور اس کے امور کی دیکھ بھال کرنا۔

 

۔۔۔حزب اللہ سے اس امید کے ساتھ ان سب کاموں کو جار رکھے ہوئے ہے کہ اللہ اسے اور امت مسلمہ کو  کامیابی وکامرانی اور مدد سے نوازے گا، تب:

 

تیسرا مرحلہ: ہوگا یعنی خلافت راشدہ قائم ہوگی اور اس دن مومن اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے) التعریف کتاب سے اقتباس یہاں ختم ہوگیا۔

 

   اسی لیے  تین مراحل خلافت کے عدم موجودگی کی صورت حال میں ہیں اور اسی وجہ سے حزب کا کام  ان تین مراحل میں ہے۔۔۔جیسے ہی خلافت قائم ہوگی تو وہ سب کام جس کا تعلق ریاست کے قیام کے ساتھ ہے  وہ  حزب کے اعمال میں سے نہیں ہوگا، مثلا  دوسرے مرحلے کے آواخر میں ریاست کے قیام کے لیے  طلب نصرہ نہیں رہے گا،  اسی طرح  تیسرا مرحلہ  یعنی ریاست کا قیام،  یہ سب نہیں ہوں گے کیونکہ اب ریاست قائم ہو چکی ہے،  بلکہ اس  سب کی جگہ  شرعی دلائل کے مطابق حکمران کا محاسبہ ہوگا۔۔۔ تاہم باقی کام زیادہ قوت  اور  زیادہ سرگرمی سےجاری رہیں گے،  کیونکہ ریاست کے قیام کے بعد ظلم کی جگہ عدل لے گا، اور ماحول حزب کے کام کے لیے سازگار ہوگا جو حزب کے خلاف تشدد کی جگہ لے گا،  جی ہاں اس دن مومن اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے۔

 

ہم نے اپنی کتابوں خاص کر الکراسہ میں  احکام شرعیہ کے مطابق حکمرانوں کے محاسبے کو بیان کیا ہے۔۔۔

 

یہ کافی ہے اللہ ہی زیادہ علم ار زیادہ حکمت والا ہے

 

آپ کا بھائی عطاء بن خلیل ابو الرَشتہ

 

1ذی الحجۃ 1442

11/7/2021



Last modified onاتوار, 20 فروری 2022 22:14

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک