الجمعة، 20 جمادى الأولى 1446| 2024/11/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب: قسم توڑنے کا کفارہ

(کفارۃ الیمین)

(ترجمہ)

 

غازی مراد غامزادوو (Гаджимурад Гамзатов )کے لئے

 

سوال:

 

اسلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ہمارے معزز شیخ،

کیا قسم کو توڑنے کا کفارہ (کفارۃ الیمین) ایک معصوم شیرخوار بچے کے لئے دیا جا سکتا ہے جو کوئی غذا نہیں کھاتا اور ابھی صرف ماں کا دودھ یا نوزائیدہ فارمولا دودھ پیتا ہے؟ اگر کفارہ دے دیا جائے اور (دینے والا شخص) اس صورت حال کے بارے میں بھول جائے (کہ یہ ایک شیرخوارکو دیا گیا ہے) تو کیا اس شخص کو دوبارہ یہ کفارہ کسی مسکین کو دینا چاہئے؟

 

اورقسم توڑنے کےکفارہ کے حوالے سے ایک اور سوال یہ ہے کہ : کیا کسی مسکین کوصرف ایک بار کھانا کھلادینا کافی ہے، یا یہ ضروری ہے کہ مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلایا جائے (یعنی دوپہر اور رات کا کھانا)؟

 

اور ایک تیسرا سوال یہ ہے کہ : ایک شخص جو خود یورپ میں رہتا ہےاور قسم کا کفارہ یوکرین میں قسم کے کفارے کی رقم کے مطابق ، یوکرین کے مسکین کے لئے  دےدیتا ہے۔ کیا اس شخص کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ یورپ کے نصاب کے مطابق قسم کا کفارہ ادا کرے یا کیا یہ کافی تھا کہ جس ملک میں کفارہ بھجوایا جارہا ہے، اس ملک کے  نصاب کے مطابق رقم ادا کردی جائے ؟

 

جواب :

 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

1۔ قسم ٹوٹنے کے کفارہ (کفارۃ الیمین) کے متعلق بنیادی اصول  اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا کلام ہے :

    

﴿لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾

"اللہ تم سے تمہاری بیہودہ قسموں پر مؤاخذہ نہیں کرتا لیکن وہ ان (قسموں کو توڑنے) پر مؤاخذہ کرے گا جو تم نے پختہ قسمیں کی ہیں۔ تو اس کا کفارہ دس ناداروں کو اوسط درجہ کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل وعیال کو کھلاتے ہو، یا ان کو لباس مہیا کرنا یا ایک غلام کا آزاد کرنا ہے۔ پس جو کوئی اس کی استطاعت   نہ رکھتا ہو تو تین دن کے روزے رکھنا۔ یہ کفارہ ہے تمہاری قسموں کا جب تم قسم کھا لو اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ اسی طرح اللہ تمہارے لئے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو"(المائدۃ: 89)

 

دس  مساکین کو کھانا کھلانا  ان میں سے ایک  طریقۂ انتخاب ہے جو اس آیت میں ذکر کئے گئے ہیں :

 

﴿ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ﴾

" تو اس کا کفارہ دس مساکین  کو اوسط درجہ کا کھانا کھلانا ہے جیسا کہ تم اپنے اہل وعیال کو کھلاتے ہو" (المائدۃ: 89)

 

2۔  اس آیتِ مبارکہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دس   کا عدد لازمی ہے، یعنی لازم ہے کہ دس مساکین کو کھانا کھلایا جائے، لہٰذا مثال کے طور پر کسی ایک ہی مسکین کو دس مرتبہ کھانا کھلا دینا درست نہیں ہے۔ ہم نے پہلے بھی بمطابق29 اپریل 2022ء کو ایک سوال کے جواب میں اس کی وضاحت کی ہے، جس میں مندرجہ ذیل بیان کیا گیا:

 

]اور وہ رائے جو مجھے زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر نص میں مساکین کی ایک مخصوص تعداد کا ذکر ہوا ہے، جیسا کہ 

   

﴿ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ﴾

" تو اس کا کفارہ دس مساکین  کو اوسط درجہ کا کھانا کھلانا ہے جیسا کہ تم اپنے اہل وعیال کو کھلاتے ہو یا انہیں لباس مہیا کرنا" (المائدۃ: 89)

 

﴿فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِيناً﴾

" اور وہ جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو، تو اسے ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا ہے" ( المجادلہ: 4)

 

اس صورت میں، مذکورہ بالا عدد (دس، ساٹھ) پرعمل کرنا لازمی ہے، چاہے عطا کرنا کسی مال (کی شکل )میں ہو یا اس کی قیمت میں ہو، کیونکہ مذکورہ تعداد مقصود ہے، جس کی پابندی لازمی ہے؛ لیکن اگر نص میں عدد کا ذکر کئے بغیرمساکین کو عطا کرنا مطلوب ہو تو ایک ہی مسکین کو دے دینا بھی جائز ہے اور ایک سے زیادہ مساکین کو بھی دیا جاسکتا ہے، کیونکہ اب تعداد کی کوئی پابندی نہیں ہے، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے زکوٰۃ کے حوالے سے ارشاد فرمایا :

 

﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ﴾

" یقیناً، صدقات فقراء کے لئے ہیں اور مساکین اور کارکنان (جو زکوٰۃ پر مامور ہیں) اس پر اور جن کے دلوں کو جیتنا مطلوب ہے اور غلاموں کو آزاد کرانے کو اور قرضداروں  ( کے قرض ادا کرنے کو)  اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لئے۔ یہ اللہ کی طرف سے ضابطہ ہے اور اللہ سب جاننے والا حکمت والا ہے" (التوبہ:60)

 

لہٰذا کسی ایسے فرد کے لئے ،جو اپنی زکوٰۃ ادا کرتاہو، یہ جائز ہے کہ وہ اپنی زکوٰۃ کسی ایک ہی محتاج کو ادا کردے اور یہ بھی جائز ہے کہ وہ اسے بہت سے محتاجوں میں تقسیم کردے، کیونکہ اس آیت میں کسی خاص تعداد کو بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ بغیر کسی عدد کے  "مساکین " کی اصطلاح کا ذکر کیا گیا ہے ...لیکن  اس شخص کو یہ ضرور ملحوظِ خاطر رکھنا چاہئے کہ وہ (محتاج) زکوٰۃ کے مستحق ہوں کیونکہ یہاں مساکین کا ذکر ہواہے۔ [ 

  

3۔ اس حساب سے، کفارہ کی تکمیل کے لئے دس مساکین کو اوسط درجہ کا کھانا کھلانا واجب ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسکین ،جسے کفارہ ادا کیا جائے ، ایسا ہو جو اوسط کھانا کھا سکتا ہو۔ جہاں تک شیرخوار بچے کا تعلق ہے، تو میں اسےاس مفہوم میںشامل نہیں کرتا ، اور اسی لئے اس (بچے) کو ان مساکین میں نہیں شمار کیا  جاتا جنہیں قسم کے کفارہ  میں کھانا کھلانے  کا بیان ہواہے۔ اگر کوئی شخص  اُٹھے اور ایک شیرخوار سمیت دس افراد پر مشتمل ایک مسکین خاندان کو کھانا ارسال کردے، تو یہ کفارہ نامکمل ہو گا؛ یہ نو افراد  کو کھانا کھلانا شمار ہوگا نہ کہ دس، کیونکہ وہ بچہ ان لوگوں کے زُمرے میں نہیں آتا جنہیں کھانا کھلایا جارہا ہے۔ میرے فہم کے مطابق یہ سب سے درست رائے ہے اور میں اس سے مطمئن ہوں۔ 

  

لہٰذا اس شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ جنہیں کھانا کھلا چکا ہے، ان کے علاوہ دیگر مساکین کوکھانا کھلائے تاکہ کفارہ کے لئے دس مساکین کی تعداد مکمل ہوسکے۔ یہ معاملہ ایسے بچےسے مختلف ہے جو کھانا کھاتاہو، جیسے ایک لڑکا جو عقل رکھتا ہو، اشیاء میں تمیز کرسکتا ہو اور اسی طرح دیگر معاملات میں سمجھ رکھتا ہو، کیونکہ  ان کا شمار کفارہ میں ہوتا ہے۔ اگر کسی مسکین خاندان میں اس طرح کے بچے ہوں تو کفارہ کے لئے انہیں کھانا کھلانا جائز ہے کیونکہ وہ ان لوگوں کے زُمرے میں آتے ہیں کہ جنہیں کھانا کھلایا جائے۔

 

4۔ فقہاء کا اس میں اختلاف ہے کہ قسم توڑنے کے کفارہ (کفارۃ الیمین) کے طورپر ہر مسکین کے لئے کھانے کی مقدار اور کھانے کی نوعیت  وغیرہ مقرر ہو، کہ جس سے کفارہ ادا کیا جائے، اور اس حوالے سے میں فقہہ کی کویتی انسائیکلوپیڈیا سے کچھ اقتباس  پیش کرتا ہوں؛ 

 

]"دوم : مقدار کے حوالے سے "

-           مالکی، شافعی اور حنبلی فقہاء کی رائے ہے کہ یہ ایک شرط ہے کہ ہر مسکین کو اس ملک کے مطابق رائج خوراک میں ایک مدّ (وزن کی ایک معین مقدار) دیا جائے، اور آیت کی نص کے اعتبار سے یہ جائز نہیں ہے کہ اس خوراک کی قیمت دے دی جائے :

 

﴿فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ﴾

" تو اس کا کفارہ دس مساکین  کو اوسط درجہ کا کھانا کھلانا ہے" (المائدۃ:89)

 

یہ شرط ہے کہ حصہ میں کمی نہ کی جائے ، لہٰذا بیس مساکین کو دس مدّ کھانا دینا جائز نہیں؛ کہ ان میں سے ہر ایک کے لئے  نصف مدّ کھانا ہوجب تک کہ وہ ان میں سے دس مسکینوں کے لئے (کھانے کی مقدار میں موجود)وہ کمی پوری نہ کردے کہ جو مقدار (مدّ)  سے کم ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ کھانا دس مساکین کے لئے ہو، اس لئے خود ساختہ رائے صحیح نہیں ہوگی، چنانچہ اگر کوئی شخص پانچ مساکین کو کھانا کھلاتا ہے اور پانچ محتاجوں کولباس مہیا کرتا ہے تو یہ جائز نہیں ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ دس مساکین میں سے ہر ایک کو ملکیت کی بنیاد پر ایک مدّ (مقدار) کھانا دیا جائے، اور مالکیوں کے مطابق یہ جائز نہیں ہے کہ ایک ہی مسکین کو دوبارہ دیا جائے۔ حنفی فقہاء کی رائے  میں یہ شرط ہے کہ ہر مسکین کو نصف صاع (وزن کی مقدار) گندم، یا ایک صاع کھجوریا جَو دیا جائے، یا اس مقدار کی قیمت  رقم کی صورت یا تجارت کی صورت میں پیش کی جائے، کیونکہ مقصد تو محتاج کی ضرورت کو پورا کرناہے، اور یہ مقصد اس قیمت سے بھی حاصل کیا جاسکتاہے۔

 

جہاں تک ان مساکین کے لئےکھانے کی مقدار کا تعلق ہے: دو وقت کا کھانا جو کہ سیرہوکر کھایا جائے، یعنی یہ ضروری ہے کہ ہر مسکین کو دوپہر کا کھانا اوررات کا کھانا ملے، یا اسی طرح اگر وہ شخص ان مساکین کو رات کا کھانا اور سحر کا کھانا مہیا کرے، یا وہ شخص ان مساکین کو دو مرتبہ دوپہر کا کھانا دے یا  دومرتبہ رات کو یا سحر کو، کیونکہ آخر کار  دو وقت کا کھانا کھلانا  مقصودہے۔

 

لیکن اگر وہ شخص ایک مسکین کو ایک مرتبہ دوپہر کاکھانا اور دوسرے مسکین کو ایک مرتبہ رات کا کھانا کھلا دے تو یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ اس نے دس افراد کے کھانے کو بیس افراد میں تقسیم کردیا ہے جو کہ صحیح نہیں ہے۔

 

حنفی فقہاء اس پر بھی زور دیتے ہیں کہ وہ شخص ایک ہی دن میں یا الگ الگ دس اوقات میں ایک مسکین کو ہی مکمل کفارہ ادا نہ کرے۔یا اگر وہ شخص ایک مسکین کو دس دن تک دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا کھلاتا ہے یا ایک ہی مسکین کو دس روز تک ، ہر روز نصف صاع دیتا ہے، تو یہ جائز ہے کیونکہ ہر روز محتاج کی حاجت پھر پیدا ہو جاتی ہےجو اسے پھرسے ایک اور مسکین میں شمارکردیتی ہے، یوں گویا اس شخص نے کفارہ کی مقدار کو دس مساکین پر خرچ کیا ہو۔

 

"سوم : جنس کے اعتبار سے "

-           حنفی فقہاء کی رائے یہ ہے کہ جوشے کھانے میں کافی ہے وہ گندم، جَو یا کھجور ہے، ہر ایک کا آٹا مقدار کے اعتبار سے اس کے اصل کے برابر ہے یعنی نصف صاع گندم کا آٹا اور ایک صاع جَو کا آٹا ہے، اور کہا گیا ہے : کہ آٹے میں جس شے کا اعتبار کیا جاتا ہے وہ اس کی قیمت ہے نہ کہ وزن۔ اور ان اجناس کے علاوہ کسی جنس سے قیمت اخذ کرنا جائز ہے۔ اور مالکی فقہاء نے یہ رائے رکھی کہ کھانا کھلانا گندم سے ہے اگر وہ مساکین اسے کھاتے ہیں چنانچہ جَو یا مکئی یا اس کے علاوہ کسی اور جنس سے یہ قابلِ قبول نہ ہوگا۔ اور اگر وہ مساکین گندم کے علاوہ کوئی اور خوراک کھاتے ہوں تو جو جنس بھی ان کے سیر ہوجانے کے مساوی ہونہ کہ وزن میں۔شافعی نے یہ رائے رکھی کہ کھانا کھلانا ان اناج اور پھلوں میں سے ہے جن پر زکوٰۃ واجب ہے کیونکہ بدن ان سے تشکیل پاتے ہیں  اور یہ ضروری ہے کہ وہ کھانا ملک میں اکثریت کی خوراک میں سے ہو۔ حنبلی فقہاء نے یہ رائے رکھی کہ مساکین کو کھانا کھلانا گندم، جَو اور ان کے آٹے، کھجور یا کشمش سے ہونا چاہئے اورجب تک کہ  یہ کھانے میں دستیاب نہ ہوں، ان کے علاوہ کسی اور شے کی اجازت نہیں ہے، چاہے وہ اس ملک میں رائج خوراک ہی کیوں نہ ہو[۔ اقتباس ختم ہوا

 

5۔ دس مساکین کو کھانا کھلانے کے حوالے سے، جس رائے کو  میں سب سے صحیح تصور کرتا ہوں ، وہ یہ ہے کہ ان مساکین کو اس آیت کے معانی کے اعتبارسے دو کھانے دئیے جائیں  :

 

﴿فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ﴾

" تو اس کا کفارہ دس مساکین  کو اوسط درجہ کا کھانا کھلانا ہے جیسا کہ تم اپنے اہل وعیال کو کھلاتے ہو" (المائدۃ:89)

 

اہل وعیال کو کھانا کھلانا دن میں دو مرتبہ ہے،  کہ جسے کھانا  کھلانا کہا جاسکے، جیسا کہ  دوپہر اور رات کا کھانا؛ بصورتِ دیگر اس شخص نے اپنے  اہل وعیال کا کھانا مہیا کرنے کی تکمیل نہیں کی ہے، اور اسی طرح مساکین کو کفارہ کے حوالے سےبھی، اس شخص پر ان مساکین کو  دن میں دومرتبہ کھانا کھلانا لازم ہے یہاں تک کہ کفارہ کی تکمیل ہوجائے، چنانچہ  اگر وہ شخص رات کا کھانا کھلائے بغیر صرف دوپہر کے کھانے پر اکتفاء کرتا ہے ، یا دوپہر کے کھانے کے بغیر صرف رات کے کھانے پر اکتفاء کرتا ہے تو یہ قبول نہیں ہے، اور اسی طرح  شریعت نے رمضان میں دووقت کا کھانا مقررکیا ہے : یعنی سحر اور افطار کا کھانا، لہٰذا مکمل کھانا کھلانا  دو اوقات کے کھانوں یا ان کے مثل  ہے۔

 

6۔ جہاں تک آپ کا یہ سوال  ہے کہ : ( ایک شخص جو یورپ میں رہتا ہے اور یوکرین میں مقررکردہ قسم کے کفارہ کی رقم کے اعتبارسےعمل کرتے ہوئے اپنی قسم کا کفارہ  یوکرین میں مساکین کوادا کرتا ہے۔ کیا اس شخص کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ یورپ میں قسم کے کفارہ کے لئے مقررکردہ رقم کے اعتبار سے کفارہ کی ادائیگی کرتا یا یہ کافی تھا کہ جس ملک میں یہ رقم بھیجی گئی تھی وہاں کے مقررکردہ رقم کے اعتبارکی پیروی کی جاتی ؟ ) تو اس کا جواب یہ ہے اور اس پر مجھے یقین ہے کہ  کھانے پر خرچ  کی جانے والی رقم اس ملک میں اوسط کھانے کے مطابق ہو، جس ملک میں وہ شخص رہتا ہو ، جو کفارہ کی ادائیگی کر رہا ہے؛ اور اس کی وجہ یہ ہے  کہ آیتِ مبارکہ میں یہ کہا گیا ہے :

 

﴿فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ﴾

" تو اس کا کفارہ دس مساکین  کو اوسط درجہ کا کھانا کھلانا ہے جیسا کہ تم اپنے اہل وعیال کو کھلاتے ہو" (المائدۃ:89)

 

اس  طرح اس شخص کو یہ احساس ہوگا کہ کھانا کھلانا اس مقام کے اعتبار سے ہے جہاں وہ  شخص خود رہتا ہے، کیونکہ جو مقصد مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ دس مساکین کو اس اوسط کے اعتبار سے کھانا کھلایا جائے  جس طرح سے وہ اپنے اہل وعیال کو کھانا کھلاتاہے۔ مثال کے طورپر، اگر  وہ یوکرین میں دس ڈالر میں کھانا کھلاتا ہے تو ممکن ہے کہ یہ رقم یوکرین میں دس مساکین کو کھانا کھلانے کے لئے کافی ہو لیکن  یورپ کی صورتحال کے مطابق یہ رقم یورپ میں دس مساکین کو کھانا کھلانے کے لئے ناکافی ہے۔ مثال کے طور پر، اسے ایک سو ڈالر میں کھانا کھلانا پڑے گا تا کہ وہ اس اوسط کے مطابق کھلاسکے جس طرح وہ اپنے اہل وعیال کو کھلاتاہے۔

 

اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ  یہ زیادہ افضل اور دانشمندانہ  ہے کہ اس ملک میں دس مساکین کو کھانا کھلانے کی رقم دی جائے جہاں وہ شخص خود رہتا ہو۔

 

یہی ہے جو مجھے زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے، وہ بڑا حکمت والا ہے۔

 

آپ کا بھائی،

عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

یکم ذوالحج، 1444ھ

19 جون 2023ء

Last modified onجمعرات, 20 جولائی 2023 04:41

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک