بسم الله الرحمن الرحيم
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل "امریکہ کی جیب میں ہے"۔
یہ امریکی مفادات اور یہودیوں اور کافر استعماری قوتوں کے مفادات کے تحت چلتی ہے۔
)عربی سے ترجمہ (
11 جون 2024ء کو، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بائیڈن کے منصوبے کی حمایت میں ایک قرارداد جاری کی جس میں غزہ اور درحقیقت پورے فلسطین کے خلاف یہودی جارحیت کی حمایت کی گئی۔ سی این این کی جانب سے 11 جون 2024 ءکو شائع کردہ قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ سلامتی کونسل، "31 مئی کو اعلان کردہ نئی جنگ بندی کی تجویز کا خیرمقدم کرتی ہے، جسے اسرائیل نے قبول کیا، حماس سے بھی اس کے قبول کرنے کا مطالبہ کرتی ہے، اور دونوں فریقین پر زور دیتی ہے کہ وہ اس کی شرائط کو فوری اور بغیر کسی شرط کے مکمل طور پر نافذ کریں"۔
جہاں تک "جنگ بندی کی تجویز" کا تعلق ہے جس کی قرارداد کا حوالہ دیا گیا ہے، یہ وہی اعلان ہے جو امریکی صدر بائیڈن نے 31 مئی 2024 ء کو وائٹ ہاؤس سے کیا تھا۔ اس اعلان میں دیے گئے بیان کا ذکر 31 مئی 2024ء کو وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا تھا۔
بائیڈن نے کہا، "اب، میری ٹیم کی جانب سے کی گئی انتھک سفارتکاری اور 'اسرائیل'، قطر، مصر اور دیگر مشرق وسطیٰ کے ممالک کے رہنماؤں سے میری متعدد بات چیت کے بعد، 'اسرائیل' نے ایک نئی جامع تجویز پیش کی ہے ... اس نئی تجویز کے تین مراحل ہیں"۔
1۔ بائیڈن نے کہا، "پہلا مرحلہ چھ ہفتوں تک جاری رہے گا۔ اس مرحلے میں : مکمل اور پوری طرح سے جنگ بندی اور غزہ کے تمام آبادی والے علاقوں سے 'اسرائیلی' افواج کا انخلاء شامل ہے... پہلے مرحلے کے چھ ہفتوں کے دوران، 'اسرائیل' اور حماس ضروری انتظامات کے لئے مذاکرات کریں گے تاکہ دوسرے مرحلے تک پیش قدمی ہو سکے، جو کہ دشمنیوں کا مستقل خاتمہ ہے... لیکن تجویز کے مطابق، اگر پہلے مرحلے میں مذاکرات چھ ہفتوں سے زیادہ وقت لیتے ہیں، تو جنگ بندی تب تک جاری رہے گی جب تک کہ مذاکرات جاری رہیں گے... اور امریکہ، مصر، اور قطر مذاکرات کو جاری رکھنے کے لئے معاونت فراہم کریں گے... جب تک کہ تمام معاہدے تکمیل تک نہیں پہنچ جاتے"۔
2۔ بائیڈن نے پھر کہا، "پھر دوسرا مرحلہ: تمام باقی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے میں تبادلہ ہو گا، جس میں مرد فوجی بھی شامل ہیں؛ 'اسرائیلی' افواج غزہ سے واپس چلی جائیں گی؛ اور جب تک حماس اپنے وعدوں پر قائم رہے گا، عارضی جنگ بندی 'اسرائیلی تجویز' کے مطابق مستقل دشمنیوں کے خاتمے میں بدل جائے گی"۔
3۔ بائیڈن نے کہا، "آخر کار، تیسرے مرحلے میں، غزہ کے لیے ایک بڑے پیمانے پر تعمیر نو کا منصوبہ شروع ہوگا"۔
بائیڈن نے اپنے بیان کا اختتام کرتے ہوئے کہا، "میں نے 'اسرائیل' کی قیادت پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاہدے کی حمایت کریں، چاہے جو بھی دباؤ آئے..."
بائیڈن نے مزید کہا، "اور 'اسرائیل' کے عوام سے، میں یہ کہنا چاہتا ہوں۔ ایک ایسے شخص کے طور پر جس نے 'اسرائیل' کے ساتھ زندگی بھر کا عہد کیا ہے، ایک واحد امریکی صدر کے طور پر جو جنگ کے دوران 'اسرائیل' گیا، ایک ایسے شخص کے طور پر جس نے ایران کے حملے پر 'اسرائیل' کا دفاع کرنے کے لیے امریکی افواج کو بھیجا، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ ایک قدم پیچھے ہٹ کر سوچیں کہ اگر یہ موقع کھو گیا تو کیا ہو گا"۔
بائیڈن نے پھر کہا، "اور اس معاہدے کے ساتھ، 'اسرائیل' خطے میں زیادہ گہرائی سے شامل ہو سکتا ہے، جس میں — آپ سب کے لئے یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ سعودی عرب کے ساتھ ممکنہ تاریخی تعلقات بحال کرنے کا معاہدہ بھی شامل ہے"۔
اس سب سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اعلان جارحیت کو طول دینے کے لیے جال اور خطرات سے بھرا ہوا ہے۔ بائیڈن نے مکمل انخلا کا مطالبہ نہیں کیا ہے۔ اس کے بجائے وہ صرف "غزہ کے تمام آبادی والے علاقوں سے 'اسرائیلی' افواج کے انخلاء کا مطالبہ کر رہا ہے"۔ بائیڈن الفاظ کے ساتھ کھیل رہا ہے اور "مکمل اور پوری طرح سے جنگ بندی... دشمنیوں کا مستقل خاتمہ..." جیسے فقرے استعمال کر کے فریب دے رہا ہے جبکہ بعد میں یہ کہہ رہا ہے کہ، "اگر حماس معاہدے کے تحت اپنی التزامات کو پورا نہ کرے، تو 'اسرائیل' فوجی کارروائی کو دوبارہ شروع کر سکتا ہے"۔ اس نے اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ وہ اور قابض یہودی وجود اس صدی میں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اس نے کہا، "میں عمر بھر 'اسرائیل' کے ساتھ وفاداری کا عہد کرتا آیا ہوں۔" پھر اس نے ان (یہودی وجود) کو تاریخی معاہدہ کرنے کی خوشخبری دی! اس نے مزید کہا کہ، "اور اس معاہدے کے ساتھ، 'اسرائیل' خطے میں زیادہ گہرائی سے شامل ہو سکتا ہے، جس میں — آپ سب کے لئے یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ سعودی عرب کے ساتھ ممکنہ تاریخی تعلقات بحال کرنے کا معاہدہ بھی شامل ہے"۔
نمایاں طور پر، بائیڈن اعلان میں خود کو غلط ثابت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ، "اسرائیل نے ایک مکمل نئی پیشکش کی ہے،" یعنی، جیسے کہ یہ ایک اسرائیلی پیشکش ہو۔ پھر اس نے اپنے قول کو واپس لے لیا اور کہا، "میں نے 'اسرائیل' کی قیادت کو اس معاہدے کے پیچھے کھڑے ہونے کی سفارش کی ہے..."، یعنی، جیسے کہ یہ ایک اسرائیلی پیشکش نہیں ہے! آخر میں، بائیڈن کے بدنیتی پر مبنی اعلان کے برعکس اس نے کہا کہ مصر اور قطر امریکہ کے ساتھ مل کر اس کے نفاذ کی ضمانت دیں گے۔ "اور امریکہ، مصر اور قطر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کریں گے کہ مذاکرات جاری رہیں... جب تک تمام معاہدے طے نہیں پا جاتے"۔ مزید برآں، 9 جون 2024ء کو مجرم یہودی وجود کی طرف سے نصیرات کیمپ میں ایک خوفناک قتل عام کے بعد اس فیصلے کا اعلان ہوا ہے، جس میں 274 فلسطینی شہید ہوئے، اور 698 زخمی ہوئے، یہ ایک ماہانہ دورانیے میں غزہ کے لوگوں کے لیے سرخ خونی دنوں میں سے ایک تھا۔
اے مسلمانو !
عجب نہیں کہ امریکہ اور استعماری کفار اپنے پیدا کردہ یہودی وجود کے ساتھ ہم پر حملہ کریں۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں، آج سے نہیں بلکہ برسوں پہلے سے... اور یہ کوئی عجیب بات نہیں ہوگی کہ استعماری کفار بین الاقوامی قوانین کا سہارا لیتے ہوئے مسلمان ممالک پر حملہ کر دیں۔ یہ اس لیے ہے کہ یہ قوانین پہلے بھی مسلمانوں اور ان کی ریاست "خلافت ِعثمانیہ" کے خلاف اپنی دشمنی دکھا چکے ہیں اور اس دشمنی کا آغاز 1648ء میں ویسٹفیلیا کانفرنس سے ہوا جو بعد میں لیگ آف نیشنز اور پھر اقوام متحدہ بن گیا۔ یہ کسی بھی طرح عجیب بات نہیں ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ضرور ہے کہ مسلمان ممالک کے حکمران، فلسطین کے قریبی ملکوں میں ہونے کے باوجود جرائم اور قتل عام کو دیکھتے ہوئے بے کار بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ فلسطین کے معاملے میں خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں، اور حقیقتاً فلسطین کی حمایت کرنے والی افواج کو روکتے ہیں۔ بلکہ ان میں سے سب سے زیادہ قابلِ مذمت وہ ہیں جو شہادتوں کو گننے کے طریقے میں، یعنی مُردوں کے نام پر، اور پھر زخمیوں کو گنتے ہوئے، ایسے برتاوٴ کرتے ہیں جیسے وہ ایک غیر جانبدار فریق ہوں لیکن حقیقت میں وہ یہودی وجود کے ساتھ ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے گویا یہ سب کچھ ایک من گھڑت افسانے میں کسی دور دراز علاقے میں ہو رہا ہے نہ کہ فلسطین کی بابرکت سرزمین میں، جس کے احاطے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے برکتیں رکھی ہیں۔ مزید یہ کہ غزہ پر یہودیوں کی وحشیانہ جارحیت ایک یا دو دن میں نہیں بلکہ تقریباً نو مہینوں پر محیط تھی۔ اس کے باوجود مسلمانوں کے حکمران بے جان پڑے رہے۔ انہوں نے بین الاقوامی قراردادوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جو مسلمانوں کے لیے مہلک تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا سخت احتساب کرے۔ وہ اتنے دھوکے میں کیسے رہ سکتے ہیں؟
اے مسلم ممالک کی افواج:
کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ آپ کی رگوں میں خون ابلنے لگے جیسا کہ آپ غزہ اور درحقیقت پورے فلسطین میں اپنے بھائیوں کے خلاف ہونے والے جرائم اور قتل عام کو دیکھتے اور سنتے ہیں، جو لوگوں، درختوں اور پتھروں کو تکلیف دے رہے ہیں؟! کیا بچوں کے بلکنے کی چیخیں، عورتوں اور بزرگوں کی پکار آپ کو ان کی حمایت پر آمادہ نہیں کرتی؟
اللہ عزوجل نے فرمایا:
﴿وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ﴾
"اور اگر وہ تم سے دین (کے معاملات) میں مدد طلب کریں تو تم کو اُن کی مدد کرنا لازم ہوگا" [سورۃ الانفال-72]
کیا اللہ عزوجل جو القوی اور العزیز ہے کی طرف سے نازل کردہ آیات، آپ کو یہودی وجود کے سامنے مردوں کی طرح کھڑے ہونے پر آمادہ نہیں کرتیں؟
اللہ عزوجل نے فرمایا:
﴿قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ﴾
"ان سے (خوب) لڑو۔ اللہ ان کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب میں ڈالے گا اور رسوا کرے گا اور تم کو ان پر غلبہ دے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا بخشے گا" [سورة التوبة-14]۔
کیا اللہ کی اطاعت آپ کے حکمرانوں کی اطاعت سے بہتر نہیں جو اپنی قومی سلامتی کو غزہ اور اس کے عوام کو ترک کرنے کی بنیاد بناتے ہیں، حالانکہ یہ ایک پتھر پھینکنے سے بھی کم دوری پر ان کی پہنچ میں ہے؟ یہ وہ حکمران ہیں جو استعماری کفر کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کی فکر صرف اپنے ظالمانہ اقتدار پر قائم رہنے کی ہے۔ اگر آپ ان کی پیروی کریں گے تو وہ آپ کو دنیا میں اور آخرت میں کوئی فائدہ نہیں دیں گے۔ ان کی بات ماننے پر آپ کے پاس قیامت کے دن کوئی دلیل نہ ہوگی۔
اللہ عزوجل نے فرمایا:
﴿إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ * وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا مِنَّا كَذَلِكَ يُرِيهِمُ اللهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ وَمَا هُمْ بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ﴾
"اس دن (کفر کے) پیشوا اپنے پیروؤں سے بیزاری ظاہر کریں گے اور (دونوں) عذاب (الہیٰ) دیکھ لیں گے اور ان کے آپس کے تعلقات منقطع ہوجائیں گے۔ (یہ حال دیکھ کر) پیروی کرنے والے (حسرت سے) کہیں گے کہ اے کاش ہمیں پھر دنیا میں جانا نصیب ہو تاکہ جس طرح یہ ہم سے بیزار ہو رہے ہیں اسی طرح ہم بھی ان سے بیزار ہوں۔ اسی طرح اللہ ان کے اعمال انہیں حسرت بنا کر دکھائے گا اور وہ دوزخ سے نکل نہیں سکیں گے" [سورة البقرة:166-167]۔
اے مسلمانوں کی افواج کے جوانو :
یہودی وجود کے لوگ جنگجو یا لڑنے والے لوگ نہیں ہیں۔بلکہ وہ بزدل ہیں جن پر ذلت اور پستی طاری ہے۔ آپ اپنے بھائیوں میں ایمان والے نوجوانوں کو دیکھتے ہیں جن کے ہتھیاروں کا یہودیوں کے ہتھیار وں سے موازنہ بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کے باوجود وہ ان پر زوردار حملہ کرتے ہیں اور جو یہودی ان کے سامنے سے بھاگتے ہیں وہ اپنی حفاظت کے لیے ہوائی جہازوں میں پناہ لیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿لَنْ يَضُرُّوكُمْ إِلَّا أَذًى وَإِنْ يُقَاتِلُوكُمْ يُوَلُّوكُمُ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنْصَرُونَ﴾
"اور یہ تمہیں خفیف سی تکلیف کے سوا کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے اور اگر تم سے لڑیں گے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے پھر ان کو مدد بھی (کہیں سے) نہیں ملے گی" [سورة آل عمران-111]۔
بلاشبہ آپ جانتے ہیں کہ فلسطین ایک بابرکت سرزمین ہے۔ یہ ایک اسلامی زمین ہے جس میں یہودیوں کو کوئی اختیارات حاصل نہیں ہیں، اور نہ دو ریاستی حل کے لیے کوئی جگہ موجود ہے۔ بلکہ، فلسطین کی زمین کو عمر الفاروق (رضی اللہ عنہ) کے زمانے میں کھولا گیا اور خلفاء راشدین کے زمانے میں اس کی حفاظت ہوتی رہی۔ اس فلسطین کو صلاح الدین ایوبی (رحمتہ اللہ علیہ) نے آزاد کروایا۔ خلیفہ عبدالحمید ثانی نے اسے یہودیوں سے محفوظ رکھا۔ تو بے شک یہ اللہ عزوجل کے سچے سپاہیوں کی کوششوں سے دوبارہ واپس آئے گی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو پورا کرتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
≼لَتُقَاتِلُنَّ الْيَهُودَ فَلَتَقْتُلُنَّهُمْ≽
"تم ضرور یہودیوں سے لڑو گے اور انہیں ضرور قتل کرو گے…"۔
جیسا کہ مسلم نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِينٍ﴾
"اور تم کو اس کا حال ایک وقت کے بعد معلوم ہوجائے گا" [سورة ص-88]۔
ہجری تاریخ :6 من ذي الحجة 1445هـ
عیسوی تاریخ : بدھ, 12 جون 2024م
حزب التحرير