السبت، 21 جمادى الأولى 1446| 2024/11/23
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

قاعدہ: جس عمل کے بغیر واجب ادا نہیں ہو تا وہ بھی واجب ہے

سوالات کے جوابات

قاعدہ: جس عمل کے بغیر واجب ادا نہیں ہو تا وہ بھی واجب ہے

میرے کچھ سوال ہیں جن کو میں ہمارے فاضل عالم  حفظہ اللہ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اوریہ دونوں سوال کتاب  اسلامی شخصیت کی تیسری جلد سے متعلق ہیں۔

Read more...

سوال کا جواب: مضمون: رہائشی زمین پہ خراج نہیں

میرا سوال یہ ہے کہ،   کیا خراج ایسی زمین سے ساقط ہو جاتا ہے جس پر عمارت تعمیر کردی جائے  یا  پھر بھی مالک پر خراج لازم ہے اس سے قطع نظر کہ زمین زرعی ہے یا نہیں ؟

Read more...

سوال کا جواب: عورت کے پاوں عورہ (ستر) ہیں

سوال کا جواب:

عورت کے پاوں  عورہ (ستر) ہیں

میں چاہتی  ہوں کہ عورت کی جانب سے  عام زندگی (گھر سے باہر) میں پاوں نہ چھپانے کے بارے میں پوچھوں۔  کیا پاوں  کا  چھپانا  ویسے ہی فرض ہے جیسے کسی بھی دوسرے عورہ (ستر)کو  چھپانا فرض ہے ؟

Read more...

ابراہیم علیہ اسلام اور قربانی کا موسم

 ابراہیم علیہ اسلام اور قربانی کا موسم

ذی الحج وہ مہینہ ہے جس میں مسلمان حضرت ابراہیم علیہ اسلام پر آنے والے سب سے کڑے امتحان اور اس میں ان کی  کامیابی کو یاد کرتے ہیں۔ اس 1436 ہجری کے ذی الحج کو قربانی کا پیغام کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیو نکہ یہ واضح ہے کہ ہم قربانیوں کے موسم سے گزر رہے ہیں۔ اس ذی الحج جب خلافت کا کارواں چلنے کا بس تیار ہی ہے، انشاء اللہ، خلافت کے داعیوں کو پہلے سے کہیں زیادہ قربانیاں دینے کی ضرورت ہے۔ خلافت کے داعیوں کو  کفر  حکمرانی کرنے والوں کے غنڈوں  پریشان اور تنگ کررہے ہیں۔ انہیں گرفتار یا اغوا کر کے قید خانوں میں ڈالا جارہا ہے۔

Read more...

صرف خلافت ہی امت کو سود پر مبنی بھاریحکومتی قرض سے نجات دلائے گی

صرف خلافت ہی امت کو سود پر مبنی بھاریحکومتی قرض سے نجات دلائے گی

گز شتہ سات سال میں پاکستان کے حکومتی قر ض میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔یہ قرض بیس ٹریلین روپے کی بلندترین سطح کو چھو چکا ہے جو کہ ۲۰۰۸؁ء میں ۳۔۶ٹریلین روپے تھا ۔صرف موجودہ حکومت نے گزشتہ  دو سالوں میں اندرونی قرض میں ۵۔۳ٹریلین کا اضافہ کیا ہے۔ایک اندازے کے مطابق حکومت اپنی آمدن کا ۴۴فیصد یعنی تقریباــ ً نصف قرض پر سود کی ادائیگی پر خرچ کرتی ہے۔اسطرح پاکستانی  عوام پر اس قرض پر سود کی ادائیگی کا بوجھ تقریباً ۷ہزار روپے سالانہ فی کس ہے۔

 

Read more...

خروج اور حزب التحریر کا منہج

خروج  اور حزب التحریر کا منہج

آج کے دور میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ اُمّت مسلمہ ایک بہت ہی کھٹن مرحلے سے گزر رہی ہے، اس پر ظا لم حکمران مسّلط ہیں، جو کہ اُن پر ایسے نظام نا فذ کررہے ہیں، جو کہ سر سرا سر کفر پر مبنی ہیں۔ ایسے میں امّت میں ایک بے چینی پائی جاتی ہے کہ کس طرح ان دونوں سے چھٹکارا پایا جائے۔ اسی مقصد کو حا صل کرنے کے لیے امّت میں سے ہی کچھ آوازیں بلند ہوئیں جنھوں نے ان حکمرانوں اور ان نظاموں کو ہٹانے کے بارے میں مختلف آرا ء دیں۔

Read more...

راحیل-نواز حکومت امریکی احکامات کی پیروی میں کشمیری مسلمانوں سے غداری کررہی ہے

14جولائی 2015 کو کشمیری مسلمانوں کے انتہائی معتبر اور معزز رہنما سید علی گیلانی نے 21 جولائی کو بھارت میں  پاکستان ہائی کمیشن کی جانب سے عید ملن کی تقریب کی دعوت میں شرکت کی درخواست  یہ کہہ کر مسترد کردی کہ 10 جولائی 2015 کو روس کے شہر اوفا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں   کشمیر  کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ گیلانی صاحب نے کہا کہ "ہمارے لئے کشمیر  زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ کوئی ہمیں نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اور میں نیو دلی میں ہونے والی عید ملن کی تقریب میں احتجاج کے طور پر شرکت نہیں کروں گا"۔

Read more...

پاکستانی  حکومت یمن  میں طاقت استعمال کرنے کا اشارہ دے رہی  ہے جبکہ پاکستان میں حزب التحریر کے مرکزی رابطہ کمیٹی کے چیئر مین سعد جگرانوی کو اغوا کر لیا ہے

خبر :

ریاض ، اسلام آباد(نیوز ایجنسیاں) کل(23/4/2015) خادم حرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز نے ریاض کے قصرالعوجاء میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اور اس کے ساتھ آنے والے وفد کا استقبال کیا۔  اس ملاقات کا مقصد یمن بحران اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر غور وحوض تھا۔  نواز شریف کے ہمراہ بری فوج کے سربراہ راحیل شریف ،وزیر دفاع خواجہ آصف ،مشیر  خارجہ سرتاج عزیز اور وزیر اعظم کے مشیر خاص طارق فاطمی وفد میں شامل تھے۔  کل پاکستان کے وزارت خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ وزیر اعظم کا دورۂ ریاض  اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام آباد سعودی عر ب کے ساتھ تعاون   اور یمن کے اندر سیاسی حل کے لئے کوشش کرے گا۔

 

تبصرہ:

ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ پاکستان میں اصل حکمران فوج ہے جبکہ  سیاسی حکمرانوں کی حیثیت کسی مضمون کے عنوان  سے زیادہ کچھ نہیں اوراس کی دلیل ا س نظام کی پالیسیاں اور وہ فیصلے ہیں جو یہ نظام صادر  کرتا رہتا ہے اورجس کی نگرانی کے لئے انسانوں اور مال کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جاتاہے ۔ یہ نظام کئی دہائیوں سے بھارت   سے نفرت اور دشمنی کی پالیسی چلاتا رہا تاکہ اسے خطے کے اندر امریکی مفادات کی خدمت بجالانے اورانگریزوں کے بجائے امریکی ایجنٹ بننے پر مجبور کردے۔  یہ نظام عالمی انسپکٹر وں کی زیر نگرانی جس کا سرغنہ امریکہ ہے،ایٹمی ہتھیار  سے لیس ہوا۔  یہ اسلحہ کشمیر کو آزادی دلانے یا مسلمانوں کے قبلۂ اول،  بیت المقدس کو یہودیوں کے قبضے سے چھڑانے کے لئے حاصل کیا گیا  اور نہ ہی افغانستان ، برما وغیرہ میں مسلمانوں کی مدد کرنے کے لئے تیار کیا گیا بلکہ اس اسلحے کامقصد  یہ تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ اسٹریٹجک پہلو سے برابری کی پوزیشن پر آجائے۔ اس طرح  بھارت پر دباؤ ڈال سکےکیونکہ اس نظام نے  اپنے صحیح مقام پراس ایٹمی طاقت کو استعمال نہیں کیا (یعنی بھارت کے قبضے سے کشمیر کی آزادی کے لئے)۔  یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایٹمی طاقت کو محض خطے میں امریکی اسٹریٹجک مسائل کی خدمت میں استعمال کیا جاتا ہے چنانچہ صرف امریکہ ہی اس اسلحے کا فائد ہ اٹھاتا ہے ۔  اسی طرح  افغانستان میں عسکری قوت استعمال کرنے کی حقیقت یہ ہے کہ پہلے اس کو خطے سے سوویت یونین کو پسپا کرنے اور اسے نیچا دکھانے کے لئے استعمال کیا گیا اور کچھ عرصہ بعد امریکی استعمار نے  اس کی جگہ لے لی۔   پھراس  فوجی طاقت کو افغانستان میں امریکی قبضے کو استحکام دلانے کے لئے بروئے کارلایا گیا ۔ اس کے علاوہ کئی  اورمثالیں بھی دی جاسکتی ہیں لیکن  ان دو مثالوں سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ پاکستان کے اندر حکومت (یعنی عسکری قیادت) صرف وہی کام کرتی ہے جو امریکی مفادات کی راہ میں انجام دئے جائیں۔ نہایت  افسو س کا مقام ہے کہ اس فوجی قوت کی ریکارڈ میں کوئی ایک بھی  ایسی مثال نہیں ملتی جو اس کے لئے  باعثِ فخر ہو۔  اس  نے اپنی پوری  طاقت امریکہ کی خدمت ، اس کےمفادات اور اس کی بزدل افواج کو بچانے میں جھونک دی، جیسا کہ گزشتہ صدی کی نوے کی دہائی  کے اوائل  میں  پاکستانی فوجی ڈویژن نے  امریکی میرینز کی ڈویژن کو صومالیہ میں وہاں کے مجاہدین کے ہاتھوں یرغمال ہونے سے بچایا،  جو آپریشن "بلیک ہاک " کے نام سے مشہور ہے۔

 

اسی ضمن میں یمن کے معاملے میں پاکستانی حکومت کے کردار کو سمجھنا ضروری ہے۔  بات یہ ہے کہ جہاں کہیں امریکہ کے مفادات موجود ہیں وہاں اس کے ایجنٹ بھی موجود ہوتے ہیں جو اس کے مفادات کی خدمت کرتے ہیں اور مسلمانوں کے خون اور ان کی قوت وطاقت کو اس کے لئے داؤ پر لگانے میں جھجک محسوس نہیں کرتے ہیں۔ پاکستانی حکومت جس کی فوجی طاقت ،اعلیٰ تربیت اورایٹمی اسلحہ کے ساتھ مسلح ہو نا مشہور ہے ، کا کردار یہ ہے کہ وہ انگریز اور یمن میں  اس  کے ایجنٹوں کے خلاف اس طاقت کا مظاہرہ کرے ،جہاں امریکا کی یہ کوشش  ہے کہ انگریز  کا گھیراؤ کرے یا ان کو  ایساسمجھوتہ  کرنےپر مجبور کرے، جس میں اس کے ایجنٹوں کا بڑا حصہ ہو۔  یو ں یمن میں اثر ونفوذ اور اس کے بے پناہ وسائل پر کنٹرول میں اسے سب سے بڑا   حصہ ملے اور اس کی تزویراتی(اسٹریٹجک ) پوزیشن اس کے تصرف میں آجائے۔  یمن وہ خطہ ہے جودنیا بھر کی اکثر ناگزیر اور اہم  آبی گزرگاہوں کے ساحلوں پر واقع ہے۔

 

پاکستانی حکومت کے اس غدارانہ کردارکی یہ  سمجھ صرف حزب التحریر کے ہاں پائی جاتی ہے ۔سعد جگرانوی بھی اسی حزب کا حصہ ہے جو امت کے سامنے برابر اس کو بے نقاب کرنے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔  حکومت نے اپنی رسوائی کے خوف سے ،خصوصاً  ایک تجارت پیشہ اور اپنی قوم کے معزز آدمی کی طرف سے ،جوتقویٰ اور ایمان میں مشہور ایک معزز گھرانے کا فرد ہے ،جس نے ہرمعزز شخصیت ، ہر  باکردار سیاستدان اور ہر نامور عالم کے ساتھ ملاقاتیں کیں  اور اسے اس نظام کے خفیہ خیانتوں سے آگاہ کیا،  اس کو  اور اس کے بھائی کو رات کے اندھیرے  میں  اغواکرلیا۔

 

بلاشبہ پاکستانی حکومت کی حالت بھی باقی مسلم ممالک جیسی ہے ، جن میں  سعودیہ بھی شامل ہے ، جو اپنی عوام کا گھیراؤ کرنے کے لئے ان کی نگرانی کرتی رہتی ہے۔  یہ تمام کے تمام نظام ہائے حکومت اس قابل ہیں کہ ان کو نظام خلافت سےتبدیل کیا جائے ۔  اس لئے یہ حکومتیں امت کے مخلصین کا پیچھا کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھاتیں۔  وہ محسوس کرتی ہیں کہ وہ اکیلی اپنی اپنی قوم کا سامنا کرنے میں بے بس ہوچکی ہیں ، چنانچہ ان حکومتوں نے عوام سے  اپنا بچاؤ کرنے کے لئے مشترکہ فورسز تشکیل دیں ۔  یہ اس بات کی خبر دیتا ہے کہ اس کا وقتِ مقرر آپہنچا ہے ۔ ان شاء اللہ

(...إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا )

"یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ  اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے ۔(البتہ)  اللہ نے ہر چیز کا ایک انداز مقرر کر رکھا ہے۔"(الطلاق: 3)

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لئے

بلا ل المہاجر کی پاکستان سے بھیجی ہوئی تحریر

Read more...

خلافت: ایک قطعی فرض الٰہی

"چاروں امام (ابو حنیفہ، مالک، شافعي، احمد،رحمۃ اللہ عليھم) اس بات پر متفق ہیں کہ امامت (خلافت) ایک فرض ہے اور یہ کہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ایک امام (خلیفہ) کو مقرر کریں جو دین کے احکامات کو نافذ کرےاور مظلوموں کو ظالموں کے خلاف انصاف فراہم کرے ۔ چاروں امام اس بات پر بھی متفق ہیں کہ مسلمانوں کو اس بات کی اجازت نہیں کہ ایک وقت میں ان کے دو امام (خلیفہ) ہوں، خواہ متفقہ يا متفرقہ طور پر۔۔۔"۔(چار مذاہب کی فقہ: الفقہ علی المذاھب الاربعہ 5:416)۔

یہ قول امام الجزيری کا ہے جو کہ چودھویں صدی ہجری کے معروف عالم ہیں اور ان کی رائے تقابلی فقہ میں مستند مانی جاتی ہے۔ یہاں پر انہوں نے  مختلف فقہا کاخلافت کے موضوع پر نقطہ نظر  پیش کیا ہے جو کہ وہی موقف ہے جو صحابہ رضی اللہ عنھم کے وقت سے چلا آرہا ہے۔

تمام مکتبہ فکر کے چوٹی کے علماء نے ہمیشہ خلافت کے موضوع کو انتہائی اہم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ

"شریعت کہ ضروريات میں سے ہے جسے کسی صورت چھوڑا نہیں جاسکتا"

(الغزالی، الاقتصاد فی الاعتقاد،199)،

"مسلمانوں کے اہم ترین مفادات میں سے ہے اور دین کے اہم ترین ستونوں میں سے"

(الآمدی، غايۃ المرام،366)،

"دین کے عظیم ترین ستونوں میں سے ایک عظیم  ستون ہے"

(القرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 1:265)،

"دین کے اہم ترین فرائض میں سے ہے"

(ابن تیمیہ، السیاسیہ الشریعہ، 129)،

اور "اہم ترین فرائض میں سے ایک فرض"

(الحصکفي، رد المحتار، 1:548)۔

 

باالفاظ دیگر خلافت صرف ایک فرض نہیں بلکہ اہم ترین فرائض میں سے ہے۔ یہ اسلام کا ستون ہے جسے چھوڑا نہیں جاسکتا کیونکہ اس کے بغیر اسلام جامع اور مکمل  طور پر  نافذ ہی نہیں ہوسکتا۔

 

لیکن کچھ "جدیدیت"اور "اصلاح"پسند اس نقطہ نظر سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کے کہنے کہ مطابق ایک ہزار سال کا علم و فضل اس موضوع (اور اس کے ساتھ دیگر کئی موضوعات) کو صحیح نہیں سمجھ سکا اور اب وہ لوگ ہی قرآن اور سنت کی صحیح تعبیر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ ایک انتہائی بلند بانگ دعویٰ ہے جس سے صرف نظر کیا جاسکتا تھا لیکن اس معاملے کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ہم اس کو دلائل کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔

 

ڈاکٹر غامدی ،جو اسی سوچ کی نمائندگی کرتے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ خلافت کا فرض ہونا تو دور کی بات یہ تو کوئی "دينی اصطلاح" بھی نہیں ہے۔

 

پہلے ایک اصولینقطہ۔کوئی بھی اصطلاح تین قسم کی معنوں ميں سے ایک کی حامل ہوسکتی ہے: لغوی، اصطلاحی يا شرعی۔ شرعی کا یہاں اسلامی شریعت کی طرف نسبۃ ہے۔ لھذا شاید غامدی صاحب کا "دينی اصطلاح" کہنے کا مطلب تیسری قسم کے معنی سے ہے۔صحيح طور پر اس کو شرعی اصطلاح کہہ جاتا ہے-اسے اسلامی اصطلاح بھی کہا جاسکتا ہے۔

 

لغوی معنی لوگوں کی جانب سے آتےہیں جو اصل میں ایک زبان کو پیدا کرتے ہیں جیسا کہ پرانے عرب یا یونانی۔ اصطلاحی معنی ان لوگوں کی جانب سے آتے ہیں جو کسی مخصوص شعبے سے وابستہ ہوتے ہیں جیسے فقہاء، محدثین یا طبیعات کے علماء وغیرہ مخصوص اصطلاحات روشناس کراتے ہیں۔ پھر یہ اصطلاحات انہیں شعبوں میں اپنے مخصوص معنوں میں ہی استعمال ہوتی ہیں جبکہ اسی وقت وہی اصطلاح کسی اور شعبے میں کسی اور معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر فقہ میں لفظ "سنت" کا مطلب مندوب اعمال ہے یعنی ایسے اعمال جن کا کرنا شارع کی طرف سے مطلوب ہے ليکن فرض نہیں جبکہ حدیث کے شعبے میں اس کا مطلب رسول اللہﷺ کا عمل، قولیااقرار ہوتا ہے۔

 

شرعی معنی صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالٰی اور رسول اللہﷺ کی جانب سے ہوتے ہیں کیونکہ یہ معنی شریعت بتاتی ہے جس کی بنیاد وحی ہے۔ غامدی صاحب اس بات سے اتفاق کرتے ہیں لیکن حیرانگیز طور پر اس بات کو قبول نہیں کرتے کہ قرآن اور سنت میں لفظ خلافہ کو لغوی معنی یعنی "جاں نشین" کے علاوہ کسی اور معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ درحقیقت یہ لفظ کئی احادیث میں  محض "جاں نشینی " کے معنی میں استعمال نہیں ہوا بلکہ ایک مخصوص معنی میں استعمال ہوا ہے جو کہ ایک خاص قسم کی جاں نشینی ہے جس سے عرب کے لوگ اسلام سے قبل آشنا نہ تھے۔ مثال کے طور پر رسول اللہﷺ نے فرمایا  کہ ,

«كانت بنو إسرائيل تسوسهم الأنبياء، كلما هلك نبي خلفه نبي، وإنه لا نبي بعدي، وستكون خلفاء فتكثر» ، قالوا: فما تأمرنا؟ قال: «فوا ببيعة الأول، فالأول، وأعطوهم حقهم، فإن الله سائلهم عما استرعاهم»

"بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے۔ جب کوئی نبی وفات پاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ لے لیتا، جبکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے البتہ بڑی کثرت سے خلفاء ہوں گے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: آپﷺ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:تم ایک کے بعد دوسرے کی بیعت کو پورا کرنا اور انہیں ان کا حق ادا کرنا کیونکہ اللہ تعالٰی ان سے ان کی رعایا کے بارے میں پوچھے گا جو اس نے انہیں دی"(مسلم، 1842)۔

 

یہاں رسول اللہﷺخصوصاً ان لوگوں کا ذکر فرما رہے ہیں جو مسلمانوں پر حکمرانی میں خلفاء (اس کی واحد خلیفہ ہے)کی حیثیت سے  ان کے جاں نشین ہوں گے۔  یہاں پر کسی عام جاں نشینی کا ذکر نہیں ہورہا بلکہ ان جاں نشینوں کا ذکر ہو رہا ہے جو ایک خاص طریقے یعنی بیعت کے ذریعے حکمران بنیں گے اور جو ایک خاص طریقے سے حکمرانی کریں گے یعنی اسلام کے مکمل اور جامع نفاذ کے زریعے۔ یقیناً حکمران ہونے کی حیثیت میں ان کا تمام تر کردار شریعت کے قوانین اور اصولوں  کے تابع ہوتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس نے اُس وقت ایک نیا طرز حکمرانی دیا  اور جس نے اُس تمام وقتوں کے لئے ایکمنفردطرز حکمرانی مقرر کيا۔ اگر رسول اللہ ﷺ کو محض حکمرانوں کے متعلق ہی بات کرنا ہوتی تو وہ لفظ "حکام"،جس کا واحد حاکم ہے، استعمال کرتے جو کہ عربی زبان میں حکمرانوں کے لئے سیدھا سادہ لفظ ہے۔

 

اسی طرح رسول اللہﷺ نے مسلمانوں پر حکمرانی کے حوالے سے آنے والے ادوار کے ذکر میں خاص لفظ "خلافہ" استعمال کیا۔ آپﷺ نے فرمایاکہ،

 

«تكون النبوة فيكم ما شاء الله أن تكون، ثم يرفعها إذا شاء أن يرفعها، ثم تكون خلافة على منهاج النبوة، فتكون ما شاء الله أن تكون، ثم يرفعها إذا شاء الله أن يرفعها، ثم تكون ملكا عاضا، فيكون ما شاء الله أن يكون، ثم يرفعها إذا شاء أن يرفعها، ثم تكون ملكا جبرية، فتكون ما شاء الله أن تكون، ثم يرفعها إذا شاء أن يرفعها، ثم تكون خلافة على منهاج نبوة»

"تم میں نبوت موجود رہے گی جب تک اللہ چاہیں گے اور پھر اللہ اسے اٹھا لیں گے۔ پھر نبوت کے طریقے پر خلافت راشدہ ہوگی، اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہیں گے اور پھر اللہ اسے اٹھا لیں گے۔ پھر وراثتی حکمرانی ہو گی، اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہیں گے اور پھر اللہ اسے بھی اٹھا لیں گے۔ پھر جابرانہ حکمرانی کا دور ہو گااور اس وقت تک رہے گا جب تک اللہ چاہیں گے اور پھر اللہ اسے بھی اٹھا لیں گے۔ اور پھر نبوت کے طریقے پر خلافت راشدہ ہوگی"(احمد،18406)۔

 

یہاں پر یہ بات غور طلب ہے  کہ تمام ادوار حکمرانی ہی کے ادوار ہیں چاہے وہ کسی ایک قسم کے ہوں یا دوسری قسم کے لیکن ان میں کچھ ادوار کو خصوصاً خلافہ کہا گیا۔ لہٰذا خلافہ محض کسی بھی قسم کی حکمرانی کی وضاحت کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ اسلام کے ایک اپنے مخصوص نظام حکمرانی کی وضاحت کرتا ہے اور یہی وہ واحد طرز حکمرانی ہے جس کی اسلام نے اجازت دی ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے صرف اس طرز حکمرانی کابيان کيا۔

لہٰذا لفظ "خلافہ" اسلامی طرز حکمرانی کو بیان کرتا ہے جس کو یہ معنی شارع نے خود دیا ہے نا کہ کسی عالم یا فقيہ نے، تاہم یہ ایک شرعی یا اسلامی اصطلاح ہے۔

 

لیکن اگر پھر بھی غامدی صاحب کی دلائل کو قبول کرلیا جائے کہ خلافہ محض مسلمانوں کی ایجاد کردہ ایک "پوليٹيکل سائنس اور سوشيالوجی کی اصطلاح ہے جیسے فقہ، کلام اور حدیث"، تو یہ سوال اھٹتا ہے  کہ اس اصطلاح کو اسلامی حکومت کے لئے کیوں نہیں قبول اور استعمال کرليتے بالکل ویسے ہی جیسے آپ نے فقہ یا حدیث کی اصطلاح کو قبول بھی کیا اور اسے استعمال بھی کرتے ہیں؟ اس خلافہ کی اصطلاح کے لئے ایک دوسرا طرز عمل کیوں اختیار کیا جائے؟ اور اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ  اس اصطلاح  کو غیر دينی ثابت کیا جائے؟

 

جہاں تک اس شرعی حکم کا بات ہے کے صرف ایک ہی خلیفہ  ہوسکتا ہے تو اس حوالے سے احادیث بالکل واضح ہيں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

«إذا بويع لخليفتين، فاقتلوا الآخر منهما»

"جب دو خلفاء کے لئے بیعت لے لی جائے تو ان میں سے دوسرے کو قتل کردو"(مسلم،1853)۔

رسول اللہﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ،

«من أتاكم وأمركم جميع على رجل واحد، يريد أن يشق عصاكم، أو يفرق جماعتكم، فاقتلوه»

"اگر تم متحد ہو ايک بندے کے تحت اور کوئی تمہاری صفوں میں رخنہ ڈالنا چاہے یا تمہاری جماعت میں تفرقہ ڈالے تو اسے قتل کردو"(مسلم، 1852)۔

 

غامدی صاحب اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ پہلی حدیث سند کے لحاذ سے صحيح نہیں ہے جبکہ یہ صحیح مسلم کی حدیث ہے جس کی ہر حدیث کو محدثين نے متفقہ طور پر "صحیح" قرار دیا ہے۔

 

اس سے بھی بڑھ کر وہ ان احادیث کی یہ تشریح کرتے ہیں کہ اتفاق یا وحدت برقرار رکھنے کا یہ حکم کسی ایک مسلم ریاست میں رہنے والے مسلمانوں سے متعلق ہےیعنی کہ مسلمانوں کی ایک سے زیادہ ریاستیں ہوسکتی ہیں اور لازماً پھر ایک سے زیادہ حکمران  بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ یہ  احادیث عام ہیں اور ان میں غامدی صاحب کی بیان کی گئی تشریح کی کوئی تخصیص بیان نہیں کی گئی ۔ اس کے علاوہ اُس وقت جب یہ احادیث بیان کی گئیں تو مسلمانوں کی ایک سے زیادہ ریاستیں موجود ہی نہ تھیں کہ غامدی صاحب کی بیان کی گئی تشریح ممکن بھی ہوسکے۔ رسول اللہ ﷺ صحابہ رضی اللہ عنھم کے ذریعے  آنے والے تمام وقتوں کے مسلمانوں سے خطاب فرما رہے تھے ۔

 

اپنی تشریح کو صحیح ثابت کرنے کے لئے ڈاکٹر غامدی  اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایک قول میں تبدیلی تک کردی۔  فرمایا کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ، "ریاست کا صرف ایک ہی حکمران ہوسکتا ہے"، جبکہ انہوں نے جس روایت کو بیہقی کی سنن الکبری (نمبر16550) سے نقل کیا ہے اس میں "ریاست" کا لفظ استعمال ہی نہیں کیا گیا بلکہ اس میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہیں کہ، "اس بات کی اجازت نہیں کہ مسلمانوں کے دو حکمران ہوں"، اور بالکل یہی ہمارا موقف ہے۔

 

اصولِ فقہ میں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ "لام الجنس" عمومیت کی علامت ہے، اسی لئے مسلمانوں سے مراد تمام مسلمان ہیں ناکہ چند مسلمان۔ مسلمان بحیثیت مجموعی صرف ایک ہی حکمران تعینات کرنے کی مجاز ہیں جو ان کی رہنمائی کرے اور وہ حکمران خلیفہ ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھر تفرقہ، تقسیم اور اختلاف لازم ہے جس کو بیان کرنے کےلئے الفاظ کی کوئی ضروت نہیں بلکہ مسلمانوں کی موجودہ صورتحال ہی اس کا بیان کرنے کے لئے  کافی ہے۔

 

غامدی صاحب اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایک سے زیادہ حکمران بہت زیادہ نا اتفاقی اور تفرقے کا باعث ہوگی۔ لیکن حیرت ہے کہ انہیں مسلمانوں کے پچاس سے زائد غیر مؤثر ممالک میں تقسیم ہونے سے کوئی انکار نہیں ہے۔

 

حقیقت یہ ہے کہ "جدیدیت" اور "اصلاح" پسندی کے پردے کے پیچھے سے پیش کیے جانے والے یہ انتہائ کمزور فکری دلائل موجودہ وقت کی سیکولر لبرل طاقت کی مرہون منت ہے۔ یہ جدیدیت اور اصلاح پسندی اسلامی شریعت کو سیکولر لبرل فکر اور موجودہ عالمی آرڈرکےچشمے سےدیکھنے کا نام ہے۔ اس فکر کے حامل افراد اسلام کو موجودہ دور کی حقیقت کو  سامنے رکھ کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اسلام کو حقیقت سے جدا گانہ طریقے سے سمجھ کر پھر اس کا اطلاق موجودہ حقیقت پر کیا جاتا ہے۔ اس طرز فکر کا نتیجہ ہے کہ یہ حضرات اُن نتائج پر پہنچتے ہیں کہ جن کو اختیار کرنے سے مقامی یا بین الاقوامی صورتحال میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی بلکہ سٹیٹس کو برقرار رہتا ہے۔

 

خلافت کا تصور عالمی صورتحال اور اس کے جابرانہ ڈھانچے کو مکمل طور پر چیلنج کرتا ہے۔ یہ دنیا کے مسلمانوں کو یکجا کرنے اور ایک بار پھر اسلام کو دنیا کی امامت کے مقام پر فائز کرنے کی بات کرتا ہے جبکہ غامدی اور ان جیسے دیگر افراد اس کی مخالف سوچ رکھتے ہیں یعنی وہ اسلام کو استعمال کرتے ہوئے سٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن وہ اپنے اس عمل میں پوری طرح سے مسلسل ناکام ہیں کیونکہ امت جدید سیکولر ماڈل کی حقیقت کو جان چکی ہے جو کہ ایک ایسا نظام ہے جہاں اقلیتی اشرافیہجمھور عوام کا استحصال کرتی ہے اور امت جانتی ہے کہ خلافت اس کے بالکل الٹ چیز ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یہ ایک فرض الٰہی ہے اور ظلم سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ ناصرف اس کے لئے بلکہ پوری انسانیت کے لئے ہے۔

 

عمر علی

مسلم سیاسی کارکن، لکھاری اور عربی اور اسلام کا طالب علم

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک