الجمعة، 20 جمادى الأولى 1446| 2024/11/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب

سونے کے زیوات کو کرایہ پر دینا

 

منجانب: شيخ حسام ابو محمود

 

سوال:

 

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، جزاك الله خير اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کو کامیابی عطا فرمائیں۔

اگر آپ مہربانی کریں تو میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں: سونے کو کرایہ پر دینے کا کیا حکم ہے، کیونکہ کچھ لوگ سونے کو چند دن کے لئے کرایہ پر دیتے ہیں اور یہ رواج کچھ ممالک میں عام ہو چکا ہے۔ جزاک اللہ خیر

 

جواب

:

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته،

کرایہ داری(اجارہ) کا عقد معاوضہ کے بدلے میں منفعت  حاصل کرنا ہے۔ گھر، جانور، گاڑیاں اور ان جیسی دیگر اشیاء جن سے منفعت حاصل کی جا سکتی ہے وہ اجارہ کے عقد میں شامل ہیں۔ اس کی وضاحت ہم "اسلامی شخصیت (جلد دوئم)" کے باب "اجارہ" میں کر چکے ہیں، جس میں بیان ہے:

 

"کرایہ داری(اجارہ) کا عقد معاوضہ کے بدلے منفعت حاصل کرنا ہے اور اس کی تین اقسام ہیں:

 

پہلی قسم: اس عقد میں معاوضہ کے بدلے اشیاء سے منفعت حاصل کی جا سکتی ہے جیسے گھر، جانور، گاڑیاں اور ان جیسی دیگر اشیاء۔

 

دوسری قسم: اس عقد میں معاوضہ کے بدلے خدمات سے منفعت حاصل کی جا سکتی ہے، جیسے کچھ کاروباری اور صنعت کار حضرات سے حاصل کی جانے والی خدمات یا پھر رنگ ساز، لوہار، بڑھئی اور دیگر اسی انواع کی خدمات کرایہ(اجارہ) پر حاصل کرنا۔

 

تیسری قسم: اس عقد میں کسی شخص سے معاوضہ کے بدلے منفعت حاصل کی جا سکتی ہے، جیسے گھریلو ملازمین، مزدور اور دیگر اسی انواع کی منفعت۔

 

اجارہ اپنی تمام انواع کے ساتھ جائزوحلال ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:

 

﴿وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍۢ دَرَجَـٰتٍۢ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًۭا سُخْرِيًّۭا ۗ وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌۭ مِّمَّا يَجْمَعُونَْ

"اور ایک کے دوسرے پر درجے بلند کئے تاکہ ایک دوسرے سے خدمت لے اور جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں تمہارے پروردگار کی رحمت اس سے کہیں بہتر ہے"۔(سورةالزخرف: 32)

 

اور البیہقی نے أبو ہریرہؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

 

«من استأجر أجيراً فليعلمه أجره»

"جو شخص بھی کسی کو ملازم رکھے وہ اس کو اس کی اجرت بتا کر رکھے" ۔

 

امام بخاری سے روایت ہے کہ:

 

«أن النبي ﷺ والصِدَّيق استأجرا رجلاً من بني الدِّيل هادياً خرِّيتاً»

"نبی ﷺ اور ابو بکر صدیقؓ نے بنو دیل کے ایک شخص کو راستہ بتانے کے لئے اجرت پر رکھا"۔

 

جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کسی بھی چیز جس کی منفعت جائز ہے اسے مقررہ معاوضہ اور مقررہ مدت کے لئے کرایہ (اجارہ )پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ پس ایک گاڑی کو ایک مخصوص مدت، مخصوص معاوضہ اور کسی خاص استعمال کے لئے کرایہ پر لیا جا سکتا ہے۔ لیکن جہاں تک سونے اور چاندی کا کسی عورت کے بناوٴ سنگھار کے لئے ایک مخصوص مدت اور مخصوص معاوضہ کے عوض کرایہ پر لینے کا تعلق ہے تو مجھے یہ غیر مناسب محسوس ہوتا ہے کیونکہ اسلام میں سونا اور چاندی نقدی کی بنیاد ہیں۔ تو پھر کیسے نقدی کے بدلے نقدی کرایہ کی صورت میں وصول کی جا سکتی ہے؟ یعنی نقدی اپنی ہی جنس میں کیسے کرایہ پر دی جا سکتی ہے؟ بہرحال اس مسٔلہ میں گہرائی سے تحقیق کی ضرورت ہے، اور شاید یہ مستقبل میں ہو پائے،ان شاء اللہ۔

 

بہرحال میں آپ کے لئے چند ایک فقہی آرا ءکو بیان کیے دیتا ہوں تاکہ آپ ان میں کسی ایک رائے کو اپنا سکیں۔

 

1-   ابن قدامہ المغنی (5/403)میں لکھتے ہیں:

باب 4305: "اگرچہ اسے کرائے پر دینا جائز ہے، کسی بھی ملکیت کو   کسی جائز منفعت کے بدلے  کرایہ پر دینا مباح ہے، یہ ویسا ہی ہے جیسے اصل حکم جو کہ زمین یا گھر کے بارے میں ہے۔۔۔ زیورات کو کرایہ پر دینا جائز ہے۔ عبد اللہ نے اپنے والد احمد سے روایت کیا ہے ۔ الثوری، شافعی، اسحٰق ، ابو ثور اور دیگر اہلِ رائے نے بھی یہی کہا ہے۔ یہ روایت احمد کی سند سے ہے کہ انہوں نے زیورات کو کرایہ پر دینے کے متعلق بیان کیا: مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیا ہے؟ القاضی نے کہا ہے: (اس کی حرمت) اس سے مشروط ہے کہ اسے اسی کی جنس میں ہی کرائے پر دیا جائے، جہاں تک کسی دوسری جنس کا تعلق ہے تو اس میں کوئی مسٔلہ نہیں، یہ احمد کی رائے کی بنیاد پر ہے جس کے مطابق  یہ جائز ہے۔امام مالک زیورات اور ملبوسات کو کرایہ پر دینے کے بارے میں کہتے ہیں:یہ ان مسائل میں سے ہے  جن میں شک ہے۔شاید وہ خیال کرتے تھے کہ اس سے مراد آرائش کی اشیاء ہیں، اور وہ اصلاً مقصود نہیں"۔

 

2۔ امام النوویؒفرماتے ہیں :

"الصمیری اور الماوردی اور ان دونوں کے پیروکاروں کا کہنا ہے کہ یہ بہتر ہےکہ کوئی شخص سونے اور چاندی کے زیورات کو کرایہ پر دے،لیکن اسی جنس کے بدلے نہیں ، بلکہ اسے چاہیئے کہ وہ سونے کو چاندی کے بدلے اور چاندی کو سونے کے بدلے میں کرایہ پر دے۔ لیکن اگر کوئی شخص سونے کے بدلے سونا اور چاندی کے بدلے چاندی کرایہ پر دے تو اس کے بارے میں دو رائے پائی جاتی ہیں: (پہلی رائے یہ ہے کہ ) اس کے سودی لین دین ہونے کے شبہ کی وجہ سے یہ باطل ہے۔ اور صحیح رائے یہ ہے کہ یہ بھی بقیہ کرائے داریوں کی طرح جائز ہے۔ الماوردی فرماتے ہیں: پہلی رائے باطل ہے کیونکہ کرایہ داری سودی عقد نہیں ہوتا، لہٰذا سونے کے زیورات کو تاخیر سے ادا کیے گئے (مؤجل) درہم کے عوض کرایہ پر دینا جائز ہے،  مسلمانوں کے اجماع کی وجہ سے، اور اگر اس میں سود شامل ہو تو پھر یہ لین دین جائز نہیں ہو گا"۔(المجموع 6/46)

 

3۔ کویتی فقہی انسائیکلوپیڈیا (12/ 283، الشاملہ کی خودکار نمبرنگ کے ساتھ):

"زیورات کو کرایہ پر دینا:

25-بنیادی اصول یہ ہے کہ ان اشیاء کو کرایہ پر دینا جائز ہے جن سے منفعت حاصل کی جا سکتی ہے، بشرطیکہ منفعت حلال ہو اور وہ چیز مالک کو اصل حالت میں واپس لوٹائی جائے۔ اس پر شوافع اور حنابلہ کا کہنا یہ ہے کہ ملبوسات اور زیورات کو آرائش کے لیے استعمال کرنا جائز ہے۔ ان سے منفعت لینا جائز ہے اگر مالک کو چیز اصل حالت میں لوٹانے کی نیت ہو، اور زینت و آرائش حلال معاملات میں سے ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:

 

﴿قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللّهِ الّتي أَخْرَجَ لِعِبَادِه

"پوچھو  کہ جو زینت (وآرائش) اور کھانے (پینے) کی پاکیزہ چیزیں اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہیں ان کو حرام کس نے کیا ہے؟" (الاعراف: 32)۔

 

سونے اور چاندی کو اپنی جنس کے علاوہ کسی اور چیز کے عوض کرایہ پر دینا کا مدار دونوں فریقوں کے درمیان اتفاق پر ہے۔

 

اپنی ہی جنس میں کرایہ داری کے بارے میں امام احمد نے تردد کا اظہار کیا ہے اور انہی سے یہ مروی ہے کہ یہ مطلقاً جائز ہے۔

 

جہاں تک احناف کی رائے ہے تو انہوں نے آرائش کے لیے ملبوسات اور برتنوں کی کرایہ داری کو ممنوع قرار دیاہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص ملبوسات کو یا برتنوں کو زینت و آرائش کے لئے کرایہ پر لیتا ہے، یا کسی جانور کو آمدنی کے لئے یا کسی گھر کو جس میں رہائش مقصود نہ ہو۔۔۔تو کرایہ داری کی یہ سب اقسام فاسد ہیں اور اس میں اس شخص کےلئے کوئی اجر نہیں ہے،کیونکہ یہ اس شٔے کی غیر مقصود منفعت ہے۔ (جبکہ) یہ جائز ہے کہ لباس پہننے کےلئے، اسلحہ جہاد کے لئے، خیمہ سکونت کےلئے اور اسی طرح کی اور اشیاء مقررہ مدت اور مقررہ رقم کے عوض کرایہ پر لی جائیں۔ اور زیورات کو ملبوسات (پہناوے ) میں شمار کیا جاتا ہے۔

 

مالکیہ نے زیورات کو کرایہ پر دینے پر کراہت کا اظہار کیا ہے، کیونکہ لوگوں میں اس قسم کی کرایہ داری کا کوئی رجحان نہیں تھا۔ انہوں نے کہا: بہتر یہ ہے کہ زیورات کو استعمال کے لیے  بلا معاوضہ دے دیا جائے  اور یہی معروف ہے"۔

 

کویتی فقہی انسائیکلوپیڈیا  (22/ 294، الشاملہ کی خودکار نمبرنگ کے ساتھ):

"مطلوبہ سونے کوکرایہ پر لینا:

30۔ حنابلہ  نے سونے کے دراہم کو مقررہ مدت کےلئے زینت و آرائش اور وزن کے لئے کرایہ پر لینے کو جائز قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں ہر اس چیز کو بھی  جائز قرار دیا ہے جس کی ضرورت ہو، جیسے سونے کے اضافی سکے، کیونکہ یہ ایک جائز منفعت ہے جس کو حاصل کیا جائے جبکہ اصل چیز ویسی ہی رہے، اور بلا اختلاف اس طرح کی ہر چیز کرایہ پر لینا جائز ہے۔ اور شوافع نے دراہم کو کرایہ پر دینے کی ممانعت کی ہے اور زیورات کی کرایہ داری کو جائز کہا ہے۔ "

 

4۔ شمس الدين محمد السیوطی اپنی تالیف جواہر العقود میں لکھتے ہیں اور پھر القاہری الشافعی جو 880ھ میں فوت ہوئے ، باب (216/1):

"زیورات کو کرایہ پر دینے میں ان کا اختلاف ہے،سونا سونے کے بدلے اور چاندی چاندی کے بدلے۔ کیا یہ ناپسندیدہ ہے؟ امام ابو حنیفہؒ، امام شافعیؒ اور امام مالک ؒنے کہا اس میں کوئی کراہت نہیں ہے۔ اور امام احمدؒ نے کہا اس میں کراہت ہے۔ "

 

5- الفقہ على المذاهب الأربعہ (3/ 60):

"جہاں تک تیسری قسم کا تعلق ہے جو ناپسندیدہ ہے،  اس میں زیورات کی کرایہ داری کا معاملہ ہے  جو مکروہ ہے چاہے سونے کے زیورات ہوں یا چاندی کے۔

اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جس چیز کی کرایہ داری مکروہ ہے وہ زیورات ہیں  جن کا استعمال مباح ہے لیکن  ممنوعہ اشیاء کے بدلے اس کو کرائے پر دینا حرام ہے ۔ اگر کوئی شخص زیورات کو کرایہ پر لیتا ہے تو یہ درست نہیں ہے اور بعض نے اس سے کراہت کا اظہار کیا ہے چاہے اس کا استعمال حلال ہو یا حرام۔ "

 

آپ کی معلومات کےلئے، نسائی اپنی سنن میں أبو موسیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

«أُحِلَّ الذَّهَبُ وَالْحَرِيرُ لِإِنَاثِ أُمَّتِي وَحُرِّمَ عَلَى ذُكُورِهَا»

"میری امت کی عورتوں کے لئے سونا اور ریشم پہننا حلال ہے اور اس کے مردوں کے لئے حرام"۔

 

پس جس رائے سے آپ مطمئن ہوں اس کی اتباع کریں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو۔

 

آپ کا بھائی،

عطاء بن خلیل أبوالرشتہ

13صفر الخير 1445ھ

بمطابق 2023/8/29 ء

Last modified onجمعرات, 28 ستمبر 2023 20:08

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک