بسم الله الرحمن الرحيم
اے مسلمان سپاہیو، کیا آج آپ کے درمیان کوئی دوسرا صلاح الدین نہیں ہے،
جو شہیدوں کی مددوحمایت اور یہودی وجود کو اکھاڑ پھینکنے میں آپ کی قیادت کرے؟
)ترجمہ)
ایک طرف یہود ہیں جو فلسطین کی مقدس سرزمین پر قابض ہیں، لوگوں کو قتل کر رہے ہیں، درختوں کو جلا رہے ہیں اور پتھروں کو مسمار کر رہے ہیں، اور دوسری طرف آپ ہیں کہ خاموش ہیں اور حرکت نہیں کر رہے!
ایک طرف یہود ہیں جو فلسطین کی مقدس سرزمین پر قابض ہیں، ناتواں بوڑھوں، خواتین اور بچوں کو قتل کر رہے ہیں، اور دوسری طرف آپ ہیں کہ خاموش ہیں اور حرکت نہیں کر رہے!
ایک طرف یہود ہیں جو فلسطین کی مقدس سرزمین پر قابض ہیں، مساجد، اسکولوں اور ہسپتالوں کو تباہ کر رہے ہیں، بیماروں کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں، اور دوسری طرف آپ ہیں کہ خاموش ہیں اور حرکت نہیں کر رہے!
ایک طرف یہود ہیں جو فلسطین کی مبارک سرزمین پر قابض ہیں، جو غزہ میں اور یہاں تک کہ شام کی پوری سرزمین میں ایک کے بعد ایک، مسلمانوں کو شہید کر رہے ہیں، اور دوسری طرف آپ ہیں کہ خاموش ہیں اور حرکت نہیں کر رہے!
فلسطین کی مقدس سرزمین پر یہودی قابض ہیں، جو حماس کے رہنما، یحیٰی سنوار تک پہنچ گئے، جو کہ ان شاءاللہ، ایک بہادر، متقی اور پاک شخص تھے اور جنہوں نے دو اچھی چیزوں میں سے ایک حاصل کر لی ہے۔ انہوں نے طوفان الأقصی میں بہادری سے بھاری مسلح یہودی وجود کا سامنا کیا، اور کم سے کم سامان اور تعداد کے باوجود اس یہودی وجود کو تھکا دیا تھا... اور یہ سب کچھ آپ کی حمایت کے بغیر کیا گیا ہے! دوسری طرف اے مسلمان سپاہیو، آپ ہیں جو فلسطین کے ارد گرد موجود ہیں، مصر کی سرزمین سے لے کر اردن، شام، عراق، ترکی اور ایران تک، اور آپ کا رویہ اور طرز عمل ایساہے جیسے یہ معاملہ آپ سے متعلق ہے ہی نہیں۔ گویا آپ کسی دُور کی تخیلاتی دنیا میں بستے ہیں... اتنے ظلم و ستم کےبعد بھی آپ خاموش ہیں اور حرکت میں نہیں آ رہے!
اے مسلمانوں کی سرزمینوں کے سپاہیو، کیا تم انسانیت کے لیے کھڑی کی گئی بہترین امت کے سپاہی نہیں ہو؟
جب آپ اپنے بھائیوں کے خلاف یہودیوں کی وحشیانہ جارحیت کو ہر روز، یہاں تک کہ دن یا رات کے ہر گھنٹے میں دیکھتے ہو تو کیا آپ کا خون نہیں کھولتا؟
کیا آپ، اپنے جہاد کے ذریعے خوشخبری سننے والوں میں شامل ہونے کی خواہش نہیں رکھتے؟
اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا:
﴿يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُقِيمٌ﴾
"ان کا رب انہیں اپنی طرف سے رحمت، رضامندی اور ایسی جنتوں کی خوشخبری دیتا ہے جس میں ان کے لیے ہمیشہ کی خوشی ہے ۔"
(سورۃ التوبۃ،9:21)
کیا آپ کو اللہ کے قرآن کی اس آیت نے جھنجھوڑا نہیں ہے جو ان لوگوں سے لڑنے کے بارے میں حکم دیتی ہے جنہوں نے آپ کے بھائیوں کو گھروں سے نکالا ہے؟ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ﴾
"اور انہیں قتل کرو جہاں کہیں بھی تم انہیں پاؤ اور انہیں وہاں سے نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا تھا ۔"(سورۃ البقرۃ، 2:191)
کیا آپ کو یاد نہیں ہے کہ اللہ نے دو اچھی چیزوں میں سے ایک چیز جہاد کرنے والے سپاہیوں کے لیے تیار کی ہوئی ہے؟ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ أَنْ يُصِيبَكُمُ اللَّهُ بِعَذَابٍ مِنْ عِنْدِهِ أَوْ بِأَيْدِينَا فَتَرَبَّصُوا إِنَّا مَعَكُمْ مُتَرَبِّصُونَ﴾
"کہہ دو کہ تم ہم پر کسی چیز کے آنے کا انتظار نہیں کر رہے، سوائے دو بہترین چیزوں میں سے ایک کے (یعنی فتح یا شہادت)۔ لیکن ہم اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ تمہیں اپنی طرف سے عذاب دے، یا ہمارے ہاتھوں سے عذاب دے۔ تو تم بھی انتظار کرو، ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتے ہیں۔"(سورۃ التوبۃ، 9:52)
کیا آپ کو یاد نہیں کہ رسول اللہﷺ نے بنو قینقاع، بنو نضِیر، بنوقُریظہ اور خیبر کے یہودیوں کے بارے میں کیا موقف اختیار کیا تھا، جب وہ فساد میں مبتلا تھے اور زمین میں فساد پھیلا رہے تھے؟
کیا آپ کو خلفائے راشدین یاد نہیں ہیں جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخشی اور اللہ کی راہ میں ایسے جہاد کیا جیسے کہ جہاد کرنے کا حق ہے؟ اللہ ان سے راضی ہو اور وہ بھی اس سے راضی ہوں ۔
کیا آج آپ کے درمیان بخارا اور سمرقند کے فاتح جیسا کوئی قتیبہ نہیں ہے؟ کیا آج آپ کے درمیان ہند اور سندھ کے فاتح جیسا کوئی محمد بن قاسم نہیں ہے؟ کیا آج آپ کے درمیان اندلس کو فتح کرنے والے ابنِ زیاد جیسا کوئی نہیں ہے؟ یہ وہ ابن زیاد ہے کہ اندلس کی چابی، یعنی جبل الطارق (جبرالٹر)، اب بھی اس کے نام پر ہے۔ کیا آج آپ کے درمیان اموریہ کے فاتح معتصم جیسا کوئی نہیں ہے؟
کیا آج آپ کے درمیان صلیبیوں کو شکست دینے والا اور القدس کو آزاد کروانے والا کوئی صلاح الدین نہیں ہے؟ کیا آج آپ کے درمیان فلسطین کے علاقے عین جالوت میں منگولوں کو شکست دینے والا قطز اور بیبرس نہیں ہیں؟
کیا آج آپ کے درمیان کوئی محمد الفاتح نہیں ہے جنہوں نے قسطنطنیہ کو فتح کرکے رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث میں بیان کی گئی بشارت کو پورا کیا تھا، جسے احمد نے روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن بشر نے مجھے اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺکو یہ کہتے سنا ہے کہ:
«لَتُفْتَحَنَّ الْقُسْطَنْطِينِيَّةُ فَلَنِعْمَ الْأَمِيرُ أَمِيرُهَا وَلَنِعْمَ الْجَيْشُ ذَلِكَ الْجَيْشُ»
"قسطنطنیہ ضرور فتح کیا جائے گا، اور اس فوج کا کمانڈر کتنا بہترین کمانڈر ہوگا، اور وہ فوج کتنی بہترین فوج ہوگی۔"
کیا آج آپ کے درمیان یہودیوں سے فلسطین کو محفوظ رکھنے والا کوئی عبد الحمید نہیں ہے؟.. یہ وہی ہیں جنہوں نے یہود کے نمائندے کو مایوسی اور ناکامی کی حالت میں واپس بھیجا اور اسے کچھ حاصل نہ ہوا، اور ایک دانشمندانہ بات کے ذریعے اسے خبردار کیا: "میں فلسطین کی زمین کا ایک انچ بھی نہیں چھوڑ سکتا، کیونکہ یہ میری ملکیت نہیں ہے، بلکہ امتِ مسلمہ کی ملکیت ہے ۔ میرے لوگوں نے اس سرزمین کے لیے جنگ کی اور اپنے خون سے اس کی آبیاری کی ہے۔ یہودی اپنے لاکھوں کی دولت اپنے پاس رکھیں، اور اگر ایک دن خلافت کی ریاست ٹوٹ جائے تو وہ بغیر کسی قیمت کے فلسطین پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ تاہم، جب تک میں زندہ ہوں، ایسا نہیں ہوگا... "
اے مسلمانوں کی افواج میں موجود سپاہیو!
اگر آپ میں سے کوئی یہ کہتا ہے کہ حکمران ہمیں فلسطین اور اس کی مقدس سرزمین کی حمایت کرنے سے روکتے ہیں، اور یہ کہ آپ ان کی اجازت کے بغیر جہاد نہیں کر سکتے، تو آپ کا یہ عذر اور بہانہ ایک مسترد شدہ عذر اور بہانہ ہے۔ جہاد کو روکنے میں ان حکمرانوں کی اطاعت کرنا درست نہیں ہے اور اسلام میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ یہ حکمران نہ تو اس دنیا میں آپ کو کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں، اور نہ ہی آخرت میں۔ جہاں تک اس دنیا کا تعلق ہے، تو یہ حکمران استعماری کافر کے ایجنٹ اور یہودی وجود کے محافظ ہیں۔ ان کی اطاعت کرنے کا مطلب ہے کہ آپ رسوائی کو قبول کریں گے اور اپنے دشمن سے نہیں لڑیں گے، حالانکہ یہودی لڑنے والی قوم نہیں ہیں۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَإِنْ يُقَاتِلُوكُمْ يُوَلُّوكُمُ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنْصَرُونَ﴾
"اگر وہ تم سے جنگ میں آمنے سامنے آئیں گے تو بھاگ جائیں گے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا"(سورۃ آل عمران، 3:111)۔
جہاں تک آخرت کا تعلق ہے تو ان حکمرانوں کا انجام سب سے برا ہو گا اور ان کا عذاب بہت سخت ہو گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا﴾
"اور وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! ہم نے اپنے قائدین اور امراء کی اطاعت کی لیکن انہوں نے ہمیں سیدھے راستے سے بھٹکا دیا۔"
(سورۃ الاحزاب، 33:67) ۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ * وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا مِنَّا كَذَلِكَ يُرِيهِمُ اللهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ وَمَا هُمْ بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ﴾
"جب وہ لوگ جنہوں نے دوسروں کو گمراہ کیا، وہ اپنے پیروکاروں سے برائت کا اظہار کریں گے اور انہیں عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان کے رابطے منقطع ہو جائیں گے۔ گمراہ پیروکار کہیں گے کہ اگر ہمیں دوسرا موقع مل جائے تو ہم ان سے براءت کر دیں گے جیسے انہوں نے ہم سے براءت کی ہے ۔ اور اس طرح اللہ انہیں اپنے گناہوں کا پچھتاوا دلائے گا ۔ پھر بھی وہ آگ سے نکل نہیں پائیں گے۔" (سورۃ البقرۃ،167-166)
اے مسلمان افواج میں موجود کے سپاہیو!
یہودی وجود کا تباہ ہونا اللہ کی طرف سے ایک وعدہ ہے۔ جب بھی وہ سر اٹھاتے ہیں اور فساد پھیلاتے ہیں تو مار کھاتے ہیں اور اکھاڑ پھینک دیئے جاتے ہیں۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ لِيَسُوءُوا وُجُوهَكُمْ وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِيُتَبِّرُوا مَا عَلَوْا تَتْبِيراً﴾
"اور جب آخری وعدہ پورا ہو جائے گا تو تمہارے دشمن تمہیں رسوا کرنے اور اس عبادت گاہ میں داخل ہونے کے لیے چھوڑ دیے جائیں گے جس طرح وہ پہلی بار داخل ہوئے تھے اور جو کچھ ان کے ہاتھ میں آئے گا اسے تباہ کر دیں گے ۔" (سورۃ الاسراء، 17:7) ۔
اور یہ یہود جب بھی اپنے فسادی عمل کو دوہرائیں گے تو مار کھائیں گے اور اکھاڑ پھینکے جائیں گے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وإنْ عُدْتُمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ حَصِيراً﴾
"اگر تم (یہود)دوبارہ (فساد) کرو گے تو ہم دوبارہ (عذاب) دیں گے۔ بے شک ہم نے کافروں کے لیے جہنم کو دائمی قید بنا دیا ہے۔"
(سورۃ الاسراء، 17:8)۔
یہودی اپنے سیاہ کاموں اور فساد کو جاری رکھے ہوئے ہیں ، اس لیے اللہ کے وعدے کے مطابق ان کا وجود یقیناًتباہ ہو جائے گا۔
اور انہیں (یہود کو)رسول اللہ ﷺکی اس حدیث کے مطابق قتل کیا جائے گا جس میں نبیﷺ نے فرمایا ہے:
«لَتُقَاتِلُنَّ الْيَهُودَ فَلَتَقْتُلُنَّهُمْ...»
"تم یہودیوں سے ضرور لڑو گے اور انہیں ضرور قتل کرو گے۔" اس حدیث کو مسلم نے نافع سے اور انہوں نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے۔
ان (یہود)کا وجود زوال پذیر ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مرضی سے ضرور تباہ ہو کر رہے گا ۔ پس اے مسلمان سپاہیو، کوشش کرو کہ یہ آپ کے ہاتھوں سے رونما ہو، ورنہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کی جگہ ایسے لوگوں کو لے آئے گا جو آپ کی طرح نہیں ہوں گے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ﴾
"اگر تم منہ موڑو گے تو وہ(اللہ) تمہاری جگہ دوسری قوم لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح نہیں ہوں گے ۔"( سورۃ محمد،47:38)
آخر میں، اللہ تعالیٰ شہیدوں پر رحم فرمائے اور انہیں اپنے وسیع باغات میں جگہ عطا فرمائے ۔ اللہ زخمیوں کو شفا بخشے اور انہیں تندرستی عطا فرمائے ۔ اللہ اس امت کو نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کے قیام ذریعے اور پھر اس خلافت کو فتح دے کر اور بلند کر کے، عزت عطا کرے ۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾
"ساری عزت اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے لئے ہے لیکن منافق لوگ نہیں جانتے۔" (سورۃ المنافقون، 63:8)
ہجری تاریخ :15 من ربيع الثاني 1446هـ
عیسوی تاریخ : منگل, 22 اکتوبر 2024م
حزب التحرير