بسم الله الرحمن الرحيم
رزق صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے
یہ سمجھ اور فہم کہ رز ق صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ، اُن بنیادی تصورات میں سے ہے جو اسلامی عقیدہ سے نکلتے ہیں ۔ اس فہم اور سمجھ کی وجہ سے ایک مومن کے کردار میں بلندی آتی ہے، وہ مال و دولت کی خاطر نیچ حرکتیں نہیں کرتااور اس کا دل و دماغ دولت جمع کرنے کی فکروں سے آزاد ہوجاتا ہے ۔وہ اپنے وقت کا زیادہ حصہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول پر صَرف کرتا ہے۔
یہ طرز عمل اس شخص کے بالکل برخلاف ہوتا ہے جس کا رز ق کے متعلق فہم واضح اور شفاف نہ ہو،جویہ سمجھے کہ رز ق محض اس کی اپنی محنت کا نتیجہ ہے یا اس کا رزق کسی دوسرے انسان کے ہاتھ میں ہے ۔ پس جب کسی ایسے شخص کو نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کے قیام کی جدوجہد میں شریک ہونے کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ یہ کہتے ہوئے ہاتھ کھڑا کردیتا ہے کہ "ہمارا ایمان تو کمزور ہے"، یا وہ اس دعوت میں شریک ہونے پر بے دلی سے آمادگی ظاہر کرتا ہے، وہ ہچکچاتا رہتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کفر پر غلبے کے خاتمے کے لیے اسلام کے مکمل نفاذ کی کوشش میں اگلی صفوں میں نہیں بلکہ پچھلی سے پچھلی صف میں ہی رہے۔
ہم سب کو اپنے دماغ میں یہ بات بیٹھالینی چاہیے کہ رز ق صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ قرآن میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ میں بالکل واضح الفاظ میں بیان کیا ہے کہ وہی ہر مخلو ق کے رز ق کا تعین کرتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
,لاَ نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى
" ہم تم سے روزی کے خواستگار نہیں۔ بلکہ تمہیں ہم ہی روزی دیتے ہیں اور (نیک) انجام (اہلِ) تقویٰ کا ہے"(طٰہٰ:132)۔
اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ
"بیشک اللہ جسے چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے"(آل عمران:37)۔
بجائے یہ کہ ہم رزق کے حصول کی خاطر دوسری ذمہ داریوں سے غفلت برتیں ،ہمیں اس رزق کے حصول کی کوشش میں میانہ روی اختیار کرنی چاہیے تا کہ ہم تمام ذمہ داریوں کو اتنا وقت دے سکیں جس کا وہ حق رکھتی ہیں۔ جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّهَ وَأَجْمِلُوا فِي الطَّلَبِ فَإِنَّ نَفْسًا لَنْ تَمُوتَ حَتَّى تَسْتَوْفِيَ رِزْقَهَا وَإِنْ أَبْطَأَ عَنْهَا فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَجْمِلُوا فِي الطَّلَبِ خُذُوا مَا حَلَّ وَدَعُوا مَا حَرُمَ
"لوگو! اللہ سے ڈرو، اور دنیا طلبی میں اعتدال کا راستہ اختیار کرو، اس لیے کہ کوئی اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک اپنی تمام ترروزی پوری نہ کر لے، گو اس میں تاخیر ہو، لہٰذا اللہ سے ڈرو، اور روزی کی طلب میں اعتدال کا راستہ اختیار کرو، صرف وہی لو جو حلال ہو، اور جو حرام ہو اسے چھوڑ دو"(ابن ماجہ)۔
ہمیں رزق کی پریشانی کو اپنے اذہان پر حاوی نہیں کرنا چاہئےاور نہ ہی اس کے کم ہونے پردل گرفتہ ہوناچاہئے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ رازق صرف اور صرف اللہ کی ذات ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
لاَ تَيْأَسَا مِنَ الرِّزْقِ مَا تَهَزَّزَتْ رُءُوسُكُمَا فَإِنَّ الإِنْسَانَ تَلِدُهُ أُمُّهُ أَحْمَرَ لَيْسَ عَلَيْهِ قِشْرٌ ثُمَّ يَرْزُقُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ
" تم روزی کی طرف سے مایوس نہ ہونا جب تک تمہارے سر ہل رہے ہیں، بیشک انسان کی ماں اسے لال جنم دیتی ہے، اس پر کوئی غلاف نہیں ہوتا پھر اللہ ہی اسے رزق دیتا ہے"(ابنِ ماجہ)۔