الخميس، 26 جمادى الأولى 1446| 2024/11/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

17اپریل 2011، اتوار3بجے سہ پہر ''امریکہ کو بھگاؤ، غداروں کو ہٹاؤ، خلافت کو لاؤ‘‘ - ریلیاں

پشاور راولپنڈی لاہور کراچی
قصہ خوانی بازار لیاقت باغ مزنگ چونگی تا اسمبلی ہال ریگل چوک

 

اے مسلمانانِ پاکستان!
پاکستان کے غدار حکمران غداری کی تمام حدیں عبور کر چکے ہیں۔ انہی کی ملی بھگت سے خطے میں امریکہ کی بالادستی ممکن ہوئی ہے۔ ان غدار حکمرانوں نے ہی امریکہ کی پرائیویٹ عسکری تنظیموں کے لیے دروازے کھولے ہیں جنہوں نے ملک کے طول و عرض میں دھماکوں اورقتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا ہے، خواہ یہ عبادت گاہیں ہوں یا سکول ، عوامی مقامات اور بازار ہوں یا سیکیورٹی اور فوجی تنصیبات ۔ اور ریمنڈ ڈیوس تو اس بھیانک منظر نامے کی محض ایک جھلک ہے۔ ان غدارحکمرانوں نے ہی پاکستان کے اندر امریکہ کو فضائی سہولیات فراہم کر رکھی ہیں کہ جنہیں استعمال کرتے ہوئے امریکی ڈرون قبائلی علاقوں میں مسلمانوں کے سروں پر ان کی چھتیں گرا رہے ہیں۔ ان غدارحکمرانوں نے پاکستان کے فوجی ہیڈکوارٹر-جی ایچ کیو کے دروازے بھی امریکہ کے لیے کھول دیے ہیں اور امریکہ کے فوجی عہدیدار وہاں آزادی سے گھوم پھر رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف امریکی میرینز (marines)نے بلوچستان میں چمن بارڈر کے نزدیک ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ انہوں نے ہی یہ اجازت دی ہے کہ امریکی انٹیلی جنس افسر بکتر بند گاڑیوں میں بیٹھ کرفوجی آپریشن اورڈرون حملوں کے لیے براہِ راست ہدایات دیں،اور ان بکتر بندگاڑیوں پرگرمیوں میں ائر کنڈیشن لگے ہوئے نظر آتے ہیں! ان غدار حکمرانوں نے اس بات میں بھی بھر پور مدد فراہم کی کہ امریکہ پاکستان میں موجوداپنی ایمبیسیوں اور قونصل خانوں کو فوجی قلعوں میں تبدیل کر لے ،جہاں بیٹھ کرامریکی عہدیدار پاکستانی اداروں کو ہدایات جاری کرتے ہیں۔ اور ان حکمرانوں نے ہی پاکستان اور افغانستان میں امریکہ کی صلیبی افواج کی سپلائی لائن کو برقراررکھا ہوا ہے ، جو پاکستان کے طول و عرض سے گزرتی ہے اور جس کے ذریعے اِن افواج کو خوراک ، شراب اور اسلحہ بارود فراہم کیا جا رہا ہے۔


اور گویا یہ جرائم کافی نہ تھے کہ ان غدار حکمرانوں نے کروڑوں مسلمانوں کو ان کی بنیادی ضروریات سے محروم کیا ہوا ہے اور ان کے سروں پر ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام مسلط کیا ہو ا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کے عوام دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں اگرچہ پاکستان سونے، تانبے، کوئلے سمیت بے شمار معدنیات اور زرعی وسائل سے مالامال ہے۔ اور یہ غدار حکمران اُس دینِ اسلام کو مسلمانوں کے دلوں سے کھرچ دینا چاہتے ہیں جو مسلمانوں کو دل و جان سے عزیز ہے۔ چنانچہ انہوں نے استعماری اداروں کو اس بات کی اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اصلاحات کے بہانے تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں کریں ،جبکہ دوسری طرف مغربی سرمایہ دارکمپنیاں مارکیٹنگ اور ثقافتی میلوں کے نام پر مسلمان نوجوانوں میں اپنا تعفن زدہ کلچر عام کر رہی ہیں۔


اے مسلمانانِ پاکستان!

یہ حکمران صلیبی کفار کے محافظ ہیں ۔ کرپٹ اور لٹیرے کے الفاظ بھی ان کی حقیقت کو بیان کرنے کے لیے چھوٹے ہیں ۔ ان منافق حکمرانوں کو اس بات سے چڑہے کہ آپ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے شدیدمحبت کر تے ہیں۔ یہ حکمران محض اپنے ذاتی مفادات کے ساتھ مخلص ہیں اور اپنے استعماری آقاؤں کے وفادار غلام ہیں۔ جب مسلمان ان کے گھناؤنے جرائم اور غداریوں پر ان کا محاسبہ کرتے ہیں تو اس کے جواب میں وہ ان پرظلم ڈھاتے ہیں اورانہیں جیل کی کوٹھڑیوں میں بند کرتے ہیں۔ ایمان کا نور ان کے سینوں سے نکل چکا ہے اور ان کی اصلاح کی تمام امیدیں ختم ہو چکی ہیں۔


اور نہ ہی اُس نظام میں کوئی امید کی کرن موجود ہے جو ہمیشہ ایک غدار کے بعد دوسرے غدار کو اقتدار میں لاتا ہے۔ یہ پاکستان کا کرپٹ نظام ہی ہے جس نے پچھلے ساٹھ سال سے زائد عرصے کے دوران ہر غدار ڈکٹیٹر یا غدار جمہوری حکمران کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ اپنی خواہشات کے مطابق قانون بنائے ، اسلام کے مقرر کردہ حقوق و فرائض کو اپنے پاؤں تلے روندے اور اس عظیم امت کو اُس کے دشمنوں کے سامنے ذلیل و رسوا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس نظام کو اکھاڑا جائے گا اور ان غداروں کو ہٹایا جائے گا تو کوئی آنسو نہیں بہائے گا، اور انشاء اللہ وہ وقت دور نہیں۔

( فَمَا بَکَتْ عَلَیْھِمُ السَّمَآءُ وَالْاَرْضُ وَمَا کَانُوْا مُنْظَرِیْنَ)

''سو نہ تو ان پر آسمان رویا اور نہ ہی زمین ، اور نہ ہی انہیں مہلت ملی‘‘(الدخان:29)


اے مسلمانانِ پاکستان!

اس استعماری نظام اور غدار حکمرانوں سے نجات (التَحریر)ہی وہ حقیقی تبدیلی ہے جس کی آپ خواہش کرتے ہیں اور یہ صرف اسلام اور اس کی ریاستِ خلافت کے قیام کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ یہ خلیفہ ہو گا جو صلیبی امریکہ کے ساتھ ہرطرح کے تعاون کو فوری طور پر ختم کرتے ہوئے نہ صرف اس کے فوجی سٹاف بلکہ سفارتی عملے کو بھی اسلامی علاقوں سے بیدخل کر دے گا۔ خلیفہ نیٹو کی سپلائی لائن کو فوراً کاٹ دے گا تاکہ افغانستان میں صلیبی قبضے کو اپنی ہی موت ماراجاسکے۔ خلیفہ قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں سے مخلص مسلمانوں کو گلے سے لگائے گا اور انہیں اسلامی فوج کا حصہ بنائے گا، نیزمسلمانوں کی صفوں میں موجود منافق لوگوں کو بے نقاب کرے گا،تاکہ مسلمان اسلام اور امتِ مسلمہ کی خاطر یکجان ہو جائیں۔ خلیفہ تمام مسلم ممالک کو ایک واحد ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے دن رات ایک کرے گا، جو وسائل کی کثرت کے لحاظ سے دنیا کی عظیم ترین ریاست ہو گی، جو کشمیر ، فلسطین اور افغانستان سمیت تمام مقبوضہ علاقوں کو قابض کفار کے ظلم و تسلط سے نجات دلائے گی ۔


خلیفہ تیل،گیس اور معدنیات کے ذخائرجیسے کھربوں روپے کے عوامی اثاثہ جات پر پرائیویٹ کمپنیوں کی ملکیت کوختم کرے گا ،اور ان اثاثہ جات سے حاصل ہونے والا بے پناہ ریونیو(revenue) خلافت کے تمام باشندوں کی بہبود کے لیے استعمال ہوگا ۔ خلیفہ استعماری اداروں سے حاصل کردہ سودی قرضوں کی قسط وار ادائیگی کو فوراً منسوخ کرے گا اور اسلام کے محصولات کے نظام کو قائم کرے گا جس سے غریب لوگوں کو سکھ کا سانس نصیب ہو گااور وصولی صرف ان لوگوں سے کی جائے گی ، جو نہ توضرورت مند ہوں اور نہ ہی یہ ان کی استطاعت سے زیادہ ہو۔ خلیفہ اسلام کے پیغام کو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی ظلمتوں کے مقابلے میں اُجالے کے طور پر پیش کرے گا اور کلمۃ اللہ کو بلند کرے گا اور تمام انسانیت کو اسلام کے عدل اور حقانیت کو اختیار کرنے کی دعوت دے گا۔


اے مسلمانانِ پاکستان!

جہاں تک ان غدارحکمرانوں اوربوسیدہ نظام سے نجات (التَحریر)کے لیے عملی قدم اُٹھانے کا تعلق ہے تو یہ قدم نہ تو خونی خانہ جنگی ہے ، نہ ہی اِس کرپٹ نظام کے تحت الیکشن منعقد کرانا ہے اور نہ ہی فوجی بغاوت کے ذریعے ڈکٹیٹروں کو برسرِ اقتدار لانا نجات کا ذریعہ ہے ۔ واحدعملی قدم یہ ہے کہ مسلح مسلم افواج اِن غدار حکمرانوں کو اکھاڑ پھینکیں اورخلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرت دیں۔ یہ عملی قدم اُس طریقے کے عین مطابق ہے جسے اللہ کے رسول ﷺ نے اختیار کیا تھااور یہی واحد طریقہ کار ہے جس کے ذریعے رسول اللہ ﷺ کی امت اِس دنیا میں فتح وسربلندی اور آخرت میں فلاح حاصل کرسکتی ہے۔ انصارِ مدینہ، جو ایک قابل اورمضبوط جنگی قوت تھے، نے بیعتِ عقبہ ثانی کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کو نصرت مہیا کی تھی،وہ بیعت جسے ' بیعتِ حرب (جنگ کرنے کی بیعت)‘ بھی کہا جاتا ہے، اِسی کے ذریعے مدینہ منورہ میں پہلی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا تھا۔ یہ وہی انصارِ مدینہ تھے جن سے اللہ راضی ہوگیا اور جنہوں نے تاریخ کا رخ مظلوم مسلمانوں کے حق میں موڑ دیااور خلافتِ راشدہ کے دور کے لیے بنیاد فراہم کی۔


اور آپ کو یہ جان لینا چاہیے کہ آپ کی طرف سے فقط حکمرانوں کو بُرا بھلا کہہ دینے اور خلافت کے لیے دعا کردینے سے کوئی عملی قدم وجود میں نہیں آئے گا۔ اسلام اس بات کو لازم قرار دیتا ہے کہ تبدیلی کو حاصل کرنے کے لیے اس سمت میں عمل کیاجائے اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام یہ بھی بیان کرتا ہے کہ اگر آپ نے آخرت کے بے حساب اور ہمیشہ کے اجر کے مقابلے میں اِس دنیا کی حقیر اور فانی خوشیوں کی خاطر غدار حکمرانوں کا ہاتھ نہ روکا،تو دنیا و آخرت میں اس کا انجام شدید ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

((ان الناس اذا راوا الظالم فلم یاخذوا علی یدیہ اوشک ان یعمھم اللّٰہ بعقاب))'

'اگر لوگ کسی ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ ان سب کو عذاب دے‘‘(ابوداؤد، ترمذی ، ابنِ ماجہ)۔


اے مسلمانانِ پاکستان!

یہ غدار حکمران، اُن کا کرپٹ نظام اور وہ تمام لوگ جو اِس نظام کے پیچھے اِس لیے بھاگتے ہیں تاکہ وہ اِن غدار حکمرانوں کی جگہ لے سکیں، سب کے سب آپ کے سامنے بے نقاب ہوچکے ہیں۔ پس حقیقی تبدیلی کا راستہ اب آپ کے سامنے بالکل واضح ہے کہ آپ خلافت کی پکار کو تھام کرحزب التحریر(The Liberation Party)کی صفوں میں شامل ہوجائیں جو اخلاص اورمکمل آگاہی کے ساتھ خلافت کے قیام کے لیے کام کررہی ہے۔ حزب التحریر آپ لوگوں کو پکارتی ہے کہ آئیں اور 17اپریل2011ء سہ پہر 3بجے پشاور، راولپنڈی، لاہور اور کراچی میں ہونے والی ریلیوں میں حزب کے شانہ بشانہ شریک ہوں، تاکہ مسلح افواج میں موجود مخلص افراد کوپُرزور انداز میں پکارا جائے کہ وہ اپنے اسلامی فریضے کو ادا کرنے کے لیے حرکت میں آئیں۔ اورآپ اُس دن سے قبل آج ہی سے مساجد، یونیورسٹیوں، کالجوں، مدرسوں، کچہریوں، پریس کلبوں اوربازاروں اورمحلوں کواِن ریلیوں کاساتھ دینے کے لیے متحرک کیجئے۔ وہ لوگ جو معاشرے میں بااثر حیثیت رکھتے ہیں جیسا کہ علماء، وکلاء، صحافی، تاجران، ڈاکٹرز، انجینئرز اور اِسی طرح کے دیگرلوگ، اِن سب کو اِس جدوجہد میں اپنے لوگوں کی قیادت کرنی چاہیے، کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہی آپ کو یہ مقام عطا کیا ہے اور اللہ قیامت کے دن اِس کے متعلق سوال کرے گا۔ اسلام اور اِس کی محافظ یعنی خلافت کے پیغام کو زبان کے الفاظ سے لے کر SMSاور فیس بُک جیسے تمام ذرائع کے ذریعے عام کیجئے، جو اللہ نے آپ کو عطا کر رکھے ہیں۔ اور فوج میں موجودجن مخلص مسلمان بھائیوں کو آپ جانتے ہیں، ان سے رابطہ کرکے اُن سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ خلافت کے قیام کے لییحزب التحریرکو نصرت دیں۔


اے افواجِ پاکستان میں موجود مخلص مسلمانو!

آپ بخوبی جانتے ہیں کہ اِس وقت پوری مسلم دنیا میں مسلح افواج ہی وہ سہارا ہیں کہ جن کے بل بوتے پر یہ نظام اور حکمران کھڑے ہیں،پس جب وہ ہاتھ کھینچ لیتی ہیں تو حکومتیں گر جاتی ہے۔ مکمل اور حقیقی تبدیلی مسلح افواج کی طرف سے اسلام اور امتِ مسلمہ کا ساتھ دینے سے ہی آئے گی، کیونکہ آج پوری مسلم دنیا میں طاقت کا مرکز افواج ہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ غدار حکمران اور اِن کے استعماری آقا آپ لوگوں کو دنیاوی فوائد کی رشوت دیتے ہیں ،اس امید میں کہ آپ لوگ اِس دنیا اورآخرت میں اُن کے ساتھ کھڑے ہوں۔


آج آپ لوگ ہی انصارِ مدینہؓ کے جانشین ہیں اور یہ آپ لوگوں پرہی منحصر ہے کہ آپ مسلم دنیا میں فقط چہروں کی تبدیلی کی بجائے حقیقی تبدیلی کو یقینی بنادیں۔ آپ لوگوں پر لازم ہے کہ محض تماشائی بننے کی بجائے آپ حزب التحریرکو نصرت دے کر اِن غدار حکمرانوں کو، اِس تعفن زدہ کرپٹ نظام سمیت، جو ایسے غداروں کو پیدا کرتا ہے، اکھاڑ پھینکیں اور خلافت کو قائم کردیں۔ آپ لوگ ہی امت کے سپوت اور محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی اور خالد بن ولید کے جانشین ہیں۔ اور اُمت مسلمہ، جو آج اسلامی حکمرانی کے سائے اور بھلائیوں سے محروم ہے، کو ایک بار پھر آپ جیسے لوگوں کی ضرورت ہے۔ چنانچہ آپ میں سے کون ہے جو آگے بڑھے گا اور ایک بار پھر تاریخ کا رُخ مسلمانوں کے حق میں موڑ دیگا؟ !

 

(وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ)

''اور اُس روز مومن خوش ہوجائیں گے، اللہ کی مدد سے ، وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب اور مہربان ہے‘‘ (الروم:4-5)

فیس بُک:http://ht-facebook.notlong.com        ٹویٹر (http://twitter.com/htmediapak: (Twitter

Read more...

8 مارچ خواتین کا عالمی دن ۔ ایک فریب!!

 

خواتین کا عالمی دن ہر سال 8 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ بظاہر اسے عورتوں کی اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی کامیابیوں کو منانے کا دن بتایا جاتا ہے۔ نیز اس دن عورتوں کی عزت و احترام، ستائش اور ان کے ساتھ اچھے سلوک کا بھی عمومی اعادہ کیا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عالمی دن کی یہ تقریبات پاکستان اور دنیا بھر میں عورتوں کی حالت زار کی غلط منظر کشی کرتی ہیں۔ مزید یہ کہ مسلم اور غیر مسلم خواتین کو دنیا بھر میں جن مسائل کا سامنا ہے وہ خود اسی مغربی نظرےۂ حیات کی پیداوار ہیں جس کو یہ خواتین کا دن فروغ دے رہا ہے۔


مغرب کے اپنے اندر یا جہاں کہیں بھی وہ اپنے قدم جماتا ہے، مغربی سرمایہ دارانہ حل کا نفاذ ایک ایسی صورتحال پیدا کرتا ہے جس میں عورت ظلم اور جبر کا شکار ہو جاتی ہے۔ جب بھی آزادیوں، انفرادیت اور برابری کے مغربی تصورات کو فروغ دیا جاتا ہے تو مکمل طور پر ایک کنفیوژن کا سماں ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مستحکم معاشرے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور عورت اور مرد کے مابین باہمی ہم آہنگی پر مبنی تعلقات تباہ ہو جاتے ہیں۔


مغربی افکار عورت اور مرد کے کردار، ان کے آپس کے تعلقات اور ان کے ایک دوسرے پر حقوق و فرائض جیسے کلیدی مسائل کو کبھی سمجھ پائے ہیں اور نہ کبھی ان کو حل کر سکے ہیں۔ شادی کے ادارے کی تحقیر اور زنا کے فروغ نے عورت سے اس کے اور اس کے بچوں کے نان نفقہ کا حق چھین لیا ہے۔ اور یوں خواتین کی ایک کثیر تعداد بیک وقت بچوں کی پرورش اور ملازمت کے کام سر انجام دے رہی ہے۔ مغربی معاشرے میں خاندانوں کا عدم استحکام بچوں میں خوراک کی کمی اور جرائم میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ عورت کی عزت کو اہمیت نہ دینے اور اسے محض ایک ذریعہ ہوس وتفریح بنا لینے سے وسیع پیمانے پر عورتوں کو ہراساں کرنے، تشدد اور زنا بالجبر کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ یہ کرپٹ مغربی حل معاشرے کے تمام طبقوں مثلاً امیر ،غریب، مشہور یا عام افراد سب کو متاثر کر رہا ہے۔


خواتین سے متعلق مغربی نظریات کی بدترین ناکامی کے باوجود مغربی حکومتیں مسلم معاشروں میں مغربی اقدار کے فروغ پر لاکھوں ڈالر خرچ کر رہی ہیں۔ وہ اس نکتہ نظر کو فروغ دیتی ہیں کہ عورتوں پر جبر مذہبی قوانین کا نتیجہ ہے۔ جبکہ ان کے اس نظریے کی بنیاد ان کے اپنے مغربی تجرے پر ہے جو انہیں عیسائی چرچ اور اس کے حضرت عیسیٰ ؑ پر نازل کردہ قوانین میں تحریف کرنے کی وجہ سے پیش آیا۔ اور اس کا اللہ سبحانہُ و تعالیٰ کے حضرت محمد ﷺ پر نازل کردہ دین سے کوئی تعلق نہیں جس نے خواتین کو چودہ سو سال قبل ان کے حقوق عطا کئے تھے۔ اور جن کا مغربی عورت آج بھی صرف تصور ہی کر سکتی ہے۔ اس کے باوجود غدار مسلم حکمران مغربی اقدار کو جہاں تک ہو سکے فروغ دینے اور اسلام کے نفاذ کو مکمل طور پر روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔


اے پاکستان کی مسلم خواتین!
صرف اسلام ہی عورت اور مرد کی صحیح قدرو قیمت کا تعین کرتا ہے۔ اسلام ہی تعین کرتا ہے کہ مرد کے لئے کیا انصاف ہے اور عورت کے لئے مبنی بر عدل کیا ہے۔ اور محض اسلام ہی عورت اور مرد کے فرائض و حقوق متعین کرتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:


(إِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِیْنَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِیْنَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِیْنَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِیْنَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّاءِمِیْنَ وَالصَّاءِمَاتِ وَالْحَافِظِیْنَ فُرُوجَہُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاکِرِیْنَ اللَّہَ کَثِیْراً وَالذَّاکِرَاتِ أَعَدَّ اللَّہُ لَہُم مَّغْفِرَۃً وَأَجْراً عَظِیْماً
)
''مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور متقی مرد اور متقی عورتیں اور خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں اور روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور یاد کرنے والی عورتیں ،کچھ شک نہیں کہ ان کیلئے اللہ نے بخشش اور اجرِ عظیم تیار کر رکھا ہے۔‘‘(سورۃ الاحزاب : 35)


عورت کو یہ حقوق اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے عطا کئے ہیں اور کسی انسان کا بنایا ہو اقانون ساز ادارہ اس سے یہ حقوق چھین نہیں سکتا۔ آپ کے حکمران انسان کے خود ساختہ قوانین نافذ کر رہے ہیں۔ اورچنداسلامی قوانین کو غلط طریقے سے لاگو کر رہے ہیں۔جبکہ مغربی قوانین کو یکسر چھوڑ کر اسلام کو معاشرے میں مکمل طور پر ہمہ جہت طریقے سے نافذ کیا جانا چاہئے۔


صرف اسلام ہی عورت کو تعلیم، اقتصادیات، عدلیہ اور سیاست میں مکمل اور حقیقی شہری حقوق عطا کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عورتوں کے خلاف کسی قسم کے تشدد یا ظلم و زیادتی کو مکمل طورپر ممنوع ٹھہراتا ہے۔ اس کا انحصار عور ت کے خود کمانے کی صلاحیت یا اس کی معاشی قدر و قیمت پر نہیں۔ اسلام ان حقوق کو قانون تک محدود نہیں رکھتا بلکہ اسلامی معاشرے میں خود احتسابی اور عورت کے احترام کی اقدار پروان چڑھتی ہیں۔ یہی دراصل عورت کے خلاف جرائم اور تشدد کو روکنے میں معاون ثابت ہو تی ہیں اور عورت کو اس کے حقوق کی فراہمی میں کسی قسم کے امتیازی سلوک کو بھی روکتی ہیں۔


اسلام عورت کو عزت و احترام اس انداز سے عطا کرتا ہے کہ اس کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی۔ اسلام اس کی ہتک عزت کو حرام ٹھہراتا ہے؛ اس کی نسوانیت و خوبصورتی کا استحصال اور انہیں اشیاء یا سہولیات کی فروخت کا ذریعہ بنانا ممنو ع قرار دیتا ہے۔ اسلام محاسبے، ذمہ داری اور عورت کی دیکھ بھال کرنے کے تصور کو فروغ دیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

((فاتقوا اللہ فی النساء فإنکم اخذ تمو ہن بامانۃ اللہ))

''عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، وہ تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور امانت ہیں۔‘‘


اگرچہ ایک ماں کو ملازمت کرنے کا حق حاصل ہے لیکن نان نفقہ اور دیگر اخراجات پورا کرنا باپ کے ذمے ہے۔ ان دونوں کی مؤثر ہم آہنگی نے ایک مستحکم مسلم معاشرے کوجنم دیا تھا ؛جس نے ایک ہزار سال سے زائد عرصے تک خلافت کے سائے تلے مضبوط مسلمانوں کی کئی نسلیں تیار کیں جو زندۂ و جاوید، پر عزم اور انسانیت کے قائدین کے طور پر سامنے آتے رہے۔


اے پاکستان کی مسلم خواتین!


اے مسلمانوں کی ماؤں اور بیٹیو!
تمام دنیا اس وقت تیونس، لیبیااور مصر سے لے کر پاکستان بنگلہ دیش اور انڈونیشیا تک اسلام کی آمد کا انتظار کر رہی ہے۔ آج بھی آپ کثیر تعداد میں مغربی خواتین کو اسلام قبول کرتے دیکھ رہی ہیں۔ تو کیسا ہو اگر اسلام عملی اور مکمل طور پر بحیثیت خلافت نافذ ہو جائے؟ پہلے ہی مسلم خواتین غدار حکمرانوں کے ظلم و جبر کے باوجود اسلام کے لئے کھڑی ہو رہی ہیں۔ تو کیسا ہو اگر انہیں ایک خلیفۂ راشد کی مدد حاصل ہو جائے جو اسلام کے ذریعے حکومت کرے؟ حزب التحریر میں شامل اپنی بہنوں کے ساتھ مل کر خلافت کے ازسرنو قیام کے کام میں شامل ہو جائیں۔ جو عورتوں اور مردوں کو کفر کی تاریکی سے نکال کر اسلام کے نور میں لے آئے گی۔ اللہ سبحان و تعالیٰ فرماتے ہیں۔


(الر كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنْ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ)
''اآر۔ (یہ) ایک کتاب (ہے) اس کو ہم نے تم پر اس لئے نازل کیا ہے کہ لوگوں کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاؤ (یعنی) ان کے رب کے حکم سے غالب اور قابلِ تعریف (اللہ کے) رستے کی طرف ۔‘‘ (سورۃ: ابراہیم: 1)

 

خواتین ممبران

حزب التحریر ولایہ پاکستان

Read more...

امتِ مسلمہ کو مغربی استعمار کے پنجے سے نجات دلانے ا ور خلافت کے دوبارہ قیام کیلئے علمائے پاکستان کو پُرزورپکار

 

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم


الحمدللّٰہ رب العلمین والصلٰوۃ والسلام علٰی خیر الخلق وخاتم النبیین
وعلٰی آلہ واصحابہ اجمعین،


معززعلمائے کرام،نبی کریم ﷺ کی زبانِ مبارک کے ذریعے آ پ لوگوں کی کتنی اعلیٰ تعریف کی گئی ہے،آپ ﷺنے فرمایا :(( العلماء ورثۃ الانبیاء))'' علماء انبیاء کے وارث ہیں‘‘ (اخرجہ ابو داؤد والترمذی، بروایۃ ابی داؤد)۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی کتنی بلیغ تعریف کی ہے، فرمایا:(اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمآؤُ) ''بیشک اللہ کے بندوں میں سے علماء اللہ سے ڈرنے والے ہیں ‘‘(فاطر:۲۸)۔ پس اگرآپ اللہ سے ڈرتے ہوں تو آپ اللہ کی مخلوق میں سے اللہ کے زیادہ قریب ہیں کیونکہ آپ اوامر پر عمل کرنے والے ، اللہ کی امانتوں کو اٹھانے والے اورحق وصداقت اور عدل پر قائم ہونے والے ہیں ۔ اسی طرح آپ فرضِ عین اور کفائی فرائض کوبجا لاتے ہیں ۔ ہمارے پروردگارنے قرآن میں علماء کی مدح کی ہے ، فرمایا:

(ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَایَعْلَمُوْنَ)(الزمر:۹)

''کیا جو علم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے ہیں ،بھلاوہ برابر ہوسکتے ہیں؟‘‘۔


اس آ یت میں علماء کے مقام ومرتبہ کو بیان کیا ہے جو اللہ کے دین کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں او ر افراد،حکومت اور معاشرے کی اصلاح کی ذمہ داری کو بجالاتے ہیں۔ یقیناًبگڑے ہوئے حالات کی اصلاح میں علماء کا نمایاں مقام اوربڑاحصہ رہا ہے۔ اور یہی لوگ ہیں جو امتِ اسلامیہ کے جسم کو ناسور وں سے پاک کرنے کا کا م کرتے رہے ہیں اوربہتری کی طرف تبدیلی میں ان کی اہمیت مسلّم ہے ۔ لہٰذا علمائے امت کی مثال ان ستاروں کی سی ہے جن کے ذریعے لوگ راہنمائی حاصل کرتے ہیں اور وہی خیر و عدل کی بنیاد ڈالنے والے ہیں ۔ وہی ہیں جو جابر حکمرانوں ، طاغوت اور اس کے حواریوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں ، انہیں لگام دیتے ہیں اوران کی سازشوں کو ناکام بناتے ہیں ۔


اے فاضل علمائے کرام !
وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی عظیم تاریخ کااز سرِ نو جائزہ لیں ۔ اُس اسلامی ریاستِ خلافت کی تاریخ کاجائزہ جسے رسول اللہ ﷺ نے قائم کیاتھا۔ پھر آپ ﷺکے بعدآپ ﷺکے خلفاء راشدین نے اسے مضبوط کیا تھا۔ جس میں مسلمان اپنے رب پر اعتماد کے ساتھ زندگیاں گزارتے تھے اور اپنے دین کے سبب با عزت تھے۔ اور یہ خلافت اموی ،عباسی اورعثمانی خلفاء کے سایے میں صدیوں قائم رہی اور اس خلافت کی وجہ سے اسلام کا جھنڈا سربلندہوکرلہراتا رہا اوراسی کے دبدبہ وشوکت سے سرمایۂ اسلام محفوظ رہا اور مسلمانوں کا رعب اقوامِ عالم پر چھایارہا ۔ چنانچہ ریاستِ خلافت میں عراق کا والی حجاج بن یوسف ایک مسلمان عورت کی پکار پر لبیک کہتا ہے ،جسے راجہ داہر کے زمانے میں بحری قزاقوں نے لُوٹنے کی کوشش کی تھی۔ جب وہ عورت دریا کے بیچ میں پکار رہی تھی:''اغثنا یاحجاج اغثنا یاحجاج‘‘۔ جب حجاج کو یہ خبر پہنچی تو وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوااور کہا : لبیک یا امۃ اللّٰہ''اے اللہ کی بندی میں حاضر ہوں‘‘۔ پھر حجاج نے محمد بن قاسم کی قیادت میں لشکر روانہ کیا ،جس نے ظالموں سے جنگ کی اور انہیں سبق سکھایا۔ یہ واقعہ ۹۳ھ ؁کا ہے۔ اسی طرح جب شاہِ روم نکفورنے مسلمانوں کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کی، توخلیفہ ہارون رشید نے اسے سخت جواب دیا، اور لکھا:'' خلیفۃ المسلمین ہارون رشید کی طرف سے ،روم کے کتے نکفور کی طرف۔ میراجواب وہ ہوگا جسے تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے ،نہ کہ وہ جسے تم سُن لو ‘‘۔ اورپھر خلیفہ نے اپنی افواج کو روانہ کیا اور اسے شکست دی اور یوں نکفور کواس کے کیے کی سزا مل گئی۔ اور جب روم کے علاقے میں قید ایک مسلمان عورت کی یہ صداخلیفہ معتصم بِاللہ تک پہنچی:'' وامعتصماہ! وامعتصماہ!‘‘۔ تو خلیفہ خودلشکر لیکر اس کی مدد کیلئے روم گیا اور دشمن سے اسکے ظلم کا انتقام لیااور مسلمان عورت کی عزت کی حفاظت کی اور اسے امن و تحفظ فراہم کیا۔


یوں مسلمان خلافت کے دور میں تمام دنیا کے سردار تھے اور اچھائی کی طرف بلانے والے تھے ،بلکہ وہ ہر چیز میں سب سے آگے تھے ،خواہ یہ صنعت ہو یا جنگی سامان ،علوم ہوں یا سائنسی فنون۔ اور اس بات کی گوا ہی د وست کیا، د شمن بھی دیتے ہیں ۔ مسلمانوں نے خلافتِ اسلامیہ کے سائے میں جو علمی کارنامے سرانجام د یئے تاریخ ان پر گواہ ہے ۔ وہ ہر حقدار کو اس کا حق دلانے میں اول رہے ،خواہ وہ عورت ہو یا مرد ،جبکہ غیر اسلامی حکومتوں میں عورت مرد کی ملکیت سمجھی جاتی تھی ،جس کی خرید وفروخت کی جاتی تھی ،اور جس کی کوئی قدراورحیثیت نہیں تھی ۔ سو اسلام نے آکر عورت کو عز ت دی اور اسے محترم بنادیا ،اس کی مستقل مالی ذمہ داری کا تعین کیااور اسے رائے کا حق دیا اور عالمہ اور فقہیہ اور قابلِ قدر بنادیا ۔


خلافت کا سایہ مغرب میں شمالی افریقہ تک، مشرق میں ہندوستان تک اور شمال میں وسط ایشیاء تک پھیلا ہوا تھا ۔ یہ عظیم الشان اور وسیع و عریض ریاست اسلام کی محافظ اور اسلامی دعوت کی علمبردار تھی ۔ چنانچہ یہ کفارکے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی۔ لہٰذا اسلام کے دشمن کفاراور ان کی تنظیمیں اور ادارے خلافتِ اسلامی کوختم کرنے اور اسے توڑنے کیلئے اکھٹے ہوگئے اور سازشوں میں لگ گئے ،یہاں تک کہ انہوں نے ایجنٹ مصطفیٰ کمال اتاترک کے ذریعے 28رجب1342ہجری کو مسلمانوں کی ریاستِ خلافت کا خاتمہ کر دیا ۔


معزز علماء کرام یہ بات آپ حضرات پر مخفی نہیں کہ جب دشمنانِ اسلام خلافت کوختم کرنے میں کامیاب ہوگئے، تو ہم کنجوس کے دستر خوان پر یتیموں کی مانند ہوگئے اور ہماری طاقت پارہ پارہ ہوگئی ، مسلمانوں کی سرزمین کے پچاس سے زائد ٹکڑے کر دیے گئے ،ہمار ے اثاثے اورزمین کے اندر پوشیدہ معدنیات و ذخائرلوٹ لئے گئے ،ہمارے علاقے ہر لالچی کیلئے لُوٹ مارکا میدان بن گئے ۔ اس طرح ہماری زمین سمٹتی گئی۔ آپ فلسطین کو لیجئے جو اسراؤمعراج کی سر زمین ہے، یہود یوں نے اس پر قبضہ کیا ہو اہے اور اسمیں جب چاہے مسلمانوں کا خون بہاتے ہیں۔ دوسری طرف کشمیر ہے جس پر ہندوؤں نے قبضہ کیا ہوا ہے، و ہ وہاں مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں اور ایسے قبیح جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں کہ جس سے رونگٹے کھڑے ہوجائیں ۔ اسی طرح مشرقی تیمورکو انڈونیشیا سے الگ کر کے عیسائیوں کے حوالے کردیا گیا ۔ جنوبی سوڈان کو مسلم سوڈان سے توڑا جارہا ہے اور قبرص کے جزیرے کو ترکی کی سرزمین سے کاٹ دیا گیا ہے۔ قوقاز،انگوشتیا،چیچنیا، بشکیرستان ، تاتارستان اور جولفا کو روس نے اپنی چراہ گاہ بنایاہوا ہے جہا ں اس نے خون ریزی اور سفاکی کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ جبکہ امریکہ نے عراق اور افغانستان پر قبضہ کیا ہوا ہے اوروہ پاکستانی حدود کو آئے روز پامال کرتا رہتا ہے ، اوروزیرستان ،اورکزئی اور خیبر ایجنسی میں دیہاتوں اور شہری آبادیوں کواپنے ڈرون حملوں کا نشانہ بناتا ہے ۔


اسلام کے داعیو،کیا اب بھی ہمارے لئے وہ وقت نہیں آیا کہ ہم امریکا اور اسکے اتحادیوں سے اپنی جانو ں اور اپنی عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں ۔


اسلام کے داعیو، کیا آپ یہ نہیں دیکھ رہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے نئے صلیبی حملے کے ذریعے ا سلام کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا ہے،جس کے ذریعے وہ روئے زمین سے اسلام کو مکمل طور پر اُکھیڑنا چاہتے ہیں اور عالمِ اسلام میں اپنافرسودہ اورباطل نظام (جمہوریت )قائم کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے نئے صلیبی حملے کے دوران ایک سال میں دو لاکھ سے زائد مسلمانوں کو ظلم و بر بر یت اوردہشتگردی وسفاکی سے قتل کردیا ، جبکہ مشرق ومغرب میں دنیا گیارہ ستمبر کے واقعہ کوہی رورہی تھی ،تا ہم کسی کے دل میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کا خیال تک بھی نہ آیا ۔ کسی نے اس بات کا افسوس نہ کیا کہ جب امریکہ نے عراق پر پابندیاں عائد کیں تو ایک سال میں ایک لاکھ اکیس ہزاردوسو سینتیس(۱۲۱۲۳۷) عراقی بچے خوراک اور ادویات کی عدم فراہمی کی وجہ سے مرگئے ۔ ۲۰۰۱ ء میں تیرہ ہزار دوسو دو(۱۳۲۰۲) سے زائد افغان مسلمانوں کو امریکہ کے افغانستان پرا بتدائی فوجی حملے میں موت کے گھا ٹ اُتار دیاگیا جبکہ شہروں ،دیہات ،گھروں ،مساجد اور شادی بیاہ کے تقریبات پر امریکی جنگی طیارے وحشیانہ بمباری کرتے رہے۔ دوسری طرف بھارتی ریاست گجرات میں ایک ہزار چوراسی مسلمانوں کومتعصب بھارتی حکومت کی نگرانی میں ہندوؤں کے ہاتھوں جلا کر قتل کیا گیا ۔ اورنہ ہی کسی کو۵۰۷۸چیچن مسلمانوں یاد آئے جنہیں امریکہ کی طرف سے گرین سگنل ملنے پر روسی فضائی بمباری کے ذریعے قتل کیا گیا۔ اور نہ ہی ۳۰۳۹ وہ فلسطینی مسلمان جنہیں صرف ایک سال میں امریکی اسلحے کے ذریعے اسرائیلی بمباری میں قتل کیا گیا ۔ اور نہ دوہزار ایک سو ستراوزبک مسلمان یادآئے جنہیں کریموف حکومت نے خود ساختہ دہشت گردی کے مقابلہ میں ان کے گھروں سے اُٹھا کر جیلوں میں ڈال دیا ۔ اوریہ بھی امریکی آشیر آباد کے ساتھ کیا گیا اورآج بھی ان نوجوانوں کے انجام کا کوئی پتہ نہیں۔ اور دنیا کووہ تین ہزار معصوم بچے ، عورتیں ، بوڑھے اور نوجوان کیوں یاد نہیں آئے جنہیں وزیرستان،اورکزئی اور خیبر ایجنسی میں امریکی ڈرون حملوں سے قتل اور زخمی کیا گیا ،ان حملوں کے نتیجے میں اہلِ علاقہ بے گھر ہوگئے جو خیموں میں انتہائی مشقت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔


ہاں دنیا کو یہ سب کچھ یاد نہیں آیا جبکہ مغربی دنیا اور مسلم ممالک کے حکمران ۱۱ستمبر کے واقعے اور اس کے بعد امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف نام نہادجنگ کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔


اے پا کستان کے معزز علماء کرام !
امت کی ذلت وخواری کی یہ صورتحا ل آپ پر مخفی نہیں اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ حالات اسی طرح سدھارے جاسکتے ہیں جس طرح اول دور میں عربوں کے حالات سدھارے گئے تھے۔ اور آپ یہ جانتے ہیں کہ ان بیماریوں کا علاج صرف تمام تر اسلام کا علمبردار بننے اوراسلام کے نظامِ خلافت کے نفاذ سے ہی ممکن ہے۔


اور اے معشر العلماء ،اے خیرو بھلائی کے پیامبرحضرات! امت کو تباہی اور ہلاکت سے بچا کرامن و سلامتی کی طرف لے جانے اور امت کو اسلام کے افکارو احکامات سے آگاہی دینے کی ذمہ داری آپ ہی کی گردنوں پر ہے اور علماء ہی کے ہاتھ میں مسلمانوں کی بھاگ ڈور ہونی چاہئے۔


بخاری نے انسؓ سے آپ ﷺ کاارشاد نقل کیا ہے:

((لا یومن احدکم حتی یحب لاخیہ ما یجب لنفسہ))

'' تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کیلئے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے‘‘۔

 

پس حزب التحریر کے شباب جو خلافت کے قیام کے لیے دن رات سرگرمِ عمل ہیں،اس بات کے خواہاں ہیں کہ آپ ان کے ساتھ قیامِ خلافت علیٰ منہاجِ النبوہ کے خیر والے عمل میں شریک ہوجائیں ۔ ا ور علماء سے زیادہ کون اس عظیم ذمہ داری کو پورا کرنے کا اہل ہے، جو امت کی وحدت کا راز ہے۔ ایک متقی اور پرہیز گار عالم ہی کو یہ کام زیادہ لائق ہے اور عالم کی شان تو یہ ہے کہ وہ خیر کے تمام مواقع میں صفِ اول میں موجود ہو۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ خلافت کا دوبارہ قیام کوئی ثانوی مسئلہ نہیں کہ جس سے صرفِ نظر کیا جاسکے بلکہ یہ امت کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے کیونکہ اس سے امت کی عزت ،حفاظت اور قوت وابستہ ہے ۔ اور یہ مسلمان کیلئے جاہلیت کی موت سے بچنے کا طوق ہے۔ کیونکہ مسلم نے عبداللہ بن عمرؓ کی روایت سے آپ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے:

 

((ومن مات ولیس فی عنقہ بیعۃ مات میتۃ جاہلیۃ))''

جسے خلیفہ کی بیعت کے بغیر موت آئی ،وہ جاہلیت کی موت مرا‘‘۔


خلیفہ مسلمانوں کی شیرازہ بندی کرتاہے ، عدل کو قائم کرتاہے ،خیر کو پھیلاتا ہے اور شریعت کا نفاذ کرتا ہے ۔ یوں ریاستِ خلافت میں مسلما ن مرد و عورت امن وامان، چین اور سکون کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ وہ اللہ کے بند ے بن کر اور اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے دین کی بدولت عزت سے جیتے ہیں اوراللہ کی خاطر کسی کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے ۔ اورتب مسلمان زمین وآسمان کی بھلائیاں پالیتے ہیں ، زمین اپنے خزانے اگلنا شروع کردیتی ہے اور آسمان سے برکتیں نازل ہونا شروع ہو جاتی ہیں:

 

(وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْقُرآی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ)'

'اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور اللہ سے ڈرتے تو ہم زمین و آسمان سے ان پر نعمتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘(الاعراف:۹۶)


اے علماء کرا م !
حزب التحریر کے شباب آپ کے تعاون اور مساعی کے منتظر ہیں۔ اور ہم آپ سے یہ نہیں کہتے کہ آپ ہمارے ساتھ فقط تعاون کریں ۔ بلکہ اس سے بڑ ھ کرآپ ہمارے ہاتھوں میں ہاتھ دیں اوراس کارِ خیر میں ہمارے ساتھ شریک ہوجائیں، اگرآپ اقامتِ خلافت کی بشارت کے پورا ہونے اورخلافت کے انہدام کے بعد اس کے دوبارا قائم ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ بے شک خلافتِ اسلامی کی صبح قریب ہے اوراسلام اور مسلمانوں کی عزت کی واپسی اب زیادہ دور نہیں ۔ اورآ پ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے اہل بھی ہیں اور مکلف بھی۔ خلافت کا قیام اللہ کا وعدہ ہے اور اس کا وعدہ برحق ہے ۔ ارشادِ رب العلمین ہے:

 

﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾

''اور اللہ نے تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے صالح اعمال کئے کہ وہ انہیں زمین میں موجودہ حکمرانو ں کی جگہ حکمرانی عطا کرے گا، جیسا کہ اللہ نے ان سے پہلے لوگوں کو عطا کی، اللہ ان کیلئے ان کے اس دین کو مضبوط بنیادوں پر جما دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کر لیا ہے۔ اور ان کی موجودہ خوف کی حالت کو امن سے بدل دے گا۔ پس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ، اور جو اس کے بعد کفر کریں تو ایسے لوگ ہی فاسق ہیں‘‘( النور:۵۵)۔

 

سویہ اللہ کی طرف سے خوف،مصیبتوں اور تنگیوں کے بعداستخلاف اورتمکین فی الارض کا وعدہ ہے ۔ اور اللہ اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا،اگرچہ کافروں کو ناگوارگذرے۔ آپ ﷺ نے امتِ مسلمہ کو بشارت دی ہے جسے امام احمد نے تمیم الداری سے روایت کیا ہے :

 

((لیبلغن ھٰذ االامر ما بلغ اللیل والنہار ولا یترک اللّٰہ بیت مدر ولا وبر الا اد خلہ اللّٰہ ھٰذاالدین بعز عزیز او بذل ذلیل عزاً یعز اللہ بہ الاسلام وذلاً یذل بہ الکفر))

''یہ دین وہاں تک پہنچ جائے گاجہاں تک رات اور دن پہنچتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کوئی مٹی یا ٹاٹ سے بنا ہوا گھر ایسا نہیں چھوڑے گا جہاں اس دین کو داخل نہ کردے ،خواہ کوئی اس سے عزت پائے یا ذلت میں مبتلا ہو، اللہ تعالیٰ اسلام کو عزت دیگا اور کفر کو ذلیل کردیگا ‘‘۔

 

اور اسی طرح ہم سب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے اُس وعدے کی تصدیق کرتے ہیں جو فتحِ روم کے بارے میں ہے ، جبکہ اس سے قبل قسطنطنیہ کی فتح سے متعلق آپ ﷺ کی بشارت پوری ہوچکی ہے۔ تو روم خلافت کے بغیر کیسے فتح ہوگا؟ اورخلافت کی افواج کے بغیر القدس کیسے آزاد ہو گا؟ اور خلافت کے بغیراسلام زمین پر کیسے حکمرانی کریگا؟ اورکیا خلیفۂ مسلمین کے علاوہ بھی کوئی ہے جو مسلمانوں کی مدد اورنبیﷺکی ناموس کا دفاع کیلئے اسلامی افواج کو حرکت میں لائے ۔


لہٰذا محترم علماء کرام ، ہمارے اوپر یہ لازم ہے کہ ہم اسلامی ریاستِ خلافت کے قیام کے ذریعے اسلامی زندگی کے از سرِ نو آغازکی راہ میں سچی کوشش کریں ،جو شریعت کا نفاذ کریگی اوربیعت کے ذریعے امت کو خلافتِ اسلامیہ کے سائے میں اکٹھا کریگی ۔ ہمارے لئے اس کے متبادل کوئی اور طریقہ نہیں ۔ مسلمان گذشتہ صدی کے دوران اللہ کی شریعت کونافذ کرنے، زمین میں اسلام کی حکمرانی کو قائم کرنے،مسلم معاشرے کی اصلاح اور مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے کیلئے مختلف طریقے آزما چکے ہیں ۔ انہوں نے اسمبلیوں میں داخل ہونے اورموجودہ کفریہ نظام کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کا تجربہ کیا تا ہم وہ اس مقصد میں ناکام رہے، جیسا کہ اُردن ، الجزائر ،مصر ،پاکستان اور ترکی میں ہوا ۔ مسلمانوں نے حکام کے خلاف اسلحہ کے ساتھ خروج اور فوجی تصادم کاتجربہ بھی کیا لیکن کامیابی نہ ملی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مدِ مقابل دشمن کوئی مخصوص حکمران نہیں ہے بلکہ وہ کفریہ نظام ہے جو مسلمانوں کے سروں پر مسلط ہے اور ان پر اللہ کے نازل کردہ احکامات سے متضاد قوانین نافذ کر رہاہے ۔ اسی طرح مسلمانوں نے مؤثرتقریروں اور بلیغ مواعظ کے ذریعے 'پہلے فرد اور پھرمعاشرہ کی اصلاح‘ کی کوششیں کر کے بھی دیکھ لیں ،مگر کفر کا سیلاب بڑھتا ہی چلا گیااور آج بھی مسلمان نسلوں کو گمراہی کی طرف دھکیل رہا ہے ۔


اے شریعتِ الٰہی کے رکھوالو !
امریکی طاغوت اور اس کے اتحادی اور مسلمان ممالک میں ان کے ایجنٹ مسلمانوں کیلئے ان کی زمین کو جہنم بنا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ مسلمان کے بیٹوں کو قتل کرتے ہیں اور بچوں ،بوڑھوں اور عورتوں کو ذلیل کرتے ہیں ۔ بے شک علما ء تو ہمیشہ دین و ملک اور مسلمانوں کے آبرو پر ہاتھ ڈالنے والوں اور باطل کے سامنے کھڑے ہو تے تھے اور ہرجگہ ،ہر وقت اسلامی حدود کا دفاع کرتے تھے اورہر جابر سلطان کے سامنے حق کا جھنڈا بلند کرتے تھے ۔ آج امریکہ نہ تو ہمارے اوپر رحم کریگا اور نہ ہی وہ ہماری خیر ، امن اور سکون چاہتا ہے،وہ ہمارے خلاف منصوبے بناتا ہے اور سازشیں کرتا ہے تا کہ ہمارے تشخص اور دین کاخاتمہ کردے۔ لہٰذامعزز علماء کرا م ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم جلد از جلدمسلمانوں پر واضح کریں:


1) امریکہ کے ساتھ کسی بھی قسم کا اتحادحرام ہے۔
2) مغربی جمہوری یا سوشلسٹ نظاموں میں شرکت اور داخل ہوناجائز نہیں اور ان استعماری نظاموں سے ہمیں ناکامی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
3) اقامتِ خلافت اور اس کیلئے سعی و جد و جہد دینی فریضہ ہے اور انتہا ئی ضروری ہے ۔
4) جو لوگ امریکی منصوبوں کی تائید کرتے ہیں اور دشمنوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں ان کا بائیکاٹ کرنا واجب ہے۔
5) اس فاسدصورتحال کی تبدیلی خواہ وہ سیاسی ہو یا اقتصادی ، ثقافتی ہو یا عسکری ،خلافتِ اسلامیہ کے دوبارہ قیام یعنی شریعت کے نفاذاور صالح واہل لوگوں کو حکومت سپر د کئے بغیر نہیں آسکتی ۔
6) علماء انبیاء کے وارث ہیں اور حق کی طرف راہنمائی کرنے والے ہیں، لہٰذا ان کے اوپر حزب التحریر کے شباب کی تائید اور ان کے ساتھ اقامتِ خلافت کیلئے بھرپورتعاون کرنالازم ہے تاکہ آپ ﷺکے اس فر مان پر عمل ہوسکے:

((انما الامام جنۃ یقاتل من وراءۃ ویتقیٰ بہ ))''بے شک خلیفہ ڈھال کی مانند ہے جس کے پیچھے رہ کر لڑا جاتا ہے اور اسی سے تحفظ حاصل ہوتا ہے‘‘۔
7 ) مغربی استعماری طاقتوں کی پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کو روکنا واجب ہے ۔
8) امریکہ کو اس بات پر مجبور کرنا واجب ہے کہ وہ افغانستان اور عراق سے نیٹو افواج کا انخلاء کرے ا ورسوڈان اور وسط اشیا کے اسلامی ممالک کے معاملات میں دخل اندازی بندکرے۔
9) دہشت گردی اور قتل و غارت گری میں ملوث بلیک واٹراور ایکس ای سروسز جیسی تنظیموں کو عراق، افغانستان اور پاکستان سے نکالا جائے ،جو کھلم کھلا انتہائی قبیح جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔
10) اسلامی ممالک کے حکمران بالخصوص پاکستان کے حکمران مغربی استعماری طاقتوں سے دوستی کرتے ہیں اور ان کے مفادات کیلئے کام کرتے ہیں اور مسلم سرزمین کے اندر موجود بیش قیمت اشیاء کو کوڑیوں کے دا م فروخت کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ مغربی آقاؤں کیلئے چاکری وچاپلوسی کاکردار ادا کرنے سے باز نہ آئے، تو عنقریب امت ان کے کرتوتوں کاپورا حساب لے گی ۔


علما ء کا امت میں عظیم کردار رہا ہے اور آج امتِ مسلمہ کی ذمہ داری ان پر دوسروں سے کئی گنا بڑ ھ کر ہے۔ اوررسول اللہا ﷺکا یہ قول: ((العلماء ور ثۃ الانبیاء))اگرچہ خبریہ صیغے میں آیا ہے مگر اس میں دلالۃ التکلیف موجود ہے اور متقی ومخلص علما ء سے زیادہ کون اس ذمہ داری کا مکلف ہوسکتا ہے ۔ لہٰذا محترم بھائیو!اقامتِ خلافت کے اس کام میں جُت جاؤ اور اس عظیم جدوجہد میں ہمارے ساتھ شریک ہوجاؤ۔ کیونکہ دنیا میں امت کے لیے عزت و شرف حاصل کرنے او رآخرت میں فردوسِ اعلیٰ کے حصول کا یہی راستہ ہے اورآخرت میں اللہ کی خوشنودی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ۔


ہم اس بات پر مطمئن ہیں کہ اللہ کے حکم سے خلافت کا قیام ضرور ہو گا۔ اس خلافت کے قیام کو روکنے کے لیے کفار کی سر توڑکوششیں اورامت کے مختلف حصوں میں اُٹھنے والی بیداری کی لہر بھی اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ قرآن وسنت کی نصوص اس بات کی بشارت دیتی ہیں کہ اللہ ضرورباعمل مؤمنین کو حکمرانی عطا کرے گا ، خلافتِ راشدہ دوبارہ قائم ہو گی اور اسلام کا عدل اور نور دنیا سے ظلم اور اندھیروں کا خاتمہ کر دے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا:

 

(هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ)

''وہ اﷲ ہی ہے جس نے اپنے رسول ﷺ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو ناگوار ہی ہو‘‘(التوبۃ: 33)۔

 

ماضٰی میں اسلام بہت سے ادیان پر غالب آچکا ہے لیکن ابھی وہ مغرب کے دین ( لبرل جمہوریت ) پرغالب نہیںآیا،وہ دین کہ جس کے مطابق آج دنیا کا ایک بڑا حصہ زندگی گذاررہا ہے ۔ یہ آیت واضح طور پر اس با ت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اس پر بھی اسلام کاغلبہ ہوجائے گا ۔ اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

 

((ان اللّٰہ زوی لی الارض فرأیت مشارقہا ومغاربہا وان امتی سیبلغ ملکہا مازوی لی منہا))'

'اللہ تعالیٰ نے مجھے زمین دکھادی تو میں نے اس کے مشرق و مغرب کودیکھا اور میری امت اس تمام زمین کی مالک بنے گی جو مجھے دکھا ئی گئی ‘‘(رواہ مسلم)۔

 

اورامام احمد نے حذیفہؓ بن یمان سے روایت کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

((تکون النبوۃ فیکم ما شاء اللّٰہ أن تکون،ثم یرفعھا إذا شاء أن یرفعھا، ثم تکون خلافۃً علی منھاج النبوۃ فتکون ما شاء اللّٰہ أن تکون، ثم یرفعھا۔ إذا شاء أن یرفعھا۔ ثم تکون ملکاً عاضاً، فیکون ما شاء اللّٰہ أن تکون، ثم یرفعھا۔ إذا شاء أن یرفعھا، ثم تکون ملکاً جبریۃً فتکون ما شاء اللّٰہ أن تکون، ثم یرفعھا إذا شاء أن یرفعھا،ثم تکون خلافۃً علی منھاج النبوۃ،ثم سکت))'

'تم میں اُس وقت تک نبوت رہے گی جب تک اللہ چاہے گا کہ نبوت رہے،پھر اللہ جب چاہے گا اسے اُٹھا لے گا،پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت ہوگی،تو وہ باقی رہے گی جب تک اللہ چاہے گا،پھر وہ جب چاہے گا اسے اُٹھا لے گا،پھر موروثی حکمرانی کا دور ہوگا،تو وہ رہے گی جب تک اللہ چاہے گا،پھر وہ جب چاہے گا اسے اُٹھا لے گا،پھرجبری اور استبدادی حکومت ہوگی،تو وہ باقی رہے گی جب تک اللہ چاہے گا،پھر وہ اسے اُٹھا لے گا جب وہ چاہے گا،پھر نبوت کے نقشِ قدم پر (دوبارہ )خلافت ہوگی۔ پھر آپ ﷺ خاموش ہو گئے‘‘(مسند احمد)


یا اللہ! ہم آپ سے نبوت کے نقشِ قدم پر خلافتِ راشدہ کے قیام کی دعا کرتے ہیں جس سے اسلام اور مسلمانو ں کو عزت ملے اور کفر ، نفاق اور کفار کو ذلت ملے۔ اے اللہ ہمیں اپنے دین اور اپنے رستے کی طرف بلانے والوں میں شامل کردے۔ اور ہمیں ایسا داعی بنادے جو خیر کی طرف دعوت دینے والے ہوں ،منکرات کو روکتے ہوں اور معروفات کا حکم دیتے ہوں۔

 

وصل اللّٰہ علی سیدنا محمد و علی آلہ وصحابتہ اجمعین۔
والسلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ

 

Read more...

اے مسلمانو! یہ خط پاک فوج میں موجود اُن تمام مخلص لوگوں تک پہنچاؤ،جنہیں تم جانتے ہو خلافت کو قائم کرو، خواہ غدار حکمرانوں کو کتنا ہی ناگوار ہو

 

اے افسرانِ افواجِ پاکستان !


آپ دنیا میں مسلمانوں کی سب سے بڑی اور قابلِ ترین فوج کی قیادت کر رہے ہیں۔ آج مسلم افواج کے پاس ہی وہ مادی قوت موجود ہے جو خلافت کے قیام کے لیے درکار ہے۔ فی الواقع آپ اُن عظیم مرتبہ انصار کے جانشین ہیں جنہوں نے سیدنا محمدا کو مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے لیے نصرت دی تھی۔ پس آپ پر لازم ہے کہ آپ فی الفور حرکت میں آئیں اور پاکستان کے غدار حکمرانوں کو اکھاڑدیں۔ کیونکہ یہ غدار حکمران امریکہ اور بھارت کوسہارا دینے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں، اگرچہ ان دونوں کی کمزوریاں آج پہلے سے کہیں زیادہ نمایاں ہو چکی ہیں، اوران کمزوریوں کے باوجود یہ حکمران اس شرمناک کام کے لیے مسلمانوں ہی کے وسائل کو استعمال کر رہے ہیں۔

 

اے افواجِ پاکستان کے افسران!

 

آج امریکہ کی صورتِ حال یہ ہے کہ اس کی معیشت ڈانواں ڈول ہے ، دوسری طرف وہ اس بات پر خوفزدہ ہے کہ افغانستان کہ جسے ''عالمی طاقتوں کا قبرستان ‘‘ کہا جاتا ہے ، میں اس کی شکست اس کی سرمایہ دارانہ سلطنت کے لیے تباہی کا پیغام لائے گی۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ماضی کے روس اور برطانیہ کہ مانندآج امریکہ افغانستان کی دلدل سے اپنے آپ کو نکالنے کے لیے بے پناہ وسائل خرچ کرنے پر مجبور ہو چکاہے۔
تاہم بجائے یہ کہ افغانستان میں امریکی قبضے کواپنی موت مرنے دیا جائے ،پاکستان کے غدارحکمران خطے میں امریکہ کے قدم مضبوط کرنے کی پوری کو شش کر رہے ہیں۔ ٹریننگ اور انٹیلی جنس کے تبادلے کے بہانے اِن غدار حکمرانوں نے امریکہ کو پاکستان میں اس حد تک رسائی مہیا کر دی ہے کہ جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ امریکی افسر پاکستانی فوج کے ہیڈ کوارٹر(جی ایچ کیو)میں آستینیں چڑھائے گھوم پھر رہے ہیں، گویا کہ وہ اپنے گھر کے لان میں ہوں۔ امریکی فوجی میرینز بلوچستان میں موجود ہیں، جہاں وہ اپنی اور اپنی سپلائی لائن کی حفاظت کے لیے چمن بارڈر کے ملحقہ علاقے کا احاطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکی انٹیلی جنس افسر بکتر بند گاڑیوں میں بیٹھ کر آپریشن اورڈرون حملوں کے لیے براہِ راست ہدایات دے رہے ہیں ، ان گاڑیوں پرگرمیوں میں ائر کنڈیشنڈ لگے ہوئے نظر آتے ہیں! امریکی ائیر فورس اہلکار مستقل طور پرجیکب آباد میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اورامریکہ کی پرائیویٹ فوجی تنظیمیں پاکستان کے بازاروں، مساجد اور سیکیورٹی اہلکاروں کو دھماکوں کانشانہ بنا کر پاکستان کے عوام میں خوف و ہراس پھیلا رہی ہیں۔ امریکہ کے فوجی اور انٹیلی جنس عہدیدار دبئی کے راستے پاکستان میں اُمڈتے چلے آ رہے ہیں ، اور یہ ایک طے شدہ معاہدے کے تحت ہو رہا ہے جو پاکستان کے غدار حکمرانوں نے امریکہ سے کر رکھا ہے۔ اور اے بھائیو! یہ تو اس سنگین صورتِ حال کی محض چند مثالیں ہیں۔


امریکہ کی اپنی فوج بہادری کی صفت سے عاری ہے اور امریکہ کے مغربی اتحادی اس جنگ سے ہاتھ کھینچ رہے ہیں، چنانچہ پاکستان کے حکمران ان کی کمی کو پورا کرنے کے لیے امریکہ کی اس غلیظ اور کٹھن جنگ کا تمام تر بوجھ آپ کے کندھوں پر لاد رہے ہیں۔ امریکہ کو آپ کی کس قدر ضرورت ہے اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ قندھار میں امریکی آپریشن کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے شمالی وزیرستان میں طے شدہ آپریشن میں تاخیر کی وجہ سے اوبامہ اس بات پر مجبور ہو گیا ہے کہ وہ افغانستان سے اپنی افواج کے کچھ حصے کی واپسی میں تاخیر کرے۔ ان غدارحکمرانوں نے پاکستان میں جنگی فضاء قائم کر رکھی ہے تاہم یہ جنگ قابض کافر امریکی فوجیوں اور مسلمانوں کے درمیان نہیں جیسا کہ ہونا چاہیے ، بلکہ یہ جنگ پاکستانی افواج اور قبائلی علاقے کے لوگوں کے درمیان لڑی جارہی ہے اور دونوں طرف مسلمان ہی مارے جا رہے ہیں۔


ان غدارحکمرانوں کی طرف سے امریکہ کی ایک اور خدمت یہ ہے کہ انہوں نے حقائق کو چھپاکر، دھوکے،رشوت اور دھمکی کے ذریعے آپ کو جنگ پر آمادہ کیا۔ ان غدار حکمرانوں نے اس بات کو ہوا دی کہ امریکہ پاکستان کو توڑنے کی شروعات کر سکتا ہے اور پاکستان کے نیوکلئیر ہتھیاروں پر قبضہ کر سکتا ہے ،اور اسے امریکہ کی مدد جاری رکھنے کے لیے مجبوری کے طور پر پیش کیا۔ اوراگرچہ یہ امریکہ کی مدد اور پاکستان کے راستے امریکی افواج کواسلحے اور خوراک کی فراہمی ہی ہے کہ جس کی بنا ء پر امریکہ پاکستان کے اندر تک رسائی حاصل کرنے اور اپنی جڑوں کو پھیلانے میں کامیاب ہوسکا ہے۔ غدار حکمران یہ توجیح بھی پیش کرتے ہیں کہ پاکستان امریکہ کی مدد کرنے پر مجبور ہے کیونکہ ہم معیشتی طور پر لاچار ہیں اورہاتھ پھیلانے والا اپنی مرضی کی شرطیں نہیں رکھ سکتا(Beggers are not choosers)۔ وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ یہ خطہ ایسے وسائل سے مالامال ہے جو پاکستان کو عالمی طاقت بنانے کے لیے کافی ہیں اور اگرچہ ان وسائل کا موجود ہونا اُن وجوہات میں سے ایک ہے کہ جس کی وجہ سے امریکہ نے اس جنگ کا آغاز کیا تھا۔ درحقیقت استعماری مغربی سرمایہ دارممالک کی طرف سے دیے جانے والے قرضوں کے ساتھ منسلک شرائط کا مقصد قرض لینے والے ممالک کے قیمتی وسائل کو چوسنا ہوتا ہے۔


اے افواجِ پاکستان کے افسران!

 

جہاں تک بھارت کا تعلق ہے ، تو ساٹھ سال کی جابرانہ اور متعصب ہندو حکمرانی کے بعد آج بھارت کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ بھارت سابقہ کسی بھی دور سے زیادہ کمزور اور نازک ہے ۔ اس میں کئی علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں جو اسے توڑنا چاہتی ہیں۔ علاوہ ازیں بھارت ضروری وسائل سے محروم ہے اور اپنی گیس اور تیل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اسلامی علاقوں کا مرہونِ منت ہے ، اور معدنی وسائل کے لیے سمندری اور زمینی گزرگاہوں کے سلسلے میں اس کا انحصار اسلامی علاقوں پر ہے۔


لیکن بھارت کی جابرانہ حکمرانی کے خاتمے کی بجائے پاکستان کے غدار حکمرانوں نے بھارت کو مضبوط بنانے کے لیے کام کیا ہے، ان غدار حکمرانوں کا یہ اقدام امریکہ کی خاطر ہے جو بھارت کو اپنے دائرہ اثر میں لانا چاہتا ہے اور چین اور مستقبل میں اُبھرنے والی خلافت کا سدِ باب کرنا چاہتا ہے۔ پس پاکستان کے غدار حکمرانوں نے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کو حکم دیا کہ وہ مجاہدینِ کشمیر کا تعاقب کریں اور انہیں قید و گرفتار کریں۔ غدار حکمرانوں نے ہندو ریاست کو موقع فراہم کیا کہ وہ لائن آف کنٹرول پر باڑ لگا کر مقبوضہ کشمیر پر اپنے قبضے کو مضبوط بنا لے، یہ ہندوریاست کے لیے ایک ایسی کامیابی تھی کہ جس کے وہ نہ تو حقدار تھے اور نہ ہی وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پرکبھی ایسا کرسکتے تھے۔ اور غدار حکمرانوں نے افغانستان پر امریکہ کے قبضے کو تحفظ فراہم کیا جس کے نتیجے میں ہی بھارت کو افغانستان میں داخل ہو نے کا موقع ملا اور اس نے وہاں اپنے قونصلیٹ قائم کرلیے ، جہاں سے بھارتی انٹیلی جنس بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں بدامنی اورانتشار پھیلانے کے لیے کاروائیاں کرتی ہے۔

 

اے افواجِ پاکستان کے افسران!

 

یہ غدار حکمران کفار کے اس طرح اتحادی بنے ہوئے ہیں گویا کہ وہ مسلمانوں کے لیے قوت اور بھلائی کا باعث ہیں۔ جب کہ حقیقت میں کفار کا ساتھ دینا کمزوری، مایوسی اور ذلت کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا:

 

(مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوتِ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ )

''ان لوگوں کی مثال جنہوں نے اللہ کے سوا دوسروں سے دوستی کی اس مکڑی کی طرح ہے جس نے اپنا گھر بن لیا اور یقیناًگھروں میں سب سے کمزور گھر مکڑی کا ہوتا ہے اگر یہ لوگ جانتے ہوتے‘‘(العنکبوت: 41 )


آپ پر لازم ہے کہ آپ ان غدار حکمرانوں کے ہاتھ کوروکیں اوران کی طرف سے امت کے دشمنوں کو فراہم کی جانے والی تمام تر مددو حمایت کا خاتمہ کر دیں۔ صورتِ حال آپ کے حق میں ہے ، آپ کا دشمن زمیں بوس ہو رہا ہے اور آپ کی پوزیشن مضبوط ہے۔ آپ اپنی قوت کا انداز ہ اس حقیقت سے کر سکتے ہیں کہ آپ نے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں امریکی اور بھارتی مداخلت کا سامنا کیا جبکہ اسی وقت آپ سیلاب اور ان غدارحکمرانوں کے ہاتھوں بھی آزمائے جا رہے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ ایک مسلمان فوج ہیں جو فتح اور شہادت پر یقین رکھتی ہے ، یہ یقین آپ کی طاقت کوکئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ اسلام کے جذبات آپ کے اندر گہرائی سے پیوست ہیں ،یہی وجہ ہے کہ آپ نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ کشمیر کے مسلمانوں کے تحفظ کے لیے کافر ہندوؤں سے ہونے والے جہاد کی وجہ سے کسی سپاہی نے فوج کو خیر باد کہہ دیا ہو، مگر آپ نے قبائلی علاقوں میں امریکہ کی خاطر مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے دوران کثرت سے فوج میں اس بات کا مشاہدہ کیا۔ یہ وہ اسلامی جذبات ہیں جن سے امریکہ ڈرتا ہے اور ان جذبات کو آپ کے دل سے کھرچ دینا چاہتا ہے۔


اے افواجِ پاکستان کے افسران!

 

آپ میں سے کچھ لوگ ان غدار حکمرانوں اور کافر امریکیوں کے ساتھ کھڑے ہیں ، اس بات کی مکمل آگاہی رکھنے کے باوجودکہ یہ کتنا شر انگیز کام ہے۔ وہ محض دنیاوی مال و منصب کی خاطر اِن غدارحکمرانوں اورقابض کفارکو سہارا دے رہے ہیں۔ پس وہ یہ جان لیں کہ اللہ کے اِذن سے خلافت جلد قائم ہونے والی ہے ،پھر اُمت غدارحکمرانوں کے ساتھ انہیں بھی سزا دے گی۔ اور یہ بھی جان لیں کہ اللہ کا عذاب تو دنیا کی کسی بھی سزا سے کہیں شدید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

 

(فَاَذَاقَہُمُ اللّٰہُ الْخِزْیَ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ)

''پھر اللہ نے انہیں دنیا کی زندگی میں بھی رسوائی کا مزہ چکھایا اور آخرت کا عذاب تو اور بھی بڑا ہے ،کاش وہ جانتے ہوتے‘‘ (الزمر:26)


جبکہ آپ میں سے کچھ لوگ خاموشی سے یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور اُس قوت کو ضائع کر رہے ہیں جو اللہ نے انہیں عطا کر رکھی ہے۔ اس کے متعلق ان سے اُس دن سوا ل کیا جائے گا جس دن اعمال نامے تولے جائیں گے۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ فرعون کے لشکر یوں کا حشر فرعون کے ساتھ ہی ہوا کہ جس کی وہ اطاعت کر رہے تھے؟ کیا یہ دنیا اور اس کی عارضی خوشیاں انہیں آخرت کی ہمیشہ کی نعمتوں سے غافل کیے ہوئے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

 

(یٰٓااَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَی الْاََرْضِط اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ ج فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَۃِ اِلاَّ قَلِیْلٌ)

''اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلو تو تم زمین پر گرے جاتے ہو، کیا تم آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے ہو ۔ دنیا کی زندگی کا فائدہ تو آخرت کے مقابلے میں بہت ہی قلیل ہے‘‘(التوبۃ: 38)


جب کہ آپ میں سے کچھ وہ ہیں جو دشمن کی شکست اور مسلمانوں کی فتح کے انتہائی آرزو مند ہیں۔ پس اب ہی وہ وقت ہے اے محترم بھائیو! اب ہی وہ وقت ہے کہ آپ خلافت کے قیام کے لییحزب التحریر کو نصرت دینے کی طرف جلدی کریں۔ اللہ آپ کے ذریعے وہ دن جلد دکھائے جب مجرموں اورغداروں کاتمام شر اورباطل ،اسلام کی سچائی کے ہاتھوں نیست و نابود ہو جائے گا، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

 

(لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَ)

''تاکہ اللہ حق کو ثابت کر دے اور باطل کو مٹا دے، خواہ مجرموں کو کتنا ہی ناگوار ہو‘‘(الانفال: 8)

 

Read more...

نہ آمریت ، نہ جمہوریت، نہ خونی انقلاب حقیقی تبدیلی صرف خلافت کا نفاذ

آج پاکستان میں ہر طرف انقلاب اور تبدیلی کی بات ہو رہی ہے، گھر ہوں یا دفتر، فیکٹریاں ہوں یا گلی محلے، عوامی مقامات ہوں یا ڈرائینگ روم، عام لوگ اور بااثر طبقہ سب تبدیلی کی بات کر رہے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ظالم حکمرانوں کے اَن گنت جرائم کے خلاف مسلمان شدید غم وغصے میں ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ اگرچہ پاکستان بے پناہ وسائل سے مالا مال ہے ، جس میں کوئلہ ، سونا اور تانبے جیسی معدنیات شامل ہیں، اور باوجود یہ کہ مسلمانوں کا دین ایسے معاشی نظام کا حامل ہے جو ہزار سال سے زائد عرصے تک دنیا کے لیے قابلِ رشک رہا ہے ،لیکن آج سیلاب زدہ علاقوں اور دیگر شہروں میں لاکھوں مسلمان بنیادی ضروریات کی چیزوں سے محروم ہیں، کیونکہ ان حکمرانوں نے استحصال پر مبنی سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام نافذ کر رکھا ہے ۔ وہ اس بات کا بھی مشاہدہ کر رہے ہیں کہ اگرچہ پاکستان کی فوج دنیا کی ساتویں بڑی فوج ہے ، اس کے باوجودپاکستان کے مسلمان شدید عدم تحفظ سے دوچار ہیں کیونکہ ان حکمرانوں نے امریکہ کو پاکستان میں کھلی چھٹی دے رکھی ہے ، امریکہ کی پرائیویٹ فوجی تنظیمیں پاکستان کے عوامی مقامات میں بم دھماکے کروا رہی ہیں اور امریکی ڈرون طیارے قبائلی علاقوں میں قیامت برپا کر رہے ہیں ۔ اور اگرچہ مسلمانوں نے صدیوں سے اسلام کو سینے سے لگا ئے رکھا ہے اور اس کے لیے ہر دور میں قربانیں دیتے رہے ہیں، پاکستان کے حکمران اسلام کی عمدہ و اعلیٰ اقدار کو کھرچ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، انہوں نے استعماری اداروں کو اس بات کی اجازت دے رکھی ہے کہ وہ تعلیمی اصلاحات کے نام پر تعلیمی نصاب کی کانٹ چھانٹ کریں ، دوسری طرف انہوں نے مغربی کمپنیوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ ثقافتی میلوں اور مارکیٹنگ کے نام پر غلیظ ثقافت اور رسومات کو مسلمانوں میں فروغ دیں۔

پاکستان کا موجودہ سرمایہ دارانہ نظام محض استعماری کفار اور ان کے ایجنٹوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے۔ پچھلی نصف صدی سے مغربی کفار نے پاکستان کے مسلمانوں کے اوپر ایسے حکمرانوں کو مسلط کیا جنہوں نے کفر کو نافذ کیا اور مسلمان ان سے نفرت کرتے تھے۔ جب مسلمانوں کی یہ نفرت ان حکمرانوں کے گلے تک پہنچنے لگی اور حکمرانوں کے خلاف رائے عامہ اس قدر شدید ہو گئی کہ ان ایجنٹ حکمرانوں کے لیے اپنے مغربی آقاؤں کے احکامات کو نافذ کرنا دشوار ہو گیا ، تو استعماری کفار نے اپنے ہی لائے ہوئے ایجنٹ حکمرانوں کو قربان کیا تاکہ پاکستان میں نافذ استعماری نظام کو بچایا جائے اور الیکشن یا فوجی انقلاب کے ذریعے ایک نئے ایجنٹ کو لا کر بٹھا دیا۔ اور ہر بے شرم ایجنٹ حکمران نے اس بات کو فرض جانا کہ وہ جس حد تک ہو سکے سابقہ حکمران کو لعن طعن کرے ، اور اپنے بے نقاب ہو جانے کے بعد نئے ایجنٹ کے لیے جگہ بنائے۔ مشرف اسی انداز سے آیا اور رخصت ہوا تھا اور زرداری بھی اسی انداز سے آیا ہے اور اسی انداز سے جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اب جان چکے ہیں کہ موجودہ نظام کے تحت انتخابات مزید ظلم اور تباہی کا پروانہ لے کر آئیں گے۔ اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا اعتماد اس نظام سے اور ہر اُس لیڈرشپ سے اٹھ چکا ہے جو اس نظام میں شامل ہونے کے لیے لپکتی ہے، خواہ وہ جمہوری قیادت ہو یا کوئی فوجی آمر۔

اس نظام کے ذریعے کبھی حقیقی تبدیلی نہیں آئے گی، کبھی بھی نہیں! اس استعماری نظام کی اصلاح نہیں ہو سکتی اور نہ ہی یہ کبھی مسلمانوں کے لیے کوئی خیر وبھلائی لا سکتا ہے۔ یہ نظام ہمیشہ حکمرانوں کی خاطر محکوم عوام پر ظلم ڈھائے گا ، کیونکہ اس نظام کا بنیاد ی وصف یہ ہے کہ یہ ایک کفریہ نظام ہے جسے اِس انداز سے تعمیر کیا گیا ہے کہ استعماری آقاؤں اور ان کے وفادار حکمرانوں کی خواہشات کو پورا کیا جائے، خواہ یہ حکمران ڈکٹیٹر اور اس کے حواری ہوں یا تمام کی تمام پارلیمنٹ ہو یا پھر ٹیکنوکریٹس اور ''بے داغ سیاست دان‘‘ ہوں۔ عوام اس خواہش و ہوس کے نظام کے استحصال کا نشانہ بنتے ہیں اور یہ انہیں ان کے حقوق اور اللہ کی عطا کردہ رحمتوں سے محروم رکھتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے:

(فَاحْکُمْ بَےْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَھْوَاءَ ھُمْ عَمَّا جَآءَ کَ مِنَ الْحَقِّ)(المائدہ48 : )
'' پس ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے فیصلہ کریں،اور جو حق آپ کے پاس آیا ہے، اس کے مقابلے میں ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجئے گا‘‘

اے مسلمانانِ پاکستان!

صرف خلافت ہی حقیقی تبدیلی لائے گی کیونکہ یہ ایک ایسا نظام ہے جو اللہ سبحانہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات پر استوار ہوتا ہے۔ یہ ایسا نظام ہے جو خیر کو نافذ کرتا ہے اور شر کا سدِ باب کرتا ہے اور عوام کو چند لوگوں کی خواہشات اور پسند و ناپسند کے حوالے نہیں کرتا ، چنانچہ یہ نظام ظلم و استحصال سے پاک ہوتا ہے۔ یہ نظام عوام کو محفوظ بناتا ہے کیونکہ یہ نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ قرآن و سنت ہی اس بات کا فیصلہ کریں کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے، درست کیا ہے اور غلط کیا ہے، قانونی کیا ہے اور غیر قانونی کیا ہے۔ پس اس نظام میں کرپٹ ایجنٹ اور ان کے استعماری آقاؤں کے لیے کوئی گنجائش موجود نہیں کہ وہ لوگوں کا استحصال کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

(وَعَسى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ )
''عجب نہیں کہ ایک چیز تمہیں ناپسند ہو لیکن وہ تمہارے لیے خیر کا باعث ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو لیکن وہ تمہارے لیے شر کا باعث ہو۔ ان باتوں کو اللہ ہی جانتا ہے اورتم نہیں جانتے‘‘(البقرۃ:216)

یہ صرف نظامِ خلافت ہی ہے جو حکمران کو دینِ اسلام کا پابند بناتا ہے اور انہیں مجبور کرتا ہے کہ وہ ذاتی مفادات اور خواہشات پر اللہ کے دین کو مقدم رکھے۔ خلیفہ اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے نازل کردہ احکامات کو ہی نافذ کرے۔ ریاستِ خلافت میں محکمۂ مظالم ایسے کسی بھی حکمران کو برخاست کرنے کا اختیار رکھتا ہے جو کفریہ قوانین نافذ کرے۔ ریاستِ خلافت میں ایسی سیاسی جماعتیں موجود ہوں گی جو اسلام کی بنیاد پر حکمرانوں کا محاسبہ کریں ، اور انہیں اپنے قیام کے لیے کسی حکومتی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی کیونکہ حکمران کا محاسبہ اسلام کی رُو سے فرض ہے ۔ اور یہ امر امت ، شعور وبصیرت رکھنے والے لوگوں ، علماء اور میڈیا کی حوصلہ افزائی کرے گا کہ وہ منتخب کردہ مجلسِ اُمت میں اوراس کے باہر بھی حکمرانوں کا سنجیدگی سے محاسبہ کریں، اور یوں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرض کو پورا کریں۔

یہ صرف خلیفۂ راشد ہی ہوگا جو چند گھنٹوں میں پاکستان میں ایسی تبدیلی لائے گی، جس کا لوگ مشاہدہ کریں گے اور اسے براہِ راست محسوس کریں گے۔ خلیفہ صلیبی امریکہ کے ساتھ ہرطرح کے تعاون کو فوری طور پر ختم کرتے ہوئے نہ صرف ان کے فوجی سٹاف بلکہ سفارتی عملے کو بھی اسلامی علاقوں سے بیدخل کر دے گا۔ خلیفہ نیٹو کی سپلائی لائن کو فوراً کاٹ دے گا تاکہ افغانستان میں صلیبی قبضے کو اپنی ہی موت ماراجاسکے۔ خلیفہ اُن تمام فوجی اثاثہ جات جیسے جیکب آباد کا ائیر بیس اور دیگر فوجی اڈوں کوآزاد کرائے گاجوامریکی ڈرون حملوں کے لیے استعمال ہورہے ہیں اور انہیں سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی کاموں کے لیے استعمال کرے گا۔ خلیفہ قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں سے مخلص مسلمانوں کو گلے سے لگائے گا اور انہیں اسلامی فوج کا حصہ بنائے گا، نیزمسلمانوں کی صفوں میں موجود منافق لوگوں کو بے نقاب کرے گا،تاکہ مسلمان اسلام اور امتِ مسلمہ کی خاطر یکجان ہو جائیں۔ خلیفہ گیس اور معدنیات کے ذخائرجیسے عوامی اثاثہ جات پر پرائیویٹ ملکیت ختم کرے گا اور یہ اثاثہ جات خلافت کے تمام باشندوں کی بہبود کے لیے استعمال ہوں گے ، وہ استعماری اداروں سے حاصل کردہ سودی قرضوں کی قسط وار ادائیگی کو فوراً منسوخ کرے گا اور اسلام کے محصولات کے نظام کو قائم کرے گا ،یوں امت کے لیے اربوں ڈالر کی دولت دستیاب ہو گی اورغریب لوگوں کو سکھ کا سانس نصیب ہو گا۔ ٹیکس صرف ان لوگوں سے وصول کیا جائے گا ، جو نہ توضرورت مند ہوں اور نہ ہی یہ ٹیکس ان کی استطاعت سے زیادہ ہو۔ اور خلیفہ تمام مسلم ممالک کو ایک واحد ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے دن رات ایک کرے گا، جو وسائل کی کثرت کے لحاظ سے دنیا کی عظیم ترین ریاست ہو گی ۔ یہ سب اسلام کے مکمل نفاذ کا لازمی نتیجہ ہے۔

اے افواجِ پاکستان کے مسلمانو!

کب تک آپ استعماری کفاراور ان کے ایجنٹوں کو اس بات کی اجازت دیں گے کہ وہ آپ کے لوگوں کو دھوکہ دیں اور انہیں حقیقی تبدیلی سے محروم رکھیں؟ کیا آپ محض کھڑے دیکھتے رہیں گے جبکہ اس کفریہ نظام میں ایک اور مصنوعی تبدیلی واقع ہو جائے ؟ بے شک حقیقی تبدیلی کا انحصار آپ لوگوں پر ہے۔ آپ کے بھائی اور بہنیں پاکستان کے مسلمان اِس تبدیلی کے لیے تیار ہیں اور اِس کا مطالبہ کررہے ہیں۔ امریکہ اپنی تباہ حال افواج اور لا علاج اقتصادی بد حالی کی وجہ سے اپنی پوری تاریخ کی نسبت آج سب سے زیادہ کمزور ہے۔ اور اللہ آپ کا مددگار ہے وہ رب العالمین کہ جس نے پوری تاریخ میں ہمیشہ اپنے متقی بندوں کی مدد کی اور کفار پر یہ واضح کر دیا کہ اللہ اپنے بندوں کے ساتھ ہے خواہ وہ تعداد میں قلیل ہوں یا وسائل کے لحاظ سے کمزورہوں ۔ موجودہ نظام میں مصنوعی تبدیلی کو قبول کرنے کی بجائے آپ پر لازم ہے کہ آپ اِس استعماری کفریہ نظام کو اکھاڑ کر خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے حزب التحریرکو نصرت دینے کے لیے آگے بڑھیں ۔ آگے بڑھیں تاکہ موجودہ حکمران اور یہ کفریہ نظام ایک مخلص قیادت سے تبدیل ہو جائے ، جو اسلام کے ذریعے حکمرانی کرے ، اور دنیا و آخرت میں امتِ مسلمہ کو سرفراز و کامران کرے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

(وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لاَ يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الْفَاسِقُونَ)
''اللہ تم میں سے اُن لوگوں سے وعدہ فرما چکا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے، کہ انہیں ضرور زمین میں اِن حکمرانوں کی بجائے حاکم

بنائے گا جیسے کہ اُن لوگوں کوحاکم بنایا جوان سے پہلے تھے، اور یقیناً ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جما دے گاجسے وہ ان کے لیے پسندفرما چکا ہے، اور ان کے اس خوف و خطر کو امن سے بدل دے گا ۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کوبھی شریک نہ ٹھہرائیں گے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں ‘‘(النور:55)

Read more...

سیلاب کی تباہ کاریوں نے امت میں موجود خیرکو ظاہر کردیا ہے اور حکمرانوں کے شر کو بے نقاب کردیاہے

جولائی کے آخری ہفتے اور اگست کے آغازمیں ،مون سون کی موسلا دھار بارشوں کے نتیجے میں دریاؤں اور ندی نالوں میں طغیانی آگئی اورپانی بپھر کر دریاؤں ، ندی نالوں اور ڈیموں سے باہر آ گیا، جس کی وجہ سے خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے شہروں میں بے شما رسڑکیں، پُل، گھر اور بجلی کی لائنیں زیر آب آگئیں ۔ اس طغیانی نے چارسدہ، نوشہرہ، پشاور، مردان، سوابی، سوات، شانگلہ کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ ہزاروں لوگ ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ بھوکے پیاسے کھلے آسمان تلے موجود ہیں اور سیلابی پانی کے نتیجے میں جنم لینے والی ٹائی فائیڈاور ہیضے کی بیماریوں کا شکار ہوکر موت کا سامنا کر رہے ہیں۔

جہاں تک اُن مسلمانوں کا تعلق ہے جو سیلابی پانی میں بہہ گئے یا اب پیٹ کی بیماریوں میں جاں بحق ہورہے ہیں تواُن کے لیے شہداء کا سا اجر ہے، جیسا کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا:

((ماتعدون الشھید فیکم؟ قالو: یا رسول اللّٰہ من قتل فی سبیل اللّٰہ فھو شہید، قال: اِن شھداء أمتی اذاً لقلیل، قالو: فمن ھم یا رسول اللّٰہ؟ قال: من قتل فی سبیل اللّٰہ فھو شھید، ومن مات فی سبیل اللّٰہ فھو شہید، ومن مات فی الطاعون فھو شہید، ومن مات فی البطن فھو شھید، والغریق شھید))
''تم اپنے میں کس کو شہید تصور کرتے ہو؟ انہوں(صحابہ) نے کہا: اے اللہ کے رسول ا،وہ شخص شہید ہوتا ہے جو اللہ کی راہ میں مارا جائے۔ آپ انے فرمایا: تب تو میری امت میں کم لوگ شہید ہونگے۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر کون لوگ شہید ہیں؟ آپ انے فرمایا: جوشخص اللہ کے راہ میں مارا جائے، وہ شہید ہے، اور جو شخص اللہ کی راہ میں فوت ہوگیا وہ شہید ہے ، اور جو شخص طاعون کی بیماری میں مر گیا وہ شہید ہے اور جوشخص پیٹ کی بیماری میں مر گیا وہ شہید ہے اور جو شخص ڈوب کر مر گیا وہ شہید ہے۔‘‘ (مسلم)
بے شک اللہ کی راہ میں موت بہترین موت ہے جو مسلمانوں میں سے بہترین اور سب سے متقی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے ۔

جہاں تک پاکستان اور پاکستان سے باہر بسنے والے لاکھوں مسلمانوں کا تعلق ہے تو وہ اپنے بھائیوں کی تکالیف پر غمزدہ ہیں اورپاکستان میں موجود انتشار کی فضا کے باوجود اپنے بھائیوں کے لیے صاف پانی، خوراک، ادویات اور کپڑوں کی شکل میں امداد بھیجنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ سب رسول اللہ ا کی امت میں موجود خیر کو ظاہر کرتا ہے۔ بے شک یہ امت ایسی ہی ہے جیسا کہ رسول اللہ ا نے اِس کے متعلق بیان فرمایا ہے:

((مَثَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی تَوَادِّھِمْ وَ تَرَاحُمِھِمْ وَ تَعَاطُفِھِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ اِذَاشْتَکٰی مِنْہُ عُضْوٌ تَدَاعیٰ سَاءِرُالْجَسَدِ بِالسَّھْرِ وَالْحُمّٰی))
''آپس میں محبت رحمت اور مہربانی میں مومنین کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ جب اس کے ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوتاہے۔‘‘(مسلم)

اور کتنا بڑا فرق ہے اس امت اورپاکستان اور پاکستان سے باہر امت کے حکمرانوں کے درمیان ۔ ان حکمرانوں کے پاس مجموعی طور بیسیوں لاکھ فوج اور کھربوں ڈالر کے وسائل موجود ہیں ، لیکن اِن حکمرانوں کی طرف سے مسلمانوں کی اِس ابتر صورتحال اور شدید ضرورت کے موقع پر اب تک کا ردعمل کیا ہے؟:

جہاں تک پاکستان کے حکمرانوں کا تعلق ہے ، تو جب سیلاب کی شدت میں اضافہ ہوا اور اس کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں اموات کی تعداد بڑھنے لگی تو پاکستان کاصدر آصف علی زرداری یورپ کے حکمرانوں کے ساتھ مسکراہٹوں کا تبادلہ کرنے اور ان کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے کے لیے پاکستان سے روانہ ہو گیا۔ اور پاکستان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کوملک کے اندرایمرجنسی کی صاف اور واضح صورتِ حال کے باوجودکئی دنوں کے بعد اب کابینہ کی ایک ''ایمرجنسی‘‘ میٹنگ کرنے کا خیال آیا ہے۔ کیا یہ حکمرانوں کی ذمہ داری نہ تھی کہ وہ فوری طور پر متاثرہ علاقوں کا رخ کرتے تاکہ وہ بذاتِ خود انتظامی کاموں کی براہِ راست نگرانی کرتے، بجائے یہ کہ وہ فقط ٹیلی ویژن رپورٹوں کو دیکھتے رہتے ،کہ گویا یہ تباہ کاریاں کسی اور ملک میں ہورہی ہوں؟ کیا یہ اِن حکمرانوں کی ذمہ داری نہ تھی کہ وہ متاثرہ علاقوں میں خوراک اور پانی کی وافر سپلائی کو یقینی بناتے ؟ تاکہ متاثرہ علاقوں میں سپلائی کی کمی کی وجہ سے قیمتوں میں ہوشربا اضافہ نہ ہوتا، جیسا کہ متاثرہ علاقوں میں صورتِ حال یہ ہے کہ ایک روٹی کی قیمت 25روپے تک جاپہنچی ہے ،جبکہ غیر متاثرہ علاقوں میں یہ 2روپے میں دستیاب ہے۔ کیا یہ اِن حکمرانوں ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ لوگوں کی مدد کے لیے لاکھوں کی تعداد میں فوجی جوانوں کو متحرک کرتے نہ کہ فقط چند ہزار فوجی جوانوں کو جو اس قدر وسیع بحران کے مقابلے میں بے بس نظر آتے ہیں، جبکہ دوسری طرف انہی حکمرانوں نے ڈیڑھ لاکھ کے قریب فوجی جوانوں کو قبائلی علاقوں میں امریکہ کی فتنے کی جنگ میں جھونک رکھا ہے۔ یہ ظالم حکمران افغانستان میں موجود صلیبیوں کے لیے شراب اور ہتھیار لے جانے والی سپلائی لائن کی حفاظت کے لیے پورے ملک کوتہہ وبالا کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اِس کے برعکس مسلمانوں کی مشکلات کو دور کرنے کے لیے انگلی ہلانے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اور حد تو یہ ہے کہ یہ حکمران سیلاب زدگان کے لیے امریکہ کی انتہائی معمولی مدد کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں تاکہ اُس دشمن امریکہ کے اِمیج کو پاکستان کے عوام کی نظر میں بہتر بنایا جائے ،جو ہرروز پاکستان کے مسلمانوں پر ڈرون برسا رہا ہے۔

اور جہاں تک بیرونِ پاکستان دیگر مسلم ممالک کے حکمرانوں کا تعلق ہے، تو وہ پاکستان کے حکمرانوں سے بالکل مختلف نہیں۔ وہ مجبوراً ''امت‘‘ اور ''وحدت‘‘کا لفظ استعمال کرتے ہیں کیونکہ مسلمان اپنے آپ کو ایک امت سمجھتے ہیں اور حکمرانوں سے بھی اس تصور کا مطالبہ کرتے ہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ الفاظ ان حکمرانوں کے حلق سے نیچے نہیں اترتے۔ یہ حکمران اطمینا ن سے مسلمانوں کو مرتا ہوادیکھتے ہیں گویا یہ مسلمان نہیں بلکہ جانور ہیں اور دوسری طرف یہ امت کے وسیع وسائل کو بے دردی سے لُوٹ کر انہیں مغربی بینکوں میں جمع کرنے پر لگے ہوئے ہیں، اُس وقت کے لیے جب یہ اپنے ہی لوگوں کو چھوڑکر فرار ہو جائیں گے۔ یہ حکمران اپنی عوام کو اتنا ہی دیتے ہیں جو اُن کے نزدیک عوام کو خاموش کرنے کے لیے کافی ہو، تاکہ اِن حکمرانوں کے خلاف عوام کا غصہ بے قابو نہ ہوجائے، بالکل اس طرح جیسے کوئی شخص بھوکے جانور کے سامنے کھانے کا نوالہ پھینکتا ہے، اس خوف سے کہ کہیں وہ اسے کاٹ نہ لے۔ تاہم مجموعی طور پریہ حکمران بحران کے موقع پر بھی مسلمانوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتے ہیں جیسا کہ عام دنوں میں، پس وہ دونوں حالتوں میں عوام کو زیادہ تر بنیادی ضروریات سے محروم رکھتے ہیں۔

پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک پر مسلط حکمرانوں کو مسلمانوں کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ یہ حکمران جس سرمایہ دارانہ نظام کو نافذ کررہے ہیں،وہ صرف حکمران ٹولے اور اُس کے حواریوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ پوری دنیا میں ایک ایلیٹ (elite)طبقہ ہی دنیا کے اہم ترین وسائل پر قابض ہے اور اس نے اربوں لوگوں کو بھوک ، پیاس اور بے سرو سامانی میں مبتلاکررکھا ہے۔ اور بحران کے وقت محض یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ یہ نظام لوگوں کے ساتھ اِس سے بھی بُرا سلوک کرے گا۔ اور دنیا کے لوگوں نے 2005ء میں اِس امر کا مشاہدہ بھی کیا، جب سرمایہ داریت کے علمبردارامریکہ کی جنوبی ریاستوں میں آنے والے سمندری طوفان قطرینہ کے موقع پر بش حکومت نے وہاں کے شہریوں کو بھوک، پیاس اور پرتشدد جرائم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ فی الحقیقت سرمایہ داریت ایک کفریہ نظام ہے جولوگوں کی اکثریت کو بنیادی ضروریات سے بھی محروم کر کے ایک چھوٹے سے طبقے کو اعلیٰ ترین آسائشیں فراہم کرتا ہے ۔ بلاشبہ اب اس نظام کے اختتام کا نقارہ بج چکا ہے، بالکل اسی طرح جیسا کہ اسے نافذ کرنے والے حکمرانوں کے اختتام کا وقت اب قریب پہنچ گیاہے۔

اے پاکستان کے اہلِ قوت ! اے پاکستان کی مسلح افواج کے آفیسر حضرات!

کیا جو سب کچھ آپ دیکھ چکے ہیں وہ اس بات کے لیے کافی نہیں کہ آپ اِن بدترین حکمرانوں کے خلاف متحرک ہوں؟ کیا آپ انہیں بھول جائیں گے کہ جن کے تحفظ کی آپ نے قسم اٹھائی تھی؟ کیا وہ امتِ مسلمہ کہ جس نے ملکہ وکٹوریہ کے دورِ حکومت میں قحط زدہ آئرلینڈ کے لیے خوراک کے جہاز بھیجے تھے، اِس بات کی بھی مستحق نہیں کہ اُن کی بنیادی ضروریات کا تحفظ کیا جائے؟ کیا وہ عظیم امتِ مسلمہ کہ جو خلافت کے تمام ادوار میں مظلوم غیرمسلموں کو پناہ دیتی رہی، آج امن اور سیکورٹی اُس کا حق نہیں؟ کیا یہ اعلیٰ ظرف امت مسلمہ اِس بات کی حق دار نہیں کہ اِن پر اعلیٰ ظرف حکمران مقرر ہوں جو اس کی تنہائی اور مایوسی میں شریک ہوں،جو اس امت کے لیے اتنا روئیں کہ ان کا سینہ دُکھنے لگے اور و ہ اس امت کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے انتھک محنت کریں، اپنی نیندوں اورتھکن سے شَل بازؤں کی پرواہ کئے بغیر اس امت کی تکالیف دور کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں، بالکل اُسی طرح جیسے دوسرے خلیفۂ راشد عمرؓ کے دور میں مدینہ میں قحط کے موقع پر ہوا تھا۔ مدینہ سے سینکڑوں میل دور شام کے والی ابو عبیدہ بن الجراح نے اونٹوں کا ایک اتنا بڑا قافلہ بھجوایاکہ جس کی لمبائی کے متعلق انہوں نے عمرؓ کو لکھا:''میں ایسا قافلہ بھجوا رہا ہوں کہ جس کا پہلا اونٹ جب مدینہ پہنچے گا تو آخری اونٹ یہاں شام میں ہوگا ‘‘۔ مزید برآں بعد میں ابو عبیدہ بن الجراح بذاتِ خود مدینہ آگئے اور اُس ٹیم میں افسر کے طور پر کام کیا جو اِس آفت سے نبٹنے کے لیے قائم کی گئی تھی اور جس کی سربراہی حضرت عمرؓ بذاتِ خود کررہے تھے۔ صحرا ئی قصبوں سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ پہلے ہی مدینہ میں اکٹھا ہوچکے تھے اور جب مناسب تعداد میں راشن مدینہ پہنچ گیا، تو عمرؓ نے اپنے لوگوں کو عراق ،فلسطین اور شام کی طرف بھیجا تاکہ وہ امدادی قافلوں کو عرب کے صحرا میں اندر تک بسنے والوں تک لے جائیں ،یوں لاکھوں لوگوں کو لقمہ اجل ہونے سے بچا لیاگیا۔ بے گھر ہوئے افرادکیلئے حضرت عمرؓ ہر رات کھانے کا انتظام کرتے تھے جس میں ایک اندازے کے مطابق ہر رات ایک لاکھ سے زائد لوگ کھانا کھاتے تھے۔اگر اسلامی حکومت یہ سب کچھ ایسے دور میں سرانجام دے سکتی ہے جب پیغام رسانی اونٹوں اور گھوڑں کے ذریعے ہوا کرتی تھی ، تو آج ہوائی جہاز اور انٹرنیٹ کے دور میں ریاستِ خلافت کیا کچھ ممکن بنا سکتی ہے؟!

اے پاکستان کے اہلِ قوت! اے پاکستان کی مسلح افواج کے آفیسر حضرات!

یہ کافی نہیں ہے کہ آپ صرف لوگو ں کی مدد کرنے کیلئے امدادی کاروائیوں کا حصہ بنیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کو اس سے کہیں بڑھ کر صلاحیتیں بخشیں ہیں، جن کے بارے میں آپ سے اُس دن سوال کیا جائے جب ہر کسی کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جائے گا،اور جب اس کے غصے اور سزا سے بچنے کیلئے کوئی عذر کام نہ آئے گا۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر دلیرانہ قدم اٹھاؤ، جو اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مسلمانوں کا خلیفہ ٔراشد ، اسلام کی حکمرانی کے تحت، اللہ کی خوشنودی کی خاطر، رہتی نسلوں تک امت کی ضروریات کو پورا کرے، خواہ وہ بحران کا وقت ہو یا عام حالات ہوں۔ تو اے بھائیو! آپ خلافت کے قیام کیلئے کب نُصرۃ دیں گے؟

( وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْآ أَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُوْنَ)
''جنہوں نے ظلم کیا ہے ،وہ جلد ہی جان لیں گے کہ وہ کس کروٹ الٹتے ہیں‘‘(الشعراء :227) 
24شعبان 1431ھ                     حزب التحریر
5اگست 2010ء                          ولایہ پاکستان

www.hizb-pakistan.com

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک