بسم الله الرحمن الرحيم
اردو آڈیو پیغام:
فتنے کے دور میں حق و سچ کی جدوجہد کی بجائے بے عملی اختیار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں
آج پوری مسلم دنیا میں مسلمان اپنے دین سے محبت اور لگاؤ کی وجہ سے ظلم کا شکار ہیں۔ وہ اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ ان میں سے جو لوگ اسلام کی دعوت دیتے ہیں ان پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں اور انہیں مصیبتوں میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ حکومتوں کے یہ مظالم اس حد تک شرمناک ہیں کہ ان سے بوڑھے، بیمار اور خواتین بھی محفوظ نہیں۔ حالات کی سنگینی کا یہ عالم ہے کہ اسلامی دنیا کی حکومتیں ڈھٹائی کے ساتھ دین اسلام سے غفلت بلکہ بغاوت کر رہی ہیں۔ یقیناً یہی وقت ہے کہ حق وسچ کے لیے جدوجہد کی جائے تا کہ حکمرانوں کی پیدا کردہ فتنے کی صورت حال کو بالآخر ختم کیا جاسکے۔
لیکن کچھ مسلمان حق و سچ کی جدوجہد میں شریک ہونے کی بجائے خود کو اس جدوجہد سے پیچھے رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ " فتنے کا یہ دور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کےعلم سے ہی ہے تو اس معاملے کو اللہ پر ہی چھوڑ دینا چاہئے"۔ اس طرح وہ سپرانداز ہو کر جمود کی کیفیت میں چلے جاتے ہیں اور جابروں کی جانب سے ہونے والے ظلم و جبر پر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ وہ خلافت کے داعیوں اور جابروں کے درمیان ہونے والی کشمکش پر تماشائی بنے رہتے ہیں جبکہ انہیں اس کشمکش میں حصہ لے کر جبر کی حکمرانی کے خاتمے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ اسلام کی پہلی نسل، جو باقی تمام نسلوں سے اعلیٰ ہے، درست تصورات کی حامل ہو اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علم کو جواز بنا کر بے عملی کاشکار نہ ہو۔ رسول اللہ ﷺ نےمسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ ان اعمال کو سرانجام دیں جو ان کے دائرہ اختیار میں ہیں اور انہیں اس بات کی تلقین کی کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علم کو جواز بنا کر بے عملی کی راہ اختیار نہ کریں۔
بخاری نے حدیث روایت کی ہے کہ علی ؓ نے فرمایا، کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے اور آپ ﷺ نے فرمایا،
مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ وَقَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنَ الْجَنَّةِ وَمَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ " تم میں سے کوئی ایسا نہیں جس کا ٹھکانا جنت یا جہنم میں لکھا نہ جا چکا ہو"۔ہم نے کہا:اے اللہ کے رسول ﷺ! پھر کیوں نہ ہم اپنی تقدیر پر ہی بھروسہ کر لیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا، لاَ، اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ " نہیں !عمل کرتے رہو کہ ہر شخص کو اسی عمل کی توفیق ملتی ہےکہ جس کی وہ کوشش کرے"۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی، فَأَمَّا مَنْ أَعْطَىٰ وَٱتَّقَىٰ ط وَصَدَّقَ بِٱلْحُسْنَىٰ ط فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَىٰ ط وَأَمَّا مَن بَخِلَ وَٱسْتَغْنَىٰ ط َكَذَّبَ بِٱلْحُسْنَىٰ ط فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَىٰ "تو جس نے (اللہ کے رستے میں مال) دیا اور پرہیز گاری کی ، اور نیک بات کو سچ جانا ، اسے ہم آسان طریقے کی توفیق دیں گے ، اور جس نے بخل کیا اور بےپروا بنا رہا، اور نیک بات کو جھوٹ سمجھا، اسے سختی میں پہنچائیں گے"(اللیل:10-5)۔
لہٰذا اس بات پر ایمان کہ آج کے اور آئندہ پیش آنے والے تمام حالات و واقعات پہلے سے ہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علم میں ہیں، کامطلب یہ نہیں ہے کہ عمل کے لیے اللہ کے اس ازلی علم پر انحصار کیا جائے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علم اور فیصلے کی کسی کوخبر نہیں ہے جب تک اللہ سبحانہ و تعالیٰ خود اس سے آگاہ نہ کریں۔ تو پھر انسان عمل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے کے لیے کیا ایک ایسی چیز پر بھروسہ کرے کہ جس سے وہ آگاہ ہی نہیں؟ رسول اللہ ﷺ سے کسی نے سوال کیا کہ کیا ہمیں اس (تقدیر ) پر ہی بھروسہ نہیں کرلینا چاہیے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، نہیں! یعنی آپﷺنے تقدیر(لکھے ہوئے) پر بھروسہ کرنے سے منع فرمایا۔ آپ ﷺ صرف یہ کہہ کر ہی مطمئن نہیں ہو گئے بلکہ پھر فرمایا، اعْمَلُوا 'عمل کرو'، یعنی آپ ﷺ نے عمل پر زور دیا۔ لہٰذا آپ ﷺ کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علم پر انحصار کرنے سےمنع کرنا اور یہ حکم دینا کہ عمل کرو اس بات کا ثبوت (دلیل صریح) ہے کہ اپنے عمل کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علم سے جوڑنا اور اس بنا پر کوشش اور جدوجہد سے کنارہ کش ہو جانا درست نہیں۔
Latest from
- عالمی قانون کا انہدام ...اور ان دنیا والوں کی ناامیدی...
- بچوں کو اغوا کرنے اور ان پر تجربات کرنے کی”اسرائیلی“ قبضے کی ایک لمبی داستان موجود ہے
- امریکی قیادت اور نگرانی میں: ایران کی صفوی حکومت اور یہودی وجود...
- شنگھائی تعاون تنظیم امریکن ورلڈ آرڈر کا حصہ ہے
- استعماری طاقتوں کی تنظیمیں ہماری سلامتی اور خوشحالی کی ضامن نہیں ہو سکتیں