المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان
ہجری تاریخ | 8 من محرم 1442هـ | شمارہ نمبر: 04 / 1442 |
عیسوی تاریخ | بدھ, 26 اگست 2020 م |
پریس ریلیز
کراچی بارشوں کا مسئلہ - مغربی سیاسی فلسفے پر مبنی وفاقی ، جمہوری
اور لوکل باڈیز کے نظام میں عوام کے مسائل کا کوئی بھی ذمہ دار اور جوابدہ نہیں
ایک بار پھر مون سون کی بارشوں میں کراچی کے عوام بالخصوص اور صوبہ سندھ کے عوام بالعموم شدید مسائل و مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں۔ کل ہونے والی بارش نے کراچی شہر کو ڈبو دیا، سڑکیں دریائیں بن گئیں۔ اکثر علاقوں میں بارش رک جانے کے 10 گھنٹےبعد بھی بجلی موجود نہیں تھی اور نشیبی علاقوں سے پانی نکالنے کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا، اور یہ ہر دفعہ کا معمول ہے۔ 73 سال کے بعد بھی معمول کی ایک بارش معمولات زندگی کو معطل کر دیتی ہے۔ کم و بیش پورے ملک کی صورتحال ایسی ہی ہے۔ روایتی الزام تراشی کا سلسلہ بھی ایک بار پھر جاری ہے۔ سندھ حکومت، مئیر کراچی، وفاقی حکومت، NDMA ہر ایک کے پاس دلائل کے انبار ہیں کہ وہ کیوں ذمہ دار اور جوابدہ نہیں۔ میڈیا بھی روایتی کرپشن اور نااہلی کے غیرسسٹمیٹک اور ثانوی وجوہات کو ڈسکس کرتا ہے لیکن بنیادی مسئلے سے کنی کتراتا ہے کہ مغربی سیاسی فلسفے پر مبنی وفاقی ، جمہوری اور لوکل باڈیز کے نظام میں طاقت کو اسی طرح تقسیم کیا گیا ہے کہ عوام کے مسائل کا کوئی بھی ایک ذمہ دار اور جوابدہ نہیں ہوتا اور یوں بال ایک سے دوسرے کورٹ میں مسلسل پھینکی جاتی ہے۔
ہم پوچھتے ہیں کہ 1300 سالہ خلافت کے دور میں ایسا معاملہ کیوں نہیں تھا کہ خلیفہ، معاونین ، والی اور عامل ایک دوسرے کو عوام کے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرائیں؟ کیا وجہ تھی کہ اتنی بڑی ریاست کو چلانے کے باوجود طاقت اور ذمہ داری کے تعین کا ایسا کوئی مسئلہ موجود نہیں تھا اور سب جانتے تھے کہ کسی بھی مسئلے کا ذمہ دار اور جوابدہ کون ہے؟ اس کی وجہ بڑی واضح ہے کہ اسلام میں حکومت کا نظام واحدانی ہے۔ خلیفہ امت سے قرآن و سنت کے نفاذ کی شرط پر بیعت لینے کے بعد امت کے تمام امور کا نگہبان ہے اور ہر طرح کے مسائل پر امت کو جوابدہ بھی ہے ، جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے حقیقی جوابدہی اس کے علاوہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
مَا مِنْ أَمِيرٍ يَلِي أَمْرَ الْمُسْلِمِينَ ثُمَّ لاَ يَجْهَدُ لَهُمْ وَيَنْصَحُ إِلاَّ لَمْ يَدْخُلْ مَعَهُمُ الْجَنَّةَ
"جو مسلمانوں کا حاکم ہو،پھر ان کی بھلائی میں کوشش نہ کرے اور خالص نیت سے ان کی بہتری نہ چاہے تو وہ ان کے ساتھ جنت میں نہیں جائے گا"(مسلم)۔
وہ اپنی ان ذمہ داریوں کی ادائیگی میں معاونت کے لیے صوبوں کے اوپر والی (گورنر)اور شہروں کے اوپر عامل مقرر کرتا ہے ، انھیں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے بااختیار بناتا ہے اور درکار تمام وسائل مہیا کرتا ہے۔ پس ذمہ داری اور جوابدہی (accountability)کے تعین کی کڑی بالکل واضح ہے۔ جبکہ وفاقی نظام میں اختیارات ، ذمہ داریوں اور فنڈز کو مرکز اور صوبوں اور اسی طرح صوبوں اور لوکل باڈیز میں تقسیم در تقسیم کرکے ایک گورکھ دھندا بنا دیا جاتا ہے، جس کا کوئی سر پیر عوام کو سمجھ نہیں آتا ، نتیجتاً حکمرانی، ذمہ داریوں کے بجائے صرف مراعات، کرپشن اور شہرت کے حصول کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اسلام میں مجلس ولایہ کی شکایت پر خلیفہ والی (گورنر) کو ہٹائے گا، اور چونکہ خلیفہ تاحیات مقرر ہوتا ہے جب تک وہ لازمی شرائط پر پورا اترے، اسلئے وہ جمہوری نظام کے برخلاف اکثریت کی خاطر اقلیت کے حقوق کا سودا نہیں کرتا بلکہ تمام شہریوں کو یکساں طریقے سے سہولیات بہم پہنچاتا ہے۔ لیکن جمہوریت میں کراچی جیسے شہر کے شہریوں کے حقوق کو اسلئے پامال کر دیا جاتا ہے کہ وہاں پر مخالف پارٹی کے نمائندوں کا راج ہے، یوں اقلیت کو اکثریت کے ہاتھوں بلیک میل ہونا پڑتا ہے۔ یہی معاملہ کراچی میں کچرہ کنڈیوں اور کراچی الیکٹرک کے مسائل کا ہے۔
غربت سے لے کر استعماری غلامی پر مبنی خارجہ پالیسی ہو، لبرل سوشل اقدار کے فروغ سے لے کر سیکولر تعلیمی نظام کے مسائل، ہر جگہ ہمیں مغربی تہذیب کے چھوڑے گئے اس زہر کا اثر نظر آتا ہے، جس کو جدیدیت کے نام پر سیاسی اور فکری ایلیٹ کی ذہنی مرعوبیت کا فائدہ اٹھا کر پاکستان میں نافذ کیا گیا ہے۔ ان مسائل کا حل مزید صوبے بنانا نہیں بلکہ اس استعماری نظریات کے حامل ریاستی ڈھانچے کو اسلام کے نظام خلافت سے بدلنا ہے جو اللہ کی وحی کی لامحدود دانائی پر مبنی ہے۔
اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَؕ-وَهُوَاللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ۠۔
" کیا وہ نہیں جانے گا جس نے پیدا کیا، اس پر وہ ذات باخبر اور خبردار بھی ہو۔"(سورہ الملک : 14)
ولایہ پاکستان میں حزب التحرير کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ پاکستان |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: https://bit.ly/3hNz70q |
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com |