المكتب الإعــلامي
ہجری تاریخ | شمارہ نمبر: | |
عیسوی تاریخ | اتوار, 09 دسمبر 2012 م |
پاکستان میں امریکی جنگ کو ہوا دینے والوں پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے لال مسجد آپریشن دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا ہی حصہ تھا
سپریم کورٹ آف پاکستان نے لال مسجد پر حملے اور اس دوران ہونے والی اموات کے ذمہ داروں کے تعین کے لیے ایک عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے۔ عدالت نے اس بات کو جاننے کے باوجود کہ اس وقت کے آئی۔ایس۔آئی کے سربراہ اور موجود آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے سابقہ سربراہ جنرل پرویز مشرف کے حکم پر لال مسجد سانحہ میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا، اس کمیشن کے قیام کا حکم جاری کیا ہے۔ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے لال مسجد آپریشن ایک اہم موڑ تھا۔ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے اس سانحہ کے بعد قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز شروع کیے اور پاکستان آرمی کو فتنے کی اس جنگ میں ملوث کیا۔ جس ظالمانہ طریقے سے یہ آپریشن کیا گیا اس نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں غصے اور نفرت کی آگ لگا دی اور اس آپریشن نے سوات اور اور پھر فاٹا میں امریکی فتنے کی جنگ کو بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا۔
لال مسجد آپریشن کے فوراً بعد مشرف نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں فوجیوں کی تعداد بڑھانے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں ان علاقوں میں کشیدگی بڑھ گئی اور بڑے فوجی آپریشنز کرنے کی راہ ہموارکی گئی۔ 12 جولائی 2007 کو جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے لیے امریکہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ رچرڈ بائوچر نے لال مسجد آپریشن پر مشرف کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا: "یہ پاکستان کے مستقبل کا ویژن (vision) ہے، جو مشرف نے بیان کیا اور جو مشرف کے شمالی علاقوں میں طالبانائزیشن کے خاتمے اور شہری علاقوں جیسا کہ لال مسجد میں انتہاء پسندی کے خاتمے کے عزم کے اعادے سے ظاہر ہے۔ یہ امریکہ کے بہترین قومی مفاد میں ہے کہ پاکستان مستقبل کے اس ویژن (vision) کو پورا کرنے میں کامیاب رہے"۔
مشرف کے جانے کے بعد جنرل کیانی نے رچرڈ باؤچر کے ویژن کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری اٹھالی اور پاکستان کی افواج کو سوات میں اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف آپریشن پر مجبور کیا جس کے نتیجے میں پاکستان کے قیام کے بعد سب سے بڑی اندرونِ ملک ہجرت کا واقع پیش آیا جس میں تقریباً چالیس لاکھ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔ اس آپریشن کے بعد سے اب تک ہزاروں فوجی اور شہری اس جنگ کی نذر ہو چکے ہیں، وہ جنگ جس کو امریکی ڈالروں سے لڑا جا رہا ہے اور جس کا مقصد خطے میں امریکی مفادات کو پورا کرنا ہے۔ جس وقت سپریم کورٹ نے عدالتی کمیشن کے قیام کا حکم نامہ جاری کیا اس وقت بھی جنرل کیانی اور وزیر خارجہ حنا ربانی کھر براسلز میں اپنے مغربی آقاوں کو اپنی وفاداری اور رچرڈ باؤچر کے پاکستان سے متعلق ویژن کو جاری و ساری رکھنے کی یقین دہانی کرا رہے تھے۔
یہ ہے امریکہ کا پاکستان کے لیے ویژن جس کو پوری قوت سے امریکہ کے غلام جنرل مشرف نے نافذ کیا تھا اور اس کے جانے کے بعد پاکستان میں امریکی مفادات کا محافظ جنرل کیانی مسلسل اس ویژن کو نافذ کر رہا ہے۔ حزب التحریر پاکستان کے لیے ایک متباد ل ویژن رکھتی ہے اور اس بات کی طرف دعوت دیتی ہے کہ پاکستان کی فوج خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ صرف اور صرف پاکستان کے عوام کے تحفظ کے لیے لڑے گی۔ ایک ایسے پاکستان کا ویژن جس کی فوج پشتون علاقوں میں اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر امریکہ کو خطے سے نکال باہر کرے گئی اور افغانستان، پاکستان اور وسطی ایشیأ کو ایک ریاست میں شامل کر کے دوسری خلافت راشدہ کو قائم کرے گی۔ وہ خلافت جو کشمیر کو ہندو ریاست سے آزادی دلوائے گی، اپنے شہریوں پر اسلام کو نافذکرے گی اور مسلم علاقوں کے وسائل کو اپنے شہریوں کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے یکجا اور انھیں استعمال کرے گی۔ اے اہل قوت! ہم آپ سے پوچھتے ہیں آپ کس ویژن کی حمائت کرتے ہیں؟ جنرل کیانی کے ویژن کی یا پھر حزب التحریر کے ویژن کی؟
میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان
المكتب الإعلامي لحزب التحرير |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: |