الثلاثاء، 22 جمادى الثانية 1446| 2024/12/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال کا جواب عوامی ملکیت

سوال کا جواب عوامی ملکیت

بسم الله الرحمن الرحيم

اے  ہمارے معزز عالم دین السلام علیکم،  میں عوامی ملکیت کے بارے میں ایک سوال آپ سے کرنا چاہتا ہوں۔  کیا احکام شرعیہ کے مطابق  نجی ملکیت  عوامی ملکیت میں تبدیل ہوسکتی ہے،  جیسے اگر عوام کے فائدے کے لئے ضروری ہو تو پا نی کے  نجی چشموں کو   عوامی ملکیت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ اورکیا جب یہ عذر  ختم ہو جائے  تو وہ اپنی پرانی صورت حال کے مطابق نجی ملکیت بن جائیں گے؟....

 

سوال کا جواب

 عوامی ملکیت

نادر الزعتری کا سوال

 سوال :

 

اے  ہمارے معزز عالم دین السلام علیکم،  میں عوامی ملکیت کے بارے میں ایک سوال آپ سے کرنا چاہتا ہوں۔  کیا احکام شرعیہ کے مطابق  نجی ملکیت  عوامی ملکیت میں تبدیل ہوسکتی ہے،  جیسے اگر عوام کے فائدے کے لئے ضروری ہو تو پا نی کے  نجی چشموں کو   عوامی ملکیت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ اورکیا جب یہ عذر  ختم ہو جائے  تو وہ اپنی پرانی صورت حال کے مطابق نجی ملکیت بن جائیں گے؟ یہی مثال پٹرول کے کنووں  کی ہے  کہ جب ان میں موجود ذخیرہ کم ہو جائے تو دوبارہ شخصی ملکیت بن جائیں گے؟

بہت شکریہ ، اللہ آپ کی مدد کرے   اور آپ کو ثابت قدم رکھے والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ۔

 جواب:

 وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبر کاتہ

اگر عوامی ملکیت کی اقسام میں سے کوئی قسم ایسی ہو جس  میں علت ہو  تو حکم اس علت کے گرد وجود اور عدم وجود کے اعتبار سے گھومے گا۔۔۔ جب تک وہ علت ہو گی  وہ قسم عوامی ملکیت ہوگی  اور جب وہ علت  نہیں ہو گی تو اس عوامی ملکیت کا نجی ملکیت بننا جائز ہے،  بشرطیکہ کہ وہ علت کسی شرعی نص میں موجود ہو یعنی شرعی علت ہو۔

  جماعت  کی ضرورت کیا ہے  جس کوعوامی ملکیت میں شمار کیا جائے، یہ رسول اللہ ﷺ نے بیان کیا چنانچہ   رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:«المسلمون شركاء في ثلاث في الماء والكلأ والنار»"مسلمان  تین چیزوں میں شریک ہیں  پانی،  چر ہ گاہ اور آگ" اس کو ابوداود نے روایت کیا ہے اور انس نے بھی اس کو ابن عباس کی حدیث میں روایت کیا ہے  جس میں ابن عباس   نےیہ اضافہ کیا ہے کہ نبی ﷺ نےفرمایا :  «ثلاث لا يمنعن: الماء والكلأ والنار»"  تین چیزوں سے  روکا نہیں جا سکتا: پانی،چرہ گاہ اور آگ"۔  یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ  پانی، چرہ گاہ اور آگ میں شراکت دار ہیں اور  ان کو نجی ملکیت میں نہیں دیا جا سکتا۔

مگر ابن ماجہ نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے پانی کو طائف اور خیبر میں افراد کی ملکیت میں دے دیا تھا اور وہ عملاً  اس کے مالک بن گئے تھے اور اس سے  اپنی کھیتی اور باغ سیراب کرتے تھے۔ اسی طرح مدینہ میں بھی  بعض مسلمان  کنووں کے مالک تھے  چنانچہ  بخاری نے عبد اللہ رضی  اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ يَقْتَطِعُ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، هُوَ عَلَيْهَا فَاجِرٌ، لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ» " جو شخص   جھوٹی قسم کھا کر کسی مسلمان کا مال لے  تو وہ فاجر ہے اور وہ اللہ سے ایسی حالت میں ملے گا کہ اللہ اس پر غضبناک ہو گا"۔  ابو عبد الرحمن  کہتے ہیں کہ  ان کے چچازاد بھائی کی زمین میں ان کا ایک کنواں تھا۔  اس نے مجھ سے کہا کہ : گواہ لاو کہ یہ کنواں تمہارا ہے ، ابو عبد الرحمن نے کہا  کوئی گواہ نہیں، تو اس کے چچازاد نے قسم کھالی اور ابو عبد الرحمن  نے یہ بات رسول اللہ ﷺ کو بتائی جس پر یہ آیت نازل ہوئی : إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا "بے شک جو لوگ  بہت ہی تھوڑی قیمت کے لیے اللہ کے عہد وپیماں اور اپنی قسم کو بیچ دیتے ہیں "(آل عمران: 77 ) ۔

اگر پانی میں شراکت صرف اس وجہ سے ہوتی کہ وہ پانی ہے اور اس صفت کی وجہ سے نہ ہوتی کہ اس کی ضرورت ہے تو رسول اللہ ﷺ افراد کو اس کا مالک بننے کی اجازت نہ دیتے۔  رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا کہ :«المسلمون شركاء في ثلاث في الماء»"مسلمان تین چیزوں میں شریک  ہیں،  پانی۔۔"۔  رسول اللہ ﷺ نے افراد کے لیے پانی کی ملکیت کو بھی مباح  کیا،  جس سے پانی ،چارہ اور آگ میں شراکت کی علت کو مستنبط کیا جاسکتا ہے جو کہ جماعت کی ضرورت ہو نا ہے،  جس کے بغیر جماعت کا گزربسر مشکل ہے۔

حدیث نے ذکر تو تین چیزوں کا کیا مگر  اس میں علت ہے؛ کیونکہ یہ جماعت کی ضرورت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ علت   معلول کے گرد وجود اور عدم وجود کے لحاظ سے گھومے گی،  یوں ہر وہ چیز جو جماعت کی ضرورت ہو گی  اس کو عوامی ملکیت سمجھا جائے گا اور جیسے ہی جماعت کی ضرورت نہیں رہے گی چاہے ان تینوں اشیاء میں سے ہی ہو  جیسے پانی جس کی بات ہو رہی ہے تب وہ ان میں شمار ہو گا  جو شخصی ملکیت ہیں۔  جماعت کی ضرورت کا ضابطہ یہ ہے کہ  اگر وہ چیز جماعت کو میسر نہ ہو اور اس کی تلاش میں  وہ تتر بتر ہو جائیں جیسے کسی بستی یا گاوں یا شہر یا ریاست  کے لوگ منتشر ہو جائیں، ایسی چیز کو جماعت کی ضرورت سمجھا جائے گا، جیسے پانی کے چشمے، جلانے کی لکڑی اور چوپایوں کا چارہ وغیرہ۔

اسی طرح  معدنیات  عوامی ملکیت ہیں اوران کو انفرادی ملکیت میں دینا جائز نہیں جب یہ غیر محدود مقدار میں ہوں  جیسا کہ ترمذی نے ابیض بن حمال المزنی سے روایت کیا ہے کہ أنه وفد إلى رسول الله ، فاستقطعه الملح فقطع له، فلما أن ولّى، قال رجل من المجلس: أتدري ما قطعت له؟ إنما قطعت له الماء العِدّ، قال: فانتزعه منه" ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں آیا اور  نمک کی کان دینے کا مطالبہ کی، آپ ﷺ نے  اس کو دے دیا ،وہ آدمی نکل گیا تو مجلس میں ایک شخصنے پوچھا کہ اے اللہ کے رسولﷺ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے اس کو کیا دیا ؟ آپ ﷺ نے تو اس کو غیر محدود معدنیات دے دی۔  آپ ﷺ نے اس سے واپس لے لیا"۔ رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ  معدنیات کو انفرادی ملکیت میں نہیں دیا جا سکتا بلکہ یہ عوامی ملکیت ہے۔ حدیث سے واضح ہے کہ  اس کو انفرادی ملکیت میں نہ دینے کی علت اس کا غیر محدود ہو نا ہے اور یہی اس کا حکم ہے، یعنی اگر معدنیات لا محدود ہوں تو اس کو انفرادی ملکیت میں نہیں دیا جا سکتا۔ اس حکم میں تمام معدنیات شامل ہیں  چاہے ان معدنیا ت تک رسائی آسانی سے ہو  جیسے نمک،سرمہ، وغیرہ،  یا یہ چھپے ہوئے ہوں اور بڑی مشقت سے ان تک رسائی ہو  جیسے سونا، چاندی، لوہا، پیتل، تانبا وغیرہ۔  چاہے یہ ٹھوس ہوں  جیسے کرسٹل  یا مائع جیسے پٹرول، یہ سب معدنیات ہیں اور اس حدیث کے ماتحت ہیں۔  غیر محدود معدنیات  تمام رعایا کی ملکیت ہے،  اس لیے ریاست کے لیے ان کو افراد یا کمپنیوں کی ملکیت میں دینا جائز نہیں۔افراد اور کمپنیوں کو ان کو  اپنے لیے نکالنے کی اجازت بھی نہیں دی جا سکتی،  بلکہ ریاست کو چاہیے کہ خود مسلمانوں کی نمائندگی  اور ان کے امور کی دیکھ بھال کرتے ہوئے ان کو نکالے، اور  جو کچھ بھی وہ نکالے گی وہ ریاست کے تمام شہریوں کی ملکیت ہو گی۔

لہذا سوال میں جن اشیاء کا ذکر ہے وہ جب جماعت کی ضرورت ہوں گی تو عوامی ملکیت ہوں گی ،  جیسے گاوں کا وہ کنواں  جس کے علاوہ پانی کا کوئی اور ذریعہ نہ ہو تو یہ کنواں عوامی ملکیت ہے اوراس کو افراد کی ملکیت میں دینا جائز نہیں۔۔۔۔  اگر لوگوں کو پینے کا پانی وافر مقدار میں میسر ہو تو کوئی شخص اپنی زمین میں اپنے لیے کنواں کھود کر اس کا مالک بن سکتا ہے جو جماعت کی ضرورت نہیں،  یعنی جماعت کی ضرورت ہونے کی علت ختم ہو گئی۔۔۔ مگر جو کنواں عوامی ملکیت تھا وہ فرد کی ملکیت نہیں بنے گا بلکہ عوامی ملکیت ہی رہے گا اوراس کو افراد کو فروخت  کرنا ناجائز  ہے مگر جب جماعت کو پانی وافر مقدار میں میسر ہو  تو اس پانی کے کنوے کو فروخت کر کے  اسے نجی ملکیت میں دیا جاسکتا ہے ۔

لہٰذا  پانی کا کنواں عوامی ملکیت ہے جب لوگوں کے پاس اس کے علاوہ پانی کے حصول کاکوئی اور ذریعہ موجود نہ ہو۔  مگر جب جماعت کو اس کی ضرورت نہ رہے  یعنی جماعت کی ضرورت ہونے کی علت ختم ہو جائے  اور لوگوں کو پانی وافر مقدار میں میسر ہو   تب اس کو افراد کی ملکیت میں دینا جائز ہے  اور اس کی قیمت کو عوامی ملکیت کے شعبے میں رکھا جائے گا۔

پٹرول کے کنویں  بھی عوامی ملکیت ہیں  جب تک کہ وہ غیر محدود ہوں ،  جب ان کی عوامی ملکیت ہونے کی علت  ختم ہو گی تو ان کو افراد کو بیچ کر قیمت عوامی ملکیت کے مد میں رکھنا جائز ہے۔

 آپ کا بھائی عطا بن خلیل ابو الرشتہ

15 جمادی الاول 1437

 24 فروری 2016

 

Last modified onاتوار, 11 ستمبر 2016 04:42

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک