المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان
ہجری تاریخ | شمارہ نمبر: PN15053 | |
عیسوی تاریخ | ہفتہ, 08 اگست 2015 م |
پریس ریلیز
فوجی عدالتوں کا قیام جمہوریت کی ناکامی کا کھلا اعتراف ہے
جمہوریت غیر معمولی حالات کا مقابلہ غیر جمہوری طریقوں سے کرتی ہے
امریکہ، مغربی طاقتیں اور ان کے ایجنٹ حکمران و دانشور امت مسلمہ کو یہ سبق مسلسل پڑھاتے رہتے ہیں کہ جمہوریت سے بہتر کوئی نظام نہیں کیونکہ یہ نظام عوام کی خواہشات کے مطابق حکمرانی کرتا ہے اور یہی وہ واحد نظام ہے جس کے ذریعے عوام کے حقوق کا تحفظ اور حکمرانوں کا احتساب ممکن ہے۔ لیکن ایکسویں آئینی ترمیم کی پاکستانی پارلیمنٹ سے منظوری جس کے تحت فوجی عدالتوں کا قیام عمل لایا گیا اور اب پاکستان کی سب سے بڑی عدالت، سپریم کورٹ کی جانب سے اس کو قانونی قرار دینا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ جمہوریت غیر معمولی حالات میں جمہوری اصولوں اور قوانین کے تحت حکمرانی کرنے سے قاصر ہے اور بغیر کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کردیتی ہے اور سیاسی مسائل کے سیاسی حل کی جگہ فوجی حل مسلط کرنے شروع کردیتی ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت ہو یا جمہوریت کی ماں برطانیہ یا جمہوری نظام کا نام نہاد عالمی علمبردار امریکہ ہو، سب جمہوریتیں بھارتی پوٹا، برطانوی اینٹی ٹیرر ازم اینڈ سیکیوریٹی ایکٹ 2001 اور امریکی پیٹریاٹ ایکٹ جیسے کالے قوانین بنا کر انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کردیتے ہیں بلکہ عدلیہ کی ایگزیکیٹو سے علیحدہ ایک آزاد حیثیت کو ہی ختم کریتے ہیں جس کے تحت انصاف اور حکمرانوں کے احتساب کو یقینی بنانا ممکن ہی نہیں رہتا۔
اکیسویں آئینی ترمیم قومی ایکشن پلان، جو درحقیقت "امریکی ایکشن پلان" ہے اور جس کا مقصد پاکستان میں اسلام کی دعوت اور اس کے داعیوں کو کچلنا ہے، کو نافذ کرنے کی ایک اہم کڑی ہے۔ وہ لوگ جو سیاسی میدان میں سیاسی طریقے سے پاکستان میں اسلام کے نفاذ کی جدوجہد کررہے ہیں انہیں تحفظ پاکستان ایکٹ کے تحت گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالا جارہا ہے اور جو مخلص قبائلی مجاہدین افغانستان میں قابض امریکی افواج کے خلاف جھاد کررہے ہیں انہیں فوجی آپریشنز اورفوجی عدالتوں کے ذریعے ختم کیا جارہا ہے۔ چونکہ حکمران یہ گندا کام کھل کر نہیں کرسکتے لہٰذا وہ اس امریکی ایجنڈے پر عمل کرنے کے لئے نام نہاد دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ کی آڑ لے رہے ہیں۔ جو لوگ ریاست اور اس کے شہریوں پر حملوں اور ان کے قتل میں ملوث ہیں اورجو مسلمانوں کے درمیان زبان اور مسلک کی بنیاد پر نفرتیں پیدا کرتے ہیں ان کے خاتمے کے لئے اکیسویں آئینی ترامیم جیسے کالے قوانین کی ضرورت نہیں بلکہ ریاست کی سنجیدگی اور اخلاص ضروری ہے کیونکہ یہ بات ہر باشعور شخص جانتا ہے کہ ایسے عناصر کو خود حکمران اور ان کی ایجنسیاں پالتی پوستی اور ان کو تحفظ فراہم کرتی ہیں اور امریکی قاتل اور دہشت گرد ریمنڈ ڈیوس اس کی واضح مثال ہے۔
جمہوریت انسانوں کو نہ تو انصاف فراہم کرسکتی ہے اور نہ ہی ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرسکتی ہے کیونکہ حکمران اپنے یا اپنے استعماری آقاوں کے مفاد کے لئے کسی بھی واقع کو جواز بنا کر اپنے ہی نظام اور اس کے اصولوں کے خلاف کوئی بھی کالا قانون بنا سکتے ہیں۔ صرف خلافت ہی وہ واحد نظام ہے جس میں خلیفہ اپنے یا کسی کے بھی مفاد کی تکمیل کے لئے قانون سازی نہیں کرسکتا کیونکہ ریاست خلافت کا قانون صرف قرآن و سنت ہوتا ہے جس کو کوئی بھی غیر معمولی حالات کا تقاضا قرار دے کر تبدیل نہیں کرسکتا اور اس کی عدالتیں بھی حکمرانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی بنیاد پر فیصلے کرنے کی محتاج نہیں ہوتیں بلکہ صرف اور صرف قرآن و سنت کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں۔ اس طرح خلافت ہی وہ واحد نظام ہے جو عوام کے حقوق کے تحفظ اور حکمرانوں کے احتساب کے لئے حقیقی معنوں میں عدلیہ کو ایگزیکیٹو کے دباؤسے آزاد کرتی ہے۔
فَٱحْكُم بَيْنَهُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَهْوَآءَهُمْ عَمَّا جَآءَكَ مِنَ ٱلْحَقِّ
"پس ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ (احکامات) کے مطابق فیصلہ کریں اور جو حق آپ کے پاس آیا ہے اس کے مقابلے میں ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں"(المائدہ:48)
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ پاکستان |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: https://bit.ly/3hNz70q |
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com |